شنبه, سپتمبر 28, 2024
Homeآرٹیکلزسیاسی زبان تحریر :...

سیاسی زبان تحریر : مزار خان

اس دنیا میں حقیقت کچھ بھی نہیں ہے بس زبان کی انگڑائی ہے۔زبان ایک ایساذہنی صلاحیت ہے جس کی بنیاد غیر واضح اور واضح الفاظ پر کھڑی ہے۔ہو سکتا ہے کہ یہ غیر واضح الفاظ ایک زمانے میں واضح الفاظ تھے تو کئی صدیاں گزرنے کے بعد ایک نسل سے دوسری نسل تک کے سفر نے ان الفاظ کو واضح کر دیا اور واضح الفاظ غیر واضح۔لفظ یا الفاظ کچھ نہیں ہوتے بس آوازوں کے تسلسل ہیں جو آواز کی ہر فریکونسی کوایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں۔یہ فریکونسیز ہی سمجھے، سمجھائے اور بولے جاتے ہیں۔کیونکہ زبان کا ننانوے فیصد حصہ سینس،مطلب،فطری حوالے پر منحصر ہوتا ہے ـ
جب آپ بولنے والے کے فطری حوالے،مطلب اور سینس کو اسی کی زبان کی فریکونسی میں سمجھ گئے تو آپ کو اس کی زبان کے سیکھنے میں دقت نہیں ہوگی کیونکہ ہر لفظ ایک تصور ہے۔
حقیقت کا تصور ہماری سوچ کو متعین کرتاہے اور یہ تصور زبان کے ذریعے سے بیان ہوتا ہے۔ زبان ہی ہے جو حقیقت کو بناتی ہے، بگاڑتی ہے کیونکہ زبان ہمیں گائیڈ کرتا ہے کہ حقیقت کو کس طرح دیکھا جائے اور کس طرح بیان کیا جائے۔ زبان عموماً ہماری جانبداری کا اظہار کراتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ لاشعور میں ہم نے جو کچھ پرنٹ کیا ہوتا ہے وہ sub conscious سے ہوتے ہوئے شعور کو جب آجاتی ہے تو ہم بیان کر دیتے ہیں۔جس کا جیسا نظریہ ہو گا اسے حقیقت ویسے ہی دیکھائی دے گا کیونکہ اس کے نظریاتی چشمے دماغ میں پرنٹ ہو چکے ہیں اور وہ حقیقت کو ویسا ہی بیان کرے گا جیسا کہ اس نے دیکھا۔

