سوشل میڈیا پر لسبیلہ یونیورسٹی کی اس ویڈیو میں دو نوجوان نظر آتے ہیں جن کے ہاتھوں میں بہت ساری کتابیں ہیں۔ان نوجوانوں کو سکیورٹی گارڈز فوڈ گالا میں مہرگڑھ کتاب کاروان کے بینر تلے اسٹال لگانے کو منع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک نوجوان بلوچی میں کہہ رہا ہے (سر کتاب انت)سر، یہ کتابیں ہیں، کوئی اور شے نہیں ہے آپ ضبط کر رہے ہیں لیکن وہ ان کو اندر نہیں جانے دے رہے ہیں۔
نوجوان نے حیرت سے پوچھا، لیکن سر، کتابوں میں تو صرف کہانیاں اور معلومات ہوتی ہیں۔ ان سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ سیکورٹی گارڈ نے جواب میں کہا، نوجوان، تم غلط ہو۔ کتابوں میں صرف کہانیاں اور معلومات نہیں ہوتیں۔ کتابوں میں نظریات ہوتے ہیں، خیالات ہوتے ہیں، اور سوچنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ کتابیں انسانوں کو بدل سکتی ہیں، اور یہی سبب ہے کہ استعمار کتابوں سے ڈرتے ہیں۔واقعی یار کتابیں بہت طاقتور ہوتی ہیں۔ وہ انسانوں کو سوچنے، سمجھنے اور جستجو کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ وہ انسانوں کو نئی دنیا ئوں سے روشناس کراتے ہیں اور انہیں زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہیں۔
سقراط، یونان کے ایک عظیم فلسفی تھے، وہ لوگوں سے جُستجو کرتے تھے،بحث و مباحث کرتے تھے ، سوال و جواب کرتا تھا، لیکن اس وقت کے حاکموں وجابروں کو سقراط کی یہ باتیں پسند نہ آئیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ سقراط نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے اور ان کے خلاف اُکسا رہے ہیں۔ اس لیے سقراط کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا،وہ اپنے باتوں سے پیچھے نہیں ہٹا، اپنی جان قربان کی۔
روم کے شہنشاہ بھی کتابوں سے خوفزدہ تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگ ان کے ظلم و ستم کے بارے میں جانیں۔ اس لیے انہوں نے کتابوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ جو لوگ ان کی بات نہیں مانتے تھے انہیں سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔
قرون وسطی میں کلیسا کا بہت زور تھا۔ وہ سائنس اور فلسفہ کے خلاف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ باتیں لوگوں کو گمراہ کرتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے کتابوں پر پابندی عائد کر دی۔ جو لوگ سائنس اور فلسفہ کے بارے میں کتابیں پڑھتے تھے انہیں کافر قرار دیا جاتا تھا۔
چین کے شہنشاہ چن شی ہوانگ بھی کتابوں کے دشمن تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ کتابیں لوگوں کو آزاد خیال بناتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے کنفیوشس کی کتابوں کو جلا دیا۔ کنفیوشس ایک عظیم مفکر تھے اور ان کی کتابوں میں لوگوں کے لیے زندگی گزارنے کے اصول لکھے ہوئے تھے۔
نازی جرمنی میں یہودیوں کی کتابوں کو جلا دیا گیا۔ نازی سمجھتے تھے کہ یہودی لوگ ان سے کمتر ہیں۔ اس لیے ان کی کتابوں کو پڑھنا اور رکھنا جرم ہے۔
گلیلیو ایک سائنسدان تھے۔ انہوں نے زمین کے سورج کے گرد گھومنے کے نظریے کا دفاع کیا۔ لیکن کلیسا اس نظریے کے خلاف تھا۔ اس لیے گلیلیو کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی جیسے بعد میں گھر میں نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا۔
برونو کو اس لیے زندہ جلایا گیا کہ انہوں نے اپنے نظریات کو پھیلایا۔ برونو ایک فلسفی تھے اور ان کے نظریات کلیسا کے خلاف تھے۔
کامریڈ لینن کو کازان یونیورسٹی سے اس لیے نکالا گیا کہ وہ سیاسی مظاہرے میں شرکت کرتے تھے، کتابیں پڑھتے تھے۔سیاسی سرکل انعقاد کیا کرتے تھے لینن ایک انقلابی رہنما تھے اور وہ کتابوں سے بہت متاثر تھے۔
کارل مارکس کو کتاب لکھنے کی پاداش میں جلاوطن کیا گیا۔ کارل مارکس ایک مفکر تھے اور ان کی کتابوں میں سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید کی گئی تھی۔
ان تمام واقعات دیکھیں، پڑھیں ، پتہ چلتا ہے کہ کتابیں کتنی طاقتور ہوتی ہیں۔ کتابیں علم، طاقت اور تبدیلی کا ذریعہ ہیں۔ اس لئے نوآبادکار محکوم کی شعور اور کتاب پڑھنے سے ڈرتا ہے اور ان پر پابندی عائد کر دیتا ہے۔ لیکن کتابوں کی طاقت کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کتابیں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور لوگوں کو علم، شعور اور آزادی کی راہ دکھاتی رہیں گی۔