دنیا میں عظیم قوموں کی پہچان ان کے عظیم فرزندوں سے ہوتا ہے جو اپنے زندگی اپنی قوم کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ اور دنیا ان قوموں کے تاریخ کو عظیم ترین قوموں کے طور پر دیکھتی ہے اور وہ قوم ہمیشہ دنیا میں زندہ رہتے ہیں سرزمین بلوچستان میں ایسے ہی عظیم فرزندوں  کے بہادری اور قومی جرت کے انگنت داستانیں موجود ہیں، جن کے انتھک محنت کی بدولت آج ہر بلوچ چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اگر بلوچوں کی تاریخ لکھی جائے تو وہ سگار بلا مری کے بغیر نا مکمل ہوگا بلا مری کون ہے ان کا کردار بلوچ قوم اور قومی تحریک میں کیا معنی رکھتا ہے ایک مختصر پس منظر میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
رمضان مری عرف بلا مری بلوچستان کے مزاحمت کے علامت اور تاریخی دفاعی مورچہ سمجھے جانے والے علاقے کوہستان مری سے تعلق رکھتے ہیں وہ مری قبائل کے ذیلی شاخ گزینی کے مرگیانی ٹکر(شاخ) سے ہیں وہ بلوچ قومی تحریک میں 16 سال کے عمر سے وابستہ ہوئے
ان کے خاندان کے کئی افراد بھٹو اور ضیاء آمریت کے دور میں قومی تحریک سے وابستہ رہے ہیں۔
16 سے 66 سال تک پچاس سال پر محیط یہ سفر اتنا آسان نہیں تھا اپنے زندگی کی نصف صدی بلوچ قوم کے نام کرنا اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے 1973 میں جب بھٹو دور میں کوہستان مری میں فوج کشی کا آغاز کیا گیا تو مری قبیلے کی اکثریت نے قابض ریاست کے خلاف گوریلا کاروائیاں شروع کی یہ دفاعی مزاحمت دو دہائیوں پر محیط رہی 1978 میں نواب خیربخش مری کے رہنمائی میں مری قبیلے کے اکثریت نے افغانستان میں ہجرت کی اس ہجرت میں ہزاروں خاندانوں کے ساتھ بلا مری کا فیملی بھی شامل تھا۔
1973 سے لے کر 1993 تک زندگی کے اتار چڑھاؤ نے  رمضان مری عرف بلا مری کو ایک ایسے نا شکستہ سوچ کا حامل بنایا جس شخص نے کاہان سے دریائے بولان کو اپنے حصار میں لیے لیا۔
بلا مری نے باضابطہ طور پر اپنے جنگی مزاحمت کا آغاز  1999 میں کاہان کا کمان سنبھالنے سے کیا۔
ہاں کاہان! وہ کاہان جو صدیوں سے اپنے قوم کیلئے دفاعی مورچے کا تاریخی اعزاز رکھتا ہے وہ کاہان جو اپنے اندر اپنے عظیم بہادر فرزندوں کی داستانیں سمویا ہوا ہے آج کاہان ایک اور داستان لکھنے کو بےتاب ہے۔
وہ داستان سگار بلا مری عرف رمضان مری کے قومی فکر اور فلسفہ آزادی کا اور ہر اس بلوچ بیٹے کے عہد کا ہے جو قابض ریاست کو اپنے سرزمین سے نکلنے کے لیے برسرپیکار ہے
1973 کے بعد پہلی بار بلا مری نے اپنے کیمپ کا آغاز کیا اب وہ عملی طور پر اپنے قومی نظریے کے پروگرام کو وسعت دیتے ہوئے لوگوں کے ساتھ نشست میں روبرو ہوتے اور  بلوچ قومی آزادی کا پرچار کرتے ہوئے لوگ سگار کے مجلس میں بیٹھنے کے لیے بے تاب رہتے کیونکہ ان کا لب و لہجہ اتنا متاثر کن تھا اور انتہائی خوش مزاجی ان کے شخصیت کی عکاسی تھی اور وہ شعوری حوالے سے ایک آزادی پسند انسان تھا عوام کے مزاج کو سمجھنے میں عبور رکھنا لوگوں کے سوچ کے عین مطابق موضوع کو چھیڑنا بس سگار مری ہی سمجھتے تھے بڑے عرصے کے بعد کاہان پھر سے آباد ہو رہا تھا لوگ سگار کو جاننے لگے تھے سگار کے کیمپ میں لوگوں کا رش لگا رہتا تھا دور دور سے لوگ قومی تحریک سے جڑنے لگے سگار لوگوں میں گھل مل گیا لوگوں کا اعتماد سگار پر بحال ہو رہا تھا لوگ اپنے علاقائی مسائل اور سماجی مسائل سگار کے پاس لاتے اور سگار ان مسائل کو غیرجانبداری سے حل کیا کرتے لوگوں میں ان کی ایمانداری کے چرچے ہونے لگے کیونکہ وہ لوگوں کے مسائل کو غیر جانبدار اور مخلصی سے حل کرتا تھا  “بلا ” یہ نام دشمن کے دفتروں کے دیواروں میں گونجنے لگا۔
