سلسلہ وار مضمون

گذشتہ سے پیوستہ (دوسری قسط)

بہر حال جو بھی وجوہات ہوں اس “تصورِ بےجھنڈائیت” کے شانِ نزول کی، ہمیں کم از کم اتنا علم ضرور ہے کہ 70 کے الیکشن میں عوامی پی پی پی کی حمایتی تھی اور زون نےNAP کیلئے کام کیا تھا۔ دونوں میں سے ایک نے اس کار خیر کو بائیں بازو کی فرض شناسی مانی تھی تو دوسری نے بابائے بلوچستان کی عزت۔ کمال تو یہ ہوا کہ عزت کا پلڑا اتنا بھاری ہوا کہ زون کے ایک بزرگ رکن قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

ان دونوں گروہوں کی ڈکشنری میں زیر نگر ہونے کا مطلب کیا تھا۔اس کا شاید ہی آج تک کسی کو علم ہو۔ پر جب بھی ذیلی تنظیموں کو منہ کی کھانی پڑتی تب یہ پلٹ کے ہر دفعہ یہ راگ آلاپتے کہ ہمیں یا تنظیم کو استعمال کیا گیا تھا۔ عموماً تنظیم کو استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ انکے ہاں بس یہی گمان ہے کہ انہیں مذکورہ سیاسی تنظیم اور تنظیم کار کی مقصد و غایت سے قطعاً کوئی آشنائی نہیں ہے یا یہ کچھ اسی نوعیت کے حقائق کو ان کا مخفی رکھنے کا ایک حربہ ہے۔ پہلے ہم موخرالذکر کے بارے میں بیان کریں گے بعد ازاں اولوالذکر کے متعلق۔

تاریخ یا ماضی کی یادداشتوں کی جتنی بھی کوئی اہمیت گنوائے، وہ الگ سا معاملہ ہے، پر بلوچستان کے اس پاکستانی نوآبادیاتی تاریخ اور ماضی کا حال کچھ اور وجوہات کو لے کر اہم ہے اور وہ تاریخی خاموشی ہے۔ خاموشی اس کے لکھے ہوئے تواریخ کے بطن میں سمائی ہوئی ہے۔ جب جان محمد دشتی منصف تاریخ لکھنے بیٹھتے ہیں تو انہیں اپنے حواریوں اور اپنے آپ سمیت سب کے حوالے سے چپی رکھنی ہوتی ہے۔ انور ساجدی جب تاریخ کی تاریک راتیں گنواتے ہیں تو وہ اس متعلق خاموش رہتے ہیں کہ ان کے ایک موجد وہ خود بھی تھے۔ حمید جب تاریخ نویسی کرتے ہیں تو انہیں یوسف عزیز گچکی جیسے اور دوسرے علاقائی دوغلا نیم-سرداریت پرست ڈھونگیوں اور محترم غنڈوں کی بدکلامیوں سے بچنے کی خاطر کچھ مقام پہ خاموش رہنا پڑ جاتا ہے۔ جب ڈاکٹر مالک بی ایس او پہ قلم اٹھا تھا تو اس پہ اٹھائے گئے سوالات کے جوابات دینے میں انکی قلم کی روشنائی مدھم پڑ جاتی ہے۔ اور کل سیاسی کارکن اپنے خلق کردہ ہیروؤں کو بچانے کی خاطر تاریخ کے کئی ابواب بندوق کی نوک پہ مٹوا دیتے ہیں۔ بلوچ تاریخ نویسی میں یہ خاموشی ایک کلیدی کردار رکھتی ہے جو انہیں شاید سامراج سے ہی ملی ہے۔

