کراچی (ہمگام نیوز) بلوچ طالب علم رہنماء سنگت زاکر مجید بلوچ کی جبراً گمشدگی کو چودہ سال کی طویل مدت پوری ہونے پر اہلخانہ کی جانب سے کراچی پریس کلب پر علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کیا گیا اور صحافیوں کو بریفنگ بھی دی گئی ہے۔
اہلخانہ جانب سے پریس بریفنگ میں کہا گیا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ آپ سے ڈھکی چھپی نہیں بلکہ یہ انسانی المیہ گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں جاری ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی شخص جبری طور پر گمشدگی کا شکا ر ہو جاتا ہے۔ پہلے جبری طور پر گمشدہ افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جاتا تھا جس کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے لیکن اب اس میں فیک انکاؤنٹر کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ ہر دوسرے مہینے پانچ سے چھ لاپتہ افراد کو گولیاں مار کر جعلی مقابلے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ بلوچستان گزشتہ دو دہائیوں سے اس انسانی المیہ کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ بلوچ ماؤں اور بہنوں سے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک تاریخی لانگ مارچ ریکارڈ کی ہے اسی طرح ماما قدیر گزشتہ 15 سال سے پریس کلب کے سامنے کیمپ لگائے بیٹھے ہیں لیکن جبری گمشدگی کے سنگین مسئلے کو حل کرنے کے بدلے بلوچستان میں مزید افراد کو جبری طور پر لاپتہ کرکے انہیں احساس دلایا جا رہا ہے کہ وہ اس ملک کے شہری نہیں بلکہ ریاست کے کالونی کا حصہ ہیں۔
پریس بریفنگ میں کہا گیا کہ آج دنیا میں جہاں ریاستیں اپنے شہریوں کیلئے نت نئے جدید ترقی منصوبے بنا رہے ہیں اور انہیں آگے آنے اور بہترین زندگی گزارنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں ان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کر رہے ہیں وہیں بلوچستان میں ریاست لوگوں کو لاپتہ کرنے ، انہیں سالوں سال زندانوں میں رکھنے اور اغوا کرکے قتل و فیک انکاؤنٹر میں نشانہ بنارہی ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ بلوچوں کو اس ملک میں شہری تصور نہیں کیا جاتا اس لیے ان کے ساتھ تعصب رکھا جاتا ہے۔ پاکستان کے کسی بھی کونے میں اس طرح انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں نہیں ہو رہی جو بلوچستان میں ہو رہے ہیں جبکہ بلوچستان کو مکمل طور پر سیکورٹی حصار میں رکھا گیا ہے۔ صرف مخصوص افراد زندان میں قید نہیں بلکہ پورا بلوچستان ایک قید خانہ لگتا ہے جہاں سیکورٹی فورسز اور ان کے معاون بلوچستان میں جو چاہتے ہیں لوگوں کےساتھ کرتے ہیں۔ کبھی کسی کو لاپتہ کیا جاتا ہے تو دوسرے دن کسی دوسرے بلوچ کو دن دہاڑے قتل کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ تاہنوز شدت سے جاری ہے۔
مزید کہا گیا کہ آپ بلوچستان میں جاری اس انسانی المیے سے کسی نہ کسی طور پر واقف ہیں اور اس کا ادراک رکھتے ہیں اس لیے آپ کو چاہیے کہ آپ اس انسانی المیے پر آواز اٹھائیں، ذاکر مجید جنہیں گزشتہ 14 سالوں سے لاپتہ کرکے زندان میں قید و بند رکھا گیا ہے اور ذاکر جیسے ہزاروں بلوچ جو زندان میں بند ہیں ان کی آواز بن کر انسانی اور اپنی بنیادی زمہ داریاں پورا کریں۔ آپ کے صحافتی فرائض میں بنیادی زمہ داریوں میں انسانی حقوق کے معاملے کو کور دینا ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان کے المیے پر آپ حضرات کا کردار انتہائی محدود اور نا ہونے کے برابر ہے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ آپ بلوچ لاپتہ افراد کی آواز بنیں گے۔