دوسری طرف تخت بلوچستان میں 6 جنوری کو شہدائے قلات نے تاریخ ساز قربانی دے کر قابض دشمن کو پہلی للکار اپنے خون سے دیا شہدائے 6 جنوری قلات  حالیہ مزاحمت کے اولین شہداء ہیں 6 جنوری 2002 کو بلوچوں کے پایہ تخت قلات میں مادر وطن کے تین بلوچ  فرزندوں نے اپنے سروں کی قربانی دے کر پچھلے دو دہائیوں سے جاری حالیہ مزاحمت کے اولین شہدا کا تمغہ اپنے اپنے سینوں پہ سجا لیا جن میں شہید کمانڈر گلبہار پرکانی شہید سنگت صوبدار مری اور شہید سنگت واحد بخش مری شامل تھے ان میں شہید صوبدار مری شہید سگار بلا مری کا بھتیجا تھا۔
بھتیجے کے شہادت نے جہاں ایک طرف سگار کے سینے میں درد کا خنجر اتارا وہی دوسری طرف  سگار کے حوصلے شہداء کے عظیم قربانی سے کاہان کے چٹانوں کے طرح اونچے ہوگئے شہدائے قلات کے شہادت کے بعد باضابطہ جنگ کا آغاز ہو چکا تھا جب پہلی بار بلوچ قومی فوج یعنی بلوچ لبریشن آرمی کا نام سامنے آیا تھا تو دشمن کے سرگرمیوں میں کافی حد تک اضافہ ہونے لگا کیونکہ جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔
 قومی آزادی کے جنگ کا آغاز تو ہو چکا تھا مگر اس قومی شعور کے کارواں کو مضبوط بنانے کے لیے قبائلی اور علاقائی تنازعات کا حل لازمی تھا نواب خیربخش مری اور نواب اکبرخان بگٹی کے درمیان اس معاملے میں پیش رفت ہوئی نواب صاحب کی طرف سے شہید میر بالاچ مری کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ مری بگٹی قبائل کے درمیان دہائیوں سے جاری قبائلی جنگ کا خاتمہ کیا جائے بالاچ مری کی رہنمائی میں علاقائی سطح پر بلا مری اور کئی دیگر سینئر ساتھیوں کا کردار مری بگٹی قبائل کے درمیان ہونے والے تاریخ ساز جرگے میں اہمیت کا حامل تھا جس کے بعد مری اور بگٹی قبائل آپس میں شیر و شکر ہوئے شہید بالاچ خان مری اور نواب زادہ براہمداغ بگٹی کے قیادت میں اس کے آئندہ کے لائحہ عمل  تیار کیا جارہا تھا صلاح و مشورے کے بعد یہ طے پایا کہ دونوں طرف سے ایک ایک بااعتماد نمائندہ منتخب کیا جائے جو شہید بالاچ مری اور براہمداغ بگٹی کے غیر موجودگی میں قبائلی مسائل کو حل کرینگے۔ تو شہید میر بالاچ مری نے سگار بلا مری کو اپنا نمائندہ پیش کیا جب بگٹی قبیلے کی طرف سے براہمداغ بگٹی سے پوچھا گیا تو انہوں نے یہ کہا کہ جو میر بالاچ مری کا بااعتماد ساتھی ہے وہ میرے لئے بھی بااعتماد ساتھی ہے اس طرح براہمدغ بگٹی اور میر بالاچ مری دونوں نے اپنا نمائندہ بلا مری کو منتخب کیا بلا مری کے مخلصی اور ایمانداری کی وجہ سے ہی بلوچ قومی لیڈروں نے انہیں دونوں قبائلوں کے آپسی اختلاف یا مسائل کا بیڑہ ان کے کندھے پر ڈالا ریاست کے فوجی چھاونی میں یہ ہلچل مچا کہ سگار بلا مری کون ہیں دشمن ابھی تک یہ نہیں جانتے تھے بلا مری کون ہے وہ کیسے دکھتا ہے اور کہاں رہتا ہے کیا کھاتا پیتا ہے کون اس کے پیچھے ہے اور یہ کہ وہ کتنے بڑے طاقت کا حامل ہے۔
بلا مری دشمن کے لے بے چینی کا باعث تب بنا جب شہید سگار بلا مری کے کمان میں کاہان کے فوجی چھاونی میں گولوں کی بوچھاڑ ہوئی قابض ریاست کے زر خرید فوجیوں کے راتوں کے نیندیں اڑ گئی۔
