دوشنبه, سپتمبر 30, 2024
Homeآرٹیکلزرحمدل کے اغواء کے حقائق اور گہرام کی بوکھلاہٹ تحریر : نود...

رحمدل کے اغواء کے حقائق اور گہرام کی بوکھلاہٹ تحریر : نود بندگ بلوچ

بی ایل ایف کے ترجمان گہرام بلوچ ( ڈاکٹر اللہ نظر) اپنے رسمی پالیسی بیان میں سنگت حیربیار مری کو ان الفاظ قبائلی ،فاشسٹ ، آمرانہ ، فرعونی ، خود پرست شخص، وار لارڈ اور جنگی سردار سے مخاطب کرتے ہیں اور ان سے فکری طور پر جڑے سنگتوں کو ’’ حیربیار کے کارندے ‘‘ کا نام دیکر ایک بزرگ جہدکار رحمدل مری کے اغواء کا الزام لگاتے ہیں،یہ بے بنیاد الزام، یہ اندازِِ تکلم اور غیر سیاسی و غیراخلاقی الفاظ کا چناؤ اب انکشاف نہیں رہے بلکہ سوشل میڈیا میں ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کے ہم خیالوں کی طرف سے اس سے بھی زیادہ گِری ہوئی غیر سیاسی الفاظ کا چناو مکمل کھلم کھلا بے دھڑک انداز میں ہوتی رہی ہے، اگر ڈاکٹر صاحب کے اس بوکھلاہٹ اور غصے جس کے تحت وہ اس طرز کے الزام ان الفاظوں کے ساتھ بلا جواز لگارہے ہیں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو مشکل نہیں کیونکہ جس طرح سے بی ایل ایف کی منفی پالیسیوں اور بے لگام سپاہیوں کی وجہ سے بلوچستان بالخصوص مکران میں لوگ بی ایل ایف سے بیزار حتیٰ کے خلاف ہورہے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور ڈاکٹر صاحب کا اس بابت سب سے بڑا گلہ یا رنج یہ رہا ہے کہ ایسے صورتحال میں آزادی پسند (حیربیار کے فکری سنگت) اسکے غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے سوشل میڈیا میں نقطہ چینی کررہے ہیں ، اس کوفت کا اظہار بھی ڈاکٹر صاحب اپنے ہر بیان اور ٹویٹ کی طرح سوشل میڈیا پر لعن طعن کرتے ہوئے اس بیان میں کہتے ہیں کہ \” حیر بیار کے کارندے سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں جارحانہ منفی اور بیہودہ پروپیگنڈہ مہم چلا رہے تھے \”۔ جسے ڈاکٹر صاحب جارحانہ و منفی پروپیگنڈہ کہہ رہے ہیں وہ دراصل مکران میں انکے منشیات فروشی ، عام بیگناہ بلوچوں کے قتل عام ، ڈکیتی اور منفی رویوں پر ہونے والی تنقید ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے اس بڑھتے غصے کی مزید وجہ جاننے کیلئے اگر ہم باریک بینی سے غور کریں تو وہ صرف سوشل میڈیا نہیں بلکہ انکے منفی رویوں پر ہونے والی تنقید کا سلسلہ اب میڈیا سے نکل کر زمین پر بھی دِکھ رہی ہے، گذشتہ چند مہینوں کے واقعات اس حد تک گراں ہیں کہ ڈاکٹر صاحب خود کو چھپانے اور ان کا ملبہ کسی پر ڈالنے کیلئے کسی حد تک جاسکتے تھے اور اب وہ گئے بھی، پچھلے ہفتے ہی تمپ میں بی ایل ایف کے رویوں سے عاجز آکر عام بلوچ خاص طور پر بچے اور خواتین اپنے گھروں سے نکل کر بی ایل ایف کے خلاف احتجاج کرنے لگے اس دوران بی این ایم کے عہدیدار انکی برابر منت سماجت کرتے رہے لیکن عوام نے انکو خاطر میں نہیں لایا حیرت کی بات یہ تھی کہ جہاں بی ایل ایف مخالف نعرے لگائے جارہے تھے وہیں پاکستان مخالف نعرے بھی سننے کو ملے لیکن ہمیشہ کی طرح اپنا دامن صاف ظاہر کرنے کیلئے بی ایل ایف نے اسے پاکستان کی چال قرار دیکر کپڑے جھاڑ لیئے۔
