ہمگام کالم آج ہم سب اگر اس نقطے پر اتفاق کرلیں کہ بعض نکات پر اختلافات ہیں، تو شاید ان اختلافات کے حل ہونے کا کوئی سبیل نکل پڑے، وگر نہ سب اپنی ڈگر پر چلتے رہیں گے اور عدم کے راہی تسلسل کے ساتھ تاریک راہوں میں بٹھکتے ہوئے مار کھاتے جائیں گے، ہم اتفاق اس لیئے نہیں کرتے کہ ہم میں اختلافات موجود ہیں، ہم ایک دوسرے سے مختلف ہیں، شاید مختلف سوچتے ہیں، ویسے تو ہم سب ایک ہی قوم چند مشترک زبانوں کے مالک ایک زمین کے باسی اور ایک ثقافت کے پروردہ لوگ ہیں مگر یہ بھی اب ایک حقیقت بن کر ابھر چکی ہے کہ ہم اپنی سوچ و فکر، طریقہ کار، سیاسی رجحانات، اصول پرستی و ان سے گریز اور نظریاتی لوچ کی وجہ سے ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں، وہ اختلافات حقیقی ہیں یا بناوٹی یہ ایک علمی و اصولی بحث ہے جس پر ہم بارہا بحث بھی کرچکے ہیں، اختلافات کی نوعیت چاہے جو بھی ہو، وہ پیدا شدہ ہیں، پروسس کے پیدا کردہ ہیں، جبلی و فطری تضادات کا آئینہ دار ہیں یا پھر سیاسی حوالے سے لیڈرشپ کی سطح پرغیر دانشمندانہ و لغو فیصلوں کی وجہ سے ہیں، گو کہ ہم سمجھتے ہیں کہ غیر دانشمندانہ فیصلوں کا ہونا ہی اختلافات کے بنیادی اساب ہیں، وگرنہ آزادی کے واحد اور ناقابل تردید ایجنڈے پر سب ایک ہیں اور آزادی کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے وہ سب زمینی حقائق و قومی نفسیات اور ماضی کی تجربات کی بنیاد پر واضح کردہ چند اصولوں کے تابع ہے، آزادی کے نعرے کے ساتھ میدان میں اترنا الگ بات ہے اور آزادی حاصل کرنے واسطے کی جانے والی جد و جہد کی درمیان متعین کردہ اور کچھ آفاقی اصولوں کی پاسداری کرنا الگ چیز ہے، یہ بات لازم بنتی ہے آزادی تو خیر بہت بڑی چیز ہے کسی بھی کم سے کم اہمیت کے حامل کام کو کرنےکی غرض سے کچھ اصول و ضوابط کی پابندی ناگزیر بن جاتی ہے اور ان سے انحراف کی گنجائش نکالنے کا مطلب تحریک اور مقصدیت سے جزوی حوالے سے دست بردار ہوجانا، یہ حالات کیونکر پیدا ہوئے اور کس نے پیدا کیئے کون کیا تھا اور کون کیا ہے اسکا بھی قوم کو واضح بنیادوں پر نہ صرف معلوم ہے بلکہ وہ دبے لفظوں میں اسکا اظہار بھی کرتا رہا ہے، بلوچ تحریک کو لے کر کون بچکانہ روش اپنائے ہوئے ہے اور کون سنجیدگی اور مستقل مزاجی سے اپنی زمہ داریوں کی محور سے نکل نہیں رہا، کس نے تحریک کے پہئیے کو روک لگائے اور کون اس پہئیے کو چلاتے رہے ہیں، کون الزامات در الزامات کی سنگین دعووں میں ملوث رہا اور کون خاموشی سے ان سب چیزوں وسیع تر قومی مفاد میں سہتا چلا گیا، کون آج اپنی بیس سال پرانی یعنی ابتدائی موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور کون اپنے ہی موقف سے بارہا انحراف کی عملی تصویر بنا رہا، وہ کون تھے اور ہیں جنہوں نے بلوچ اجتماعی قومی قوت کو بلوچ کے خلاف موڑ کر اسے ایک اندرونی کشت و خون میں تبدیل کردیا اور کون تھا جو قطع نظر مذہبی وابستگیوں، علاقائی بندشوں اور تقسیسم در تقسیم (ایران افغانستان پاکستان) عظیم بلوچستان کی خاطر “صرف بلوچ ” کی نعرے کے ساتھ میدان عمل میں ڈٹا رہا، یہ سب کو معلوم ہے اور تاریخ اس حوالے سے اپنے اوراق میں بہت کچھ محفوظ کرچکی ہے جو سمجھنے اور سمجھانے کے واسطے کافی ہے، لیکن ان تمام کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچ اجتماعی قومی قوت آج بری طرح تقسیم ہوکر رہ گئی ہے، اور اسی اجتماعی قوت کی انتشار کی وجہ سے آج بلوچ قومی جد و جہد کے پہیئے عملی بنیادوں پر بری طرح جام ہوکر رہ گئے ہیں اور مستقبل کے حوالےسے ایک بے یقینی و سراسیمگی کی سی کیفیت ہے۔ اسی اتحاد کی عدم موجودگی اور انتشاری کیفیت کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک مختلف مراحل و مقامات پر بڑی بری طرح سے دشمن کے ہاتھوں یا انکے حواریوں کے ہاتھوں پٹتی جارہی ہے، جو ہمدردیاں سمیٹی تھیں وہ بکھر کر ہوا ہوگئیں، جو کامیابیاں ملی تھیں وہ پھر نقطہ معکوس کی طرف چل پڑیں، اور جو امید کی در کھلی تھی وہ بھی آہستہ آہستہ یاس و نا امیدیوں کا دھند میں غائب ہوتی جارہی ہے، کسی بھی تحریک میں ٹھکراؤ بنیادی حقیقت ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی آزادی کی نعمت کو کسی زرق برق پوش میں بند کرکے تحفے کی