تحریر : عباس نوتیزی

ھمگا آرٹیکلز

سیندک پروجیکٹ کے نام سنتے ہی آنکھوں کی اطراف سے کئی سنہرے خواب انگنت مناظر لیکر بلوچستان کی وادیوں میں شہد اور دودھ کی نہروں کا منظر لیکر سامنے آجاتی ہے کہ جہاں غربت، بے روزگاری جیسے کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی ہو، مگر بات خواب کی تھی تو حقیقتا خواب بلوچستان کی عوام نے جب سوئی گیس دریافت ہوا تھا تب بھی دیکھا تھا، یہی خواب بلوچ عوام نے ریکوڈیک کی سونے سے چمکتی ہوئی روشنی میں بھی دیکھا تھا مگر یہ ایسے خواب تھیں کہ جن کی تعبیر ممکن نہیں تھی سیندک بھی ایک ایسا ہی خواب ہے بلوچ عوام کے لیے۔

سیندک پراجیکٹ جسے کچھ ضمیر فروش پارلیمنٹ پرست اپنی ذاتی مفاد کے لیے ریاستی لوٹ مار کو جواز دے کر بلوچ عوام کو سنہرے خواب دیکھا رہے ہیں جو در حقیقت ایک خواب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ بلوچستان کے معدنیات ،کانیں ،فلزات ہو یا سرکاری نوکریاں،خدمت گاری ،کے شعبے ہو یا لیزیں بنجر، گیابان زمینیں ، ماہی گیری کے شعبے ہو یا کوئلے کی کانیں ،تجارتی، بیوپاری، سوداگری کے معاملات ہو یا بارڈروں کی کاروباریں ، ایسے افراد کو زمہ داریاں سونپی جاتی ہیں جن کا تعلق براہ راست اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہو جو بلوچ عوام کا حق خود بھی کھاتے ہو اور ساتھ ہی ساتھ فوجی افسران تک کو أن کا حصہ پہنچاتا ہو، جس کا واضح مثال چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی ہے۔ جو پہلے” بلوچستان کے ضلع چاغی تحصیل نوکنڈی ” میں ایک وال مین کی حیثیت سے جانا جاتا تھا جب کہ ان کی برادری کی گُڈز کمپنی تھی جو چاغی اور آس پاس کے علاقوں میں سامان کی ترسیل کیا کرتے تھے، مگر دیکھتے ہی دیکھتے ریاست کی آشیرباد سے صادق سنجرانی منشیات فروشی کا بے تاج بادشاہ بن گیا اور پھر سینٹ کا چیرمین اور سیندک پروجیکٹ کا مالک بنا دیا گیا۔

سیندک پروجیکٹ میں صادق سنجرانی اور کچھ آرمی کے افسران شریک دار ہے جو خود تو سامنے نہیں آتے اور صادق سنجرانی جیسے ضمیر فروش انسان کو آگے کرکے کھربوں کی کرپشن کرتے ہیں جن پہ محض بلوچستان کی عوام کا حق ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ صادق سنجرانی جیسے مردہ ضمیر انسان چند پیسوں کی خاطر بلوچ عوام کا حق چین کا پنجابی افسران کو دے رہا ہے اور أنہیں کی اشاروں پر چلتا ہے، جس کا فائدہ محض اس کے خاندان کو مل رہا ہے اسی وفاداری کی انعام میں صادق سنجرانی کے چھوٹے بھائی کو سیندک میٹلز لمیٹڈ گولڈ میں منیجنگ ڈائریکٹر کا عہدہ دیا گیا جیسے چاغی سمیت پورے بلوچستان کے زمینی دھاتوں کا حکمراں بنایا گیا۔ اسی طرح سیندک، چِکِندگ، سیاہ دِک دشتکین، اور دیگر آئرن کے کانیں ان کے ہاتھ میں چلے گئے۔

ماہرین ارضیات کے مطابق چکندک میں سیندک پراجیکٹ سے کئی گناہ زیادہ تانبا اور سونا پایا جاتا ہے، چکندک، سْیاہ دک کو اپنے نام پر الاٹمنٹ کرکے کروڑوں کما رہے ہیں، تاہم کچھ افراد کا دعوی ہیں کہ صرف بینچوں کی صفائی کا ٹھیکہ جو زمین کی اوپری سطح تک کی صفائی تک محدود ہے کو موصوف نے اپنے بھائی کو دیا ہے جس کے لیے سیندک کے ملازمین اور مشینری استعمال ہو رہے ہیں، اور جس سے سالانہ کھربوں روپے کمارہے ہیں جن کا ایک اچھا خاصہ حصہ سیدھا فوج کو جاتی ہے، مگر وہاں کام کرنے والے مزدور بھوک اور غربت سے مررہے ہیں، ان بےضمیر لوگوں کی سودا بازیاں اور ریاست کی مکاریوں کی وجہ سے بلوچستان کی قدرتی وسائل کو نوچ نوچ کر کھارہے ہیں جن پر محض بلوچستان کی عوام کا حق ہے مگر افسوس یہ أن کو نہیں مل رہا ہے۔