اس واقعے سے چند ماہ پہلے رمضان کے مہینے میں بی ایل ایف کے سرمچار 20 موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر زامران کے علاقے جالگی میں ایک مقامی ٹول پلازہ پر حملہ کرتے ہیں ، یاد رہے کہ یہ ٹول پلازہ اس روڈ پر قائم تھی جسے جالگی کے عوام نے چندہ کرکے خود اپنے مدد آپ کے تحت بنایا تھا اور اخراجات کیلئے یہ ٹول پلازہ قائم کیا تھا جس سے وہ گذرنے والے گاڑیوں سے ٹیکس لیتے تھے ، بی ایل ایف نے پہلے تو حملہ کرکے وہاں رکھی ہوئی ساری رقم اٹھالی اور وہاں ایک شریف النفس انسان باقی بلوچ کے 12 سالہ بیٹے عطاء کے ہاتھ پاؤں باندھ کر قریب کھڑے ایک گاڑی کو زبردستی چھین کر اس میں ڈال دیا اور روانہ ہوگئے ، اس واقعے سے اہل علاقہ مشتعل ہوگئے اور سامنے سے ڈمبانی کے مقام پر راستوں کو بند کرکے بی ایل ایف والوں کا محاصرہ کرلیا اور فائرنگ کے تبادلے میں دو اہل علاقہ اور ایک بی ایل ایف کا سرمچار فاروق بلوچ مارے گئے جس کے بعد بی ایل ایف کے مقامی کمانڈروں نے کئی ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دیئے اور اہل علاقہ نے انہیں گرفتار کرلیا، بعد میں بی ایل ایف والوں نے وضاحت کی کہ ہم سرمچار ہیں اور گاڑی و 12 سالہ عطاء کو واپس کرکے معافی مانگی ، تو بلوچیت کے ناطے اہل علاقہ نے نہ صرف انہیں معاف کرکے جانے دیا بلکہ فاروق بلوچ کی میت بھی احترام کے ساتھ ان کے حوالے کرکے انہیں آسانی سے راہ دی لیکن اگلے دن گہرام بلوچ نے حسب روایت ایک جھوٹا بیان داغ دیا کہ ہمارا ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ مڈبھیڑ ہوئی ہے اور اہلِ علاقہ کو دھمکی بھی دے ڈالی اور اس بات کی وضاحت تک نہیں کی کہ اگر وہ ڈیتھ اسکواڈ کے ہوتے تو انہیں گرفتار کرنے کے بعد رہا کیوں کیا جاتا،بی ایل ایف کے اس بیان سے جالگی کے رہائشی مشتعل ہوگئے اور بی ایل ایف کے خلاف ہتھیار بند ہوگئے اب انہوں نے وہاں ایک غیر مسلح چوکی کے بجائے پانچ اسلحہ بردار چوکیاں لگا کر بی ایل ایف کے داخلے پر مکمل پابندی لگادی ہے یہ وہی علاقہ تھا جہاں بی ایل ایف کے سرمچار بلا خوف و خطر گھوما کرتے تھے۔
اسی طرح بی ایل ایف کا اپنا ایک بندہ بشیر بلوچ جو الندور کا رہائشی تھا اور لیویز کا ملازم بھی تھا بی ایل ایف کے سرمچاروں کا شکار بنا، بی ایل ایف نے اسے ایک گاڑی ، بندوق اور تین لاکھ روپے کی خاطر قتل کرکے اسکے پیسے اور گاڑی لوٹ کر لے گئے ، اہل علاقہ نے اسے ڈاکوؤں کی کاروائی سمجھا اور ان کا پیچھا کرنے لگے لیکن جب معلوم پڑا کہ یہ بی ایل ایف کے لوگ تھے تو پھر انہیں چھوڑ دیا گیا لیکن کچھ دن کے بعد جب بی ایل ایف کے علاقائی کمانڈر موٹر سائکل پر جارہے تھے تو اسی بشیر بلوچ کے بوڑھی والدہ نے انکا راستہ روکا اور اپنے بیٹے کے قتل کی وجہ پوچھی اور یہ کہا کہ چلو تم لوگوں نے اسے قتل کردیا لیکن ہم غریب ہیں اسکی گاڑی اور پیسے ہمیں واپس لوٹا دو اس بات پر علاقائی کمانڈر صاحب طیش میں آکر اس بوڑھی بلوچ خاتون کو دھکا دے کر دور گرادیا، اس بات پر اہل علاقہ مشتعل ہوگئے اور اسلحہ اٹھا کر انکے پیچھے پڑگئے کمانڈر صاحب تو نکل گئے لیکن اب الندور کے لوگ بھی انکے خلاف اسلحہ بند ہوگئے ہیں اور بدلہ لینے کا کہہ رہے ہیں وہی الندور جہاں یہ بغیر اسلحہ کے گھوم سکتے تھے اب انہیں مشکل سے سر چھپانے کیلئے جگہ تک نہیں ملتا۔