یعنی اگر تفصیلاً بتایا جاتا کہ بات پارلیمان سے باقاعدہ پہاڑوں تک پہنچی کیسے؟ 73 میں ،جب کہ وہ تمام پارٹی اور لیڈران نظریاتی حوالے سے قومیت پہ ایسے فریفتہ تھے نہیں، جیسے اب ہیں۔ کب کہاں اور کس سے رازق، جالب اور جتک نے ساز باز کیے تھے، ان سے ان کے کیا تعلقات تھے، ان کی سازوں اور بازوں میں افغان مہاجر بلوچوں کا کیا کردار تھا، ان میں سے آج تک کسی نے کھل کے تفصیلاً کچھ کہا کیوں نہیں، کہ ان دس سالوں میں جو ان کے نام لیوا بلوچستان کے گلی کوچوں میں ایک دوسرے کے اعضاجات پہ حملہ آور تھے، اس کے پیچھے وہ کیا رویے تھے جو کارگر تھے، کیوں اختر جیالوں نے جب جالب کو آڑے ہاتھوں لیا تھا وہ پہاڑی مخلوق جن پہ یہ تمام الزامات تھے بغیر کچھ کہے اپنی ایک رہبرانہ ذمہ داری سے سبک دوش ہوگئے۔ ڈاکٹر مالک جیسوں کا ان حوالوں سے کیا کردار تھا، حئی، جان محمد دشتی، ابولحسن، لونگ ان سب کی تفصیلات کیا تھیں۔ اور ایسے کئی اوراق اور سوالات ہیں جنہیں پوچھنے پہ اتنی ہی ممانعت ہے کہ جتنی نیم عالم منافق علماؤں سے ایمانیات پہ سوال کرنا۔ اور ان کے جوابات ایسے ہیں شاید موجودہ نظریاتی بنیادیں ان حجابات کے ہٹنے سے یکسر زمین بوس ہوجائیں۔

تو چونکہ بہت سوں کے رویے اور تعلقات اب بھی انہی اشخاص اور اداروں کے ساتھ ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے۔ پر کم از کم اس بات کا تو علم ہو، کہ سرکاری کارندہ کہور خان، امیر بخش، بدل خان، یاسین وغیرہ جو بعد کے قائد بنے، انہوں نے کتنا کس کو کیسے زک پہنچایا، تو ان کو قومی کٹہرے پہ کھڑا کیا جائے، کہ بھائی جان آپ کی ماضی سیاہ ترین ہے اگر آپ نے کچھ بہتر لوگوں کے لیےکرنا ہے، تو سب سے پہلے معافی مانگیں، کہ آپ کو کسی نے ورغلایا نہیں بلکہ آپ ہی ان سب کے ذمہ دار ہیں۔

پر یہ خاموشی انہیں اپنے حواریوں کی نظروں میں بچائے رکھتی ہے، چونکہ یہ آج نیک باتیں کر رہے ہیں تو کل بھی نیک ہی رہے ہونگے۔ پر حقیقتاً ایسی چکنی چپڑی باتیں یہ تب بھی کر رہے تھے، یہ بھلے انسان تب بھی معلوم ہوتے تھے جب بہرام تگار لاپ اسٹیجوں پہ دھندناتے پھرتے تھے، مگر ان کے اعمال انہیں محض سفاک ہی دکھاتی ہیں۔ کیوں کہ الطاف حسین جتنا ہی پارسا کیوں نہ ہو، ان کی قیادت میں کارکنان درندگی کرتے رہے تھے وہ بھی کوئی بڑے نہ سہی پر سوتیلے ابّا تو کہے جائیں گے۔

