خلیل جبران کے ایک افسانے کا متن کچھ یوں ہے۔ کہ چودھویں رات تھی چاند اپنی آب و تاب کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب جارہا تھا۔ کتے بھونک رہے تھے ایک کتا دوسرے کتوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ خاموش ہو جاؤ چاند کو نیند سے مت جگاو یہ کتا دیگر کتوں کو خاموش کرنے کے لیے ساری رات بھونکتا رہا۔خلیل جبران کے اس خیال کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ عمل جس کے خلاف آپ لڑ رہے ہیں آپ کو اسی عمل سے گذرنا پڑتا ہے جسطرح سارتر نے کہا تشدد کو تشد د کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح روس کے انقلابیوں کے سامنے انقلاب کو جنت بنا کر پیش کیا گیا تھا جب انقلاب آگیا تو کشت و خون کی انتہا نہ رہی تو ایک انقلابی نے لینن سے سوال کیا۔ کہ آپ نے تو کہا تھا کہ انقلاب مہذب ہوتا ہے اب تو یہاں لاشوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ تو لینن نے جواب دیا انقلاب از خود مہذب ہے لیکن انقلاب حاصل کرنے کا عمل غیر مہذب ہوتا ہے ۔ اس طرح ہر انقلاب اپنے اندر از خود مہذب ہونے کے ساتھ غیر مہذب ہونے کے عمل سے گذرے گا۔ بلوچ جہد بھی ان ہی مراحل سے گذررہی ہے خلیل جبران کے کتے سے لیکر لینن کے غیر مہذب انقلابی عمل تک سبھی تمام انقلابات میں یکساں طور ہوتے ہیں۔ خلیل جبران کے کتے کے نشان کو میڈم نائلہ قادری کے گیڈر تک کے سفر میں فرق سوچ و نقطہ نظر کے حوالے سے ہے کتا وہ جاندار ہے جو کہ معاشرتی حوالے سے پالتو ہے اور اسکے بارے میںیہ ثابت شدہ ہے کہ گھوڑا اور کتا وفادار ہوتے ہیں۔ یہ تو جانور ہے انکی وفاداری پالتو پن سے مشتحق ہے لیکن انسان کے لیے وفادار ہونا یا نہ ہونا اسکے فکر کی عکاسی کے بعد ہی ظاہر ہوتا ہے ویسے معاشرتی حوالے سے یہ وفاداری جانوروں کے حوالے کے ساتھ انسان کے دیگر معاشرتی و سماجی مسائل کے حوالے سے قابل استعمال ضرور ہے کہ آپ کے ہر برے عمل پر کوئی شخص آپ کی حمایت کرے اور آپکی دفاع میں رہے وہ وفادار ہی ٹھہرائے گا لیکن سیاسی مسئلے پیچیدہ ہوتے ہیں جہاں انسانی سوچ و فکر کے بعد رشتے بنتے اور ٹوٹتے ہیں جس طرح بلوچ جہد میں سنگت حیربیار مری کا اپنے والد و بھائی سے فکری اختلاف کی بنیاد پر نواب صاحب کا یہ کہنا کہ مہران میر ا بات مانتا ہے جبکہ حیر بیار نہیں۔ یہ رشتہ فکری بنیاد پر بنا تھا اور ٹوٹا بھی فکری بنیاد پر ‘یہاں پر وفاداری سوچ و فکر کی بنیاد پر مقرر ہوتے ہیں اور وفاداری بذات خود اس کمٹنمنٹ کو ظاہر کرتا ہے جس میں جائز و ناجائز عمل کی دفاع پر ہو لیکن سیاسی میدان و سیاسی مسائل اپنے اندر نہ وفا رکھتے ہیں نہ بے وفائی بلکہ ان کا معیار سوچ و فکر کی کمزوری و مضبوطی پر تولا جاتا ہے اگر ہم میڈم نائلہ قادری کے مضمون کے توسط سے خلیل جبران