اسی طرح زامران کے علاقے میں بی ایل ایف کے سرمچار ایک غریب بلوچ لیویز اہلکار ایوب زامرانی کو محض اسکے سرکاری بندوق چھیننے کیلئے قتل کردیتے ہیں، اس قتل کے کچھ وقت بعد ڈاکٹر منان اور عابد زامرانی نے اس علاقے کا دورہ کیا جہاں انکی شروع میں خوب آو بھگت ہوئی اور ایک نشست میں اہلِ علاقہ نے ان سے ایوب زامرانی کو قتل کرنے کی وجہ پوچھی تو ڈاکٹر منان غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم نے ایوب کے خاندان کے ساتھ تصفیہ کرلیا ہے اور انہوں نے ہمیں معاف کردیا ہے لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہاں مجلس میں ایوب کے اہل خانہ کا ایک بندہ بھی بیٹھا ہوا تھا انہوں نے ڈاکٹر منان کو ٹوک کر کہا ہمارا کوئی بھی فیصلہ نہیں ہوا ہے اور ہم نے کسی کو معاف نہیں کیا ہے آپ یہ بات کیسے کررہے ہیں جس پر خجالت کا سامنا کرتے ہوئے عابد زامرانی اور ڈاکٹر منان کو جھوٹ بولنے پر سب کی لعن طعن سننی پڑی اس واقعے کے بعد لوگوں کا ان سے اعتبار ایسا اٹھ گیا ہے کہ پہلے جہاں انہیں مفت میں تحفتاً بکرے ملا کرتے تھے اب کوئی ان کے سلام کا جواب نہیں دیتا، اسی طرح بلیدہ میں اکرم بلوچ کو بالخصوص نشانہ بنانے کا بعد اسے اپنے بیان میں ایک غلطی قرار دیکر بری الذمہ ہونے کی کوشش نے اب بلیدہ میں بھی بی ایل ایف کے خلاف شدید عوامی نفرت کا آغاز ہوگیا ہے، یہ محض چند ایک واقعات ہیں ایسے درجنوں اور واقعات ہیں جن کی تفصیلات پھر کبھی لیکن ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد ان زمینی حقائق کو لانا ہے جن کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب اب فرسٹریشن کا شکار ہوگئے ہیں اور بازاری زبان و آئی ایس آئی طرز کے الزامات لگانے سے نہیں چوک رہے۔ ڈاکٹر صاحب اس بات کا اظہار بارہا مختلف مجالس میں کرچکے ہیں کہ سوشل میڈیا میں ہونے والی تنقید کی وجہ سے اب لوگوں کے دلوں میں انکے بابت خوف ختم ہوگیا ہے اور انکے کارکنان سمیت عام لوگ بھی اب بی ایل ایف کے ان منفی رویوں پر تنقید و احتجاج کرنے لگے ہیں جن پر لوگ چپ رہا کرتے تھے اسی لیئے شروع سے انکی کوشش رہی کے کسی طور یہ اس تنقیدی سلسلے کو روکا یا متنازعہ بنایا جائے، اب اپنی گرتی ساکھ اور عوامی ردعمل دیکھ کر ڈاکٹر صاحب \” حمام میں سب ننگے \” کے مصداق بے بنیاد الزامات لگا کر دوسروں کے کپڑے بھی اتارنا چاہتے ہیں۔
جہاں تک رحمدل مری کے اغواء کے الزام کا تعلق ہے تو اسکا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ، رحمدل مری ، مری قبیلے کے مرغیانی شاخ کا وڈیرہ ہیں اور قادر مری کے قریبی عزیز ہیں ، 70 کے مزاحمت میں نواب مری کے ساتھ تھے وہاں رحمدل مری ، ماما سدو مری اور استاد واحد قمبر کی قربت بڑھی لیکن جب افغانستان سے واپس آئے تو تقریباً 1993 کے دور میں انکے بابا مری سے اختلافات شروع ہوگئے ، انہوں نے بابا مری پر نقطہ چینی کی کہ وہ دوبارہ جنگ کرنا نہیں چاہتے ہیں کوئٹہ میں ہونے والے ان تلخ کلامیوں کے بہت سے گواہ ہیں پھر وہیں سے وہ بابا سے دور ہوگئے لیکن جب بعد میں مزاحمت کا آغاز ہوا اور مکران میں استاد واحد قمبر نے موجودہ بی ایل ایف کو منظم کرنا شروع کیا تو سنگت حیربیار نے سدو مری اور امام داد مری سمیت کئی جہد کار بی ایل ایف کی مدد کیلئے بھیجے استاد واحد قمبر سے نزدیکی کی وجہ سے رحمدل مری بھی استاد واحد قمبر کے پاس چلے گئے، اب بی ایل ایف کے مصدقہ ذرائع کے مطابق رحمدل مری کو بی ایل ایف اپنے سینٹرل کمانڈ کا رکن ظاہر کررہا ہے۔ رحمدل کا بی ایل ایف سے نزدیکی ڈھکی چھپی نہیں تھی اسلئے بی ایل ایف کے اس دعوے کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن یو بی اے کے بننے کے بعد اچانک رحمدل مری دوبارہ زامران مری اور بابا مری کے کیسے قریب ہوئے پتہ نہیں شاید اس میں بی ایل ایف کی رضا تھی یا قادر مری کی رشتہ داری لیکن رحمدل مری نے اپنے شاخ مرغیانی سمیت جالڑی سبی کے علاقوں میں باقاعدہ طور پر سنگت حیربیار مری اور بی ایل اے کے خلاف زہر افشانی شروع کردی اور اہل علاقہ خاص طور پر بی ایل اے سے جڑے دوستوں سے مِل کر انہیں یو بی اے میں شمولیت کے عوض ماہانہ 7 ہزار روپے معاوضے کا لالچ بھی دیتے رہے حالانکہ بابا مری سے ناراض ہونے کے بعد اسے پھر بھی سنگت حیربیار کے قریب بتایا جاتا تھا اور مارگٹ کے لڑائی کے وقت بولان میں بلوچ خان نے ملاقات کرکے ساری صورتحال انکے سامنے رکھی تھی لیکن کچھ عرصے خاموش رہنے کے بعد وہ اسی وقت سے بی ایل اے کے خلاف دوبارہ کام کرنے میں مشغول رہا اگر بی ایل اے کو انکو اغواء کرنا ہوتا تو شاید وہ بہت پہلے کرلیتا جب وہ بی ایل اے کے بولان کیمپ آئے تھے۔
گذشتہ دنوں رحمدل مری جالڑی کے علاقے میں نامعلوم مسلح لوگوں کے ہاتھوں پر اسرار طور پر لاپتہ ہوگئے ، پہلے پہل نامعلوم مشکوک آئی ڈیز سے سوشل میڈیا پر اسکا الزام بی ایل اے پر لگایا گیا بعد ازاں بی ایل ایف کے ڈاکٹر اللہ نظر اور اختر ندیم نے بی ایل اے کے قیادت سے رابطہ کرکے جب رحمدل مری کے بارے میں وضاحت مانگی تو انہیں کہا گیا کہ بی ایل اے کا اس سے کوئی تعلق نہیں پہلے اختر ندیم نے ثبوت کے طور پر دو جہد کار \” ہوتی \” اور \” اکرم \” کا نام لیا جن کے بارے میں انہیں کہا گیا کہ وہ علاقے سے دور ہیں اور ایک تو پیروں سے قریباً معذور ہے وہ کیسے انہیں اغواء کرسکتے ہیں بعد ازاں ڈاکٹر اللہ نظر نے موقف بدل کر فون کرکے کہا کہ نہیں اٹھانے والے \” ماموں جتوئی \” اور \” شہہ \” ہیں ان کے بارے میں بھی ثبوتاً انہیں کہا گیا کہ یہ دونوں اس علاقے سے سینکڑوں میل دور بیٹھے ہوئے ہیں یہ کیسے اٹھاسکتے ہیں لیکن اب ایک بار پھر میڈیا میں موقف بدل کر ڈاکٹر صاحب دو نئے نام \” دلشاد \” اور \” بلوچ \” پر الزام لگاتے ہیں ، حالانکہ یہ دونوں اشخاص بی ایل اے کے رکن نہیں ہیں اور نہ ہی بی ایل اے کی طرف سے مسلح ہیں یہ محض اس علاقے میں ہمدرد ہیں۔ نیز ڈاکٹر اللہ نظر صاحب اس علاقے میں بی ایل اے سے جڑے جتنے لوگوں کے نام جانتے ہیں وہ بے بنیاد انداز میں ثبوت قرار دیکر سب کا نام لیکر اندھیرے میں تیر چلانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ، حالانکہ رسمی طور پر جب بی ایل اے سے انہوں نے رابطہ کیا تھا تو انہیں باقاعدہ اس بابت واضح طور پر کہا گیا کہ اس واقعے کا بی ایل اے سے کوئی تعلق نہیں اسکے بعد انکے پاس کوئی جواز ہی نہیں رہتا کہ وہ بلا ثبوت میڈیا میں اس طرح کے بازاری اور غیر اخلاقی زبان کے ساتھ یہ الزام لگائیں اور اگر انکے پاس کوئی ثبوت ہوتی تو وہ الزام لگانے سے پہلے وہ ثبوت بلوچ عوام کے سامنے پیش کرتے پھر الزام لگاتے تو بات بنتی محض چند نام لیکر ان پر الزام لگانا ثبوت کے دائرے میں نہیں آتا، درحقیقت ڈاکٹر صاحب موقع کو غنیمت جان کر مختلف ہیلوں سے یہ بہانہ تراشنے کی کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح سنگت حیربیار کو اس طرح متنازعہ بناسکیں جس طرح آج وہ خود مکران میں متنازعہ بنے ہوئے ہیں۔
