تحریر: میران بلوچ

ہمگام آرٹیکل

آج شہید بلا مری کی دوسری اور اسکے بھانجے شہید رتا مری کی چھٹی برسی ہے رتا مری بھی ان نوجوانوں میں سے ایک ہیں جس نے بلا مری سے متاثر ہو کر پہاڑوں کا رخ کیا ایسے شہیدوں میں صوبدار مری سمیت کئی اور نام بھی شامل ہیں جو شہید بلا مری کے کاروان آزادی کا حصہ رہے۔

کمانڈر بلا مری ہمیشہ سے ہی ایک الگ اور جدید سوچ رکھتے تھے ان کے والد اپنے دور کے ایک انتہائی مالدار شخص تھے مگر انہوں نے ایک کاروباری زندگی کے بجائے وطن کی راہ پر چلنے کا انتخاب کرتے ہوئے جلاوطنی اور پردیس میں اپنی تمام دولت مال مویشی سب کچھ قربان کردیا انہوں نے اس زمانے میں سب سے پہلے اپنی لئے ایک بندوق اور ایک ریڈیو خریدا جو ان کے جدید سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

 افغانستان سے واپسی پر کوئٹہ کی سردی میں انتہائی مشکل اور غربت والے دن گزارے مگر اس کے باوجود اپنے تمام بچوں کو سکول بھیجا، بچیوں کے لیے فری تعلیم دینے کے لیے شہید صوبیدار مری کو سکول ٹیچر بنایا۔

جب بلا مری کاہان منتقل ہوا تو وہاں اس نے اپنے گھر کو ہی سکول میں بدل دیا جہاں آس پاس گاؤں کے بچے بچیاں تعلیم حاصل کرنے آتے رہے ۔

 یہ شہید کی جدید دور کی سائنسی سوچ اور خواتین کے حقوق کیلئے اس کے سوچ کو عیاں کرتا ہے وہ کئی بار کھل کر فرسودہ چیزوں کے خلاف بات کرتے تھے اپنے فیصلے بھی وہ انصاف کے بنیاد پر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

اس نے اپنے زندگی میں ہزاروں فیصلے کیے جس میں قبائلی تنازعات زمینی تکرار آپسی جھگڑے شامل ہیں۔ شہید بلا مری خواتین اور بچوں کے حقوق پر خاص توجہ دیتے۔

جس کی وجہ سے بلوچ رہنما بالاچ مری نہ صرف تنظیمی اجلاس اور کاموں میں بلکہ علاقائی صورتحال پر بھی کمانڈر بلا مری سے اکثر رائے لیتے تھے

مری ، بگٹی ، قبائل کےدرمیان اصلاح کرنے کے بعد بالاچ مری اور براہمداغ بگٹی نے یہ ذمہ داری بھی کمانڈر بلا مری کے حوالے کیا کہ دوبارہ یہ جنگ شروع نہ ہوں جس میں پہلے ہی ہزاروں لوگ جان سے گئے بلا مری یہ ذمہ داری آخری وقت تک نبھاتے رہے اور بعد میں آنے والے ہر مسئلے پر بالاچ مری اور براہمداغ بگٹی کی مدد سے بات چیت کے ذریعےحل کرتے رہے

بالاچ مری کے شہادت کے بعد بلا مری نے شہید بالاچ کے سوچ اور ان کے دیئے ہوئے شعور کو ساتھ لیکر چلے۔

 بلا مری نے بی ایل اے اور بی آر اے کے درمیان تعلقات مظبوط کیے جس کی وجہ سے علاقے میں کئی مجاز پر دنوں تنظیمیں نے پاکستانی فوج کے حملوں کا منہ توڑ جواب دیا اور ساتھی ایک ساتھ دشمن سے لڑتے ہوئے شہید بھی ہوئے اور دشمن کے سیکڑوں فوجی مارے گئے

شہید سگار بلا مری ایک انتہائی ایماندار شخص تھے وہ مریستان کے ایک نامور اور طاقتور کمانڈر تھے اس کے پاس اختیار تھا مگر اس کے باوجود انہوں کبھی اپنی حد سے تجاوز نہیں کیا۔

وہ نہایت ہی سادگی سے رہتے تھے کسی کو آڈر دینے کے بجائے اپنے تمام کام خود سر انجام دیتے کیمپ میں ساتھیوں کیلئے خود کھانا بھی بناتے تھے وہ خود بہت کم کھانا کھاتے تھے ہمیشہ خوش مزاج رہتے اور گپ شپ کرتے تھے مگر کسی غلط بات پر غصہ ہو کر ڈانٹتے بھی تھے تب ان کے سامنے کوئی بول نہیں پاتا تھا۔

وہ ہمیشہ ریڈیو سنتے تھے اور حالات حاضرہ سے باخبر رہتے تھے بی بی سی اور وائس آف امریکہ شوق سے سنتے تھےاس کے علاہ بلوچی گیت اور نڑ سر بھی سنتے تھے، نیچر، جانوروں اور جنگلی حیات کو پسند کرتے تھے اور اگر موقع ملتا ان کے ویڈیوز دیکھتے تھے۔ وہ خود اچھے نشانے باز تھے مگر شکار کے نہ صرف خلاف تھے بلکہ اس پر پابندی بھی لگا دی جیسے کہ پہلے شہید بالاچ مری نے کیا تھا۔

سگار بلا مری نہایت ہی ثابت قدم اور برداشت کرنے والے انسان تھے یہی وجہ ہے کہ اتنے دہائیوں تک کئی مشکلات کے باوجود وہ اپنے راہ اور موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے دن رات کی انتھک محنت اور کئی سالوں کی قربانیوں کے بعد وہ بھروسے اور اعتماد کا دوسرا نام بن گئے اس کے کردار اور بہادری کا اعتراف ناقدین اور دشمن تک نے کیا ان کی زندگی سے بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔ شہید بلا مری ایک بھرپور اور مثالی زندگی گزار کر رخصت ہوگئے مگر ان کا نام ہمیشہ ذہنوں میں نقش رہے گا۔