کوئٹہ (ہمگام نیوز) لاپتہ بلوچ طالبعلم رہنماءذاکر مجید کی جبری گمشدگی کے حوالے سے کوئٹہ میں سیمینار اور کراچی پریس کلب کے باہر ایک روزہ احتجاجی کیمپ کا انعقاد کیا گیا ہے۔
مانیٹرنگ ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق لاپتہ بلوچ طالب علم رہنماءذاکر مجید کی رہائی کے حوالے سے کوئٹہ پریس کلب میں سیمینار میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں سمیت کثیر تعداد میں نوجوانوں و لاپتہ افراد کے فیمیلز نے شرکت کی۔ سیمینار میں لاپتہ ذاکر مجید کی والدہ نے بھی شرکت کی اور شرکا سے خطاب کیا۔
مقررین نے کہا کہ ذاکر مجید ایک طالب علم رہنماءاور بلوچستان میں سب سے زیادہ چاہنے والے رہنماؤں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ بطور ایک سیاسی ورکر بلوچستان کے کونے کونے میں جاکر عوام کو آگاہی دیتے اور ان کے حقوق اور ریاستی ناانصافیوں کے حوالے سے شعور پھیلاتے لیکن بدقسمتی سے انہیں گزشتہ 14 سال سے زندانوں کی نظر کر دیا گیا ہے اور غیر انسانی اذیتیں دی جارہی ہیں۔
انہوں مے کہا کہ ذاکر کے حوالے سے اب تک ریاستی ادارے خاموش ہیں۔ ذاکر کی والدہ اور بہن بانک فرزانہ گزشتہ 14 سال سے ذاکر کی رہائی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ریاستی ادارے ذاکر کے حوالے سے کسی بھی طرح کی معلومات فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔
سیمینار میں مقررین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگی جو کہ ایک غیر انسانی عمل ہے۔ عالمی و ملکی قانون میں کسی بھی شخص کو جبری طور پر لاپتہ کرنا انتہائی سنگین جرم ہے۔ لیکن شاید بلوچستان دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں قانون کے محافظ ہی قانون کو روند ڈالتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے پچھلے بیس سال میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا ، سینکڑوں مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں، ہزاروں نوجواں کئی سال سے زندانوں میں اذیتوں کا سامنا کررہے ہیں۔ جبری گمشدگیوں کا یہ ہولناک سلسلہ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے اور آج اس میں شدت دکھائی دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ طالبعلموں اور معصوم بلوچ نوجوانوں کو بغیر کسی جرم اغوا کرکے جبری گمشدگی کا شکار بنایا جارہا ہے۔ جبری گمشدگیوں کا یہ عمل نہ صرف جبری طور پر لاپتہ افراد تک محدود ہے بلکہ اس عمل سے پورا ایک خاندان اجتماعی اذیتوں کا نشانہ بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ہزاروں خاندان اس وقت اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ سینکڑوں مائیں سالہال سال سے اپنے بیٹوں کی بازیابی کیلئے سڑکوں پر دربدر آنسو بہا رہے ہیں۔ سیکڑوں گھرانوں کے واحد کفیل لاپتہ ہیں اور بلوچ خاندان شدید ذہنی و مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے جبری گمشدگیوں کو بطور سیاسی ڈھال استعمال کیا جارہا ہے۔ اس عمل سے پورے سماج میں ایک خوف کا سماں ہے۔ بولتی آوازوں کو اس غیر انسانی عمل کے ذریعے خاموش کیا جاتا ہے۔ اور پھر لاپتہ افراد کے خاندان کو کسی بھی طرح کی قانونی حق بھی نہیں دیا جاتا ہے۔
شرکاءنے کہا کہ ذاکر مجید سمیت سینکڑوں بلوچ طالبعلم پچھلے دس سال سے زائد جبری طور پر لاپتہ ہیں اور اذیتوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ذاکر مجید بلوچستان میں بلوچ طالبعلم راہنما ہونے کے ساتھ بلوچ قوم کیلئے ایک موثر آواز بھی تھے جسے خاموش کرنے کیلئے ریاستی اداروں نے ذاکر مجید کوپچھلے 14 سال سے جبری طور پر لاپتہ کرکے انہیں اذیتیں دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ذاکر مجید کے جبری گمشدگی کو 14 سال پورے ہوگئے ہیں۔ ذاکر مجید کی والدہ 14 سال سے اپنے لخت جگر کی بازیابی کیلئے پریشان ہے۔
8 جون کو ذاکر مجید کی جبری گمشدگی کے حوالے سے سیمینار میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور جبری گمشدگیوں کے اس غیر انسانی و غیر قانونی عمل کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
سیمینار سے ایڈووکیٹ عمران بلوچ، لاپتہ ذاکر مجید کی والدہ، ایڈوکیٹ شاہ زیب، پروفیسر لالا منیر، لاپتہ آصف کی بہن سائرہ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے خطاب کیا اور ذاکر مجید سمیت تمام لاپتہ بلوچ اسیران کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