اگر رحمدل مری کے اغواء کا معمہ سلجھانا ہے تو یہ کوئی معمہ نہیں بات بالکل واضح ہے کہ انہیں کس نے اغواء کیا ہے ، رحمدل مری یو بی اے کے بننے کے بعد زامران کے قریب ہوگئے تھے ، انکی قربت عسکری یا جہد سے زیادہ قبائلی بنیادوں پر تھی، اگر ریکارڈ چیک کرکے دیکھا جائے تو چنگیز مری کے نواب بننے کے بعد جب زامران کے نواب بننے کا اخباری بیان آیا تھا تو حمایت کرنے والوں کے ناموں میں مرغیانی شاخ کی طرف سے رحمدل مری مرغیانی کا نام بھی حمایت و تائید میں شامل تھا ، وہیں سے رحمدل اور چنگیز مری کے بیچ مخاصمت شروع ہوئی تھی ، حالیہ دنوں میں زامران مری اور چنگیز مری کے بیچ جائیدا داور زمینوں کے بیچ جھگڑا چل رہا ہے ، اسی جھگڑے کو لیکر کچھ دن پہلے زامران مری کے حمایتی اور گزین مری کے بیٹے شاہزین مری پر اس وقت چنگیز مری کے کارندوں اور ایف سی نے حملہ کیا تھا جب وہ چنگیر مری کے ساتھ کسی زمینی تنازعے کے تصفیے کیلئے آیا تھا ، زامران مری اور چنگیز کے حمایتیوں کے بیچ پورے علاقے میں مخاصمت موجود ہے،رحمدل مری جس علاقے میں رہتے ہیں وہ سبی و کوہلو کا درمیانی علاقہ ہے اسی علاقے میں ببر کچ کے مقام پر مری قبیلے کے شاخ ٹھینگیانی کا وڈیرہ جلال الدین مری بھی بیٹھا ہوا ہے جس کا گھر ایف سی کیمپ سے چند فرلانگ کے فاصلے پر موجود ہے اور اسکے گھر آئے روز ایف سی اور فوج کے میجر و کرنلوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور جلال الدین ٹھینگیانی باقاعدہ طور پر چنگیز مری کے حمایتی ہیں اور اسی بنیاد پر ایک ہی علاقے میں رہنے کی وجہ سے انکے اختلافات مرغیانی شاخ کے وڈیرہ رحمدل مری سے کھلم کھلا تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ رحمدل مری کے اغواء میں براہ راست انکا ہاتھ ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ \” اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی \” کے مصداق ڈاکٹر صاحب موقع کو غنیمت جان کر چنگیز مری اور جلال الدین ٹھینگیانی کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ناکامیوں کا بھڑاس نکالنے کیلئے سارا ملبہ سنگت حیربیار مری پر ڈال رہے ہیں۔
بی ایل ایف اپنے اس مہم جویانہ بیان میں جہاں دلشاد اور بلوچ جیسے دوست خواہوں کا نام ظاہر کررہا ہے وہیں اپنے بیان میں ایک لاپتہ بلوچ رحمدل جو ابھی تک شاید چنگیز مری کے ڈیتھ اسکواڈ کے حراست میں ہو اسکے بارے میں ایک مسلح تنظیم کی طرف سے بیان داغ کر رحمدل مری کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہا ہے ، حالات و واقعات سے ابتک یہ ظاہر ہورہا ہے کہ رحمدل مری کو قبائلی اختلافات کے بنا ء پر چنگیز مری اور جلال الدین ٹھینگیانی نے اغواء کیا ہوا ہے یہ قبائلی مسئلوں میں معمول کا واقعہ ہے لیکن ڈاکٹر اللہ نظر اپنے عناد اور گروہیت کے نشے میں جس طرح انہیں اپنے بیان میں سینئر جہدکار ظاہرکررہا ہے اور غیر رسمی طور پر جس طرح رحمدل مری کو اپنے سینٹرل کمانڈ کا رکن ظاہر کررہا ہے اس سے پاکستانی ایجنسیز ضرور کوشش کریں گے کہ وہ چنگیز کے توسط سے رحمدل تک رسائی حاصل کریں یا شاید پہلے سے ہی انکے حراست میں ہو ، اب ان غیر سنجیدہ بیان بازی سے ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے رحمدل مری کے جان کو خطرہ ہوسکتا ہے اب اگر خدانخواستہ انہیں کوئی نقصان پہنچایا جاتا ہے تو اسکا ذمہ دار ڈاکٹر اللہ نظر کے سوا اور کون ہوسکتا ہے؟۔ پہلے شاید رحمدل کو چھوڑ دیا جاتا لیکن اس بیان اور ڈاکٹر صاحب کے الزامات کے بعد جس طرح سے دشمن کو آسانی سے کھلی چھوٹ دی گئی اور اوپر سے رحمدل کے اوپر آزادی پسندوں کے بیچ میں تناؤکو دیکھ کر کیا چنگیز مری ہو یا دشمن خود وہ رحمدل مری کو چھوڑے گا ؟