شکل میں غلام یا پھر محکوم قوم کو پیش کرے اسکے ساتھ ٹھکراؤ بنیادی اور آخری حقیقت ہے، اسی ٹھکراؤ میں ظاہر سی بات ہے کہ دونوں فریق اپنا زور آزمائیں گے اور اس میدان میں خون کی ہولیاں کھیلی جاتی ہیں، سروں کی ایک بہار اگ جاتی، قبرستان آباد اور بازار ویران ہوجاتے ہیں، اور لوگ پر اسرار طور پر غائب ہونا شروع ہوجاتے ہیں، ایک قیامت جیسی طویل انتظار کی سیاہ رات بسیارے خاندانوں کی مقدر بن جاتی ہے، یہ دنیا میں ہر جگہ ہوا ہے اور بلوچ کو کوئی غیبی استثناء یا مقام حاصل نہیں کہ اسکے ساتھ ایسا نہ ہو، شروع شروع میں تو سب کچھ ایک کھیل اور شوق سا معلوم پڑتا تھا مگر جیسے جیسے تحریک کی شدت بڑھتی گئی ویسے ویسے دشمن کی طرف سے جبر و استبداد کی نئی داستانیں رقم ہوتی چلی گئیں، جو لوگ تحریک آذادی کے لیئے ہمدردی رکھتے تھے اور بلوچستان کی آذادی کی بات کرتے تھے وہ سبھی ایک ایک کرکے غائب ہونا شروع ہوئے، ریاستی ایجنسیوں نے بلوچستان میں ماورائے عدالت اغواء نما گرفتاریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا جو اس حالیہ چلتی تحریک سے کہیں پہلے کی تحریکوں کے دوران شروع کی گئی تھی، جو بلاناغہ آج بھی اپنی جوبن پر ہے، علی اصغر بنگلزئی جنہیں 18 اکتوبر 2001 (تاریخ حوالہ ڈیلی ٹریبون، پاکستان ہیومین رائٹس کمیشن اعداد و شمار) میں کوئٹہ کے ڈگری کالج کے سامنے ایک ساتھی سمیت گرفتار کیا گیا بعد ازاں وہ ساتھی تو رہا کیئے گئے لیکن خود علی اصغر بنگلزئی آج تک پابند سلاسل ہیں، مرگئے ہیں، مارے گئے، نجانے مسخ حالت میں اسکی لاش مل گئی ہوگی یا پھر زندہ و عقوبت خانوں میں ابھی تک بند ہیں گو کہ آخری خدشے کے بابت امکانات خاصی حد تک معدوم ہیں، لیکن ریاست کی طرف چوں تک نہیں کی گئی نہ بتایا گیا کہ وہ نہیں رہے اور نہ ہی کبھی کسی عدالت کے روبرو اسے پیش کیا گیا اور نہ ہی ہماری مہم و تحریکیں اتنی پذیرائی حاصل کرسکیں کہ وہ کم و بیش 17 سالوں سے گمشدہ ایک بلوچ کا پتہ لگا سکیں، دکھ و آلام کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابھی پچھلے دنوں علی اصغر بنگلزئی کی ایک بیٹے کی شادی ہوئی جو سرا پا دکھوں اورناامیدیوں کی مجسم تصویر تھی، ایسے کئی واقعات ہیں جو ریکارڈ کا حصہ بن جانے سے پہلے ختم ہوگئیں یا انہیں کبھی داخل دفتر ہی نہیں کیا گیا، اسکی کئی وجوہات ہیں، چونکہ بلوچ کے پاس کوئی ایسی ادارتی تنظیم یا ڈھانچہ وجود ہی نہیں رکھتی تھی کہ وہ ان چیزوں کا اعداد و شمار اپنے پاس روز مرہ کی بنیادوں پر جمع کرتے اور ایک مفصل، قابل اعتبار اور تاریخ و مقام کے لحاظ سے مکمل صحیح کوائف کی تشکیل کرتے، دوسری طرف بلوچ پارلیمانی پارٹیاں اس چیز سے مکمل طور پر قطع تعلق رہیں اور انہیں ہم دوش اس لیئے بھی نہیں دیتے کہ وہ کبھی اس حوالے قابل اعتبار اور امیدوں کے محور رہے ہی نہیں، باقی جو بلوچ آزادی پسند تنظیمیں تھیں وہ خوش فہمیوں کی جنگل میں سرگرداں کبھی زمینی حقائق اور سچائیوں کی بنیاد پر اس سماجی و سیاسی بحران کا کوئی متبادل حل پیش ہی نہیں کرسکے، ان کے ہاں ہر چیز کا پیمانہ آذادی ہے، آزادی جو سخت گیر سیاست اور عسکری جد و جہد کا آئینہ دار ہے ظاہر سی بات ہے کہ کسی مہم کو تحریک آذادی سے نتھی کرکے اسکی سماجی پہلوؤں کے حوصلہ افزا نتائج حاصل نہیں کیئے جاسکتے، ہر چیز کو آزادی کی سیاہ و سفید میں دیکھنا بلوچ تحریک کو کیا کیا نقصانات پہنچا چکی ہے وہ ہم آج دیکھ رہے ہیں، گمشدہ افراد کی جو بھی ریاستی تشریح کے مطابق جرم و گناہ ہوں مگر انکے لئے تحریک چلانے والوں کو کم از کم سخت گیر رویہ نہیں اپنانا چاہئیے کیونکہ اس طرح سے دنیا اور خود اس ملک میں موجود تیسری فریق کی حمایت حاصل نہیں کی جا سکتی، کوئی بھی ایسی تنظیم یا مہم نہیں تھی جسے آزادی پسندیت کے اثرات سے کماحقہ طور پر بچا کر نتائج کی حصول کی طرف لے جایا جاتا، گو کہ بلوچ سماج کے اندر رہتے ہوئے ایسا کرنا قدرے مشکل تھا مگر سیاسی سوجھ بوجھ اور تدبر و حکمت سے کام لے کر آزادی پسندیت کی سخت گیریت اور پارلیمانی سیاست کی دادخواہی و دست نگری کے درمیان کوئی تیسرا یا چوتھا رستہ سماجی تحریک کے بنیاد پر نکالی جاسکتی تھی، مگر ایسا ہو نہ سکا اور اب بلوچ مسنگ پرسنز کی کیس انتہائی حد تک سیاست کی بینٹھ چڑھ چکی ہے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ایک مہم ہے جسکا مقصد بلوچ گمشدہ افراد کو بازیاب کرکے اگر مجرم ہیں تو عدالتوں میں انکی کیسز کی سماعت کی جائے اور انہیں آزادانہ ٹرائل کا حق دیا جائے اگر بے گناہ ہیں تو اپنے گھر والوں تک پہنچ جائیں، نصراللہ بلوچ اور اہلخانہ نے علی اصغر بنگلزئی کی بازیابی کے لیئے کئی سالوں تک مختلف فورمز پر آواز بلند کیا، اسلام آباد، لاہور، کراچی اور کوئٹہ سمیت جہاں جہاں کوئی ایسی مہم انسانی حقوق کے حوالے سے چل رہی ہوتی تھی وہ اس میں اپنا قدم بھی شامل کرلیتے کہ شاید حکام کے کانوں پر جوں رینگ جائے اور انہیں احساس ہو، لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی اور نصراللہ جو نوجوان تھے تعلیم یافتہ تھے اور بلوچستان میں گمشدگیوں کا پیمانہ بھی ہر گزشتہ دن کے ساتھ وسیع تر ہوتا چلا گیا تو ایسے میں انہوں نے 2009 میں غالبا ایک تنظیم وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے نام سے تشکیل دینے کا اعلان کیا اور اسکے چئیرمین بن گئے، اسکے بعد بہت سارے دیگر لوگ بھی بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں اپنے پیاروں کی بازیابی کا آس لے کر آئے ہوئے تھے تو اسی نوارد تنظیم کے چھتری تلے جمع ہونا شروع ہوگئے، ماما قدیر جنکے جوان عمر بیٹے جلیل ریکی بھی گمشدہ افراد میں شامل تھے اور ذاکر مجید کو بھی مستونگ سے اسی سال گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں، اور جلیل ریکی کی مسخ شدہ لاش بلوچستان کے کسی علاقے سے مل گئی، سو ماما قدیر اور فرزانہ مجید بھی اس کاروان کے ہمسفر بن بیٹھے جو بالترتیب وائس چئیرمین اور جنرل سیکریٹری کے عہدوں پر آج تک موجود ہیں،اسی طرح یہ کاروان کبھی کوئٹہ تو کبھی کراچی میں ڈیرہ جماتی رہی، کبھی اسلام آباد سپریم کورٹ تو کبھی کوئٹہ ہائی کورٹ میں اپنے پیاروں کا کیس لے کر سرگرداں رہی، وعدے تھے جو کبھی وفا نہ ہوئے اور عہد تھے کہ جن کا ایفاء نہ کیا جاسکا، افتخار چوہدری نے مشرف سے مدبھیڑ کے بعد جو طاقت پالی اس میں انہوں اس کیس کو لے کر کئی دفعہ خفیہ ایجنسیوں کے لوگوں کو سمن بھیجے کہ آئیں اور آکر اس مسئلے کے بارے اپنی پوزیشن واضح کریں مگر ان میں کوئی نہیں آیا اور افتخار چوہدری کی طاقت انتظامیہ اور پولیس پر ہی گرجتی برستی اور اختتام پذیر ہوگئی، 17 ستمبر 2013 کو کوئٹہ رجسٹری میں ہونے والی سماعت کے دوران افتخار محمد چوہدری نے واشگاف الفاظ میں یہ کہا تھا کہ بلوچ گمشدہ افراد کے حوالے سے ایف سی( فرنٹئیر کورپس) کے خلاف ثبوت موجود ہیں، اس سے پہلے مئی 2012 میں ہونے والی تین روز کی مسلسل سماعت کے دوران چیف جسٹس نے گمشدہ افراد کے اہلخانہ کے بیانات اور شکایات سنے اور پولیس و ایف سی کے زمہ داروں کے خلاف خوب گرجے برسے، ایک اور سماعت کے دوران افتخار چوہدری نے کہا تھا کہ ہر تین گمشدہ افراد میں سے ایک کو ایف سی نے غائب (اغواء) کیا ہے، (بحوالہ روزنامہ ڈٓان)، یہ وہ دور ہے جب پاکستانی سپریم کورٹ نہایت ہی فعال انداز میں گمشدہ افراد کی کیسز کی شنوائی کررہی تھی بلکہ ریاستی اداروں کو براہ راست اس میں ملوث ہونے کی ثبوتوں کا ذکر بھی کرتی رہی تھی، یعنی گمشدہ افراد کے اہلخانہ کے کوائف و دعوؤں کو سچ اور سنجیگی سے لیا جارہا تھا، ویسے میں تو کم از کم ذاتی حد تک اور اپنی فکر کے حساب سے یہی سمجھتا ہوں کہ افتخار چوہدری کی عدالت کے بلوچ گمشدہ افراد کی کیس کو بہت زیادہ وقت دینے تمام واقعات کو سنجیدگی سے لینے اور حد سے زیادہ فعالیت کے پیچھے بلوچوں کی دباؤ، مہم اور سرگرمیوں سے زیادہ افتخار چوہدری کی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ اپنی رنجشیں زیادہ کارفرما تھیں، کیونکہ صدر مشرف کی طرف سے افتخار چوہدری کی برطرفی کی ریفرنس، وکلا تحریک اور اسکے بعد آئینی بحران یہ سب تاریخ کے اوراق پر نمایاں ہیں، کسی بھی وجہ سے ہو(حب علی ہو یا بغض معاویہ) مگر بلوچوں کے زخموں پر کسی حد تک مرہم کاری کا کام کیا جاتا رہا تھا اور اسی دیکھا دیکھی میں میڈیا نے بھی شہہ پاکر گمشدہ افراد خاص کر بلوچ سے تعلق رکھنے والے بہت سارے واقعات کو اپنے پروگرامز اور ٹاک شوز میں جگہ دی، بلوچ لیڈرشپ میں سے بہت سارے لوگوں کی مین اسٹریم میڈیا میں انٹریوز لیئے گئے، بلوچ و بلوچستان کے حوالے گفت گو ہوئی اپنی مطالبات سامنے لائے گئے، آزادی پر بات ہوئی اپنا موقف سامنے لایا گیا، یعنی ایک حساب سے بلوچ کو اس دورانیے میں ریاست کے چند اداروں کی طرف سے ناگزیر وجوہات کی بنا پر یا اپنی خنص میں خاصی حد تک اسپیس فراہم کیا گیا۔ یہ ایک نادر موقع تھا بلوچ کے لیئے کہ وہ گمشدہ بلوچ افراد کی کیس کو دنیا کے سامنے لاتا اور انتہائی کمال مہارت کی سفارت کاری کے زریعے عالمی اداروں کو اس میں کھینچا جاتا اور مفصل کوائف، تمام ثبوتوں کی روشنی میں اور عالمی برادری کے ساتھ ملکر ریاستی ایجنسیوں پر دباؤ بڑھایا جاتا کہ وہ بلوچ گمشدہ افراد کو رہا کریں یا صاف اور آذادانہ ٹرائل کا حق دیں، لیکن اس میں عالمی برادری اور دنیا کے بڑے بڑے اداروں کو کھینچ کر شامل کرنے میں بیرونی دنیا میں ایک کامل ڈھانچے اور اسکی پشت پر خود بلوچستان میں مکمل امداد اور اخلاقی و سیاسی حمایت لازمی تھی، سو اسی اور اس جیسی دیگر نوع کی حمایت کو حاصل کرنے واسطے تحریک کو بنیادی انتظامی قالب اور ڈھانچے میں ڈالنے کے بعد سنگت حیربیار لندن چلے گئے تھے، جو کہ وہاں سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کی تلاش میں ازبس کوشاں رہے اور تا دمِ تحریر اپنی کاوشوں میں بغیر کسی لغزش کے لگے ہوئے ہیں، اسی مجبوری کو بھانپتے ہوئے جب اس وقت کے یعنی شہید غلام محمد کے تشکیل کردہ بلوچ نیشنل فرنٹ (بی این ایف) نے ایک بیان کی صورت میں سنگت حیربیار کی عالمی نمائندے کے طور پر باقائدہ توثیق کی تو مفادات آڑے آگئے، دوسرے دن ایک بیان آیا کہ بی این یف کا اس بیان سے کوئی تعلق نہیں اور یہ چند لوگوں کا زہنی اختراع ہے، اس وقت بہت سارے زمہ داران سے جب استفسار کیا گیا تو ملا جلا رد عمل دیکھنے میں آرہا تھا، تاثر یہی تھا کہ یہ فیصلہ تو بی این ایف کا ہی ہے اور صحیح بھی ہے وقت کی ضرورت بھی ہے لیکن شاید بہت دیگر لوگ اس چیز سے ناخوش ہیں، یعنی انکی اپنی مفادات اسی شئے سے جڑے ہوئے ہیں، ابھی عرصے بعد بلوچ نیشنل مومنٹ کے سابقہ جنرل سیکریٹری رحیم بلوچ نے لکھا تھا کہ ” بی این ایف بناکر شہید واجہ غلام محمد بلوچ نے بلوچ تحریک آزادی کے جمہوری بازوکوبڑی حد تک سرگرم،متحداور منظم کیاتھامگر ان کی شہادت کے بعد بی این ایف کو مزیدمضبوط اورمنظم کرنے کے بجائے اتحادمیں شامل دوستوں نے پارٹی و گروہی مفادات کیلئے بی این ایف کاشیرازہ بکھیردیا۔پہلے تو بیرون ملک مقیم ایک دوست نے کہاتھاکہ بی این ایف اسے بیرون ملک اپناسفیر یانمائند ہ مقرر کرنے کا اعلان کرے جبکہ وہ دوست خودنہ بی این ایف میں شامل کسی تنظیم کا ممبر و نمائندہ اور نہ بی این ایف کے کسی ادارے کا پابند تھا۔اسلئے بی این ایف میں کسی ایسے شخص کواپناسفیر یانمائندہ قرار دینے پر اتفاق نہیں ہوسکاجواس کے کسی ادارے کارکن اورجوابدہ نہیں ہو۔بی این ایف کا اس بارے میں فیصلہ معقول اور منطقی تھامگراس کے فیصلہ پرمذکورہ دوست کا جو ردعمل سامنے آیا وہ منفی تھا۔اس نے ردعمل میں اپنے زیراثرکچھ چھوٹے گروہوں کو بی این ایف سے الگ کردیا ” یہ سنگت حیر بیار کو کہا جا رہا ہے، اندازہ کیجیئے کہ ایک عام سیاسی کارکن اگر اسکی پرورش صحیح معنوں میں ہوئی ہو، اسکے پیچھے باقاعدہ ایک سیاسی تاریخ ہو اور اسے سیاسی رموز سے واقفیت ہو تو وہ ایسی کسی طلب کا روادار نہیں ہوسکتا اور یہ کس طرح لوگوں کو گمراہ کرنے واسطے بے دھڑک جھوٹ بولتے جاتے ہیں اور پھر یہ دہائی بھی دیتے ہیں بلوچ کے درمیان اتحاد نہیں اور اتحادوں کا شیرازہ بکھیرا گیا، اسی طرح کی دروغ گوئیاں اور بہتان بازیاں ہی اتحادوں کے گلے کی رسی بنی ہیں، اور یہی رویے آج بلوچ کو اس نہج پر پہنچا چکے ہیں جہاں ہزارہا ثبوت و ریاستی اقبال جرم کے باوجود ابھی تک بلوچ اپنی گمشدہ افراد کو بازیاب کرنے میں یکسر ناکام ہوچکی ہے، اسی طرح بیرون ملک عالمی فورمز پر بلوچ کو سفارت کاری نہ صرف نہیں کرنے دیا گیا بلکہ سنگت حیر بیار جو بذات خود بغیر کسی تنظیمی لگی لپٹی کے جس طرح بلوچ تحریک کے نرم گوشوں کو لے کر عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں جٹے ہوئے تھے ان کو ان ناعاقبت اندیش لوگوں نے اپنی زاتی ضد و خنص کا نشانہ بنا کر اپنے تئیں متنازعہ بنانے کی بھر پور کوششیں کی، اور اسکے بعد بیرون ممالک میں نمائندہ بازی کا ایک ریس لگ گیا لندن ہو یا نیوریاک پیرس ہو یا پھر برلن، بس اسی سے اندازہ کیجیئے کہ سنگت حیربیار و ساتھیوں کو متنازعہ بنانے کی سعی کرکے خود اپنے الگ الگ نمائندگان کا بیرون ملک بھیجا جانا کس طرف اشارہ کررہی ہے، تصویر واضح ہوجائیگی، پارٹیوں اور تنظیموں کے اس بہتات میں یہ نمائندگاں بیرون ملک پتہ نہیں کیا پاپڑ بیل رہی ہیں کہ ابھی تک کوئی ایسی موثر سفارتکاری کا نہ شائبہ ہے اور نہ ہی مثال ہے، ایسے کئی مواقعوں کو سیاسی دوڑ کا نظر کیا گیا اور بلوچ اجتماعی مفادات کو زک پہنچا کر اصل میں خود مجموعی تحریک کا ناقابل تلافی نقصان کیا گیا۔ جب مفادات کا محور ایک ہو تو پھر چیزوں کو ایک نقطے پر ٹھوس بناکر انہیں مضبوطی سے جوڑا جاتا ہے، نہ کہ اتشار و سراسیمگی کی کیفیت پیدا کرکے مظبوط بنیادوں کو توڑ کر اپنے اپنے حصے پر اکتفا کیا جاتا ہے، غالبا 2015 میں ایک نئی تنظیم بلوچ ہیومین رائٹس ڈیفنس (بی ایچ آر ڈی) کا ظہور ہوا، کوئٹہ میں چند لوگوں کو اکٹھا کرکے انسانی حقوق کے حوالے بلوچوں کی شہادت و گمشدگیوں کے بابت احتجاج کیا گیا، بولان آپریشن کے دوران لگ بھگ 25 خواتین سمیت بہت سارے بچوں بوڑھے مردوں کو اغواء کیا گیا تھا تو سوشل میڈیا میں ان دوستوں کے اشاروں کنایوں میں یہ بات صاف ظاہر تھی چونکہ ماما قدیر کی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اس حوالے خاموش ہے اور وہ بی ایل ائے کے لوگوں اپنا دشمن سمجھتے ہیں(کیونکہ ایجنسیوں نے انہیں بتایا تھا اور اس سادہ لوح پیر معد نے یقین کیا) تو اسکے خلاف ایک اور تنظیم کی داغ بیل ڈالی جائے اور بولان سے اغواء ہونے والے لوگوں کی بات کو اسی تنظیم کے زریعے آگے بڑھایا جائے، یعنی بولان میرا، کوئٹہ تمھارا، آواران انکا، ڈیرہ بگٹی کسی اور کا اور باقی جو بے یار و مددگار بچ جائیں ان کے لیئے اللہ کا نام ہے، لیکن سنگت حیربیار مری نے ایک غیر رسمی پیغام میں اس نئی تنظیم کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی اور اس سے قطع تعلقی کا اعلان کیا بلکہ وسعت نظری کو دیکھا جائے تو انہوں نے کسی بھی قسم کی انتشار کی حوصلہ شکنی کی اور مزید کہا کہ بلوچ گمشدہ افراد کے حوالے سے میں صرف نصراللہ بلوچ کی قیادت میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی حقتیقت کو مانتا اور قبول کرتا ہوں، سیاسی سنجیدگی و بالغ نظری کا مظاہرہ دیکھیئے یعنی یہ وہ وقت تھا کہ ماماقدیر کی طرف سے اپنے ویڈیو پیغام میں سنگت حیربیار پر انتہائی غیلظ و گمراہ کن الزامات لگائے جا چکے تھے، دوسری جانب بی ایس او آذاد اور بی این ایم کی طرف سے ایک تنظیم بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے نام سے منظر عام پر آگئی اور یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی موجودگی میں اس مہم کو ہائی جیک کرنے کی سعی کی گئی، (گو کہ ظاہری حوالے سے وہ اس تنظیم کی غیرجانبدار و آذاد حیثیت کی بات کرتے ہیں)، لیکن حقیقت کب تک چھپ کر رہ سکتی ہے، سو بی ایچ آر او کو بالکل غیر اعلانیہ انداز میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سامنے کھڑا کرکے ایک ریس اور مقابلے کی رجحان کو قصدا پیدا کیا گیا تاکہ اداروں کو کمزور کرکے اپنی سیاست کی دکانداری کو چمکایا جائے کیونکہ ایسی کوئی غیر معمولی یا استثنائی بات نہیں تھی کہ جو کام وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نہیں کرسکتی سو وہ کام بی ایچ آر او کریگی دونوں آج تک یکساں نوعیت ہی کے کام کررہے ہیں، اس سے چنداں بہتر ہوتا کہ پہلے سے موجود وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کو مظبوط کیا جاتا، مگر مسئلہ سیاسی رسہ کشی اور خود نمائی کی تھی سو اپنی دکان کھولنے ہی میں عافیت پائی گئی، ان مجرمانہ افعال پر حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ آج بھی بڑے شان سے اتراتے اور دوسروں پر الزام تراشی کرتے ہیں، اسکے علاوہ جب اقوام متحدہ کی ایک جائزہ ٹیم بلوچستان میں انسانی حقوق کی پائمالیوں کے حوالے سے آئی ہوئی تھی تو ہم نے دیکھا کہ کس طرح سوشل میڈیا پر راتوں رات نئی کاغذی تنظیموں کا ظہور ہوتا گیا، گروہ در گروہ متضاد بیانیے کے ساتھ ہر کوئی اپنی پارٹی موقف کو لے کر وہاں چلی گئی، پیچھے رہ بلوچ کی اجتماعی صدا، جن دوستوں نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی مہم کی کھلے دل و نیک نیتی سے نہ صرف حمایت و امداد کیا بلکہ عالمی سطح پر اپنی گروہی دکانداری چمکانے کے بجائے اسی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ایک شاخ عالمی سطح پر قائم کی اور اسی کے بینر تلے اپنی مہم و تقریب و پروگرامز کو سرانجام دیا، یہ ایک اور مثال ہے چیزوں کو ٹھوس بنیادوں پر جوڑنے کا مگر اسکے بدلے میں کیا ہوا کہ اندورنی سطح پر خود بلوچستان کے اندر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی مہم کو سیاسی رسہ کشی کا نظر کیا گیا اور جس طرح ماما قدیر کو استعمال کرکے اسے غلط بنیادوں پر گائیڈ کیا گیا اس سے طرح طرح کی مغلظات بلوائے اور الزامات لگوائے گئے، وہ گمشدہ بلوچ افراد کی بازیابی کے حوالے ہونے والی مہم کی بربادی کا سامان ہوگیا، بلوچ گمشدہ افراد کے حوالے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی مہم کو بڑی ہی چالاکی اور مکاری سے سیاست زدہ کردیا گیا، آج انہی ناعاقبت اندیشیوں کی وجہ سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز میں شامل کچھ لوگ کہ جن کے نام پر اس مہم کو پہچانا جاتا ہے باقاعدہ سیاسی فریق بن چکے ہیں، الزام تراشیاں اور سیاست برائے سیاست کے اس گندے کھیل میں وہ گھٹنوں گھٹنوں ڈوبے ہوئے ہیں، یہاں پر سنگت حیر بیار کی کردار اور دوسرے نام نہاد ادارہ وماس پارٹی کے لوگوں کی کردار پر نظر دوڑائیں تو اس گھماسان میں کون کہاں پر کھڑا ہے کس کا کردار کیا رہا ہے سب کچھ واضح ہے، امریکہ سے لوٹنے اور نواب مری کے رحلت کے کچھ ہی عرصے بعد جس طرح ماما قدیر نے وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم کو سیاسی و گروہی مقاصد کے لیئے استعمال کیا وہ مجرمانہ تھا اور پردے کے پیچھے موجود کرداروں کی عمل اس سے بھی زیادہ مجرمانہ تھے، کیونکر ایک ایسی پلیٹ فارم کو سیاسی داغ لگانے کی واضح کوششیں کی گئی کہ اسکے بعد اعتبار کا جنازہ چار کاندھوں پر قبرستان پہنچ گیا، اسکے پیچھے موجود کردار ہی بلوچ تحریک کے ہر مہم و ہر پروگرام و ہر حکمت عملی کو سبوتاژ کرنے کے بلاشرکت غیرے زمہ دار ہیں۔ تشدد، غیر انسانی ازیتیں، نفسیاتی حملے اور عقوبت خانوں کی حقیقت سے کیا ہم بلوچ واقف نہیں کہ وہاں کس طرح نفسیاتی مریض بناکر حد درجہ تشدد کرکے اور ازیتیں دے دیکر انسان سے وہ چیزیں بلوائی جاتی ہیں جو کرنا تو درکنار انہوں نے کبھی سوچے بھی نہ ہوں، جب کوئٹہ سے شفقت رودینی اورابراہیم نیچاری گرفتار ہوئے تو انکو نہ صرف میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا بلکہ ان سے یہ بھی اعتراف کروایا گیا کہ وہ کس طرح صحافیوں و دیگر کی قتل میں ملوث رہے ہیں اور پھر ماما قدیر نے جس طرح لکھ کر دی جانے والی پیغام کو پڑھتے ہوئے اسی شفقت اور ابراہیم کا ذکر کیا کہ کس طرح انہیں ان سے جیل میں ملوایا گیا اور کیسے انہوں نے ماما قدیر کے قتل کی سازش کا اعتراف کیا اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ پھر ان دونوں کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا گیا، ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ ماما قدیر اور دیگر ان کے اس بیہیمانہ قتل کے خلاف عدالت میں جاتے اور یہ ثابت کرتے کہ وہ دونوں ریاستی اداروں کے تحویل میں تھے اور انکی ان سے ملاقات بھی ہوئی اور انکو ریاست نے ماورائے عدالت ماردیا، مگر اپنی اانا و ذاتی خنص میں ماما قدیرنے اس معاملے پر بھی بولان کے اغواء شدہ افراد کے واقعے کی طرح چھپ سادھ لی، یہ ماما قدیر کی ایک اور مجرمانہ غفلت اور قومی ادارے کو داغدار، بے اعتبار اور تباہ کرنے کے مترادف تھا، سوچیئے کس طرح ایک اجتماعی قومی مہم کو موضوعی و شخصی ضد و خنص کا نظر کیا گیا، انہی سبھی چیزوں نے مل کر آج بلوچ کو اس سیاسی و سماجی بحران کے اندر دھکیل دیا ہے اور بلوچ کے اندر ریاستی کشت و خون اور اغواء نما گرفتاریوں کی اس انسانی بحران میں بھی بلوچ اپنی کیس کو دنیا کے سامنے کامیاب انداز میں رکھنے میں ناکام ہوگئی ہے، دوست کہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ بلوچ سیاسی اکائیاں کم از کم نکات پر متفق ہوجائیں اس میں بلوچ گمشدہ افراد کی کوائف اور انکی تعداد کے بارے میں اپنی رائے یکساں بنا دیں لیکن یہ چیز اس لیئے ناممکنات میں سے کہ اتحاد کا مسئلہ سیاسی نیک نیتی کے فقدان کا ہے، اپنی ڈیڈھ انچ کی مسجد بنانے اور سیاسی دکانداری چمکاتے ہوئے اتحاد واتفاق کی دہائیاں محض وقت گزاریاں ہیں، اگر اتحاد ہوا تو پھر اسکی ضرورت نہیں رہے گی کہ اعداد شمار ٹھیک کرلیں وہ تو خود یکساں ہوجائینگی، بلکہ یہی اعداد و شمار کی عدم یکسانیت ان کو دوسروں سے ممیز کرتی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم جتنے زیادہ لوگوں کا نام لیں گے تو عالمی اداروں کو ہم پر اتنا ترس آئیگا اور وہ کھینچے ہماری طرف چلے آئیں گے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ وہ جو اعداد شمار بتا رہے انکے پاس اتنی کوائف موجود نہیں ہیں گو کہ بلوچ گمشدہ افراد کی تعداد ماماقدیر اور بی این ایم اور بی ایس او کے بیان کردہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے مگر ادارتی کام نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوائف اور اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، مقابلہ بازی کے میدان میں جیت پر ہی نظریں مرکوز رہتی ہیں سو بی ایس او، بی این ایم اور ماما قدیر جیسے لوگ ابھی اپنوں سے جیتنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور پیچھے جو کچھ نظرانداز ہوا جاراہا ہے وہ انکی ترجیحات کا فی الحال حصہ نہیں ہے، بلوچ گمشدہ افراد کو خبر دی جائے کہ ایسے لوگوں کی بلا سے آپ انتظار کی کیفیت میں مبتلا نہ ہوں کہ یہاں امیدوں کی روشن افق پر دھند ہی دھند ہے۔ جب جبری گمشدگیوں کے حوالے قائم جائزہ کمیشن نے 2013 میں اپنے جاری بیان میں کہا تھا کہ 621 لوگ بلوچستان بھر سے گمشدہ ریکارڈ کیئے گئے ہیں تو نصراللہ بلوچ نے بیان دیا کہ یہ سراسر غلط اعداد شمار ہیں اور اصل تعداد 23 ہزار کے لگ بھگ ہے، پھر دوران لانگ مارچ ماما قدیر کے حوالے سے ایک اخبار نے لکھا کہ” 21 ہزار سے زائد لوگ غائب ہیں، ہم نے جب اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کی تو 18 ہزار گمشدہ لوگوں کی فہرست تھی ہمارے پاس اب یہ بڑھکر 21 ہزار ہوچکی ہے اور 6 ہزار لوگوں کو ماردیا گیا جو کہ مصدقہ ہے”، یعنی ماما قدیر کے حساب سے جو 2013 میں بقول نصراللہ 23 ہزار تھے وہ قریبا 2 سال بعد گھٹ کر 18 ہزار ہوگئے تھے، اسی سال 2015 کے اکتوبر کے مہینے میں الجزیرہ جیسے موقر نیوز سائٹ پر خبر چھپی تھی کہ ” قدیر بلوچ کے تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق 35 ہزار مرد اور 160 عورتیں غائب ہیں اور ساتھ میں 8 ہزار مسخ شدہ لاشیں بھی ملی ہیں، پاکستان ہیومین رائٹس کمیشن جیسے آذاد ادارے کے پاس یہ تعداد 955 ہے اور بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ کے مطابق یہ تعداد 156 ہے” پھر 2016 میں سنیٹ کے اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کمیشن کے سربراہ جاوید اقبال نے کہا تھا کہ “کچھ لوگ کچھ سال پہلے ایک لانگ مارچ کرکے کہتے تھے کہ 17 ہزار لوگ غائب ہیں لیکن انہوں مجھے یہ فہرست کبھی نہیں دی” کمیٹی میں شامل بلوچستان نیشنل پارٹی کے جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ حقائق چھپائے جارہے ہیں میرے خاندان کے ہی کئی لوگوں کو مار دیا گیا ہے میرے پارٹی کے 87 لوگوں کو ماردیا ہے اور میرے پاس 1800 لوگوں کی فہرست موجود ہے۔ اور اب لوگ ایف آئی آر اس ڈر سے نہیں کرتے کہ اگلے روز پھر شکایت کرنے والا بھی غائب ہوجاتا ہے،یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کمیشن کو کیوں فہرستیں نہیں دی گئیں، یا وہ اس بارے جھوٹ بول رہے تھے، مگر اس بارے کوئی مطمئن کرنے والا جواب نہیں آیا، نہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی طرف سے اور نہ ہی کہیں اور سے، چونکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کوئی آزادی کے خواہاں مہم نہیں ہے بلکہ وہ بلوچستان میں کسی بھی وجہ سے غائب کیئے ہوئے کسی بھی بلوچ کا کیس لڑنے والی ایک مہم ہے جسے ادارتی شکل دی جاچکی ہے، اب چار و ناچار پاکستانی آئین اسکے