ہمگام کالم جب بلوچ تحریکِ آزادی میں ہزاراں مسائل نے سر اٹھانا شروع کیا تو سنگت حیر بیار نے سنجیدگی اور اصولی موقف کے ساتھ ان سنجیدہ مسائل کا دور رس حل نکالنے کیلئے کوششیں شروع کردیں۔تو دشمن ریاست کے ساتھ ساتھ کچھ سادہ لوع دوستوں نے بھی سنگت کو پیچھے دھکیلنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔دشمن ریاست کی جانب سے سنگت کے خلاف مہم چلانا اور انکے کردار پر کیچڑ اچھالنا سمجھ میں آنے والی بات ہے مگر کچھ آجوئی کے دعویداروں کا بھی اس پروپیگنڈہ مہم میں کھودنا اور سنگت کے خلاف پاکستانی بیانیے کو سپورٹ کرنا قابل افسوس ہے۔ بلوچستان ٹائمز، جو بلوچ نیشنل موومنٹ کی سرپرستی میں چل رہی ہے، نے کچھ مہینے پہلے ایک آرٹیکل شائع کیا تھا جس کی رو سے بلوچ قومی رہنما سنگت حیر بیار کو ایک ارب پتی اور نفع خور ظاہر کیا گیا تھا بعد میں یہی آرٹیکل ” دی بلوچستان پوسٹ” نے بھی شائع کیا تھا یہ پہلی مرتبہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی مزکورہ لوگوں کی جانب سے سنگت پر بے بنیاد اور غیر منطقی الزامات تراشے گئے تھے تاکہ سستی شہرت حاصل کر سکیں۔ہم نے اس سے پہلے بھی مزکورہ اشاعتی اداروں کی جانب سے سنگت کے بے داغ کردار پر کیچڑ اچھالتے دیکھا۔ ان سب سے” ڈیلی سنگر” ایک قدم آگے ہے۔جس نے کچھ وقت پہلے دو بے بنیاد تحریریں جنگریز مری اور سنتوش کمار کے نام سے شائع کیے تھے میں اس الزام تراشی والے کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہتا مگر بحیثیت ایک سیاسی ورکر ان حالات پر اپنی غیر جانبدارانہ تجزیہ ضرور پیش کرنا چاہوں گا کہ آخر کیوں سنگت کے خلاف ایسی مہم چلاہی جا رہی ہے ؟ سنگت حیر بیار مری واحد بلوچ آزادی پسند قومی لیڈر ہیں جن کا رویہ شروع دن سے بلوچ تحریک کے حوالے سے غیر مصالحانہ رہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہوشیار دشمن اور سادہ لوح دوست انکے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔بلوچستان کے باقی لیڈران غیر مصالحانہ رویہ کے حوالے سے غیر مستحکم رویہ اختیار کیئے ہوئے ہیں۔اس کی مثال ڈاکٹر اللہ نذر سے واضع ہےپہلے گریٹر بلوچستان کی نقشہ کو اپنے ٹوئٹر اکاونٹ کے بیک گراونڈ پر اپلوڈ کیا اور بعد میں ایران کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اس کور پکچر کو وہاں سے ہٹا دیا ۔ اور جناب ایرانی مظالم پر مکمل چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔اسی طرح بلوچ نیشنل موومنٹ کے لیڈرشپ کا بھی ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے تحریک پر کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ مگر سنگت حیربیار ایران کے حوالے سے اپنے اُصولی موقف پر سختی سے قائم ہیں۔ اسی وجہ سے سنگت کو کمزور کرنے کیلئے ایران اور پاکستان نے اپنی ، اپنی ایجنٹوں کے ذریعے نت نئے حربے استعمال میں لائے مگر ہر بار انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سنگت پر نفع خوری کا تہمت ایک احمقانہ سوچ کی غمازی کرتا ہے کیونکہ اگر سنگت کو دولت کا لالچ ہوتا تو اسکے حصول کیلئے انہیں کوئی بھی دقت درپیش نہیں ہوتا کیونکہ انکا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے جہاں سے گیس سمیت باقی وسائل دریافت ہوئے ہیں اور یہ ساری ذمین سنگت کی ذاتی ملکیت میں آتے ہیں1997کو سنگت حیر بیار بلوچستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اگر انہیں شہرت اور دولت سے غرض ہوتا تو فیملی اسٹیٹس کی وجہ سے وہ مزید وزارتوں کا مزہ لوٹ کر کربوں کی دولت اکھٹا کر سکتے تھے جس طرح آج کل پاکستانی وزراء اکھٹا کر رہے ہیں۔