فوجی اہداف کو کم ترین نقصان سے حاصل کیا جائے تو کامیاب حملہ تصور کیا جاتا ہے اور اگر فوجی اہداف کو بغیر کسی نقصان سے حاصل کی جائے تو اسے کامیاب ترین سٹریجی کہا جاتا ہے ۔جی ہاں بات بی ایل اے کی اکتیس جنوری کو قلات اور منگچر میں کئے گئے فوجی آپریشن کی ہورہی ہے جہاں بلوچ لبریشن آرمی کے جانبازوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کو للکارا تھا۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، قلات میں بینک کو نظر آتش کیا گیا، اور منگچر میں فوجی چھائونی کو نشانہ بنایا اور بلوچ قومی شاہراہوں کو نو گھنٹے تک اپنے کنٹرول میں رکھ کر ہر طرح کی ٹریفک آمد و رفت کے لئے سیل کردیا گیا۔ بلوچ عوام کو ذرا برابر بھی نقصان نہیں پہنچایا گیا نہ ہی دوسرے اقوام کے لوگوں اور مسافروں کو گزند پہنچایاگیا۔

بی ایل اے کی زیر زمین قیادت اور ان کی گوریلا جنگی حربوں نے نہ صرف پاکستان اور چین میں کھلبلی مچارکھی ہے بلکہ ایران حسب روایت بلوچ قومی شعوری بیداری اور بلوچ مسلح جدوجہد کی پیش قدمیوں سے کافی حواس باختگی کا شکار نظر آتی ہے۔

بلا شبہ موجودہ بلوچ تحریک آزادی ماضی کے جدوجہد آزادی کی پانچواں مرحلہ ہے جو سویت یونین کے انہدام کے بعد سے جاری و ساری ہے۔ سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بلوچ عوام اور پاکستانی مقتدرہ کا خیال تھا بلوچ اب دوبارہ اٹھ کھڑا نہیں ہوسکتا۔ نواب مری نے بی بی سی اردو کے وسعت اللہ خان کے ساتھ ایک انٹرویو میں بلوچستان کے ہمسایہ ممالک کی طرف سے بلوچ تحریک آزادی کو نظر انداز کئے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بلوچ جہد کو باکسنگ کے اس کھلاڑی سے مشابہ قراردیا تھا کہ جو کھیل کے دوران زخمی ہوتا ہے لیکن ان کی مرہم پٹی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے زخموں کو بھرنے میں وقت لگتا ہے۔

نواب مری نے اور ان کے نظریاتی دوستوں نے جنگ آزادی کے اس چنگاری کو بجھانے نہیں دیا ، زیر زمین سٹڈی سرکلز میں بلوچ عوام کے سنجیدہ حلقوں کی صف بندی جاری رہی۔ قابض پاکستانی فوج کی درندگی کا مقابلہ کرنے کے لئے بلوچ مسلح تحریک سے جڑے جہد کاروں نے دن رات ایک کرکے پیٹ پر پتھر باند کر اس شمع کو بلوچستان کے گھر گھر تک پہنچایا۔ بلوچ اپنی سماجی ڈھانچے اور محل وقوع کے اعتبار سے پیدائشی جنگی گوریلا کے مہارت رکھتی ہے کیونکہ ہم قوم شادی اور دیگر موقعوں پر نشان بازی جیسے مشغلوں کی وجہ سے پاکستان کے تربیت یافتہ فوجیوں سے اچھی نشانہ باز کی گر سیکھتے ہیں۔

لہٰذا ایک بلوچ سرمچار کو جنگی تربیت حاصل کرنے میں کبھی بھی مشکل پیش نہیں آتا۔ بلوچ جہد کار نظریاتی طور پر ہمیشہ لیس ہوتے ہیں لیکن ہر ادوار میں انہیں جنگی ساز و سامان کی کمی کا سامنا رہتا ہے، جنگ میں سست روی صرف جنگی ساز و سامان اور وسائل کی کمی کی وجہ سے آتی رہی ہے ورنہ بلوچ مسلح لیڈرشپ جنگ کو روکنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے۔