بنائے ہوئے کمیشن اور عدالتوں سے تعاون کرنا ناگزیر بن جاتی ہے، کیوںکہ آپ اسی فریم ورک میں انصاف کے طلب گار ہیں، اگر انصاف کا تقاضا ہی اصل مدعا ہے تو ناقابل اعتبار و جانبدار ہونے کے باوجود تعاون ناگزیر ہوجاتی ہے، ویسے تو پاکستان کے بنائے ہوئے کمیشن اور پارلیمانی و سنیٹ باڈی نہ کبھی قابل اعتبار رہے ہیں اور نہ ہی کبھی رہیں گے مگر خود اپنے ہی زمہ داران کی باتوں میں کس طرح کی تضادات ہیں وہ اس غیر سنجیدگی کا واضح تصویر کشی کرتے ییں کہ جسکا اوپر ذکر کیا گیا ہے، اس سے پہلے بھی ہم اس بات کا اظہار کرچکے ہیں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے لانگ مارچ میں کچھ پارٹی و شخصیات و تنظیموں کی جانب سے کیا کیا گل کھلائے گئے، پشتون تحفظ مومنٹ کے جلسے کے حوالے سے ایک پشتون دوست نے کہیں لکھا تھا کہ ” کسی پارٹی کا پرچم نہیں لہرایا پورے جلسے میں سب پارٹیوں کے لوگ شامل رہے مگر کھلے زہن اور صاف نیت کے ساتھ صرف پشتون قومی حقوق کے لیئے آئے یہ خوش آئند ہے” اور تو اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے لانگ مارچ کی سیاسی حیثیت، موثر ہونے کی قوت اور بھرپور قومی حمایت کے اظہار و شمولیت جیسی باتوں کا لانگ مارچ کا فیصلے کرتے وقت بالکل خیال نہیں رکھا گیا، بلکہ جو لوگ موجود تھے اور شامل ہوگئے انہی پر اکتفا کرکے لانگ مارچ کو شروع کیا گیا وگرنہ صحیح منصوبہ بندی کرکے سینکڑوں کیا ہزاروں لوگوں کو خاص کر بچوں اور عورتوں کو اس میں شامل کیا جاسکتا تھا، لانگ مارچ اپنی ابتداء اور آخر تک شاید ہی کہیں 100 کے ہندسے کو عبور کرگئی ہو، اسکے علاوہ پاکستان سیکیورٹی اداروں و خفیہ ایجنسیوں نے بہت سے معاملات میں ادنی اور چھوٹے چھوٹے جرائم یا من مانی کرنے اور حق مانگنے یا فوج و خفیہ اداروں سے تعاون نہ کرنے اور آپریشن اور ہنگامی صورتحال میں گھروں کو چھوڑ کر نہ جانے جیسے گناہوں کے پاداش میں انگنت لوگوں کو سندھ پنجاب خیبر پختونخواہ شمالی علاقاجات فاٹا، گلگت بلتستان اور بلوچستان سے اغواء کرکے لاپتہ کردیا ہے، یہ بلوچ کے کیس کو مسخ کرنے اور اسے پس منظر میں پھینکنے کے لیئے کافی ہے جو کہ باقی تمام اغوا نما گرفتاریوں کی نوعیت و ہئیت سے سراسر مختلف ہے، شعیہ، ہزارہ، مزارعین، فاٹا کے قبائلی لوگ و عمائدین، ترقی پسند و بائیں بازوں کے حامل خیالات رکھنے والے لوگوں سمیت مختلف قومیت، نسل، علاقہ و مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ہزاروں کی تعداد میں غائب کیا جاچکا ہے، کل کو اگر ان تمام لوگوں کی طرف سے پشتون تحفظ مومنٹ کی طرح دباؤ میں شدت لائی جائے اور عالمی ادارے و اقوام اگر پاکستان پر زور دیں کہ ان گمشدہ لوگوں کی بات کو سنیں ان کی کیس کو حل کریں تو خیبر پختونخوا، پنجاب و شمالی علاقہ جات سمیت ملک کے دیگر علاقوں کے کئی ہزار افراد، جو چھوٹے چھوٹے اور شاید ناکردہ گناہوں کے پاداش میں بند ہیں، کو منظر عام پر لا کر فوج اور اسکی خفیہ ایجنسیاں اپنی ساکھ کو دنیا کے سامنے مثبت انداز میں پیش کرسکتے ہیں، جو کہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے حوالے سے ایک منفی پیغام ہے، یہ خدشہ موجود ہے اور اسکے بارے میں زمہ دار حلقوں کو فکر مند ہونے کی ضرورت ہے، اور اس پورے منظر نامے میں بلوچ کو اپنا کیس اتنا شد و مد سے اور بھر پور انداز میں سامنے لانا چاہیئے کہ کسی اور کیس کی تشہیر، شدت اور معیار و وسعت میں دب کر فیصلہ کن لمحات میں دبیز سرکاری و عدالتی فائلوں کی نظر نہ ہوجائے، پاکتستان ایک قبضہ گیر ریاست ہے، اسکا گلہ کرنا بے سود ہے، جو کرنا ہے خود اپنے ہی لوگوں نے مکمل شعوری و نظریاتی بنیادوں پر خلوص کے ساتھ کرنا ہے، وگرنہ یہ جو اعداد وشمار بتائے گئے ہیں گو کہ متضاد ہیں مگر ہم یہ مانتے ہیں کہ شاید 50 ہزار سے زائد لوگ بلوچستان میں سے غائب ہیں، لیکن دنیا اور ادارے کوائف، ریکارڈ، صحیح اعداد و شمار اور واقعات کی مکمل تفصیل مانگتے ہیں،اس کام کے واسطے بلوچ کو اپنے ارد گرد خیرخاہوں، مخلص لوگوں اور با اعتبار رہنماؤں اور قول فعل کے تضاد سے پاک لوگوں کی جانب جھکنا ہوگا اور انہیں طاقت فراہم کرنا ہوگا تاکہ وہ بلوچ کی کیس کو کودنیا کے سامنے موثر انداز میں اور مکمل اعتماد کے ساتھ رکھ سکیں۔