مگر سنگت نے ان سب مراعات کو پس پشت ڈال کر آزادی کے پر کھٹن راستے کا انتخاب کیا۔پاور میں رہتے ہوئے بھی سنگت نے قوم کے خاطر اپنی ہر چیز کو رِسک میں ڈال دیا تھا اس طرح کی جرائت نہ کسی نے دکھائی یے اور نہ ہی آگے کوئی دکھا سکے گی ! آج کل صوبائی اسمبلی کے ممبران کروڑوں روپے کی کرپشن کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔ان کا پاور حاصل کرنے کا مقصد اپنے جیبیں بھرنا ہیں لیکن حیربیار نے دورانِ وزارت تحریک کو وسعت دینے اور دوام بخشنے کی لیئے مسلسل کام کیا ۔کہا جاتا ہے کہ سنگت اپنی ذاتی پیسوں سے ہتھیار خرید کر آزادی پسند سنگتوں کو فراہم کرتے تھے تاکہ سنگت پاکستانی حملوں کی صورت میں اپنی دفاعی پوزیشن کو مضبوط کر سکیں۔یہاں تک کہ اپنے زیر استعمال سرکاری گاڈیوں کو بھی بلوچ تحریک کیلئے استعمال میں لاتے رہے۔یہ کچھ سادہ سی مثالیں ہیں, سنگت کے بلوچ تحریک میں خدمات لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے سنگت کو اگر ارب پتی بننے میں لگاؤ ہوتا تو وہ بہ آسانی پاکستانی گٹ جوڈ سے بلوچ وسائل کو نکال کر لمحوں میں ارب پتی بن سکتا تھا مگر سنگت نے پاکستانی ریاست کو بلوچ سرزمین کا ایک پھتر اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دی۔سنگت حیربیار مری واحد منسٹر تھا جس نے بلوچستان میں ایٹمی ٹیسٹ کی بھر پور مذمت کی، یہاں تک کہ اُس نے بلوچ سرزمین پر ایٹمی ٹیسٹ کنڈکٹ کرنے کے منصوبے کے خلاف ایک مذمتی بیان بھی دیا تھا بلوچستان اسمبلی میں نوجوان منسٹر ہونے کے ساتھ ان کا مقام سب سے اعلی تھا۔ مالک سمیت اسمبلی میں شامل باقی ارکان نے خوب پیسے بٹورے اور بلوچ نسل کشی میں چشم پوشی اختیار کی مگر سنگت حیر بیار نے بلوچستان کی آذاد حیثیت بحال کرنے کیلئے اپنی دن اور رات صرف کیئے۔اگر سنگت کو دولت کے ساتھ لگاؤ ہوتا تو مالک اور ثناء اللہ زہری کی طرح آج اربوں کا مالک ہوتا۔سنگت حیر بیار کا پاکستانی الیکشن میں حصہ لینا بلوچ تحریک کو مزید تناور کرنے کی حکمت عملی تھی ناکہ اپنی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنا تھا۔ یہ بات ان کے حلف لینے کے وقت واضح ہو گیا تھا جب سنگت نے پاکستان سے وفادار رہنے کے بجائے، حلف لینے کے وقت بلوچ قوم و وطن سے وفاداری کرنے کا حلف اٹھایا تھا۔ اسی ری ایکشن میں پنجابی اقتدار اعلی کی جانب سے سنگت کو برطرف کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔جس طرح سنگت نے بلوچ قوم سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا اسی طرح سے اقتدار میں رہ کر بھی بلوچ اور بلوچستان سے وفادار رہے اور دوسرے پارلیمانی بلوچوں کو بلوچ تحریک کی جانب مائل کرتے رہے۔ انہیں یہ احساس دلانے کی انتھک کوشش کی کہ وہ اپنی سرزمین پر غلاموں جیسی ذندگی بسر کر رہے ہیں اور پنجابی ان پر گزشتہ کئی دہائیوں سے قابض ہے پاکستانی سسٹم میں رہ کر بلوچ معاشی مسائل کو پورا نہیں کیا جا سکتا تھا مگر سیاسی پیچیدگیوں سے واقفیت کی بناہ پر سنگت نے قومی بیداری میں اول دستے کا کردار ادا کیا۔ قومی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے سنگت نے مختلف طریقہ کار استعمال کیئے کہ اگرچہ قابض مظلوم قوم کو غلام بنا کر ان کی زندگیاں اجیرن بنا دیتی ہے لیکن ان کی سوچ پر بندش نہیں لگا سکتی، ان کی ان سب اعمال سے سنگت حیربیار کے کردار کا شروع دن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ بات واضح ہو جاتی ھیکہ سنگت کی بنیادی ترجیح بلوچ قومی جنگ تھی۔ اس کے علاوہ سنگت کا ایک اور تاریکی کارنامہ چارٹر آف لبریشن ہے جس میں برابری اور بلوچ ساحل و وسائل کا منصفانہ تقسیم کا ذکر کیا گیا ہے بلوچستان چارٹر آف لبریشن میں یہ بات واضح کیا گیا ہے کہ بلوچستان سے نکلنے والے تمام وسائل بلوچ قوم کی مشترکہ ملکیت ہیں کسی فرد واحد کی ملکیت نہیں ۔اس عظیم کام کو سراہنے کے بجائے کچھ آذادی پسندوں کی جانب سے اس کی حوصلہ شکنی کی گئی جو سنگت اور ان کے نظریاتی سنگتوں نے بڑی محنت سے انجام دیا تھا۔اس تاریخی فریضے کو انجام دینے کے بعد سنگت پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات تراشے گئے اور انکو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایجنٹ کہا گیا۔یہاں پر ہنسنے والی بات یہ ہے کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایجنٹ اور منافع خور کیسے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا حامی ہوسکتا ہے ؟ اور بلخصوص جب ان کے اپنے علاقہ وسائل سے مالا مال ہو ، در اصل جو کوئی بھی سنگت کے خلاف پروپیگنڈے کر رہے ہیں وہ جمہوری عمل اور برابری لانے والی نظام سے خوف محسوس کر رہے ہیں اور اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ بلوچ قوم کو انتشار میں لانے کیلئے کچھ عناصر بلوچ قومی جنگ کو طبقاتی جنگ کی جانب دھکیل رہے ہیں اور اینٹی سرداری والے نعرے کو استعمال میں لاکر بلوچ تحریک کو طبقاتی کشمکش کی جانب لے جانے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔سنگت کے خلاف نہ ختم ہونے والے پروپیگنڈے بلوچ قومی تحریک کو قومی جنگ سے نکال کر طبقاتی جنگ کی جانب دھکیلنے کی ایک کوشش ہے۔اس بات میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا ھے کہ ایک منصوبہ کے تحت “ڈیلی سنگر” سنگت حیر بیار کو ایک قبائلی سردار اور متنازعہ شخصیت ظاہر کر نے کی کوشش کر رہی ہے سنگت کے خلاف ایک منظم لابی کی صورت میں کام کیا جا رہا ہے۔ جھوٹے اور بے بنیاد آرٹیکل لکھے جا رہے ہیں اور انکو ” ڈیلی سنگر” شائع کر رہی ہے۔ نواب صاحب کی رحلت کے بعد سنگت نے یہ بات واضح کر دیا تھا کہ نواب صاحب مری قبیلے کے آخری سردار تھے۔اس نے نواب و سرداروں کو تلقین کیا تھا کہ وہ اپنی طاقت کو قومی آزادی کے لیے جنگ لڑنے والوں کے تابع کرے اور چنگیز اور مہران کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ سرداریت حاصل کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔اس ضمن میں سنگت نے مزید کہا ہے کہ آزاد بلوچستان میں انگولا اور شمالی کوریا جیسی حالات جنم لے سکتے ہیں اگر سردار اور نواب اپنی طاقت و پاور کو آزادی کے لیے لڑنے والے جہدکاروں کا ماتحت نہ کرے، لیکن ان مڈل کلاس والوں کے نذدیک ایک سردار کے گھرانے میں پلا بڑھا شخص خودبخود ایک منفی کردار تصور کیا جائے گا۔ دنیا میں بہت سے لیڈران تھے جو سردار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نیلسن منڈیلا کی مثال لیتے ہیں وہ جنوبی افریقہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں ٹرانسکی میں پیدا ہوئے ان کے والد گاؤں کے سردار تھے اور ٹیمبو قبیلے کے ممبر تھے منڈیلا انہی سردار اور نوابوں کی صحبت میں بڑا ہوا اور نوابی کی مکمل مخالفت کی اور ان کے خلاف بھرپور بغاوت کی۔ آج ساری دنیا منڈیلا کو عقیدت سے یاد کرتی ہے اور ساری دنیا کیلئے وہ ایک کرشماتی لیڈر ہیں جس نے امن کا نوبل انعام بھی حاصل کیا تھا۔اگر ڈاکٹر اللہ نظر، خلیل ،واحد کمبر اور گلزار امام کے مڈل کلاسی فلسفے کی رو سے دیکھا جائے تو نیلسن منڈیلا محض ایک قباہلی سردار کی حیثیت رکھتا ہے۔اسی طرح اس فلسفے کی رو سے جارج واشنگٹن کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی کیونکہ وہ ایک دولتمند گھرانے میں پیدا ہوا تھا ۔قبائل اور قبائلی لیڈران کی کنٹریبیوشن کو آذادی کی تحریکوں میں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ مڈل کلاسی نعرہ بلوچ تحریک کیلئے ذہر قاتل کی مانند کام کر رہا ہے کیونکہ پاکستانی مظالم بلوچ تحریک کو جسمانی حوالے سے تکلیف دے رہی ہیں مگر یہ مڈل کلاسی والا شوشہ بلوچ تحریک کو روحانی اعتبار سے نقصان سے دوچار کر رہا ہے اور بلوچ جہد کے جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے قومی جہد کے حوالے سے نوجوانوں کے دماغ میں شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے ان سب کا دشمن فائدہ اٹھا کر بلوچ تحریک میں طبقاتی تقسیم پیدا کرکے بلوچ تحریک کو نقصانات سے دوچار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ۔اور پاکستان یہی سب کچھ شروع دن سے کرتا آ رہا ہے۔ یہ بلوچ کی خوش نصیبی ہے کہ ان کو سنگت حیر بیار جیسا دور اندیش اور معاملہ فہم لیڈر نصیب ہوا ہے جو اپنے دوستوں اور دشمنوں پر ہمہ وقت نظر رکھے ہوئے ہیں بلوچ قوم کو یہ بات جان لینا چائیے کہ تحریک میں طبقاتی تقسیم کی کوئی گنجاہش نہیں ہے۔ سنگت نے بلوچستان لبریشن چارٹر ، کی صورت میں بلوچ قوم کو ایک واضح روڈ میپ دیا ہے کہ کس طرح جنگ کو آگے بڑھایا جائے۔ سنگت ہمہ وقت ان قوتوں کے سامنے ایک مضبوط دیوار کی مانند کھڑے رہے ہیں جو اپنی غلط پالیسیوں سے بلوچ جہد کو نقصانات سے دوچار کرتے آ رہے ہیں۔ اسی اصولی موقف کی وجہ سے سنگت اپنی فیملی اور بھائیوں سے بھی مسلسل اختلاف رکھتے رہے ہیں۔مخبری کا لیبل لگا کر بیگناہ بلوچوں کے قتل عام پر بولتے رہے ہیں۔ اسی طرح ہر اس عمل کی حوصلہ شکنی کرتے رہے ھیں جو بلوچ مفاد کے برخلاف ہے۔ قابض ایران کے ساتھ بی ایل ایف اور بی این ایم کی ساز باز کو بلوچ قومی مفاد کے برخلاف سمجھتے رہے اور اس عمل کی ہر فورم پر مخالفت کرتے رہے کیونکہ ایرانی سامراج کے مکروہ چہرے کو سنگت بہت پہلے جان چکے ہیں۔ ایرانی قابض فوج کی جانب بی ایل ایف کے جانباز سنگتوں کی شہادت اور ان معاملات پر بی ایل ایف کی مکمل خاموشی انکی مفاد پرستانہ نیت کو عیاں کرتا ہے۔ سنگت حیر بیار کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے کی بجائے یہ لوگ غلط بیانیوں ، منفی پروپیگنڈے اور جھوٹے الزامات کے سہارے سنگت کی کردار کو غلط تشریح کرنے میں دن رات ايک کررہے ہیں۔ مگر ان کو یہ بات ذہن نشین کرنی چائیے کہ سنگت کے خلاف یہ اقدامات سیدھا تحریک پر اثر انداز ہونگے کیونکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سنگت حیربیار واحد بلوچ لیڈر ہیں جو بلوچ تحریک کے پیچیدہ مسائل کو بخوبی حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور تحریک کو صحیح سمت پر لانے میں بخوبی اہل ہے اور پوری قوم کی انکھیں سنگت کے اسی اہلیت پر جمے ہوئے ہیں۔