کے کتے کے نشان کو لے لیں تو اس کتے نے دیگر کتوں کو خاموش کرنے کے لیے وہی عمل دوہرا رتاہے جس کے ذریعے وہ دیگر کو چپ ہونے کی تلقین کر تاہے جس طرح کسی دیوارسے لکھنے سے پابند کیا جاتا ہے کہ یہاں لکھنا منہ ہے لیکن وہ خودجس عمل کے لیے منع کرتا ہے لیکن وہی عمل کرتا ہے کتے کے نشان کولے لیں یا انسان کو کتے کی شکل میں پیش کرے شاعری و افسانے میں یہ ممکن ہوتے ہیں لیکن ادبی تخلیق کے علاوہ جو بھی مضمون یا آرٹیکل میں کتا یا گیدڑ جس طرح استعمال کیا جاتا ہے وہ علامتی و استعاراتی نہیں بنتا بلکہ وہ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوگا۔ ویسے میڈم نائلہ قادری نے بہت ہی خوبصورت انداز میں ان گیدڑوں کی منظر کشی کی ہے جو کہ حقیقی حوالے سے موجود ہوتے ہیں اور یہی عمل دہراتے ہیں۔ گیدڑ کی فطرت ہی یہی ہے کہ وہ اپنے ہی ہمنوا دوستوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے ایک آواز لگا کر دیگر اسکی تقلید پر اتر تے ہیں اور تسلسل کے ساتھ آوازیں لگاتے ہیں۔ وہ چوری چھپکے آکر کچھ شکارکرنے کی کوشش کرتے ہیں جب حالات ان کے حق میں نہیں تو وہ دور سے آوازیں لگانا شروع کرتے ہیں۔ یہ گیدڑ کی فطرت ہے یہ چاہے کسی فوجی چھاونی کے پہاڑوں میں موجود گیدڑ ہوں یا کسی میدان کے‘ان کی فطرت ایک ہی ہوتی ہے جبکہ انسان کی فطرت جانوروں سے بہت ہی مختلف ہوتی ہے اور انسان اشرف المخلوقات اسی وجہ سے ہی ہے کہ وہ سوچتا ہے سمجھتا ہے سمجھاتا ہے اور سوچ سمجھ کر لکھتا اور بولتا ہے۔ ہم انسان ہے انسانوں کے ہی سماج میں رہتے ہیں۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ ہم انسان کہلانے کے لائق ہیں یا نہیں۔ کہ کئی پر مذہبی انتہا پسندی کے نام پر تو کئی پر زمین و جائیداد کے مسئلے پر ایک انسان دوسرے انسان کو موت کی گھاٹ اتارتا ہے۔ یہ عمل بھی انسان کواس کے سماجی قوانین کے تحت ملتا ہے۔ کوئی بلوچ اپنے حق کے لیے لڑتا ہے تو کوئی پنچابی بلوچ سرزمین کو اپنی ملکیت سمجھ کر اپنے ملک کی دفاع سے تشبیح دیتا ہے۔ یہاں پر دو انسانوں کے بیچ فرق حق و ناحق پر کرتے ہیں نہ کہ انسانیت پر ۔ اسی فرق کو لیکر ہم ثقافتی تاریخی سیاسی معاشی سماجی حوالے سے پورے دنیا کے انسان منقسم ہے اگر ہم سب ایک ہی ہوتے ایک ہی کلچر ایک زبان ایک ہی ثقافت ہوتا تو یہ دنیا بے رنگ ہوتا اور مختلف سوچ و فکر دنیا میں سامنے نہ آتے ۔ اسی رنگا رنگ قوموں کی تقسیم نے ہی دنیا کو ایک خوبصورت شکل دی ہے ۔ اب ہم بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں اور ہمارے بیچ فرق سوچوں کی بنیاد پر ہے اسی تنا ظر میں چھاونی کے گیدڑوں کی جانب سے پہلے اظہار کو لے لیں اور سوشل میڈیا میں بحث مباحثے کو۔ کوئی بات یا عمل بے وجہ نہیں ہوتی چھاؤنی میں اگر گیدڑ چلاتے ہیں تو اس کی وجہ حقیقی گیدڑ تبدیل ہو کر کتے کے بھونکنے تک پہنچ جاتی ہے اور سیاسی ورکر سرمچار جہد کار سے گیدڑ بننے کے ساتھ کتے بن جاتے ہیں شاہد میڈم نائلہ قادری یہ بھول چکے تھے کہ وہ ایک مضمون لکھ رہے کوئی علامتی افسانہ نہیں‘ نائلہ قادری گیدڑ کے چلانے کامرکز کوئٹہ کینٹ کو سمجھتے ہیں اور سوشل میڈیا کے بحث کے مرکز کو بھی کوئٹہ کینٹ سمجھتے ہیں ۔ شعوری یا لاشعوری وہ وہی کچھ کہتے ہیں جو کہ بعض بلوچ دشمن کہہ چکے ہیں اور سوشل میڈیا میں جس بحث کی بنیاد رکھی گئی گو کہ اس میں کمزوریاں بہت زیادہ ہیں لیکن انسان کے پہلے موبائل فون کے بننے سے لیکر آج کے جدید موبائل کا سفر اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ کوئی بھی عمل ابتدا ء میں اتنا پختہ نہیں ہو سکتا بلکہ وقت کے ساتھ ہی اسمیں بہتری لائی جاسکتی ہے سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا میں سیاسی بحث مباحثے کیوں شروع کی گئی۔ انکا اظہار باربار کیا گیا ہے لیکن ایک پھر ہی صحیح۔ بلوچ جہد اختلافات کی سب سے پہلے نشاندہی سنگت حیربیار نے کی اور انھیں حل کرنے کا عندیہ دیا۔ لیکن شروع سے ان اختلافات کی تمام پارٹیاں انکاری رہے لیکن رفتہ رفتہ انھیں حل کرنے کے لیے سب کے پاس گئے لیکن خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ بار بار کی کوششوں کے بعد بلوچ جہد کی حقیقی صورتحال سے قوم کو آگاہ کرنا قومی فرض ٹھہرا۔ کیونکہ جھوٹ کے سہارے کچھ دن تک قوم کو دھوکے میں رکھا جاسکتا ہے لیکن تا ابد نہیں۔ کیونکہ یہ قوم کے نام پر ہی ہورہی ہے کوئی ہیرو و کوئی زیرو قوم کے نام پر جہد کرنے سے بنتا ہے تو قوم کے سامنے جہد کی حقیقت کو آشکار کرنا اور قوم کو جہد کی حقیقی صورت سے آگاہ کرنا ضروری امر ٹھہرا۔ اس بنیاد پر سوشل میڈیا میں غلطیوں کمزوریوں و کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی۔ لیکن دوسرے طرف سے اس بحث انکاری سیاسی نام نہاد دوستوں نے شدید انداز میں منفی پروپیگنڈے تک اتر آئے۔ اور موجودہ بی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ کے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بیان سے واضح ہو چکا ہے۔ اب اگر ان حالات میں کوئی شخص اس بنیاد پر سیاسی مولیانی بن کر یہ تلقین کرے کہ یہ بحث مسئلے کا حل نہیں۔تو اس کا مطلب یہی ہے ۔ کہ وہ حل کے لیے راضی ہی نہیں۔ کیونکہ براہمدغ بگٹی سے لیکر ڈاکٹر نظر تک سبھی ان اختلافات و تضادات سے انکاری رہے وہ کیسے ان مسائل کو حل کریں گے؟ ان کا مقصد ہی یہی ہے کہ یہ اسی طرح چلتے رہے کیونکہ ان سے ہی ان کی دکان چلتی ہے اور اس بحث سے بیزار بھی وہی لوگ ہیں جو کہ اختلافات سے انکاری رہے تھے ۔ اپلیکشین کے ڈاونلوڈ سے لیکر ریاست کے دیگر وسائل تک سبھی ریاست کے ہاتھ میں ہیں۔ سوشل میڈیا کے بحث سے پہلے بھی یہ عمل ریاست دوہرا چکا ہے ۔ 