تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ
ہمگام آرٹیکل
سیاسی اسلام وہ ہے جو آج کل مُلّا صاحبان، جمیعت، اور دیگر نام نہاد مذہبی رجعت پسند تنظیموں نے ٹھیکہ اٹھایا ہے، جن کا نظریہ بلوچ قوم کے شعور یافتہ نوجوانوں کا قتلِ عام کرکے سیاسی مقاصد اور زاتی مراعات کیلئے آقاء کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔
جبکہ خدا کا اسلام وہ جن پر فقیر اور درویش نما انسان وہ لوگ عمل پیرا ہیں جن میں نہ منافقت پائی جاتی ہے اور نہ ہی شدت پسندانہ اور رجعت پسندانہ سوچ ان میں پائے جاتے ہیں۔
یہ نام نہاد مذہبی ٹھیکدار اسلام کے نام پر دھبے ہیں، جنہوں نے اسلام کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے، خدا اور مذہب کا نام اپنے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
آخر یہ کون لوگ ہیں یہ مُلّا؟
سرِ عام ان کو اسلحہ اٹھا کر مظلوم بلوچ نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کرنے کی اجازت کس نے دی ہے؟
یہ کالے شیشوں والی سرف گاڈیوں پر سوار ہو کر کہاں سے آتے ہیں؟
اگر ان سوالات کے جوابات کا کھوج لگانے کی کوشش کی جائے تو بلوچ قوم واضح طور پر سمجھ سکتی ہے کہ ان کے شعور یافتہ زہنوں اور قوم کے مستقبل کو کون بے دردی سے شہید کر رہا ہے۔
اگر بلوچستان کے دوسروں علاقوں کی نسبت دیکھا جائے تو مکُران میں سرداری نظام نہ ہونے کے برابر ہے، یہاں دیگر ہتھگنڈے کارگر ثابت نہیں ہوسکتے بلکہ یہاں دیگر تمام حربے زمین بوس ہوچکے ہیں، لیکن ان نادانوں کو کون سمجھائے کہ یہاں مذہبی ہتھیار بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔
بلوچستان کے اندر مزہبی شدت پسندوں کو تیزی سے سرگرم کیا جا رہا ہے۔ جنکا واحد مقصد مذہبی رجعت پسندی کو فروغ دیکر شعور یافتہ نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کرکے بلوچ قوم کو تاریکی اور پسماندگی کی طرف دھکیل دینا ہے۔ کیچ میں نوجوان ٹیچر رؤف بلوچ کی بے رحمانہ قتل اسی سلسلے کی کھڑی ہے۔
ان کا مین ٹارگٹ بلوچ اساتذہ اور شعور یافتہ نوجوان ہیں، یہ جمیعت اور دیگر مذہبی فرقہ وارانہ نظریے پر حامل شدت پسند مُلّا نہ صرف بلوچ قوم کے تعلیم پر قدغن لگانے کی تیاری کر رہے ہیں بلکہ یہ مستقبل قریب میں بلوچ کلچر کو بھی غیر اسلامی قرار دے کر بلوچ قوم کے کلچر کو بھی مسخ کرنے کی پالیسی بنائیں گے۔
اگر ان مذہبی شدت پسند گروہوں کے خلاف بلوچ علماء، دانشور طبقہ، طلباء تنظیموں اور دیگر مکتبہِ فکر کے لوگوں نے جدوجہد نہیں کی اور انہیں نہیں روکا گیا تو کل کے دن بلوچی شلوار بھی غیر اسلامی قرار دیا جائے گا، بلوچ طالبات کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، بلوچ روایات پر بھی پابندی لگائی جائے گی۔
انکے پاس نہ کوئی مذہبی پروگرام ہے بلکہ ان کو بلوچ قوم کو شعور اور آگاہی سے دور کرکے بلوچستان میں مدرسہ کلچر اور طالبانائزیشن کو فروغ دینا ہے، تاکہ بلوچ اپنے اصل قومی مسائل سے بیگانہ رہ کر نام نہاد مذہبی ٹھیکداروں اور انکے پالنے والوں کی پیٹ بھر سکے۔
یہ رجعت پسند گروہوں کو بلوچستان بالخصوص مکران میں ایک منظم سازش کے تحت سرگرم کیا جا رہا ہے اور یہ شدت پسند گروہ اپنا غلبہ قائم کرنے کیلئے علم و ادبی، تعلیمی اور سیاسی پروگرامز میں اپنا اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہیں، انکا مقصد یہ ہے کہ ابتداء میں ہر پروگرام منعقد کرنے سے پہلے ان نام نہاد مزہبی شدت پسندوں سے اجازت لی جائے تاکہ انکو مستقبل میں قانونی جواز مل سکے۔
ان دقیانوسی سوچ پر حامل مذہبی شدت پسند گروہ پھنپنے نہیں دینا ہے، انکی روک تھام کیلئے تمام مکتبہِ فکر کے لوگوں کو ان کے ہر منفی عمل کی نہ صرف مذمت کرنی ہے بلکہ انکے خلاف بھرپور اقدام اٹھانا ہے۔
ایک سیکولر قوم کی حیثیت سے بلوچ قوم مزہبی فرقہ واریت کا حامل نہیں، بلوچ قوم کے اندر تمام مذاہب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
بلوچ قوم اسلامی روایات اور اصولوں کے مطابق کارفرما ہے، ”لَکُم دینکم ولیَ دِین“ تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین۔
اس آیت کو بلوچ قوم کے بزرگ ہر وقت اس طرح ترجمہ کرتے ہیں کہ ”عیسیٰ وتی دین ءَ، موسیٰ وتی دین ءَ“۔
پھر کس مذہبی قوانین کے تحت رؤف بلوچ قوم مزہبی ٹھیکداروں نے شہید کیا، اگر اس آیت کی رو سے دیکھا جائے تو رؤف بلوچ کے قاتلوں کو ایک سفاک جابر اور قاتل کا درجہ دے کر انہیں سرِ عام پھانسی دی جائے تاکہ آئندہ ایسے مذہبی شدت پسند گروہ بلوچ قوم کے نوجوانوں کو قتل کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لے۔ بلوچ کی خون اتنی سستی نہیں کہ کوئی سستا ملا آکر ہمارے قوم کے شعور یافتہ نوجوانوں کو مزہب کے نام پر بے دردی سے قتل کرے۔
مذہبی فرقہ واریت کو روکنے کیلئے رؤف بلوچ کے قاتلوں کو عبرتناک انجام تک پہنچانا ہے اور دیگر دقیانوسی اور رجعت پسندانہ سوچ کی روک تھام کیلئے بلوچ علماء کرام کو بلوچ قوم کے ساتھ ملکر ایسے ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے کیلئے مذہبی روح سے انہیں پایہ تکمیل تک پہنچنے نہیں دینا ہے۔
کیونکہ یہ لوگ اسلام کے نام پر دھبے ہیں۔
تمام علماء کرام اور شعور یافتہ لوگوں کو چاہئے کہ خدا کی اسلام کے اصولوں کے زریعے سیاسی اسلام جن پر چند مذہبی گروہ کے مفادات وابستہ ہیں بے نقاب کرنا چاہئے تاکہ کل کے دن کوئی بلوچ راستے میں بے دردی سے قتل نہ ہو۔