سلسلہ وار مضمون (پہلی قسط) یہ مضمون میری اپنی چند ذہنی موشگافیوں پر مشتمل ہے جن کو میں ایک قاری تک پہنچانا چاہتا ہوں۔یہ لکھاری جسے اس میں صیغۂ واحد حاضر کے طور پر متعارف کیا جائے رہا ہے کوئی سیاسی مقاصد نہیں رکھتا ، بلکہ ایک تاریخ کی یادداشت کو رقم کرنے کی نیت رکھے ہوئے ہے اور ایسی تاریخ جس کی تاریکی اس قدر گیرائی سے گہری ہوتی چلتی جار رہی ہے کہ جو مضمون آج سے بارہ سال پیشتر راقم کے کیبورڈ سے نکلی اور آج بھی ایک عجب الحال الہامیت کی بدولت ویسی چستی کے ساتھ درست ہے۔ چلیے انہی بیانات کو مدنظر رکھ کے بات شروع کرتےہیں۔
ہدایا: اس مضمون کے دورانیے میں اگر کسی کی دل آزاری ہو تو راقم محظوظ ہوگا بجائے نادم ہونے کے۔بلوچستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے ھم ایک سچے بزرگ لیکھک استاد ابراہیم جلیس کے پیروکار ہیں جو اپنے بیٹے کی عجب السلان انٹرویو اور سرنڈر کے بعد بھی مسکرا کےکہہ دیا کرتے تھے کہ ماضی جہاں وقوع پزیر ہوئی وہ آج بھی وہی ہے ۔شہید حمید کو نظریاتی ہیرو ماننے یا سردار نوروز خان کو انقلابی کہنے سے ماضی اپنی حقانیت نہیں بدل دیتی بلکہ حال کے مفکرین میں کور فہمی ضرور نکھرتی جائے گی۔
وقت کی سوئی کو ذرا پیچھے لے جائیں اور زماں کے اس راہ پہ چلیں جسے غلط العام میں تاریخ کہا جاتا ہے۔ علم التاریخ کے لحاظ سے میری ذہن کافی کند ہے، اس لیے راوی سے ایک مستند تسلسل میں تاریخی واقعات کی امید نہ رکھا جائے۔ ضرورت پڑھنے پہ آپ شمس الدین شمس سے بہتر تاریخ کے راجع ہوسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اس موضوع کے ماہرین ہر کسی کے علاقوں میں بھرے پڑے ہیں ۔ جو کہ نمونۂ تاریخ بننے کے خوف سے خاموش ہیں۔
خیر تو بخیر! آئیے کہانی شروع کرتے ہیں۔
بچو! آج سے کم و بیش 6 ساڑے 6 دہائی پیشتر جب ساری دنیا میں بادشاہوں کا زمانہ ہوتاتھا۔ جہاں ہر بادشاہ کے سینکڑوں بیویاں ہوتی تھیں، ہر بیوی کی ہزاروں کنیزیں تھیں۔ ان کے ساتھ دسیوں وزرائے کرام کے بیسیوں محلات ہوتے تھے۔ جس میں پوری دنیا کے ہیرے جواہرات چاپلوسی صندوقوں میں بند ملتے تھے۔ ان زمانوں میں بادشاہوں کے مقاصد میں اپنی رعایا پہ بھرپور ظلم واجب سمجھا جاتا تھا۔ جوریاستی فوج کی مدد سے تکمیل ہوتی تھیں اور وزرا کا کام ان مظالم کو چھپانا تھا۔ جس کے خلاف کئی ریاستوں اور سلطنتوں میں چھوٹے چھوٹے گروہ ابھرتے اور پھر اپنے ہی مایا جال میں پھنس کے اسی ظلم کے محلول میں تحلیل ہوجاتے۔