2008 کے بعد سے لیکر ریاست نے سیاسی ورکروں کو شہید کرنے کا فیصلہ کرلیا اور تواتر کے ساتھ یہ عمل کرتا رہا لیکن بلوچ اس میں ناکام رہے ۔ کیونکہ میڈیا سے لیکر تمام وسائل جو بلوچ استعمال کررہا ہے وہ انفراسٹکچرپاکستان کا ہی ہے۔ اس سے کوئی انکاری نہیں۔ میڈم نائلہ قادری کے سوچ کے مطابق ہمیں فون سے لیکر کوئی انفراسٹکچر استعمال نہیں کرنے چاہیے کیونکہ اس سے یہ خطرہ ہے کہ ریاست ہم تک پہنچ سکتا ہے۔ اور ہمیں نقصان دے سکتا ہے۔ نائلہ قادری نے سوشل میڈیا کے بحث کے خوف سے سوشل میڈیا کے استعمال کو اس انداز میں پیش کی ہے، جیسے ریاست کوئی مافوق الفطرت طاقت ہے اور کسی بھی لمحے آپ کو نقصان دے سکتا ہے۔ نیٹ کے استعمال سے لیکر فون تک سبھی پر ریاست کی عمل دخل ہے لیکن آپ اپنے بحث میں دوست و دشمن کو اچھی طرح سے پہچان سکتے ہیں۔ چاہے ہو کسی بھی شکل میں ہو۔ عرفان گرگناڑی و طارق رودینی کے کیمپ تک رسائی سے لیکر موجودہ ٹارگٹڈ آپریشنز تک سب ریاست کے مکمل انفراسٹکچر و اداروں کی مضبوطی سے ہی ہو پاتے ہیں۔ اور ہم اس خوف سے سوشل میڈیا یا ٹیلیوفون استعمال نہ کریں کہ ریاست ہمیں نقصان دے گا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم جہد ہی نہ کریں کہ اس سے ریاست ہمیں نقصان دے گا ۔جو کمزوریاں تحریک میں تھے اور ہیں ان سے ریاست بہ خوبی واقف ہیں یوبی اے کے بننے کے عمل پر خاموش رہا جائے کیونکہ اس سے ریاست کو ہمارے کمزوریوں کے بارے معلومات حاصل ہونگے۔ یوبی اے بن چکا ہے اب اس غلطی پر خاموش ہونے کے کیا مقاصد ہونگے؟ ویسے میڈم نائلہ قادری آپ جس نقطہ نظر سے مسائل کو دیکھتے ہیں وہ حقیقی نہیں بلکہ اختراعی ہیں۔ ایک واقعہ یا عمل جو ہو چکا ہے اسکے بعد کے تسلسل کو روکنا و مزید تقسیم سے بچانے کے لیے آپ کو یہ عمل دہرانا پڑے گا۔ کہ آپ ان غلطیوں و کمزوریوں و کوتاہیوں کی بار بار نشاندہی کریں اور انھیں مزید ایسے غلطیوں سے روکنے کی کوشش کریں۔سوشل میڈیا کے بحث سے بیزار حضرات اس کوشش میں ہے کہ کس طرح اس بحث کو روکا جائے اور اپنے کمزوریوں و کوتاہیوں پر اٹھنے والے سوالات سے چھٹکارہ حاصل کریں۔ اور ایک سانس میں سوشلسٹ بہتر ہے اور سرمایہ دار ملکوں کے کمک سے آزادی ممکن نہیں ۔ یہ ان منتشر خیالات کا کھنڈرات ہی ہے جو اپنے ہی خیالات کو ایک نقطہ نہ دے سکے۔ چارٹر جیسے ایک مکمل قومی پروگرام پر اتفاق ہے لیکن چارٹر کو مضبوط جواز و منطق کے ساتھ نہ ماننے والے بھی اچھے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک قومی پروگرام کو رد کرنے والے بھی اچھے اور ایک قومی پروگرام کو آگے لے جانے والے اچھے ہیں۔ اسکا مطلب آپکے کے لیے دونوں ہی عمل ایک ہی ہیں۔ اسطرح تو نیشنل پارٹی بی این پی مینگل و عوامی بھی اچھے ہیں کیونکہ وہ بھی تو بلوچ کی بات کرتے ہیں۔ نواب خیر بخش کا ڈکٹیٹر کہنا اور اس بات کا کھل کر اخبارات میں اظہار نہ کرنا کہ اس سے تقسیم زیادہ ہو جائے گی۔ کیا منطق ہے۔ اگر کوئی ڈکٹیٹر ہے اور آپ اس تقسیم کے خوف سے اس ڈکٹیٹر کو مزید موقع دینا کا کہہ رہے ہیں ۔ یہ وہی بات ہوئی کہ آپ بھی اچھے ،سرکار بھی اچھا ‘سرکار کے خلاف بھی کام کرنے والا بھی اچھا۔ اگر خلیل و منان و ڈاکٹر اللہ نظر بی این ایم و بی این ایف کے پلیٹ فارم سے سوشلزم کی راگ الاپ رہے ہیں تو سرمایہ دار ملکوں میں بلوچ جہد کی حمایت کس نقطے سے ہوگی؟ سوشلسٹ سرمایہ دار بن گئے ہیں چین و کیوبا امریکہ سے تعلقات استوار کر رہے ہیں اور دنیا میں وہ خواب جو سوشلزم کے نام پر شروع ہو کر ایک خواب بن گیا ہے اسکی حمایت بھی پروفیسر نائلہ جی کرتے ہیں۔ حیرت اس خیال پر ہوتی ہے۔ کہ اسکے دلیل و خیالات اس حد تک ایک دوسرے کے متضاد ہوتے ہیں کہ آخر میں صرف خلوص کو جواز بنا کر ایک دوسرے کی نیک نیتی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ویسے نیت سوچ کے تحت ہی بنتی ہے جس سوچ سے آپ منسلک ہونگے یا اسکے پرچاری ہونگے تو آپکی نیت اسی سوچ کے تحت ہی بننے گی۔ اصل شے سوچ ہے کہ آپ کس عمل نظریہ یا نقطہ نظر کو اپنے سوچ و نظریہ کے زاویے میں دیکھتے ہیں نہ کہ اسے کسی کے خلوص کے تحت۔کسی انسان کے پرخلوص ہونا نہ ہونا اسکے سوچ کے تحت ہی سامنے آتا ہے۔ بلوچ جہد کے مختلف مراحل سے گذرنے کے بعد آج فکریں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ابھی تک نیم سوشلسٹ ممالک سے مکمل اظہار و تعلق بڑھانے کے لیے بی این ایم نے کھل کر اظہار نہیں کیا ہے جب وہ مکمل سوشلسٹ ریاست کی راگ الاپیں گے۔ تو پھر میڈم نائلہ جی آپ کو سوشلزم کی مکمل پرچار یا مخالفت کی ضرورت ہوگی۔ امریکہ سے لیکر مہذب دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات بھی انھی بنیادوں پر بنیں گے۔ ویسے ہمارے بیچ سیاسی سیدوں کی کمی نہیں۔ لیکن وہ سیاسی سید بھی اپنے مکمل فکر و نظریے کی وضاحت نہیں کر پاتے ہیں۔ صرف بھائی برادری کا درس دے کر ایک دوسرے کے فکر کو قبول کرنے کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔بلوچ جہد میں یہ سیاسی کھنڈرات کا ملبہ ہی ہوتے ہیں۔ جو اتنے سال کے جہد کے تسلسل کو دیکھنے سے نابلد نظر آتے ہیں کیونکہ ایک ہونے کے بعد علیحدہ گروپوں میں ظاہر ہونا کسی سوچ کے تحت ہی ممکن ہوپایا ہے۔ جب سب اچھے تو برا کون؟ شاہد سب کو اچھا اچھا سمجھنے میں وہی کوئے و ہنس والی محاورہ سامنے نہ آئے وہ بھی کسی حد تک آچکا ہے۔خلیل بلوچ کے سوشلسٹ ریاست کے تشکیل سے لیکر حیربیار مری کے فلاحی جمہوری ریاست کے تشکیل تک کے عمل میں سب اچھے نہیں اور سب برے بھی نہیں۔ لیکن وضاحت و ثابت ہونا ہر ایک کے عمل سے ہے ۔ جی سیون ممالک کے اجلاس پر احتجاج کو جواز بنا کر اپنے تحریک آزادی کو سوشلسٹوں سے جوڑ دیں اگر نہیں تو پھر اپنے پروگرام و اپنے چھوٹے سے اداروں کے تشکیل کے ساتھ ان کمزوریوں کی روک تھام کریں نہ کہ خیالی بن کر سب کو خوش کرنے کے چکر میں رہیں۔آزادی مانگنا و آزادی کے لیے جہد کرنا دو مختلف اعمال ہیں۔ اگر صرف مانگنے یا کہنے سے چیزیں بدلتے تو آج بلوچ اپنے وطن میں آزاد ہوتا اور پھر آزادی بھی کس قسم کی آزادی؟ جو ہمارے سماج میں ہمارے لوگوں کیلئے قابل قبول ہونے کے ساتھ دنیا کے لیے قابل قبول ہو۔ نہ کہ وہ آزادی بھی ادھوری رہے گی۔ آج اس یونیوپولر دنیا میں کوئی ملک اکیلا نہیں کیوبا سے لیکر چین تک کوریا سے لیکر ویت نام تک۔ سب نے اپنے سوشلسٹ ریاستوں میں اتنی تبدیلیاں کی ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ نظام کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔ کیوبا کے سوشلزم کو ڈکٹیٹر کہو یا جدید سرمایہ دارنظام یا شمالی کوریا کو‘ایک ہی خاندان کے زیر اثر ہے۔ اور بلوچ جہد آزادی میں خیالی دنیا و سب اچھے والے سوچوں نے تحریک کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ کوئی اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے فکرکو روند کر آگے بڑھتا ہے اور حقائق سے آنکھیں موند کر دوسرے سے بغل گیر ہوتا ہے۔ اور مصلحت پسندی کی اس حد تک جاتے ہیں کہ اپنے تعلقات کوبرقرار رکھنے کو جہد آزادی و حقیقی فکر پر فوقیت دیتے ہیں۔تاکہ وہ اپنے تعلقات کے تحت اپنی چھوٹی دنیا کو آباد کرسکیں۔ اور اپنے لیے احترام پیدا کر سکیں، یہ سوچیں بلوچ سیاست میں سانس کی طرح ہر سطح پر موجود ہیں انھی کمزوریوں کی وجہ سے آج تک ہر سطح پر آپ کو مصلحت پسندی کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی مصلحت پسندی نے ہی تحریک میں انھی کمزوریوں و خرابیوں کو بڑھاوا دیا۔ کہ آج تک کسی تنظیم کا کوئی منفی عمل تحریک کے لیے نقصان کا سبب بنا ہے اسکی بھی حمایت کی جاتی ہے۔ کیوں وجہ وہی روایتی خیالات ہیں یوبی اے کے بننے سے لیکر نواب خیر بخش مری کے ڈکٹیٹر شپ والی بات تک سبھی صحیح ہے۔ کیوں اور کس طرح صحیح ہے؟ کوئی ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش نہیں کرتا۔ بلکہ صرف خلوص کو پیمانہ بنا کر سب کو جی جی کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ سبھی کے ساتھ تعلقات میں بہتری رہے۔ ویسے نائلہ قادری نے جب بلوچستان لبریشن چارٹر کی حمایت کی جس پراسکی بنیادی رکنیت بی آرپی نے ختم کردی۔ اس پر بی آرپی لائق تحسین اس وجہ سے ہے کہ وہ چارٹر کے مکمل مخالف و ضد کے طور سامنے آئے یہ ایک سیاسی سوچ ہے جس پر و مکمل مخالفت کرے نہ بی این ایم کی طرح کبھی حمایت و کبھی مخالفت‘ ایسے عمل کو حرف عام میں منافقت کہا جاتا ہے ویسے اسے سیاسی منافقت کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اور میڈم نائلہ قادری کی بنیادی رکنیت ختم کرنے کی بنیادی وجہ میڈم نائلہ کا قومی پروگرام سے متفق ہونا تھا۔ اگر چارٹر قومی پروگرام ہے تو بی آرپی کا پروگرام گروہی ہے ۔ بالکل اسی طرح نواب خیر بخش مری کے یو بی اے بنانے کے عمل کی حمایت و مخالفت بھی ضروری ہے۔ نواب صاحب کے بقول کہ مہران میرا بات مانتا ہے جبکہ حیر بیار نہیں۔ یہ کوئی دلیل نہیں اور ہی کوئی سیاسی جواب۔ اگر نواب صاحب صحیح راستے پرتھے تو اسکی وضاحت ضروری ہے کہ وہ کس طرح صحیح سمت پر جارہے تھے اگر نہیں تو اس سے بھی کھل کر اختلاف رکھا جائے نہ کہ دونوں فریقوں کو خوش رکھنے کے لیے سیاسی منافقت کا سہارا لیا جائے۔ یا تو مہران مری کی بی ایل اے سے علیحدگی کی کھل کر حمایت کی جائے یا مخالفت ‘ یہ بیچ والا راستہ منافقت ہی ہوگا۔ کیونکہ بلوچ جہد میں اب کسی حد تک تمام مسائل و تضادات واضح ہو چکے ہیں اور ان پر کھل کر بحث بھی ہوئی ہے اور انتہائی خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں کہ ان تضادات و اختلافات کے بیچ میں بہت سے لوگوں کی شناخت و سوچ کی سطح واضح ہو چکی ہے اور اب ہر کوئی حقائق کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کرے گا نہ کہ دو دھاری تلوار سے کام نہیں چل سکتا۔ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی اور اسی سوچ کے تحت فکریں ایک دوسرے سے علیحد ہو جاتے ہیں نہ کہ دنیا میں بکری او ر بھیڑیا ایک ہی ریوڑ میں ہوتے اور کبوتر و بازایک ہی گھونسلے میں ہوتے ۔اسی بنیاد پر ہر چرند و پرند سے لیکر انسان تک انھی بنیادوں پر منقسم ہے اور تقسیم بھی سوچ کی بنیاد پر ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ دو سوچوں میں ایک ہی طرف پہلوتہی کرنا پڑے گا۔ ویسے میڈم نائلہ قادری جب بی ایل ایف کی جانب سے جب سنگت حیربیار مری کو قومی تحریک کے لیے نقصان دہ قرار دیا گیا تو اس وقت آپ خاموش تماشائی رہے اور دور سے نظارہ کرتے رہے اور سوشل میڈیا سے لیکر یوبی اے کے منفی اعمال پر کھبی بھی ذمہ دارنہ و مخلصانہ طریقے ان منفی رویوں پر سوال نہیں اٹھایا اوربی ایل ایف کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان پر آپ نے کھبی بھی کھل کر اظہار نہیں کیا نہ حمایت کی نہ مخالفت کی اور نہ ہی اسکے مثبت و منفی پہلووں پر کچھ کہا ویسے خاموشی از خود حمایت ہی کہلایا جاتا ہے اس بنیاد میڈم نائلہ قادری نے اپنے مضمون میں ایک دفعہ بی بی گوھر بن کر بددعا دیتا رہا اور اب اپنے مضمون میں سب اچھے کا نعرہ لگا کر سب کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے سب کوخوش رکھنے والی بات مسائل کا حل نہیں اور نہ ہی اس سے کسی کو خوش رکھا جا سکے گا بلکہ صرف سراب ہی سراب ہوگا