امید کرتے ہیں کہ رحمدل مری بحفاظت بازیاب ہوکر گھر پہنچ جائیں لیکن رحمدل مری کے اغواء کے اس مسئلے سے ایک بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ بی ایل اے کو دو لخت کرنے اور یو بی اے کے بنانے کے پیچھے ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کی مکمل پشت پناہی اور سازش تھی جو اب ثابت ہوتی ہے، یہی رحمدل مری جو بی ایل ایف کے کمانڈر رہے ہیں اور جسے بی ایل ایف کے سینٹرل کمان کا رکن ظاہر کیا جارہا ہے بی ایل ایف کا ممبر ہونے کے باوجود یو بی اے کو بنانے میں سب سے زیادہ متحرک رہے اسی طرح استاد امام داد بڈانی مری بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو بی ایل ایف کے رکن رہے ہیں لیکن یہ دونوں یو بی اے کو بنانے میں سب سے زیادہ پیش پیش رہے اور جب زامران مری کو نواب بنانے کیلئے بیان آتا ہے تو مرغیانی شاخ سے رحمدل مری اور بڈانی شاخ سے استاد امام دین زامران مری کا حمایت کرتے ہیں ، اسی طرح اسپلنجی میں استاد حمل کا بی ایل ایف کے کیمپ کو قادر مری یو بی اے کے کیمپ میں ضم کرنا بھی واضح اشارہ ہے ، بی ایل ایف کے دو کمانڈران یا سینٹرل کمان کے ممبر آخر کیسے یو بی اے کو تنظیم اور زامران کو نواب بنانے میں ڈاکٹر اللہ نظر کے مرضی کے بغیر متحرک ہوسکتے ہیں ؟۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بی ایل ایف خاص طور پر ڈاکٹر اللہ نظر یو بی اے کے قیام میں پیش پیش تھے اور باقاعدہ سازشوں کا حصہ تھے اور یہی وجہ تھی کہ جب بی ایل اے کے دوست انکے پاس ثالثی کیلئے جاتے ہیں تو وہ تین مہینے تک پَس و پیش سے کام لے کر انکا وقت ضائع کرکے انکار کردیتا ہے، دراصل جس طرح سے ڈاکٹر صاحب اپنے لیڈری اور مختار کلی کے سامنے بی ایل اے کو رکاوٹ سمجھتے تھے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی اگر بی ایل اے کمزور ہوجاتا تو ڈاکٹر اللہ نظر صاحب کا پورے تحریک کے قائد بننے کا سپنا پورا ہوتا وہ اپنے اسی خواب کے تحت پہلے بی ایل اے کو دولخت کرنے کے سازشوں میں شامل رہے اور جیسے ہی یو بی اے قائم ہوتا ہے تو پھر سیاسی اداروں بی این ایم اور بی ایس او پر قبضہ کرکے انہیں اپنا باجگزار بنادیتا ہے لیکن انکے توقع کے برعکس بی ایل اے ختم ہونے کے بجائے روز بروز بہتر اور منظم ہوتی جارہی ہے اور دوسری طرف انکے شوق لیڈری اور منشیات کے دولت اور طاقت کے ہوس کی وجہ سے مکران میں انکے خلاف ریلیاں نکل رہی ہیں اب اس بوکھلاہٹ میں موصوف اس طرح کا بازاری اور جھوٹا بیان داغ دیں تو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ ویسے حیرت کی بات یہ ہے کہ بی ایل ایف اور اسکے باجگزار مقبوضہ جات بی این ایم و بی ایس او کچھ عرصے سے مڈل کلاس اور سوشلزم کا نعرہ تندہی سے لگاکر سنگت حیربیار کو نواب و سردار قرار دیکر مسترد کرتے ہیں لیکن جب حقائق دیکھیں تو بی ایل ایف کے سینٹرل کمانڈ کے رکن رحمدل مری مرغیانی شاخ کی طرف زامران مری کے نوابی کے حق میں ووٹ دیتے ہیں اور دوسری طرف حیربیار مری جس پر نوابی کا الزام ہے وہ نوابی کے خاتمے کا اعلان کردیتے ہیں حالانکہ زامران طرز کا نواب وہ بھی باآسانی بن سکتے تھے کیا عجیب تضاد ہے ایک نوابزادہ سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں اور مڈل کلاس و سوشلزم کے داعی ایک نواب کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔ اسی لیئے شاید دعووں اور حسب و نسب کو دیکھنے کے بجائے کردار و عمل کو دیکھا جائے تو تب ہی حقائق سمجھ آسکتے ہیں۔