بائیں بازو کے مورخ اسی حلولی عمل کو عوامی تاریخ کہتے ہیں۔ اور ان کے بیچ کی چپکلشوں اور جنگ وجدال کو دیکھ انہوں نے تنگ آ کے ایسے تواریخ کو جدلیاتی تاریخ کا نام دیا تھا۔ وہ میدانِ جنگ میں ھمیشہ بائیں جانب ہوتے تھے شاید اسی لیے انہیں بائیں بازو مانا جاتا تھا یا پھر وہ بائیں ہاتھ سے تلوار اور برچھیاں اٹھائے ہوتے تو انہیں بائیں بازوں والے لوگ کہتے تھے۔ اور انہیں محض مادی بنیادوں پہ لڑنےکا شوق تھا ایسے لوگوں کو یا ایسے اوچھے خیالات کو جدلیاتی مادیت کہتے تھے۔ عمرو بن ھشام بھی شاید اسی لحاظ سے مرتے دم تک بائیں بازو رہے۔
اسی زمانے کی بات ہے کہ ریاست ہائے فارس کے ایک قریبی مقبوضہ ریاست ،‘ مقبوضہ ریاستِ بلوچستان بہ دستِ نگرِ ریاست اسلامی جمہوریۂ پاکستان’ میں اسی طرح کی ایک گروہ ابھری تھی۔ جو خود کو ریاستی ولی عہد مانتے تھے۔ ان میں اور دوسری گروہوں میں فرق یہ تھا کہ باقی ایک اجتماعی جھنڈے کے قائل تھے، مگر یہ ایک اجتماعی جھُنڈ کے۔ انہیں زبانِ عام میں ‘چُوری’ کہا جاتا تھا(“چ” بہ مضمومہ و ممدودہ اور” ر”یے مکسورہ و ممدودہ ،بتلفظ “سوری”)، لیکن وہ خود کو بلوچوں کی طلباء جماعت مانتی تھی۔ یہ دنیا کی واحد گروہ تھی جو ایک حکمتِ عملی کے تحت دو گروہوں میں بنی تھی(جو اس بات کی غمازی کرتی ہے، کہ وہ مارکسی جدلیاتی سیاست کے کتنے قائل تھے)۔جن میں سے ایک گروہ نے اپنا ظاہری مقصد عوام کی نمائندگی بنائی ،جس کی نسبت سے وہ خود کو ‘عوامی’ کہلانا پسند کرتی تھی۔ دوسرے کا مقصد سرکار کی نمائندگی کرنا تھا، وہ سرکار شاید انگریزوں کی تھی اس لیے ان کو ‘Zone’ کا لقب ملا۔
اس تفریق کے علاوہ وہ دونوں اس بات پہ پرجوش انداز میں متفق تھے کہ وہ نہ کسی سیاسی گروہ کے جھنڈے تلے کا م کررہی ہیں نہ ہی آگے چل کر کرنے والے ہیں۔
ہمارا آج کا مشق یہ ہے کہ ہم اس بات کی تشخیص کریں کہ اس قصۂ پارینا کے آخری جملے میں حقیقت کس حد تک پائی جاتی ہے۔ چلو! تحلیلِ نفسی کے ذریعے ہم اپنی اجتماعی لاشعور سے وہ حقائق کھوج نکالیں اور ان کو اس صفحاتِ برقیہ پہ رقم کریں۔
ایوبی دور میں ایک بار عام انتخابات نما کا شوشن ہوا۔ کہتے ہیں کہ اس دور میں کراچی کے معروف سرمایہ کار عبداللہ ہارون نے بلوچوں کے اس وقت کے ہر دل عزیز رہبر و رہنما نال کے سابقہ نیم راجواڑا و زمیندار غوث بخش بزنجو کو (جو بعد کے زمانوں میں بابائے بلوچستان سے بابائے مذاکرات کے نام سے پہچانے جانے لگے تھے) لیاری سے کھڑا کیا تھا۔ اس وقت بھی جمعیتِ طلبائے بلوچان دو گروہوں میں تھی کوئٹہ گروپ اور کراچی گروپ(چند اور چھوٹی بڑی جماعتیں بھی تھیں)۔ ان میں سے آدھوں نے غوث بخش کی رہنمائی قبول کر لی (جو کہ عجب حقیقت تھی کہ وہ ایک نیم جاگیردار سردار ٹائپ سیاستدان کی حمایت میں کھڑےہوئے جسے کسی سرمایہ دار کی ایما پہ کھڑ کیا جا رہا تھا)، اوروں نے اپنی جُھنڈ سمبھالی۔ بعد میں اسی بنیاد نے انہیں الگ ہونے کی بنیادیں فراہم کیں۔جس کے نتائج میں ہمیں مذکورہ بالا گروہیں ملیں۔