سگار بنا رکھے بنا جھکے اپنے منزل کی جانب گامزن تھا مگر حالات سگار کو اور آزمانا چاہتے تھے جیسے کسی پربت یا اونچے چٹانوں کی طرح جو کئی طوفانوں کا سامنا کرتے ہیں ویسے ہی سگار پر قیامت پہ قیامت برپا ہو رہا تھا  کہ 2007 کو ان کے ایک اور بھتیجے شاہ میر مری کا کوہستان مری میں شہادت کا واقع پیش آیا سگار آج پھر زخمی تھا کہا جاتا ہے کہ زخمی شیر اور بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے قربانیوں کا یہ سلسلہ یہاں تک نہیں رکا شہید بلا مری نے کئی جنگوں میں موجود رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا، متعدد فوجی جارحیتوں میں بلخصوص 2016 اور 2017 میں دشمن فوج نے جب ان کے کیمپ پر فضائی جارحیت کیا تو کیمپ اور زیرکمان ساتھیوں کی دفاع میں شہید بلا مری کئی مرتبہ زخمی ہوئے، مگر اس کے باوجود انہوں نے جسمانی تکالیف اور حالات کی سختیوں کے سامنے جھکنے کے بجائے مستقل مزاجی کے ساتھ کاہان کے جنت نظیر وادی میں رہ کر لڑنے کو ترجیح دیا 9 اپریل کو فوجی جارحیت کے دوران سگار زخمی ہوئے انہیں تو اپنے زخموں کا پروا نہیں تھا وہ ساتھیوں کو ہدایت دیتے لڑو لڑو اس جابر کو ہمیں اپنے سرزمین سے نکالنا ہے دوسری طرف دشمن اس تاک میں تھا کہ سگار کو کب کیسے نقصان پہنچایا جائے دشمن ہر ممکن کوشش کرنے کے باوجود ناکام رہا کئی فضائی جارحیت زمینی فوج کشی سگار تک نہ پہنچ سکے دشمن کسی بھی قیمت پر شہید سگار کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے اگر سگار نا صحیح تو ان کے اس دست راست ساتھی کو کسی طریقے سے بھی نقصان پہنچایا جائے اور دشمن کو اپنے اس مکروہ چال میں اس وقت کامیاب ملی جب 12 اپریل 2017 کا دن سگار پر محشر بن کر ٹوٹ پڑا شہید رطا مری کے شہادت کا اطلاع جب ساتھیوں نے سگار مری کو دیا تو شاید وہ دن سگار کے لیے ایک محشر سے کم نہیں تھا شہید رطا مری سگار کا بھانجا اور دست راست تھا۔
ہر دن کے محشر شہید سگار بلا مری کے حوصلوں کو پست نہ کر سکے شہید سگار بلا مری حالات کے ہر سختی میں سرخرو اور نڈر رہے حالات ان کے سرخ رنگت کو بوجھل نہ کر سکے۔
یہاں تک کہ وہ 2006 سے اپنے اہل و عیال سے نہیں مل سکے اور گزشتہ 15 سالوں سے جنگی محاذ پر بغیر کسی وقفے کے اپنے  قومی زمہ داری ادا کرتے رہے حتی کہ بلوچ قومی تنظیم میں معاشی کمزوری کا جو شاخسانہ گزرا وہ بھی بلا مری کے حوصلوں کو پسپا نہ کر سکے وہ کاہان کا بالاچ تھا اسے کاہان سے بے انتہاء محبت تھا کاہان بلا تھا اور بلا کاہان کا بالاچ تھا وہ دونوں ایک دوسرے کے بنا ادھورے ہیں۔
سگار کاہان کا اصل وارث تھا اور وہ ایک عظیم گوریلا جنگجو تھا وہ کاہان کے سنگلاخ پہاڑوں میں کبھی بھی ایک جگے پر بسیرا نہیں کرتا تھا وہ اس پیراں سالی کے عمر میں بھی  ہمیشہ سفر میں رہتے تھے اور یہی ایک گوریلا جنگجو ہونے کی نشانی ہے اور جنگی حکمت عملی بھی سگار کاہان میں موجود ہر چیز کا خیال رکھتا تھا کیونکہ وہ کاہان کے  ہر چیز کا محافظ تھا کاہان کے پہاڑوں صحراوں ، وادیوں ، درختوں اور سب سے بڑھ کر وہ پہاڑوں کے شان پہاڑی جانوروں کا محافظ تھا شہید سگار بلا مری کے رہنما شہید میر بالاج خان مری نے خود کاہان میں رہ کر کئی قانون بنائے تھے جس میں کئی ایسے چیزوں پر پابندی عائد تھی جو  عالمی دنیا میں بھی جرم کے زمرے میں آتے ہیں جس میں جنگلی حیات کی حفاظت شامل ہے ویسے ہی شہید میر بالاچ مری نے جانوروں کے شکار پر پابندی درختوں کے کاٹنے پر پابندی جیسے قانون بنائے وہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے آخری دم تک اس کے خلاف کھڑا تھا اور شہید بالاچ مری کے بعد یہ بیڑا شہید سگار بلا مری نے اپنے سر لے لیا اور وہ اپنے آخری سانس تک اس پر سختی سے کاربند تھے۔
سگار بلا مری اپنے آپ میں ایک فلسفہ ہے اسے پڑھنا لکھنا یا بیان کرنا ممکن نہیں ہے ان کے جہد مسلسل کو لفظوں سے شکل دینا ناممکن ہے شہید سگار بلا مری کا کردار بلوچ نوجوانوں اور ہر اس انقلابی سوچ رکھنے والے قومی کارکنوں کیلئے مشعل راہ ہے۔