سچی بات یہ ہے کہ سارے یوٹوپیائی سوشلسٹ لوگ سادہ انسان تھے۔ اپنی سادگی میں جےے، دکھ درد برداشت کےے اور سادگی کے ہاتھوں مارے گئے ۔ مگر سینٹ سائمن تو ایک اور وجہ سے ” سادہ“ تھا۔ بعد میں بتاﺅں گا۔ سینٹ سائمن کا پورا نام کلاڈزے ہنری سینٹ سائمن تھا ۔ وہ 1760 میں پیرس میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ پولینڈ کے بادشاہ کے گارڈ کا سربراہ تھا۔ یہ توبہت بڑا عہدہ تھا۔ ظاہر ہے کہ اس بچے کی تربیت مشہور عالموں نے کرنی تھی۔ لہٰذاوہ نواب کے آسائشی محل میں پل بڑھ رہا تھا ۔ مگر‘تین عناصرنے اس ننھے نواب کو نظام کا باغی بنا ڈالا۔ * اس کے استاد (جین ڈی الیمبرٹ )نے ،جو کہ مشہور انسائیکلو پیڈسٹ اور سکالر تھا ۔ * روشن خیالی کے نمائندوں کی تصانیف سے آشنائی نے ۔ اور * آزادانہ غور و فکر کرنے کے جذبے نے۔ چنانچہ تیرہ برس کی عمر میں اس نے چرچ سے ہر طرح کی وابستگی سے انکار کردیا ۔ باپ تلملا اٹھا، لہٰذا اُس نے بیٹے کواصلاح کےلئے ایک قلعے میںبند کردیا۔نوجوان نے رہائی کی کوششوں میں بالآخر جیلر کو چاقو سے زخمی کردیا اور چابیاں چھین کر رہا ہوگیا۔ سترہ برس کی عمر میں وہ فوج میں بھرتی ہوا ، ایک جونیئر افسر کی حیثیت سے ۔ دو سال بعد وہ رضا کار کے بطور امریکہ گیا اور واشنگٹن کے جھنڈے تلے امریکہ کی جنگِ آزادی میںحصہ لیا۔ اور جب امریکہ آزاد ہوا تو آزاد شدہ ریاستہائے متحدہ امریکہ نے اُسے بہادری کا ایک تمغہ دیا۔ مگر واپسی پر انگریزوں نے جنگِ آزادی کے اِس مجاہد کو گرفتار کیا اور جمیکا بھیج دیا۔ وہ 1784 میںواپس فرانس لوٹا جہاں اسے رجمنٹ کمانڈر بنا دیا گیا۔ سینٹ سائمن امریکی انقلاب میں سے گزر کر آیا تھا۔ وہ اس زمانے کی روشن خیال تحریک ” انسائیکلو پیڈسٹ“ کے زیر اثر تھا۔ اس نے فرانس میں1789 کے واقعات کا زبردست خیر مقدم کیا ۔ وہ رضا کارا نہ طور پر اپنے اعزاز سے دستبردار ہوگیا اور اپنا نام ” سادہ آدمی“ رکھ لیا۔ یہ انتخاب سادہ نہ تھا۔ اصل میں فرانسیسی کسان کو ” سادہ آدمی“ کہا جاتا تھا۔ سینٹ سائمن نے یہ نام اختیار کرکے انقلاب ِ فرانس کے اصل اسباب پہ زور دینا چاہا۔ وہ دو سا ل تک دیہات میں کسانوں کے درمیان رہا۔ مگر انقلابِ فرانس( بعد کے بے شمار انقلابوں کی طرح) اس کی سوچ اور اس کی مرضی کے مطابق نہ چلا بلکہ بڑی بورژوازی کو اقتدار دے کر انقلاب ِ فرانس چپ ہوکر ایک طرف بیٹھ گیا۔ لیکن سینٹ سائمن تو خاموش نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے وہ خاموش نہ ہوا۔ اس نے توکسان حتمی انقلاب کی تمنا کی تھی۔چنانچہ اس نے 1791 میں شاہ پرستوں اور گرجا کی زمین خریدنی شروع کردی۔اس نے اُس زمین کے چھوٹے چھوٹے پلاٹ بنائے اور ضرورت مند کسانوںکو فروخت کرنا شروع کردیا۔