سب سے دلچسپ امر تو یہ تھی کہ دونوں گروہ خود کوبائیں بازو کی سیاست سے منسلک سمجھتے تھے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو بائیں بازو میں طلباء تنظیموں کو نابالغ سیاسی کارکن کی نظروں سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ جن کو صراۃ المستقیم پہ لانے کیلئے پدرانہ تربیت و راہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اور مادرانہ تربیت کے لیے میکسم گورکی کی۔ تاکہ وہ اپنی نوجوانی کی لاابالی پن اور مہم جویانہ رویوں کو قابو میں لاکر اپنی سوچ ایک کامل مقصد کی طرف راغب کر سکیں۔ مگر وہ اناڑی و نابالغ طلباء خود اپنے استاد آپ تھے۔ اگر ایسا ہوتا (یعنی کہ اگر وہ کسی کے ماتحت نہ ہوتے)، تب بھی انہیں سیاسی نابالغی کا سامنا کرنا پڑتا۔ مگر اسکا ہر جذباتی نوجوان کو کہاں علم تھا کہ وہ کس کے نیچے کام کررہے ہیں۔ اور جن کو تھا بھی تو انکا ایمان ان پکے روزہ داروں کی مانند تھا جن کے روزے سیگریٹ، پانی اور چائے جیسی کمزور اشیاء سے نہ توڑی جا سکے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ واقعی میں بلوچستان کی سیاست میں دو دہائیوں تک سب سے زیادہ مستقل مزاج بائیں بازو کے گروہ رہے ہیں۔ خیال کی یہ رو ابھری کہاں سے تھی؟ اس کا مجھے ذاتی طور پہ کچھ خاص علم نہیں ۔ یہی کہا جاسکتا ہے شاید ایوبی دور کی سیاسی فضاء ہو جس میں بائیں بازو کی پارٹیوں نے ہر وقت انکی پرجوش مخالفت کی تھی۔ اور ابھی ابھی دنیاکی کئی ریاستیں اسی سوچ کی بنیاد پہ بن اور بگڑ رہی تھیں۔اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شیرو کے پراری کیمپوں نے انہیں یہ سوچ دیا ہو کہ یہی ایک قابلِ استعمال راہ ہو۔یہ بھی کہ امان اللہ گچکی کی طرح کے راہنما انہیں مل گئے ہوں۔ اور سب خیالات نے ایک ایسا سیاسی کلیہ مانند معجون ان کو عطا کیا جسے وہ آج بھی کہیں نہ کہیں اکسیر اعظم مانتے ہیں اور شاید اسی کلیہ کو مسلح تنظیموں نےو اعتصموا بحبل اللہ جمیعامانند مضبوطی سے تھام چھوڑا ہے۔ وہ کلمہ اعظم کچھ یوں بیان کیا جاسکتاہے:
“اگر طلبہ تنظیمیں کسی تنظیم کی ذیلی تنظیمیں بنیں تو بالائی تنظیم کے بغض و عناد کے آثار بلاشبہ ذیلی تنظیم پہ پڑیں گے۔ اور یہ خیال، پیداوار تھی ایک ایسے بلوچ نوجوان مرد طبقے کی جو اپنے بزرگ سیاسی رہنما پہ یقین اور ایمان کھوچکے ہوں۔ یعنی وہ سیاسی عمل میں حصہ لینا توچاہتے ہیں پر ان قنوطی اور دقیانوس بڈھوں سے پرے خود کو رکھ کے۔” (پر وہ دقیانوس بڈھے کل بھی سیلن کی مانند تنظیموں میں کسی نہ کسی طرح سیپ کر ہی لیتے تھے اور آج بھی من و عن معاملہ یوں ہی ہے۔ اور کس قدر مضحکہ خیز حقیقت ہے کہ کسی زمانے میں نہ جانے کیوں بی ایس او آزاد کو بھی یہی لگتا تھا اور ڈاکٹر اللہ نذر نے بھی ایسی ہی ایک بات کی تھی متحدہ کی داغ بیل ڈالتے وقت۔)