چند سال کی مشقت کے بعد بلوچ مسلح تحریک کی جنگی کارروائیوں کا آغاز خضدار، گوادر، قلات، کوہلو سے بی ایل اے کے پلیٹ فارم سے ہوجاتا ہے۔ موجودہ بلوچ تحریک جس لیڈرشپ نے شروع کیا تھا آج بھی وہی لیڈرشپ اس کی رہنمائی کررہا ہے لیکن بد قسمتی سے یہ دیکھنے کو ملا کہ کچھ قوتوں نے قصداً بلوچ تحریک اور سماج کو تقسیم کرنے کے لئے مڈل کلاس اور اپر کلاس کی غیر ضروری اصطلاح دریافت کرکے بلوچ نوجوانوں کے اندر تفرقہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے کیونکہ موجودہ تحریک کا آغاز بابا مری، سنگت حیربیار اور ان کے نظریاتی دوستوں نے تمام بلوچ مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والوں کو ساتھ مل کر کیا تھا۔ اس بار کسی ضد، انا کا عنصر ہم نے نہیں دیکھا۔ شہید نواب بگٹی، نواب مری ، سنگت حیربیار ، براہمدغ، شہید بالاچ ، شہید غلام محمد کے مابین ایسی قابل تعریف ورکنگ ریلیشن وجود میں آئی جنہوں نے اس جنگ کو کوہلو، کاہان، ڈیرہ بگٹی سے نکال کر پورے بلوچستان میں پھیلا دیا۔

ہر تحریک میں کوتاہیاں کمزوریاں وجود رکھتی ہیں لہٰذا بلوچ تحریک میں بھی ذاتی ، گروہی سیاست اور شوق لیڈری کی امراض سر اٹھانے لگے جو بعد میں بلوچ تنظیموں کے متعدد بار دولخت ہونے کے باعث بنے لیکن بلوچ لبریشن آرمی کی قیادت نے گوریلا جنگی اصولوں کی سختی سے پابندی کرتے ہوئے زیر زمین رہ کر اپنی تنظیمی ڈھانچہ ، افرادی قوت، اسلحہ کی نوعیت جیسے حساس معلومات کو دشمن کی پہنچ سے اوجھل رکھا ہے ۔

گوریلا جنگی مہارت ہی پاکستان جیسے شیطانی قوت کو شکست دے سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اکتیس جنوری دو ہزار پچیس کو قلات اور منگچر میں بلوچ لبریشن آرمی نے پاکستانی قابض دشمن کے خلاف بڑے پیمانے کا کامیاب آپریشن انجام دے کر، چین ، پاکستان اور ایران کے ایوانوں میں کہرام مچا دیا تھا۔

بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان آزاد بلوچ نے ذرائع ابلاغ میں جاری اپنے آفیشل بیان میں کہا ’’قلات مسلح آپریشن میں 9 گھنٹے تک علاقے کا کنٹرول سنبھالا، بغیر کسی نقصان کے دشمن کے 25 اہلکار ہلاک، متعدد زخمی اورسرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔‘‘ انہوں نے قابض پاکستان کے آئی ایس پی آر کے بارا بلوچ فریڈم فائٹرز کو شہید کئے جانے کی خبر کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا تھا۔

بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان آزاد بلوچ نے اپنی اس کامیاب گوریلا آپریشن کی تفصیلات سے بلوچ عوام کو آگاہ کرتے ہوئے کہا ’’ جنوری کی شب 8 بجے بی ایل اے کے سو سے زائد سرمچاروں نے قلات کے مختلف علاقوں میں مسلح آپریشن کا آغاز کیا۔ یہ آپریشن بی ایل اے کے ‘Stay, Hit and Run’ گوریلہ حکمت عملی کے تحت کیا گیا، جس کا مقصد دشمن کی رِٹ کو توڑنا، علاقے اور حتہ کہ دشمن کے کیمپوں پر عارضی کنٹرول حاصل کرنا، دشمن کو جانی، مالی و نفسیاتی شکست دے کر بغیر یا کم سے کم نقصان پر نکل جانا ہے۔ آپریشن صبح ساڑھے چار بجے تک جاری رہا جس میں بی ایل اے نے تمام اہداف کامیابی سے حاصل کیے اور تمام سرمچار بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہوئے۔‘‘

انتقام کا لاوہ

بلوچ گوریلا کمانڈر سبزل مری نے ہوش سنبھالتے ہی بلوچستان کی آزادی کو اپنی زندگی کا بنیادی مشن بنادیا تھا، وہ کوہستان مری سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں جنرل یحییٰ ، جنرل ایوب خان، بھٹو دور سے لیکر اپنی آخری سانس تک بلوچستان کی گوریلا جنگ کا صف اول کا کمانڈر تھا۔

ان کی بہادری کے قصے بلوچستان میں ہر زبان زدعام میں تھے ، ان کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ فوجیوں کے مورچوں کے اندر گھس کر انہیں مارتاتھا ۔سبزل کے بارے میں مشہور تھا انہوں نے پنجابی قابض فوجیوں کا خون بھی پیا تھا۔