ہو سکتا ہے یہ آج بھی وہی ہوں۔ پر یہ خاموشی اور پردے انکی سیاہ کاریوں کو غائب کر دیتی ہیں اور زود فرآموش بلوچ ہمیشہ ان حقائق کو بھول جاتے ہیں۔ کہ شاہ میر جیسے خود پسند مولوی پہ جب حملہ ہوتا ہے، تو وہ کئی نوجوانوں کو اپنی جھوٹی دھونس جمانے کی خاطر اللہ کا نام لیکر جہاد کا نعرہ بلند کرتا ہے، اور سب بھول جاتےہیں کہ انہوں نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے مفتی عبداللہ کے ساتھ کیا کیا تھا، اور یہ کہ شاہ میر کی خاندان صدیوں سے پیدارک میں کیا کرتی آئی ہے، یہ وہ قبیل ہے جو انگریزسرکار سے لیکر اب تک صرف سامراج کو قبلہ مان کے سجدہ ریز ہوئے ہیں، ان کے والد اور ان کے بھائی قتال گر ہیں، مفتی صاحب کا اللہ حافظ و ناصر ہو اور گھٹیاپنوں پہ پردے رکھے، ورنہ وہ تو اصغر گیٹ کے گارڈوں سے بھی زیادہ وہاں پہرے دیتے رہے ہیں۔ پر عوام ان کی موجودہ بیانوں کو ہی سن پاتی ہے اور کہتی ہے کسی نے اللہ اللہ کیا تو، گویا وہ گو کھائے یا گلاب وہ رہیں گے نیک نیت ہی۔ یہ اثر ہے تاریخ سے خاموشی کی۔

خاموشی ایک اور عمل کرتی ہے۔ تاریخ میں یا تو مورخ کو خاموش کیا جاتا ہے یا کسی خاص طبیعت کی وجہ وہ جن کے پاس تاریخ بیان کرنے کی ایجنسی ہے۔ یعنی بی ایس او کے حوالے اگر کہیں تو نیپ، ستر اسی کے دہائی کے تمام سیاسی، مسلح اور تنظیموں کے کارندے جان بوجھ کے یا جانے انجانے میں کسی مدے کو خاموش کر دیں۔ یا کوئی بھی فاعلِ علمِ تاریخ کسی بھی وجہ سے چند سطور اور اوراق کو کاٹ دے۔ تاریخ کا وہ لمحہ ہمیشہ کسی بھی طرح شرح کرنے کے لیے آزاد رہے گا۔ اور یہ وہ مقامات ہیں جہاں وہ ایجنسی اپنی قوت کے جواہر دکھاتے ہیں۔

یعنی ایسی خاموش طاقت کو قائم رہنے میں مدد دیتی ہے۔ تاریخ کہیں خاموش تھی عوام کو بٹھو یا آل بٹھو نیک لگے۔کہیں خاموش تھی جو بی این وائی ایم جیسے قتالی گروہ حاکمیت کرتے رہے، اکبر جو کہ مجرم تھا وہ بہت آرام سے دلآرام ثابت ہوا، شہدا پہ بات نہ کرنے دینا، تاریخ اور قریبی تاریخی پہ تنقید کی ممانعت یہ سب ایک جابر کو جبر کرنے کا راہ فراہم کرتی ہیں۔ اور وہ یہ ایک آزمودہ نسخۂ حیات ہے۔

یا ایہا الناس! جب بھی آپ نے کسی سیاسی کارکن یا رہبر سے سوال کیا اور جواباً انہوں نے آئیں بائیں اورشائیں کی، تو جان لو، وہ تین میں سے کچھ ہے،یا تو وہ جاہل ہے، یا جابر ہے یا پھر جبر کی نیت رکھتا ہے، بے شک اس کے پسینوں سے حاکم بننے کے خواب دیکھنی جیسی بو آئے گی۔ ورنہ عام شخص بہت صفائی سے جاننے کی کوشش کرے گا یا جہل اعتراف۔ بات چھپائی ہمیشہ تب جائے گی جب بات میں حقانیت کی کمی ہو۔

اب ہم آتے ہیں تنظیم کاری کے مسئلےپہ! چلیں یہ مانیے کہ بی ایس اوبازوں کی تنظیمیں، کسی کی ایما اور رائیوں کو مدِ نظر رکھ کے نہیں بنی، بلکہ ویسے ہی فطری طرزِ طریق پہ بنی ہے، جیسے وہ ساری بی ایس او بڑھے مانتے اور منواتے آئے ہیں۔ کسی دن چند انتہائی باشعور نو عمر مفکرین کو خیال آیا کہ ایک تنظیم بنی چاہیئے اور وہ عدم سے وجود میں آ گئی۔