اس دنیا میں کوئی بھی جانور بغیر زبان و بیان کے زندہ نہیں رہ سکتا چاہے وہ الفاظ کی زبان ہو یا اشاروں کی زبان۔دنیا میں تما م کے تما م انسان بیک وقت باڈی لینگوئج اور لفاظی لینگوئج استعمال کرتے ہیں۔کیونکہ اسکا شعور ہی اسے کے راستے کو متعین کر رہا ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شعور ہی ہمیں گائیڈ کر رہا ہے نا کہ ہم اپنے آپ کو، کیونکہ ہم شعور میں تحلیل نہیں کر سکتے اسی وجہ سے وہ ہمیں گائیڈ کر رہا ہوتا ہے۔ اگر شعور ہمارے راستے کو متعین کر رہا ہے تو اسکا مطلب یہ ہو انسان دونوں زبانیں بیک وقت استعمال کرتا ہے۔اور یہی زبان اور اس سے کئے گئے بیانات تمام کے تمام لاشعور اور شعور میں وابستہ ہیں۔
لاشعور سے ٹھاٹیں مارتی خیالات دھندلے (غیر واضح)ہوتے ہیں اور انکی فلٹریشن سب کانشیئس میں ہوتا ہے تب جا کے شعور کو واضح شکل میں چھوتی ہیں تو انسان بے دھڑک الفاظ کو ترتیب دئیے بول پڑتا ہے۔ یہی بولنا اصل میں اسے سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح آپ نے بولنا ہے اور کیوں،کس موقع پہ کونسے الفاظ ادا کرنے چاہیئے۔ یہ تما م کے تمام ہنر زبان کی ساخت (گرائمر،مطلب،سنٹیکس)پر منحصر ہے۔ اور یہ ہنر آپکو آپکی رسمی و غیر رسمی ادارے سکھاتے ہیں۔اسی طرح یہ دنیا مسلسل محو سفر ہے اور حقیقت کے بے رحم دریچے اس دنیا میں ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔
یہ حقیقت اسی حقیقت کے جیسا ہے جو کہ غیر واضح ہے مگر نئے دور کے تقاضوں کے تحت حقیقت اسی زبان پر آشکار ہوتا ہے اور زبان اسے بے رحمی سے تراش کر مختلف کر دیتا ہے جو کہ فلاسفی،ادبی،سیاسی اور نفسیاتی ہوتے ہیں۔اسی طرح انسان ایک شعوری،سیاسی،معاشرتی اور نفسیاتی جانور ہے تو جب جب یہ جس جس دائرہ کار میں محور گردش ہوگا وہ وہی زبان سیکھ کر استعمال کرے گا۔ اس زبان کی سختی،نرمی اور بیان کرنے کا انداز انسان کے تجربے اور نفسیاتی دائرہ کار سے بنتی ہے۔ تجربہ جتنا زیادہ ہو گا نفسیاتی پہلو اتنا ہی پیچیدہ اور واضح ہو گا تو الفاظ کی ادائیگی بھی واضح ہو گی جس سے وہ اپنے آپ کو یا کسی اور کو واضح الفاظ میں سمجھا سکتا ہے اورسمجھتا ہے۔
یہ سیکھنے اور سیکھانے کا عمل سیاسی دائرہ کار اور وقت و حالات متعین کریں گے ۔ مثلاً آپ جیسے ہی بولتے ہیں آپ اپنی دنیا کو واضح کرتے ہیں اور دوسرا اسی طرح آپ کے الفاظ سے متعین ہوتا ہے کہ اسکی تربیت کہاں ہوا۔ اگر آپ کی تربیت اچھی ہوئی تو اچھا بیان کرو گے اگر نہیں تو نہیں۔ یہ اچھا پن دنیا میں کہیں نہیں ملے گا یہ بس انسان کی جانبداری ہی ہے مگر ہر انسان اچھا نہیں بولتا اور دوسرے اسکے سننے کی جانبدار قوت کو اچھا بولنا کہتے ہیں۔ مثلاً آج بلوچ قوم غلامی کے بد ترین دور میں گزر رہا ہے اور اگر اس دور میں کوئی حالات کو دشمن کے خلاف استعمال کی کوشش کرے تو وہ حقیقت پسند کہلایا جائے گا۔  اسی طرح زبان کی وجہ سے دنیا کی تمام علوم کی بنیادیں اور ان تما م کی اپنی اپنی زبان۔اسکی وجہ یہ ہے کہ زبان وہ پہلا ادارا ہے جو آپکے علم کے ادارے کی تعارف کرائے گی کیونکہ زبان آمیزش ہے ـ جیوگرافی و ثقافت کا اور ان کا اس پر بہت بڑا اثر بھی ہے اور انکا زبان پر بھی۔تو آپ جس علوم اور انٹرسٹ کے دائرے سے وابستہ ہیں آپ اس جیسا زبان ہی بولیں گے۔میرا محور بلوچ قومی تحریک ہے جو کہ سیاسی زبان کے صحیح استعمال کے اہمیت کو شاید نہیں جان رہا ہے ۔حالانکہ ایک سیاسی ورکر سے لیکر لیڈرز تک،سیاسی پمفلٹ سے سیاسی میگزین تک،سیاسی بیانات سے لیکر سیاسی تقاریر اور پروگرامز تک تمام کے تما م دائرے کار میں سیاسی زبان کا فقدان ہے۔ در حقیقت سیاسی زبان سیاسی مقصد کے تعین کو واضح کرتی ہے۔جس سے آپ اپنا سیاسی مقصد ہر بلوچ تک آسان الفاظ میں پہنچا سکتے ہیں۔زبان ایک قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ یہ الفاظ کا پہیہ ہوتا جو بیان کرتے ہوئے نئے الفاظ درشان( ظاہر) کرتی ہے۔ جس کے ذریعے قومیں اپنی پہچان کی بنیاد پر سیاسی صورتحال کے پیش نظر اسکا استعمال قومی مفاد کے دائرے میں کرتے ہیں۔ سیاسی زبان ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جس سے آپ جیسا وار کرنا چاہیں گے آپ کر سکتے ہیں مگر اس سیاسی زبان کی زبان ایک نظریے کی رہنمائی کرتی ہے تو جیسا نظریاتی پختگی ہو گی تو ویسی سیاسی زبان ہوگا۔ لہذا تمام نیشنلسٹوں سے دست بستہ عرض ہے کہ اپنے نظریے کی پاسداری کرتے ہو اپنی پولیٹیکل جسٹیفیکیشن کو مضبوط بنانے کیلئے سیاسی زبان کے استعمال پر خاطر خواہ زور دیا جائے۔ سیاسی زبان آپکے سیاسی عمل کی بھی وضاحت کرتی ہے کیونکہ اگر آپ اپنے قوم کیلئے محنت کر رہے ہیں تو آپ کے الفاظ ہی آپ کی دفاع کریں گے۔ اگر آپ قوم کے درد خواہ نہیں ہیں تو آپ کے الفاظ آپ کا ساتھ نہیں دیں گے کیونکہ آپ کو اپنے کئے پر شک ہے۔شک ہی وہ واحد عمل ہے جو آپ کے الفاظ اور عمل کو چھپا دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز