کسی بھی معاشرے کے لوک ریت اور رواداری کے اقدار اْسے آس پاس کے دوسرے معاشروں سے ممتاز رکھتی ہیں۔ جب معاشرے میں مفاد پرستی، نفسہ نفسی اور ہر طرح کی برائیوں کو ایسی کھلی چھوٹ مل جائے کہ جس کے آگے انسان خود بے بس پائے، تو اْس کا شمار اْن معاشروں میں کیا جاتا ہے جسے دنیا ناکام اور جاہل معاشرے کے طورپر یاد کرتا ہے۔ یوں تو جرم ایک آفاقی رویہ ہے اْسے کسی ایک معاشرے کے ساتھ نتھی نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اْس کا سدباب ہر معاشرے کے ذمہ داران پر فرض ہے۔جرائم پیشہ عناصر کا تعلق کسی ایک معاشرے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق دنیا کے تمام معاشروں سے ہوتاہے۔ بلوچ معاشرہ کو دنیا ایک پاکیزہ، سادہ اور روادار معاشرہ کے طور پر یاد کرتاہے۔ جس کی وجہ ماضی کے بلوچ بزرگ لوگوں کا دوسرے مذاہب و قرفے اور نسل و ذات کے لوگوں سے اچھے برتاو کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن آج کل کچھ جرائم پیشہ عناصر کی وجہ سے بلوچ معاشرہ کے وہ قدیم اقدار بری طرح متاثر ہورہے ہیں جنہیں اہم ستون کے طور پر پہچانا جاتاتھا۔ کچھ سال پہلے سوشل میڈیا میں ایک رائے پر نظر پڑی جس میں بلوچ قوم پر نہ صرف لعنت بھیجا گیا تھا بلکہ پوری قوم کو بدعا بھی دیا گیا تھا۔ جس پر میں سوچ میں پڑگیا کہ ضرور کوئی وجہ ہوسکتی ہے کہ ایک ہندو شخص جس کی پروفائل پر راجھستان لکھا ہواہے اور وہاں بیٹھ کر اپنے دل کی بھڑ بلوچ قوم پر نکال رہا ہے۔ اْس سے مخاطب ہو کر پوچھا گیاکہ آپ بلوچ قوم کوبدعا کیوں دے رہے ہیں؟ تو جواب پایا کہ’’ آپ کو پتا ہے انہوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے،جس طرح کی حرکت بلوچوں نے ہم سے کی ہے وہ بدعا کے ہی لائق ہیں‘‘۔ میں نے سوچا ضرور اس کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا ہے، پھر ہمدردانہ لہجے میں اسے کہا گیابھائی آپ بدعا دینے کا حق رکھتے ہیں لیکن بات تو سیدھا کریں کہ آپ کے ساتھ ہوا کیا ہے؟ ایک بلوچی ہی آپ سے مخاطب ہے آپ اپنی پوری بات کریں تو آپ کو بتایاجائے گا کہ واقعی آپ کے ساتھ کوئی حرکت بلوچ نے کیا ہے یا کسی اور نے بلوچ کا نام استعمال کرکے کیا ہے۔ جواب پایاکہ’’ آپ پر بھی لعنت ہے اور بلوچ قوم پر بھی لعنت ہے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے ساتھ کس بلوچ قبیلہ نے یہ حرکت کی ہے‘‘۔ اب مجھ میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی کہ اس کے ساتھ جو بھی ہوا ہے ضرور مجھے پتا چلنا چاہیے۔ وہاں وہ کوئی جواب نہیں دے رہا تھا، اْسے میسج کیا گیاکہ بھائی آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے آپ سب کچھ مجھے ضرور بتائیں۔اس کا غصے سے بھر پور جواب تھا’’ جب بلوچستان میں سب کو معلوم تھا تو وہ کچھ نہ کرسکے آپ جان کر کیا کرسکتے ہیں؟‘‘ اسے کہا گیا کہ کچھ نہیں کرسکتاصرف جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ ایسا کیا ہوگیا ہے ، اگر واقعی کسی بلوچ نے آپ کے ساتھ کچھ غلط کیا ہے تو میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ اس نے کہا ’’اب مذمت سے کچھ نہیں ہوگااور آپ کچھ نہیں کرسکتے‘‘۔ پھر اس نے کسی میسج کا جواب نہیں دیا۔میں نے محسو س کیاکہ یہ شخص بہت غصے میں ہے بات بھی نہیں کررہا اور مجھے بھی حقیقت تک پہنچنا ہے۔ پھر میں نے اْس کو کچھ وقت کے لیے چھوڑ دیا۔ ایک دن پھر میں سوچتا رہا ہے شاید اس کے ساتھ کچھ مذہبی شدت پسندوں نے اچھا نہیں کیا ہے اور اْسے مذہبی تنگ نظری کا نشانہ بنایا ہے اسی لیے وہ بہت جذباتی ہے۔ پھر اْسے میسج کیا گیا،بھائی میں آپ کے مذہبی اقدار اور روایت کا احترام کرتا ہوں آپ کے ساتھ جو بھی کسی مذہبی شدت پسند نے کی ہے میں اْس کی مذمت کرتا ہوں۔ ویسے بھی میں ہنگلاج ماتا، کوئٹہ کے آریا سماج اور جناح روڈ کے مندر میں بھی گیا ہوں اور تمام مذہبی مقامات کا احترام کرتا ہوں،بلوچستان سمیت تمام معاشروں میں ہندووں کو اْن کے عقیدے کے مطابق جینے کا بھر پور حق دیا جائے میں اس رواداری کا قائل ہوں کسی قوم ، نسل یا مذہب کے خلاف نہیں ہوں۔ دوسرے سیکولر بلوچ بھی اسی رواداری کے قائل ہیں۔ ہم مذہبی شدت پسندی کے خلاف ہیں لیکن آپ راجھستان میں بیٹھ کر پوری بلوچ قوم کو لعنت اور بدعا دے رہے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب تھا ’’ آپ شاید مجھے ہندو سمجھ رہے ہیں لیکن میں ہندو نہیں ہوں ، سکھ ہوں اور میرا تعلق صدیوں سے بلوچستان سے ہے ہمارے دادا وہاں پیداہوئے تھے میں بلوچوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ آپ کا تعلق کون سے قبیلے سے ہے؟‘‘ اْس نے مجھ سے پوچھا۔ اسے کہاگیا کہ یہ اچھی بات ہے کہ آپ کا تعلق بلوچستان سے ہے آپ کی باتوں میں صداقت ہے واقعی آپ کے ساتھ کچھ غلط ضرور ہوا ہے۔ میں قبائلی نہیں ہوں، بلوچستان کے جنوب، مغربی تربت شہر سے میرا تعلق ہے۔ آپ اپنا واقعہ سْنا کر بتائیں کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے اور آپ کا تعلق بلوچستان کے کس شہر سے ہے؟ اْس نے اپنی رْوداد کچھ یوں بیان کیا کہ “بلوچستان ہمارا وطن ہے اور ہمارا خاندان صدیوں سے بلوچستان کے شہر دالبندین میں رہتا تھا یہ آج کل کی بات نہیں ہے کہ ہم ہجرت کرکے بلوچستان آئے ہیں بلکہ صدیوں سے ہم وہاں کے باشندے ہیں میرے دادااور اْس کے والدین بھی وہاں پیدا ہوئے ہیں ہم تاجر لوگ ہیں اور کاروبار کرتے ہیں۔ دالبندین شہر میں میرے چچا کی ایک بہت بڑی دکان تھی۔ ہم ایمانداری اور اچھے طریقے سے اپنا کاروبار چلارہے تھے۔ نہ کسی کے سماجی معاملات میں ٹانگ اڑایاہے اور نہ کبھی کسی کے مذہبی یا قبائلی معاملات میں دخل اندازی کی ہے۔ ایک شام نوتیزئی قبیلے کے کچھ مسلح لوگ آئے اور میرے چچا کو بندوق کی زور پر اغوا کرکے لے گئے۔ ہم اْن کے قبائلی عمائدین کے پاس گئے ، پولیس کے پاس گئے، دوسری قبائیلیوں اور معزز سماجی شخصیت کے پاس گئے کسی نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ ایک دن اغواء کاروں نے فون کرکے کہا کہ پانچ کروڈ روپے دے دیں اور اپنے چچا کو واپس لے جائیں۔ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے ، ہم بہت پریشان تھے کہ کیا کریں کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ہماری پوری فیملی نے اپنے زیورات، زمین اور دکانیں بیچ کر پانچ کروڈ روپے تو پورے نہیں ہوئے جتنے بھی تھے ان کو دے دیئے اب ہماری مالی حالت بھی بہت کمزور ہوگئی اور گھربار بیچ کر پوری خاندان سمیت دالبندین سے ہجرت کی اور کراچی آگئے بعد میں ہم نے انڈیا آنے کا فیصلہ کیا۔ اب ہم راجھستان کے ایک غیرآباد علاقے میں رہتے ہیں سرکار نے ہمیں یہاں ایک مہاجر کیمپ میں رکھا ہے آس پاس کوئی شہر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی کاروبار ہے۔ ہم پنجاب جانا چاہتے ہیں سرکار اس کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔ لیکن ہمارا کیس چل رہا ہے۔ ایک اچھی خاصی زندگی جس کو بنانے میں ہمیں صدیاں لگے تھے بلوچوں نے ایک لمحہ میں اْسے برباد کردیا اور ہماری زندگی اس حال تک پہنچائی، اپنے وطن سے ہمارے صدیوں کا رشتہ بغیر ہماری کسی غلطی کے توڑا گیا اور ہمیں دربدری اور مہاجرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ جس کا ہمیں بہت دکھ ہے۔ اب بھی آپ کہتے ہیں کہ میں کیوں لعنت بھیجتا ہوں اور بدعا دیتا ہوں؟” مجھے احساس ہوا کہ اس کے ساتھ بہت غلط ہوا ہے اور ایسا کم از کم کسی بلوچ قبیلے کے لوگوں کی طرف سے نہیں ہونا چاہیے تھا، میں نے اْسے مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ بھائی یہ جرائم پیشہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر قبیلہ اور ہر علاقے میں پائے جاتے ہیں چوری اور اغواء برائے تاوان میں وہ کسی قوم یا فرقہ کو نہیں دیکھتے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ کس کے پاس پیسہ ہے، انہیں صرف لوگوں کے پیسے ہڑپ کرنے ہیں اور ناجائز ذرائع سے پیسہ اکٹھا کرنا ہے۔ وہ بلوچوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ آپ بلوچ نہیں ہیں اسی لیے آپ کی نظر میں یہ واقعہ صرف بلوچوں کی اجتماعی زندگی کے گرد گھومتا ہے۔ برحال آپ کہ ساتھ بہت بْرا ہوا ہے اور میں اس کی کھل کر مذمت کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں انڈین سرکار آپ کی بھر پو ر مدد کرے گی۔ جرائم پیشہ اور شدت پسندوں کے کچھ سنگین اور منفی حرکتیں جو وہ دوسرے فرقے اور دوسری نسل کے لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں وہ اْن کی نظر میں ایک اچھا عمل ہوتا ہے لیکن متاثرین اْس کو پوری قوم سے نتھی کرتے ہیں اور اْس پر پوری قوم سے نفرت کرتے ہیں۔ حال ہی میں رواں سال کے دوسرے مہنے میں بھی اسی علاقے سے دو سکھ تاجر اغواء ہوئے جنہیں لیویز نے آپریشن کے بعد برآمد کیا۔ جرائم پیشہ افراد کے ایسے منفی اقدامات کو ہم اندورونی صورت میں انفرادی طور پر صرف اْسی جرائم پیشہ گروپ سے منسوب کرسکتے ہیں لیکن متاثرین اس کے برعکس سوچتے ہیں ایسے واقعات کی صورت میں وہ اجتماعی صورت میں پوری قوم کو ملوث قرار دیتے ہیں اور پوری قوم کو اپنے غضے کا نشانہ بناتے ہیں جس سے نسل پرستی سمیت نسلی نفرت اور نسلی فسادات بھی جنم لے سکتے ہیں۔