پر اب ذرا یوں دیکھیے تنظیم جس علاقے میں ہے اور جیسی سیاسی فکر رکھتی ہے اس کے ہمدرد اور ہمراہ کبھی نہ کبھی تو ابھر ہی آنے تھے۔ جس کی نسبت، اس تنظیم کو لگا ہو، کہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیئے۔ کچھ کی پہلے سےکسی تنظیم کے ساتھ تعلقات ہونگے۔ ایسا عین ممکن ہے تنظیم بننے کے کچھ ہی عرصے بعد یا توکہیں ضم ہوجائے یا ہم خیال تنظیم کے ساتھ کام کرے۔ پہلے تو بی ایس او کے ساتھ یہی ہوا۔

دوسری یہ کہ تنظیم سر تا پا سرخ تھی اور نوآبادیات کے شُب چنتک سرخوں سے متاثر تھے۔ بی ایس او، سیاسی تنظیمیں، حتیٰ کے پراری کے لکھنے پڑھنے والے سیانے، تو کسی حد تک چاہتے بھی تھے کہ کہیں نہ کہیں انہیں، وفاقی سرخے آ کے گود لیں، پہلے امان اللہ گچکی اور بعد میں ہر کسی نے بی ایس او سے یہی کرایا۔ یہ کوئی بھول نہیں تھی، تنظیم کھڑی ہی اسی بنا پہ تھی۔ تنظیم عملاً اور طبیعتاً وفاقی سرخ ہی کو قبلہ مانتی تھی۔ تنظیم واضح غوث بخشی بلوچستان ہی کو بلوچستان مانتی تھی۔ سو ایسا ہونا عین ممکن تھا اور ویسا ہی ہوا۔ خدا جانے لوگوں کو کیوں لگا کہ مُجلّوں اور سرکلوں پہ جب آپ انہی کی تبلیغ کروگے تو اور کس شے کا توقع رکھو گے۔

دوسری بات جو اس بے جھنڈہ مت کو کبھی واضح سمجھ میں نہ آ سکی کہ فارغ التحصیل بی ایس او کا کیا کیا جائے۔ کیوں کہ انہی کی وجہ سے بی ایس او قنوطی بنتی چلی گئی تھی۔ چلیں اس بے جھنڈہ مت کے ایک اور پہلو کو دیکھیں اور جانچیں کے وہ کیا دینا چاہ سکتی تھی اور کیا دے گئی۔

بی ایس او کی بےجھنڈہ مت ایک انتہائی دلچسپ تصورِ سیاست تھی اگر کبھی کامیاب ہوپاتی۔ پر چونکہ یہ پروجیکٹ ہی حادثاتی ابہام اور جھوٹی شعبدہ بازیوں پہ مبنی تھی تو کوئی اس پہ عمل نہیں کرسکا اور کیوں کر کرسکتا۔

بے جھنڈہ مت کا خیال کچھ یوں تھا ایک ایسا تنظیم ہو جو بلوچ طلبہ کے لیے ہو، اور جب تک وہ طالب علم ہیں تب تک انکی مارکسی سیاسی نشونما کرے۔ انہیں محض سیاسی مارکسی ورکر بنانے کی تعلیم دے۔ اور یہ تعلیم استاد و شاگردی سے نہیں بلکہ ایک جمہوری اور مشترکہ پڑھی پڑھائی جانے والی نساب ہائے افکار سے ہوں۔