ایک دوست کہتا ہے کہ حمل حیدر لندن آنے سے پہلے یہ سوچتے تھے کہ جب لندن پہنچیں گے تو گورے کروڑوں انکے گود میں رکھ دیں گے لیکن جب وہ لندن پہنچے اور حقائق کو مختلف پائے تو پیسوں کیلئے بھاگ دوڑ شروع کردی اور حتی الامکان ہر گورے کے پاس جاتے رہے حتیٰ کہ خرچی کیلئے جاوید مینگل کو بھی رسمی طور پر اپنا \” فکری دوست \” قرار دے بیٹھے ، لیکن جب اسکے سپنے ٹوٹے تو وہ سنگت حیربیار کے 15 سالوں کے محنت کو بھول کر ہر جگہ یہ کہنے لگے کہ ہو نا ہو انہیں کوئی خفیہ ہاتھ پیسے دے رہا ہے جو مجھے نہیں دے رہے اس دوست نے کہا کہ حمل حیدر نے جب یہی بات مجھ سے کی تو میں نے کہا کہ سنگت حیربیار کے حالت سے ایسا نہیں لگتا کہ اس پر پیسوں کی بارش ہورہی ہے اور اگر بالفرض ہورہی ہے تو پھر تمہارے بھی ہاتھ پاؤں کسی نے نہیں باندھے ہیں لیکن شکستہ خوابوں و دعوؤں کو پیوند لگانے کیلئے کچھ دن بعد حمل حیدر پہلے لندن میں ہی ہر جگہ یہی راگ الاپنے لگا کہ اصل میں انکو ملٹی نیشنل کمپنیاں پیسے دیتے ہیں اور میں ان سے نہیں لیتا ہوں کیونکہ وہ بلوچستان کے معدنیات بیچ رہے ہیں ، بقول شخصے تنہائی کی وجہ سے شاید حمل حیدر کو کچھ نفسیاتی مسائل کا سامنا تھا لیکن موصوف یہی باتیں پھر ڈاکٹر اللہ نظر صاحب تک پہنچاتے رہے ، تب سے ڈاکٹر اللہ نظر اور اسکے مقبوضہ جات بی این ایم و بی ایس او پر بھی ملٹی نیشنل والا خبط سوار ہوگیا۔ تب سے بی این ایم کا بیان ہو یا بی ایل ایف کا یا پھر انکے چھوٹو بی ایس او کا یہی ملٹی نیشنل ملٹی نیشنل کی باز گشت سنائی دیتی ہے حیرت یہ ہے کہ رسمی طور پر اتنے بیان لگانے کے باوجود آج تک وہ کسی بھی ڈیل کے بابت ثبوت کجا ایک مضبوط دلیل تک دینے میں مکمل ناکام ہوئے ہیں حتیٰ کے سنجیدہ حلقوں میں اب بی ایل ایف اور مقبوضہ جات کے پالیسی بیانات محض مزاق کہلائے جاتے ہیں اور بی ایل ایف نے بھی کبھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی ہے کہ وہ بے بنیاد الزام در الزام سے پہلے یا بعد میں کوئی ثبوت پیش کرے۔ اب حالیہ بیان میں ایک دفعہ پھر گہرام بلوچ (ڈاکٹر اللہ نظر) ملٹی نیشنل کا الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ \”اطلاعات ہیں کہ حیر بیار اور سلیمان داؤد نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کو مری علاقے کے معدنیات نکالنے میں مدد دینے کی حامی بھر لی ہے۔ جس کے بدلے میں کمپنی قبضہ گیر پاکستان کو آمدنی میں حصہ و ٹیکس جبکہ حیر بیار اور سلیمان داؤد کو بھتہ دے گا\”۔ ہٹلر کے وزیر پروپیگنڈہ جوزف گوبیلز کہتا تھا کہ\” ایک جھوٹ کو اتنا دہراو کے سچ لگنے لگے \” لیکن ڈاکٹر صاحب جھوٹی اور بے بنیاد بات توکرتے ہیں لیکن انکا مسئلہ یہ ہے کہ انکو اپنا پچھلا بیان یاد نہیں رہتا کہ اسی کو دہرائے رکھے سارے اخبارات کو اٹھا کر دیکھیں تو کچھ وقت پہلے ہی ڈاکٹر صاحب ہوں یا مقبوضہ بی این ایم خلیل یا پھر انکا چھوٹو بی ایس او یہی کہتے رہتے تھے کہ حیربیار نے ریکوڈک پر ٹیتھیان کمپنی سے ڈیل کیا ہوا ہے ابھی تک قوم اس الزام کے ثبوتوں کے انتظار میں تھی کہ ڈاکٹر صاحب نے اب \” یو ٹرن\” مار کر کہہ دیا کہ نہیں ڈیل کسی ملٹی نیشنل کمپنی سے مری علاقوں پر ہوئے تھے، یہ ریکوڈک مری علاقہ کب پہنچا کسی کو کانوں کان خبر نہیں یا پتہ نہیں ڈاکٹر صاحب نے نقشہ پہلے الٹا پکڑا تھا یا اب۔ میرے خیال میں اب اس ملٹی نیشنل والے چٹکلے پر مزید تبصرہ مضمون کو لطیفہ بنادے گا۔
سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر تنقیدی مضامین اور بی ایل ایف پر نقطہ چینی کا مطمع نظر محض یہ ہے کہ انکو ایسے منفی رویوں اور عوامل سے باز رکھا جائے جس سے بلوچ تحریک کو حاصل عوامی حمایت کو نقصان پہنچے کیونکہ ایک تنظیم کے منفی ہتھکنڈوں کی وجہ سے جب عوامی حمایت کم ہوتی ہے تو نقصان پورے تحریک کو ہی ہوتا ہے اسکے ساتھ ساتھ اس تنقید کا مقصد قوم کے سامنے یہ واضح کرنا ہے کہ آج بی ایل ایف اور بی آر اے جس ڈگر پر رواں ہیں ہم ان کے ایسے منفی رویوں و اعمال کی حمایت نہیں کرتے اور ان سے الگ ہیں جس طرح عوام بالخصوص مکران میں انکے ایسے منفی ہتھکنڈوں کے خلاف احتجاج کررہی ہے ، اسی طرح ہم سوشل و پرنٹ میڈیا میں لکھ کر انکے ایسے منفی اعمال سے قطع تعلقی اور مذمت کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ حقیقی راستہ قوم کے سامنے واضح کریں لیکن اس فرق کو مٹانے اور \” لڈ و لڈو \” ایک کرنے کیلئے شروع
دن سے ڈاکٹر اللہ نذر صاحب کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ سنگت حیربیار اور اسکے فکری رفقاء اور سوشل میڈیا کے تحریروں کو متنازعہ بنا دیں اور اپنے گناہوں پر پردہ ڈال دیں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے الزامات ہوں ، سوشل میڈیا پر گالم گلوچ یا پھر رحمدل کا اغواء یہ ڈاکٹر صاحب کے یہی ہتھکنڈیں ہیں ورنہ کوئی بھی بلوچ ان سے پوچھ سکتا ہے کہ حیربیار مری کا وار لارڈ ازم ، نوابی اور ملٹی نیشنلوں کا ایجنٹ ہونا اس وقت آپ کو کیوں نہیں دِکھا جب وہ آپ پر تنقید نہیں کرتے تھے اور آپ آزادی کے ساتھ کچھ بھی کرتے تو وہ پوچھتے نہیں بلکہ آپ ان سے الٹا مالی و عسکری تعاون بھی حاصل کرتے تھے کوء غیر سیاسی اور اندھا شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ ان الزامات اور بیہودہ زبان کی وجہ صرف یہی ہے کہ سنگت حیربیار نے بالخصوص مکران میں انکے سیاہ کارناموں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا اور انہیں خود کو بہتر کرنے کا کہا تھا۔ جس راستے پر ڈاکٹر صاحب رواں ہیں ہم اس راستے پر چلنے کو تیار نہیں یہ صرف بندگلی اور اپنے لوگوں سے دوری ہے ناکامی ہے ، اب ڈاکٹر صاحب الزام لگائیں ، ملٹی نیشنل کمپنی کہیں یا کچھ اور وقت ہر چیز ثابت کردے گا بلکہ کررہا ہے لیکن یہ تنقید ان ہتھکنڈوں کے باوجود تب تک نہیں رکے گی جب تک رویے اور اعمال نہیں بدلیں گے۔

ایک دوست کہتا ہے \” یار تم لوگ سادہ ہو ڈاکٹر صاحب اپنیانٹرویو میں اپنا پسندیدہ شخصیت چنگیز خان کو کہتے ہیں اور اپنے بیٹے کا نام اس کے نام سے تیموجن رکھتے ہیں اور تم لوگ اسے چند مضمون لکھ کر سمجھا دو گے؟ \”۔ انقلاب فرانس کے وقت فرانسیسی بادشاہ لوئس نے آخری بار اپنے محل میں والٹئیر اور روسو کی کتابیں دیکھ کر کہا تھا کہ \”انہوں نے فرانس کو تباہ کرڈالا\” ، کچھ وقت بعد جب نپولین بادشاہ بنا تو اس نے ایک موقع پر کہا کہ \” لوئس بیوقوف بادشاہ تھا وہ صرف قلم کے سیاہی پر پابندی لگاکر اسے سرکاری اجارے میں لے لیتے تو انقلاب فرانس رک سکتی تھی \” والٹئیر اپنے زندگی میں چرچ کے الزامات اور لوئس کے جبر سے تنگ آکر اپنا مشہور عالم جملہ لکھتا ہے کہ \”تمہارے پاس بندوق ہے تو میرے پاس قلم ہے جو کرنا ہے کرو \” ڈاکٹر صاحب آپ کے پاس عام بلوچوں پر چلنے والی بندوق ہے ، بے بنیاد الزامات ہیں ہمارے پاس قلم ہے جو کرنا ہے کرو ، جو الزام لگانا ہے لگاو، آج آپ سیاہی پر پابندی لگانے کی جو چاہے کوشش کریں لیکن ایک دن آپ پھر بھی اپنا فیس بک آء ڈی کھول کر کہیں گے اس نے میری بادشاہی کو لوئس کے بادشاء کی طرح تباہ کردیا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز