تحریر: آرچن بلوچ
ھمگام آرٹیکل
گلزار امام ایک جنگی کمانڈر ہے اپنا گراؤنڈ چھوڑکر وسائل کی تلاش میں باہر جانے کیلئے فیصلہ لیتا ہے اور وہ ترکی میں پہنچتے ہی دشمن کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ دشمن بلوچ تحریک کی وسائل کی کمی کو بھانپ لیتا ہے اور اسی کمزوری کو لیکر گلزار امام کو پیسہ دینے کا جھانسا دیکر اپنے گرفت میں لیتا ہے۔ گلزار امام کو اس money trap کے جھانسے میں لانے کیلئے دشمن مہینوں پہلے منصوبہ بندی کرلیتی ہے، مخصوص الفاظ کے چناؤ کے ساتھ دشمن اعتراف کرتا ہے Gulzar Imam alias Shambay was apprehended after an innovatively conceived, carefully planned and meticulously executed operation, spanned over months over various geographical locations” خفیہ اداروں نے گلزار امام کو ایک تخلیقی طریقہ کار کے تحت احتیاط سے منصوبہ بندی اور باریک بینی سے انجام پانے والے آپریشن کے زریعے گرفتار کیا”۔
گلزار امام کی گرفتاری کو پاکستان کی بڑی اخبار ڈان نیوز نے ایک کامیاب حکمت عملی قرار دی ہے اور آئی ایس آئی نے گلزار کی گرفتاری کو مخصوص الفاظ کے چناؤ میں ایک بہت بڑی کامیابی قرار دی ہے۔ دوسری طرف بلوچ زرائع سے معلوم ہوا ہے کہ گلزار پچھلے سال مئی کے مہینے میں ترکی سے گرفتار ہوئے ہیں. گلزار امام کے گرفتاری کے بعد اور اسکے گرفتاری سے پہلے بی این اے کے کئی کیمپوں پر ڈرون حملے ہوئے جس سے کئی بلوچ سرمچار شھید ہوگئے! بلوچ کیس کے حوالے پاکستانی میڈیا اور پنجابی فوجی حکام یکساں رائے رکھتے ہیں، انکے مطابق گلزار امام کے گرفتاری کے بعد بلوچ مزاحمت دم توڑ دیگی، لیکن گلزار کی گرفتاری کے بعد پچھلے سال کی مئی سے لیکر اب تک کی بلوچ مزاحمت کی تمام کاروائیوں کو شمارکیا جائے تو پاکستانی حکام کے تمام دعوئے باطل ثابت ہونگے۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ گلزار امام کی گرفتاری کے محرکات کیا ہیں؟ یہی وہ بنیادی نقطہ A Case in Point ہے جہاں تحریک کے کرداروں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ وہ کیوں اپنا گراؤنڈ چھوڑ کر وسائل کی تلاش میں ملکوں ملکوں سفر کرنے پر نکلا؟ یہاں یہ بات طے ہے کہ بغیر مناسب وسائل کے ایک کامیاب تحریک چلانا ایک تجربہ ہوسکتا ہے لیکن مقصد کی کامیابی ممکن نہیں۔ اب یہاں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آیا تحریک کیلے وسائل کی تلاش سیاسی قیادت کی زمہ واری ہے یا عسکری قیادت کی؟ ایک عسکری کمانڈر میدان جنگ چھوڑ کر ملکوں ملکوں وسائل کی تلاش میں نکلے تو کیا ایسے میں رسک نہیں ہوتے؟ لیکن ہمارے ہاں معاملہ کچھ ایسا ہے کہ عسکری کمانڈر آپ، سیاسی قیادت آپ اور سفارت کار بھی آپ۔ گلزار امام سے پہلے شھید استاد اسلم بلوچ بھی ایسی ہی سوچ کا شکار ہوئے اور دشمن کا آسان ھدف!
اب آتے ہیں تحریک کی ان بنیادی ضروریات کی طرف جن کی کمی کی وجہ سے تحریک کیلئے ہر چہار سو مسائل پیدا ہوچکے ہیں وہ ایک ’’قومی سیاسی قیادت‘‘ کی قیام کی کمی ہے عقل سلیم یہی کہتا ہے کہ تحریک کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کی زمہ واری سیاسی قیادت کی ہے، ان زمہ واریوں میں تحریک کی معاشی وسائل کی حصول، تحریک کو افرادی قوت کی فراہمی، عوام میں سیاسی شعور اور ذہن سازی، تحریک کے حمایت میں سفارت کاری، عالمی فورمزمیں قوم کی نمائندگی، عالمی میڈیا میں تحریک کی ترجمانی، دشمن کی پروپیگنڈہ کا جواب، اور ہمسایہ دوست ممالک کے ساتھ تعلقات، ان سب زمہ واریوں کا تعلق فقط ’’سیاسی قیادت‘‘ سے ہے اور عالمی قوتیں انکی بات سنیں گے جن کے پاس قومی تحریک کا مینڈیٹ ہو! اب ہم منڈیٹ دینے کیلئے بھی تیار نہیں!
یہ بات طے ہے کہ آزادی پسند بلوچ کو اپنی تحریک جاری رکھنے کی کیلئے بے پناہ وسائل درکار ہیں اور انکے پاس کوئی سرمایہ دار طبقہ بھی نہیں جو تحریک کی مالی ضرورتوں کی تکمیل کرسکے۔ تحریک کے مالی وسائل کو پورا کرنے کیلئے دو قابل عمل اپشنز ہیں، پہلا بلوچ عوام کی اعتماد کو بحال کرتے ہوئے اسے ترغیب دیا جائے کہ وہ تحریکی وسائل کی فراہمی میں ساتھ دے، دوسرا ان بلوچ دوست اقوام یا قوتوں کو سیاسی ڈپلوماٹیک چینل کے زریعے راضی کیا جائے جو بلوچستان کی جیواسٹراجیک اہمیت کی وجہ سے اپنی مفادات کو دیکھتے ہوئے سپورٹ دیں لیکن یہ دونوں آپشنز مشروط ہیں قومی تحریک کی ایک مشترکہ سیاسی قیادت کی تشکیل کا جو*سنٹرل پولیٹکل اتھارٹی* کہلائے۔ اب سنٹرل اتھارٹی کا تصور ممکن ہی نہیں کہ ہمارے عسکری کمانڈروں کے ذہنوں میں بیٹھ جائے۔ جبکہ عوام اور دوسرے دوست ممالک تحریک کی ایک سنٹرل پولیٹکل اتھارٹی کے بغیر سپورٹ دینے کیلئے تیار نہیں۔
وسائل کی کمی کا شکار بلوچ تحریک کے شراکت دار کتنے ہیں، خودمختار اور نیم خودمختار سیاسی قوتیں جن میں کچھ قابل زکر سیاسی پارٹیاں جن میں فری بلوچستان مومنٹ، بلوچ نیشنل مومنٹ اور بلوچ رپبلکن پارٹی، بی ایس او اور دوسرے این جی ایز نما چھوٹی موٹی پارٹیاں بھی شامل ہیں جبکہ عسکری قوتیں بے شمار جن میں قابل زکر بی ایل اے آزاد، بی ایل ایف، بی این اے، بی آر جی، یو بی اے، بی ایل ٹی، بی آر اے، لشکر بلوچستان اور بشیر زیب کا لشکربھی شامل ہے۔ ان عسکری اور سیاسی پارٹیوں کے علاوہ کچھ انسانی حقوق کے تنظیمیں بھی ہیں جن میں قابل ذکر ماما قدیر کی وی بی ایم پی، انٹرنشنل وائس فار بلوچ مسنگ فرسنز، حقپان، پانک اور بی ایچ آر سی ہیں۔ اسی طرح نیم خودمختار طلباء تنظیموں کی ایک کثیر تعداد بھی موجود ہے۔
ان تمام انتشار کیgenesis 1967 بی ایس او والی اینٹی سردار کی بلاوجہ طبقاتی تقسیم سے ملتے ہیں اور اسی ناجائز تقسیم کی پرانی پیٹرن پر استاد واحد کمبر کے ذریعے جمعہ خان بلوچ کی ناکام عسکری تنظیم کو موجودہ قومی تحریک کے اندر طبقاتی لائن پر متعارف کرایا گیا۔ جمعہ خان نے اپنی تنظیم کو اس وقت سردخانے میں رکھ دیا جب میرعبدی خان ایرانی حکومت کے سامنے تسلیم ہوا اور خود متحدہ عرب امارات میں جاکر بس گیا۔ اسی لائن اور تقسیم کو لیکر کتنے الائنس بنائے گئے، کتنی تظیمیں بنا کر توڑ دی گئیں، ان تمام تقسیم، توڑ جوڑ کے دوڑ میں ڈاکٹر اللہ نظر، ماسٹر سلیم، مہران مری، نواب براھمدگ بگٹی، گلزارامام اور ببشیر زیب پیش پیش رہے ہیں۔ انکی انہی غیرمناسب رویوں کے سبب قومی تحریک کوآج تک ایک متفقہ سیاسی قیادت نصیب نہیں ہوئی ہے۔ ایک مرکزی سیاسی قیادت کی تشکیل کے سامنے سب سے بڑے رکاوٹ یہی قوتیں ہیں۔ اورمرکزی سیاسی قیادت کے کمی کے سب سے زیادہ نقصانات بھی انہی قوتوں نے اٹھائے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ یہی رجحان اگر جاری رہا تو یہ قومی تحریک کیلئے کوئی نیک شگون نہیں۔ مذکورہ عسکریں تنظیمیں، سیاسی پارٹیاں اور شخصیات کا زکر اس لئے کیا ہے کیوںکہ وہ Public Domain میں آچکے ہیں یعنی عوامی رہنمائی کے دعویدار ہیں، جہاں انکے فیصلوں یا عمل سے اگر مسائل پیدا ہونگے تو انکا نام ضرور آئے گا۔
خرف آخر: اب اگر مزکورہ قوتوں کی مخلصانہ کاوشیں ارتکاز کرتے ہوئے ایک سنٹرل پولیٹکل اتھارٹی تشکیل دینے پر منتج ہوئیں اور یہ سنٹرل پولیٹکل اتھارٹی ایک متبادل ریاستی قوت کے طور پر ابھری تو نہ صرف تحریک کو بین الاقوامی سپورٹ ملے گی بلکہ تحریک کے پاداش میں جبری گمشدیوں کے شکار تمام بہنوں اور بھائیوں کی رہائی بھی ممکن ہوجائے گی، اور یہ بھی ممکن ہوسکے گی کہ ریڈکراس تمام شرائط پورہ ہونے کے بعد تمام بلوچ قیدیوں بشمول گلزارامام کو جنگی قیدی قرار دینے میں راضی ہوجائےگی اور رواں تحریک کیلئے آسانیاں بھی پیدا ہونگی۔ قانونی طور پر دنیا کے تمام جنگی تنازعات میں ریڈ کراس شامل ہوتا ہے، لیکن ریڈکراس نے ابھی تک جنگ زدہ بلوچستان کی تنازع کو Recognize نہیں کیا ہے۔ کیونکہ اس کے کچھ اپنے معیارات ہوتے ہیں۔ ہمارے تمام عسکری قوتیں اس کے تعین کردہ معیارات پر پورا نہیں اترتے کیونکہ وہ ایک سنٹرل پولیٹکل اتھارٹی کے تحت منظم نہیں۔ اور اس حوالے ریڈ کراس کا مختصر شرط یہ ہے کہ تمام جنگی قوتیں رسمی طور پر دنیا کے مروجہ قوانین کے تحت ایک کمانڈ اور کنٹرول کے تحت ہوں اور یہ فورس ایک جمہوری سیاسی قیادت کے ماتحت ہو!