لوگوں کے کمانڈر سبزل مری کے بارے میں مشہور اس بیانیہ کی تصدیق کے لئے ایک دن میں نے سبزل سے پوچھا کیا واقعی آپ نے پاکستانی فوجیوں کا خون پیا ہے؟

انہوں نے کہا بالکل درست ہے، ہم ایک محاذ پر تھے، کوہستان مری میں ہم نے گھات لگا کر پاکستانی فوج پر حملہ کردیا تھا، گھمسان کی لڑائی میں ہم تیزی کے ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے جارہے تھے۔ میں نے دیکھا ایک فوجی ہمارے دوستوں پر تواتر سے گولی چلائے جارہا تھا، مجھ سمیت ہر بلوچ سرمچار کے دلوں میں اپنی بے گناہ اور نہتے عوام کی قتل عام کی انتقام کی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے اور آگے سے اس فوجی پر مجھے حد سے زیادہ غصہ آرہا تھا، میں گولیوں کی بوچھاڑ کے بیچ میں پیش قدمی کرتے ہوئے اس فوجی کو کلوز رینج میں گولی ماری اور ان کے بدن سے پانی کی دھار سے خون بہنے لگا اور میں نے اپنا ہاتھ کا چلو آگے بڑھاکر دو چلو بھر خون پی لیا تھا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، اس سے قبل بھی بہت سی کہانیاں ہیں جب زندگی رہی تو سنائیں گے۔

بلوچ قوم کے اوپر پاکستانی قابض افواج نے اتنے ظلم کیے ہیں کہ ہر بلوچ فرزند آج سبزل مری کی طرح دشمن کے خون کا پیاسہ ہے اور اس نفرت کی بیج کو کسی بلوچ نے بویا نہیں ہے بلکہ پاکستان نے خود اس نفرت کا آغاز کیا تھا ۔آزاد اور خود مختار بلوچستان پر اپنی ناپاک فوج بھیج کر جس نے چہتر سالوں میں صرف خون کا بازار گرم کررکھا ہے اب بلوچ کے لئے اپنی قومی آزادی حاصل کرنے کے لئے مزاحمت کے سوا اور کوئی چارا باقی نہیں رہا ہے۔

بی ایل اے ایک طوفان ہے آزاد بلوچ اس کی آواز، بی ایل اے کی قلات حملے نے اسلام آباد اور تہران میں زلزلہ مچادیا ہے، بلوچ قوم کو ایسے بہادر جوانوں کو اور بھی مضبوط کرلینا چاہیے جن کی ایک کارروائی سے تین بڑی طاقتیں جو بلوچ ساحل و وسال کو ہڑپ کرنے کے لئے یکجا ہوئے ہیں ان کی دہلیز کو لرزانے کے لئے کسی بھی کمپرومائز اور جھکے بغیر آزاد کی تحریک کو خود مختار اور بلا کسی مداخلت کے درست سمت میں آگے بڑھانے کی اہلیت اور قابلیت رکھتا ہو۔

پانچ کروڑ بلوچوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بھکاری پاکستان اور بزدل و شیطان فسادی پاکستانی فوج کی غلامی برداشت نہیں کرسکتے۔

نوشتہ دیوار پڑھنے کا وقت پاکستانی فوج کے پالیسیوں کو تحفظ دینے والے مذہبی شدت پسند گروہ پاکستان جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے گذشتہ چنوں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے ایک اہم پریس کانفرنس میں پہلی بات سچ اگل دیا جس میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان اگر آج اپنی آزادی کااعلان کردے تو حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ بلوچستان کے عوام پوری طرح آزادی کے حق میں ہیں۔

بلوچ عوام نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پاکستانی فوج کی تشدد کے خلاف اپنی ننگ و ناموس کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔بلوچ پاکستان کا حصہ نہیں تو پھر اس کی آئین کیا حیثیت رکھتا ہے۔آئین کو تمھارے اپنے جنرل مشرف نے کہا تھا کہ یہ کچھ صفحوں پر مبنی ایک کتاب ہے جب میں چاہوں پھاڑ سکتا ہوں۔تمھاری فوج کونسی آئین اور قانون کے تحت چالیس ہزار بلوچوں کو عقوبت خانوں میں تشدد کرکے شہید کررہی ہے؟ جب تمھاری پیدا کردہ مجاہدین روس جیسے سپر پاور اور امریکہ کو شکست دے سکتے ہیں تو پھر بلوچ اپنی قومی طاقت سے تمھاری ڈرپوک، بزدل اور تنخوا دار پنجابی فوج کو کیوں شکست نہیں دے سکتے؟ اب بلوچ، پشتون نوجوان جو فوج اور دیگر اداروں میں ہیں وہ پاکستان کے لئے لڑنے کو تیار نہیں ہیں اور فوج کے اندر، پشتون و بلوچ بغاوت پاکستان کو شکست دے گی۔

