بچپن میں ایک بار شام کے وقت ایک دوست کے ساتھ گاوں کے میدان میں بیٹھ کر اس بات پر دونوں پریشانی کا اظہار کررہے تھے کہ یہ زندگی کتنی لمبی ہے، کیسے کٹے گی اتنی لمبی زندگی کاش کے یہ زندگی تھوڑی کم ہوجائے مگر آج قریب 8 سال گزرنے کے بعد احساس ہوا کہ میں غلط تھا، یہ زندگی تو بہت مختصر سی ہے، اتنی چھوٹی کہ مٹھی میں آکر سمٹ جائے، زندگی میں کرنے کو تو بہت کچھ ہے مگر وقت ہی نہیں، کیا پتا کسی موڑ پر زندگی نے فل اسٹاپ کا بورڑ لگایا ہو اور بلائنڈ ٹرن لیتے ہی آگے کا سائن دکھائی دے فل اسٹاپ اور بس ختم۔ کیا پتا اس پل تک کتنے کام باقی ہونگے کرنے کو جو باقی رہ گئے ہو۔
زندگی۔۔۔ کب کہاں کیسا موڑ لے کس کو معلوم؟ بچپن سے ایک ہی چیز میرے ذہن میں تواتر کے ساتھ ڈھونڈتی رہی کہ آخر خدا کی طرف سے عطا کردہ میرے اس زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ میں صرف پڑھ لکھ کر پہلے ایک نوکری ڈھونڈوں اور اس کے بعد ماں باپ بیوی بچوں و اپنے خاندان کی پیٹ کی خاطر ساری زندگی بسر کردوں، اتنا تو مجھے یقین تھا کہ خدا نے اس مقصد کیلئے تو مجھے پیدا نہیں کیا ہوگا۔ میں جو اس جہاں فانی میں آیا اور مجھے اپنے مقصد کے تلاش کی جستجو میں جو لگایا تو ضرور اس کے پیچھے کوئی اہم بات ہوگی، مگر میں کیسے معلوم کرلوں کہ میرے زندگی کا مقصد کیا ہے اس سوچ میں ہمیشہ ڈوبا رہتا ہوں مگر کچھ سمجھ نہ آیا۔
پر وقت، حالات اور زندگی نے ایک بار دھیرے سے میرے کان میں آکر کہا کہ تو پریشان نہ ہو ہم خود تمہیں تمہاری مقصد کی راہ دکھاتے رہیں گے بس تو ڈٹے رہنا، پہلے بھی ذکر کیا تھا زندگی کب کہاں کیسا موڑ لے کس کو معلوم؟ شاید کسی موڈ پر کوئی رہبر آپ کیلئے بیٹھا ہو مگر شرط ہے اس کا پہچان کرنا، اسی طرح میرا بھی ملاقات وقت، حالت اور زندگی نے ایک ایسے ہی شخص سے کرادی جس نے مجھے معض دو جملے بتاتے ہوے مجھے میرے مقصد کی طرف گامزن اور صحیح فیصلہ لینے کی راہ دکھائی 1: وقت سے پہلے فیصلہ لینے سے گریز کرنا، 2: زندگی ہر شخص کو اپنے مقصد کی طرف بڑھنے کیلئے موقع فراہم کرتی ہے بس علم ہو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی۔ بس انھی دو جملوں کو ذہن میں رکھے بڑھتا چلاگیا اور صبر کے ساتھ چلتے ہوے وقت نے ایک دن مجھے میری زندگی کی مقصد سے رو برو کرایا مگر اس راہ پر گامزن ہونے کیلئے شاید میں اس وقت تیار نہ تھا، سو گریز کیا وقت سے پہلے فیصلہ لینے سے جس کا وقتی طور پر تو پچھتاوا ہوا مگر آگے چل کر معلوم ہوا کہ اچھا ہوا اور وہیں ایک اور سبق سکھائی زندگی نے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے اسی میں تمہاری خیر ہے بس صبر کرتے جاو وقت تمام سوالوں کے جواب خود دے گا۔
وقت کا پیا گھومتا رہا اور وقت کے ساتھ بہت سی چیزوں کے بارے میں علم ہونے لگا جس کے سبب صحیح فیصلہ لینے میں مدد ملی جیسا کہ اپنی مقصد حیات سے تو زندگی نے مجھے پہلے رو برو کرادیا تھا اور وقت کے ساتھ احساس ہوا کہ اس کی طرف اب آگے بڑھا جائے اور انتظار کرنے لگا اس موقع کی جس سے مجھے فائدہ اٹھانا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی ہوگیا زندگی نے موقع عطا کیا اور میں نے بھی اس سے جا کر ہاتھ ملا لی اور نکل پڑا اس راہ پر جس کی بچپن سے مجھے تلاش تھا مقصد حیات کی جانب۔
آج کئی سال گزرنے کے بعد، شاید یہ سال میری زندگی کے سب سے دشوار ترین سال رہی ہو۔ اس دوران سفر مجھے ایسے فیصلے لینے پڑے جس میں عام طور پر کبھی بھی لینے کی ہمت نہیں رکھتا تھا، شدید سخت حالت میں گرتا ہوا لڑکھڑاتا ہوا مگر چلتا گیا ہمیشہ سے ذہن کے ایک کونے سے “تم کرسکتے ہو” کی گونج سنائی دیتی، شاید اس لیے کہ جو فیصلہ میں نے لیا تھا وہ وقت کے مطابق ہوش و حواس میں لیا تھا اور جس موقع سے میں نے فائدہ اٹھایا تھا اس کیلئے تیار تھا، جسمانی حوالے سے شاید نہ مگر ذہنی حوالے سے ضرور اور تمام دشواریوں و سخت حالت کے ساتھ سفر ابھی تک جاری ہے۔