یہ قضیہ بلوچ نوجوان سیاسی کارکن کی ایک ہمہ اوستی مایوسی ہے جو اسے نوآبادیاتی قبضہ گیر ریاست پاکستان سے قرضوں کے مد میں ملی ہے۔ جس کی ایک وجہ تو سیاسی و مسلح جماعتوں میں بے جا اختلاف اور بچگانہ پن ہے اور دوسری یہ کہ انہوں نے کبھی طلبہ و طالبات کو بجائے انکی وجود کے اپنے مستقبل کے پیادوں کی مانند دیکھا ہے اور ان سے ویسا ہی سلوک روا رکھا ہے۔ جس سے ایک دلچسپ امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچ سیاست کس قدر ایک گھریلوپن کا شکار ہے۔ بلائی تنظیمیں فادر کمپلیکس کا اس قدر شکار ہیں کے انکا رویہ بلا مبالغہ پدرانہ ہے۔ وہ عاق کرنے کے نام پہ سیاسی غدار بنا دیتے ہیں، تربیت کے نام پہ سخت گیر رویہ رکھتے ہیں، شفقت تب ہی نصیب ہوتی ہے جب گھر کے ان بڑوں اور قابل قدر افراد کو جنہیں گھر والے قابلِ قدر مانتے ہوں کی حمایت اور انکی تائید میں آنکھیں نیچی ہوں، بڑوں کے علاوہ کسی کو علم موھومہ تک کا ایمان بھی نہیں ہوسکتا انہیں کیسے کیا فیصلے کرنے چاہیئیں۔ اور ان میں چپکلشیں بھی ویسی ہی ابھرتی ہیں جیسی گھروں میں۔ کوئی بیٹا بپھرجاتا ہے، کسی بھائی کے بیٹے کو کوئی پسند آ جاتا ہے تو وہ بھائی باقیوں سے نکان الگ کر دیتا ہے۔ وغیرہ اس تمثیل کو لے کرھم کئی کچھ کہہ سکتے ہیں پر طلباء اسی طبیعت کو دیکھ اسی نتیجے پہ پہنچے کہ اب ھم چونکہ کراچی اور کوئٹہ میں ہیں کالجوں یونیورسٹیوں میں ہیں تو ہم کیوں ان بڈھوں کی طرح رہیں۔ کسی حد تک یہ سیاسی گھریلوپنہ ہی اس خیال کی اسس بنی کہ ایک ایسی تنظیم ہو جو کسی بھی پارٹی کے جھنڈے تلے نہ ہو۔
اس بے جھنڈہیت کا خیال بلوچ سیاست کی بنیادوں پہ آپ کو کہیں نہ کہیں ہمیشہ ملتی ہے۔ جیسے مسلح تنظیمیں خود کو کسی کا، آج بھی ذیلی یا منسلک تنظیم ماننے سے گریز پا ہیں، انہیں کم تر سیاست مانتے ہیں۔ جیسے بی آر پی اور ایف بی ایم کی یہ کیمیائی رائے کہ ان کا ایک الگ مشخص پارٹی جھنڈا نہ رکھنا گویا انہیں سیاسی افضلیت بخشتی ہے جس طرح وہ اپنے تئیں ان حقایق کو بیان کرتے ہیں۔ اور یہی ایک ایسی طرز کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ کیوں پارٹیاں منظم یکتائی میں کام کرنے کے بجائے خود میں جداگانہ طرز میں سیاست کرنےکو بہتر جانتے ہیں۔
ان سب کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ راقم یہ مانتا ہو کہ بلوچ آزادی پسندسیاست کی نظریاتی اکائی اس مایوسی پہ منحصر ہے بلکہ اس طرف اشارہ ہے کہ اس ساٹھ برس پیشتر کا تصور، بلوچ سیاست میں کس قدر سرایت کر چکی ہے کہ کہیں نہ کہیں انکے بیانیے میں ابھر ہی آتا ہے۔ اور جب بھی آتا ہے، ھمیشہ ہمیں معنی خیز ہی لگتا ہے۔
یہ ہوئی بے جھنڈہیت کے تصور کی شانِ نزول کے متعلق کے بیان کی۔ پر کیا یہ چوکرے واقعی میں کبھی بے جھنڈہ جھُنڈ رہے بھی ہیں!
(جاری ہے)