یہ ایک معصوم سی تصورِ سیاست تھی جو ان اناڑی لونڈوں سے متوقع تھی اور ہوئی۔ اس مارکسی انارکسٹ طرزِ سیاست کی پہلی خام خیالی یہ تھی کہ اسٹالنی سویت ہی مسئلہ کا حل ہے؛ جس کی بعد کے پراری لٹریچر میں واضح تنقید بھی ملتی ہے۔ اگر آپ پہلے سے سویتی ہو ہی گئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ پہلے سے ایک غیر ضروری پروپیگنڈہ کے آگے سرنگوں ہیں۔ اور انہوں نے محض سویتی افکار اور مفکرین کو جگہ دی، جہاں ماسوائے ان کے کوئی بھی بھٹک نہیں سکتا۔ وہ انارکی تب قائم رہ سکتی تھی اگر اس میں تنقید کی گنجائش ہوتی، پر سویت کو لے کر یہ سیاسی اسکول مذہبیت کی حد تک لوگوں کو مارتے، پیٹتے اور عاق کرتے رہے ہیں۔ جو نساب تھی وہ کسی خاص نظم کے تحت طے کی گئی تھی، جس میں جلالپوری جیسے غلط تاریخِ فلسفہ کا پرچار کرنے والوں نے انہیں ویسا ہی ایک تاریخیت سے روشناس کرایا جس میں اثباتِ سویت سے سوا کچھ ممکن نہیں تھا۔ جو دوسرے سرخ فرقے تھے ان کے کا تب بھی کم از کم اسی پیرائے اور خیالات پہ مبتنی تھی۔ ابتدائی زمانے میں نظریات درآمد ہوتی رہیں، بعد میں جو فارغ التحصیل بی ایس او کارندے تھے، چونکہ انکی بلوچستان کے سیاست میں نہ کوئی تنظیم تھی، نہ مقام۔ سو رنگ دے بسنتی میں عامرخان کے کردار کی مانند جہاں انہیں لوگ عزت دیتے ہیں وہ وہیں رہے۔ کیوں کہ بی ایس اوباز آج تک بی ایس او سے نہیں نکل پایا۔ بی ایس او بلوچوں کی سیاسی، فکری قتل گاہ ہے، جو شخص ایک کیڈر ساز تنظیم کو اپنی ستر سالہ عمر پہ بھی اثر انداز پائے تو اس کا مطلب وہ کالج سے کبھی آگے بڑھ ہی نہیں پایا۔کس قدر یاس انگیز حالت ہے کہ 1960 کا کارندہ آج بھی بی ایس او میں خود کو دیکھنے کی کوشش میں ہے۔ چاہے وہ پارلیمان میں ہو یا پہاڑوں پہ۔ بی ایس او اس قدر کند کرتی رہی ہے بلوچ سیاست کو کہ سیاسی بھڑکوں کے علاوہ ان میں سے کوئی بھی مفکر ابھر ہی نہیں پایا۔کیوں کہ بی ایس او کی اسس سوچنے پہ نہیں محض تقلید پہ تب بھی کھڑی تھی اور آج بھی ہے۔

اس تقلید میں اس قدر جان تھی کہ جو چیئرمین تعلیمی اداروں سے نکلتے گئے، ایک ایک کر کے کئی عرصوں تک وہ تنظیم میں ہی رہے، اگر وہ تنظیم میں نہ تھے تو انہوں نے کبھی تنظیم کی جان خلاصی نہیں کی۔ وہ سانپ کی طرح آج تک منڈلی لگائے بیٹھے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن میں تمام بلوچ سیاسی کارندے شامل ہیں جنہوں نے اس میں شمولیت لی تھی۔ بلوچستان کے بلوچ سیاستدانوں میں تین سیاسی گروہ ہیں، مولوی، بی ایس او کے کیڈر اور پرانے سرداروں کے کے بیٹھے جن میں آدھے بی ایس او ہی کی پیداوار ہیں۔ عوام کو یہ بی ایس او کی کامیابی لگتی ہے پر اصل میں یہ وہ لوگ ہیں جو ایک بار بی ایس او کے کابینہ میں جھانکے تھے تو وہاں سے نکل ہی نہیں سکے۔ یہی قومی تحریک کا بھی حال ہے۔

کیا حسین بات ہے کہ ایک مقلد پیدا کرنے والی تنظیم خود سے یہ امید لگاتی رہی ہے کہ اس سے کچھ فکری آزادی جنم لے سکتی ہے۔

(جاری ہے )