یاد رکھنا برطانوی سامراج بھی ایسے ہی ٹوٹا تھا جب انگریز فوج میں ہندوستانیوں نے بغاوت کی تھی اور انگریز کے لئے لڑنے سے انکار کیا تھا۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کو اس لئے شکست ہوئی تھی کیونکہ فوج میں بھرتی بنگالیوں نے بغاوت کیا تھا۔

بلوچستان کے عوام تو شروع سے ہی اپنی قومی آزادی کے لئے جنگ میں مصروف ہیں اور الحمد اللہ بلوچ سرمچاروں کو بلوچ عوام کی ننانوے فیصد حمایت حاصل ہے کیونکہ وہ ایک خوشحال اور آزاد بلوچستان کے لئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ ایک تیر سے کئی شکار بی ایل اے آزاد کی زیر زمین قیادت جنگی شطرنج کا عالمی مہارت کے حامل ہے ۔انہوں نے گوریلا جنگی تجربے سے دشمن کے پچیس کے قریب اہلکار مارگرائے اور سرمچاروں کو اپنی کامیاب حکمت عملی سے بحفاظت نکالنے میں بھی کامیاب رہے۔ جب ایک سرمچار کامیاب حملہ کرکے واپس اپنے کیمپ اور اپنے عوام کے اندر سرخروح ہوکر جاتے ہیں تو ان کو سوسائٹی، دوست و احباب کی طرف سے غیرمعمولی حوصلہ ملتا ہے جو اسے اگلے کارروائی کے لئے مصمم ارادہ فراہم کرتے ہیں۔ سنجیدہ قیادت اپنے جوانوں کی زندگیوں کی قدر کرتا ہے اور انہیں دیر تک لڑانے کا ہنر جانتا ہے ،یہی وجہ ہے بی ایل اے کی قلات اور منگچر آپریشن سے حواس باختہ ہیں۔

بی ایل اے کے حالیہ کارروائی کی تپش بیجنگ اور تہران تک بھی محسوس کی گئی۔ دشمن قوتوں کا خیال ہے کہ اگر بی ایل اے آزاد یونہی اپنی فوجی صلاحیت کو بڑھانے میں کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو یہ ایران کے لئے بھی تشویش کا باعث ہوگی کیونکہ بی ایل اے کی دور اندیش قیادت اب پاکستان کے زیر تسلط علاقے سے نکل کر ایران کے زیر قبضہ بلوچستان کے عوام کو بھی اپنی طرف مائل کرسکتا ہے جو اپنی بکھری ہوئی طاقت کو سمیٹنے میں کامیاب ہونے میں صرف میں آزاد بلوچستان کے دیرینہ خواب کو عوامی طاقت سے شرمندہ تعبیر بنا سکتے ہیں۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری پانچ روزہ دورے پر چین روانہ ہوگئے ہیں جہاں ممکنہ طور پر چین ان کی کلاس لینے والی ہے اور مقبوضہ بلوچستان میں فوج کی پے درپے ناکامیوں پر بیجنگ اپنا احتجاج اور تشویش ظاہرکرنے جارہا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ چین پاکستان کی دوغلی پالیسی سے کافی نالاں نظر آرہا ہے اور ہوسکتا ہے کہ آنے والے کچھ وقتوں میں چین اور پاکستان کے مابین باضابطہ طور پر طلاق کے کاغذات پر دستخط کرنے کی باتیں بھی گردش کرنے لگیں۔ اب تک پاکستان نے چین کو مکمل اندھیرے میں رکھا ہوا تھا کہ بلوچستان میں سب کچھ ٹھیک ہے لیکن جیسے جیسے بلوچ جنگ آزادی کی تپش بڑھتی جارہی ہے چین کے لئے پاکستان پر بھروسہ کرنا مشکل ہوگا۔ اس صورت میں بلوچ آزادی پسند سیاسی جماعتوں کے لیڈرشپ کے لئے ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ذرائع ابلاغ میں چین کو مخاطب کرتے ہوئے مضامین اور رپورٹس بیجنگ کے مقتدر قوتوں تک پہنچائے تاکہ پاکستان جیسی مصنوعی ریاست کے کرپٹ ترین فوج کو مزید لوٹ کھسوٹ کا موقع نہ مل پائے۔ عالمی دنیا کے لئے بلوچستان کے حقیقی وارثوں کے ساتھ بات چیت کا آغاز ہی خطے کو درپیش مسائل کا واحد حل ہے۔