( اُس زمانے میں یہی کچھ سوچا جاسکتا تھا)۔ اُسے اچھا خاصا پیسہ ہاتھ آیا، کاروبار خوب چل رہا تھا۔ اس کاروبار میں ایک ہسپانوی واقف کار بیرن ریڈرن شریک تھا۔ مگر جیکوبن آمریت نے اس لکھ پتی کو لگزمبرگ جیل کے تہہ خانے میں پٹخ دیا۔ اس کا تو سرقلم کیا جاتا اگر ” تھریڈور“ انقلاب دشمن ابھارنہ ہوتا۔ اس نے ایک سال جیل کاٹی۔ باہر نکلا تو پھر وہی کاروبار شروع کیا۔ جولائی1796 میں سیٹ سائمن اور ریڈرن کا مشترکہ سرمایہ نصف کروڑ فرانک تک پہنچ گیا تھا۔ اس کا شریک بہت چالاک تھا ۔ وہ گرفتار ہونے سے بچ گیا تھا اور بیرون ملک بھاگ گیا تھا ۔ پیرس واپس آکر اس نے ساری دولت پر دعویٰ کردیا اور ہمارے ” سادہ آدمی“ کے پاس محض ڈیڑھ لاکھ فرانک رہ گئے۔ یہ اس کے لےے دوسرا بڑا دھچکا تھا۔ پہلا دھچکا تو انقلاب فرانس کے مایوس کن نتائج تھے جس نے ایک طرح کی لوٹ مارکی جگہ دوسری قسم کا استحصال جاری کردیا تھا۔ سینٹ سائمن کو اندازہ ہوگیا کہ اُس کے پرانے طریقوں سے عالمی ہم آہنگی کا حصول نا ممکن ہے۔ اس نے سب کچھ چھوڑ کر انسانی سماجی سائنس کی تحقیق کرنے کی ٹھان لی۔ اس نے کئی سال یورپ کے سفر پر لگادےے جہاں وہ مشہور سائنس دانوںکے لیکچر سنتارہا، مسلسل مطالعہ کرتا رہااور تجربات کرتارہا۔1803 میں اس کی پہلی کتاب ” اپنے ہم عصروںکے نام جنیوا کے ایک باسی کے خطوط“ چھپی۔ اس میں بھی وہ سماج کی از سر نو تشکیل کرنا چاہتا تھا اورظاہر ہے کہ یو ٹو پیائی طرز پر ایسا کرنا چاہتا تھا۔انہی خطوط میں تو اس کا بہترین فقرہ چھپا ہے:”سارے انسانوں کو کام کرنا چاہیے“۔ 1805 میں اس کا سارا پیسہ ختم ہوچکا تھا۔ وہ ایک نواب کے پاس یہ درخواست لے کر پہنچا کہ اُسے کوئی ملازمت دی جائے۔ اس نواب نے اسے پیرس کی ایک دکان میں منشی لگوادیا ۔ جہاں وہ دن میں نو گھنٹے کام کرتا تھا۔اس دوران وہ اپنا سائنسی کام بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔ اس کے سابقہ نوکر ڈایا رڈ نے اپنے خرچے پر اُس کی دوسری کتاب” انیسویں صدی کے سائنسی کارناموں کا تعارف“ چھپوادی۔ ایسا1808 میں ہوا۔ ڈایارڈ جلد ہی مر گیا اور سینٹ سائمن پھر غریب ہوگیا ۔ سوکھی روٹی کے لئے بھی ،اسے اپنے گھر کی چیزیں تک بیچنی پڑیں۔ وہ تنگدستی میں مزید جذبے کے ساتھ کام کرتا ۔ اوراس نے بہت ہی سنجیدہ تصانیف تخلیق کیں۔ مثلاً ”عالمی کشمکش پر تحقیق“ اور ”انسانی سائنس پر ایک مضمون“ ۔اس کے علاوہL,Industrie اور Organisate نامی دو اور کتابیں بھی لکھیں۔1821 میں اس نے ” صنعتی نظام پر ایک مضمون“ نام کی ایک کتاب لکھی۔ وہ فرانسیسی انقلاب ، اس کے اسباب اور نتائج کو موضوع بناتا رہا۔ وہ بحران کے اصل اسباب پر بات کرتا ہے اور انقلابِ فرانس کی اصل منزل (سوشلزم) کی بجائے ایک اور افسوس ناک حالت تک پہنچنے کی وجوہات بیان کرتاہے ۔ وہ اس انقلاب کو اس حالت سے نکالنے کے اقدامات پر بھی غور کرتا ہے۔ ” بادشاہ کو خطاب“ میں سائمن نے اخلاقی اور سیاسی خرابیوں کی تشریح یوں کی کہ پرانا نظام تباہ ہوگیا، نیا آیا نہیں۔ حل یہ ہے کہ بڑی تیزی اور توانائی سے نئے نظام کی تنظیم کی جائے۔ اس نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ وہ اشرافیہ کو ختم کرے، اورصنعت کاروںکو سیاسی امور میں حصہ دار بنائے۔( بادشاہ کو مشورہ ؟۔ یار یہ کیا بیماری ہے جو اس قدر ڈھیٹ اور دیر پارہتی ہے ۔ اٹھارویں صدی میں بھی یہ بیماری موجود تھی اور عام آدمی میں نہیں، سینٹ سائمن جیسے پاک انسان میں۔ اور اکیسویں صدی میں بھی جہاں بلوچستان میں انقلابی لوگ سردار کو مشورے دے رہے ہوتے ہیں، پیپلز پارٹی کے انقلابی آصف زرداری کو، اور ”ن“ کے انقلابی نواز شریف کو انقلاب لانے کے مشورے دے رہے ہوتے ہیں…….. بڑی ڈھٹائی کے ساتھ۔دانشوروں کی لیڈروں کو مشورہ گیری مردہ باد !!)۔ ” عوام دوستوں کو خطاب“ میں اس نے اعلان کیا کہ تعلیمی ترقی سے پیدا شدہ بحران کا ایک ہی حل ہے: ملٹری، پیر اور اشرافیہ سے سیاسی اقتدار چھین لیا جائے۔ اس کی کتاب ” صنعت کاروں کے سوال جواب کی کتاب“1823 میں منظر عام پر آئی اور ” ادبی فلسفیانہ اور صنعتی رسالے“ 1825 میں شائع ہوئی۔ سینٹ سائمن مستقبل کے صنعتی سماج میں مسیحیت کے صرف انسان دوست عناصر باقی رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے یہ سائنسی راز دریافت کرلیا کہ ہر نیا عہد پچھلے عہد سے ترقی پسند ہوتا ہے ۔ اور ایک مقررہ مدت کے بعد ایک اور عہد کے لئے جگہ خالی کردیتا ہے جو اس عہد سے زیادہ ترقی پسند ہوگا ۔ وہ یہ ساری دریافتیں اپنی کتاب” نئی مسیحیت“ میںکرتا ہے۔ وہ ایک ایسے سماج کا حامی ہے جو لوگوں کی بڑی اکثریت کو خیر پہنچائے۔ وہ سماج ہی کو علم کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔البتہ وہ اپنے نئے ”صنعتی سماج“ میں نجی ملکیت کو ختم نہیںکرتا۔ وہ سرمایہ داروں سے نصیحتیں کرتا رہتا ہے کہ غریبوں سے ہمدردی کریں۔ وہ تبلیغ توکرتا تھا طبقاتی جدوجہد نہیںکرتا تھا۔ اُس کے نام پہ ایک سوشلسٹ نظام کا نام پڑ گیا: سینٹ سائمنز م۔ اس نظام کی خاص باتیں یہ تھیں: ساری جائیداد ریاست کی ہو۔ جس کی انتظام کاری صنعتی مالکوں اور سائنس دانوں کے ہاتھ ہو۔ مارکس او راینگلز نے ” جرمن آئیڈیالوجی“ میںایک بڑا حصہ سینٹ سائمن اور اس کے پیروکاروں کے لئے وقف کردیا۔ لینن نے بھی اس عظیم یو ٹو پیائی سوشلسٹ کی خدمات کو سراہا۔ ” مستقبل ہمارا ہے“ کا نعرہ سینٹ سائمن نے ایجاد کیا تھا۔