صادق سنجرانی نے اپنے مشیری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ذرداری کی دور اقتدار میں فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی کمک سے حکومت بلوچستان سے ساز باز کرتے ہوئے اپنے بھائی کو مطلوبہ شرائط کے بغیر منیجنگ ڈائریکٹر سیندک تعینات کر دیا تھا جس کے لیے شرط تھا کہ ڈائریکٹر کو بیس سالہ مائننگ میں کام کرنے کا تجربہ ہو اور مائننگ انجینئر کا ڈپلومہ شرط ہے، جن میں سے اس کے بھائی کے پاس ایک بھی چیز نہیں تھی مگر اس کے باوجود اسٹبلشمنٹ کی آشیرباد سے وہ تعینات ہوگیا اور أس کے بعد سے فنڈز غبن کرنا اور دیگر کرپشن میں نہ صرف بلوچستان کے قومی خزانہ بلکہ بلوچوں کے وسائل کو اربوں کا نقصان پہنچانے کے ساتھ چند کوڑیوں کے عوض سیندک پروجیکٹ کے وسائل کو بیچ رہا ہے۔ جس کا پورا اثر بلوچستان کی غریب عوام پر پڑرہی ہے کیوں کہ اگر کوئی ایک ڈالر بھی کرپشن کرتا ہے تو چاہنیز اسے بلوچستان کے عوام کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے، جس طرح کمروں کی تعمیر میں کروڑوں ڈالر کی ٹھیکہ مقامی افسر کو دی گئی تھی بعد ازاں یہ سب بوجھ بلوچستان کی عوام پر ڈالی دی گئی تھی۔

صرف یہی نہیں موصوف کے ایما پر سیلز اینڈ سپلائی ڈیپارٹمنٹ میں کھربوں روپوں کے جعلی بلز بھی بنا چکے ہیں، جن کا بوجھ بھی بلوچ عوام پر ہے ساتھ ہی Corporate social responsibility فنڈز جو بلوچستان میں بلخصوص چاغی میں تعلیم، آبنوشی، صحت، وبائی امراض کی روک تھام، بجلی، اور نوجوان طبقہ کو ہنر مند بنانے اور ترقیاتی کاموں کے لیے ہنر مند بنانے کے لیے جو فنڈز مختص کی جاتی ہیں، یہ سارے فنڈز عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے کی بجائے سادق سنجرانی اور ان پنجابی افسروں کی جیبوں میں جاتے ہیں جن کو بعد ازاں اپنے پینل اور بھائی کے زریعے سْیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، حالانکہ دیگر کمپنیاں اپنے CSR فنڈ اپنی نگرانی میں عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتے ہیں لیکن یہاں موصوف کے ساتھ دیگر فوجی افسران اتنے طاقتور ہے کہ یہ ایسا ہونے ہی نہیں دیتے۔

مزید ریستوران مَیس میں ملازمین کے کھانے پینے کے لیے سالانہ کروڑوں روپے مختص ہیں لیکن وہاں ایک ملازم کو صاف اور اچھے خوراک بھی نہیں دیے جاتے اور أن سے دن رات مزدوری کرواتے ہیں۔وہاں پر کام کرنے کی وجہ سے اور سہولت نہ ہونے کی باعث سالانہ ہارٹ اٹیک، گردوں کی امراض ،معدہ کی بیماری اور دیگر امراض کی وجہ سے کئی ملازمین جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ملازمین کے کھانے پینے کے فنڈ سے کروڑوں روپے منیجنگ ڈائریکٹر کی ملی بھگت سے نام نہاد کمیٹیوں، افسروں، ٹھیکیداروں اور منیجمنٹ میں تقسیم کرتی ہے۔ کمیٹیاں ملازمین کے پیسوں سے پلاٹوں اور جائیدادوں کے تو مالک بن گئے لیکن ملازموں کو صحیح خوراک دینے کے بجائے مختلف امراض میں مبتلا بھی کردیئے ہیں، صحت کا شعبہ تو پہلے سے ہی تباہ ہے جہاں ایکسرے شیٹ بھی دستْیاب نہیں ان کی مہربانیوں کی بدولت۔

چاغی کے عوام بظاہر منیجنگ ڈائریکٹر کو اہل چاغی والوں کے لیئے امن اور شانتی تصور کرکے یہ کہنے سے تکتے نہیں کہ موصوف اتنی ایماندار ہیں کہ اسے گدھا گاڑی چلانے والوں پر بھی ترس آتا ہے لیکن حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے ملازمین کے محنت کے پیسوں کو بھی غبن کرتے ہیں اپنے سنجرانی برادری جنہیں خان پینل کہتے ہیں ،صرف ان کو ترقی اور پرموشن دیتی ہیں باقیوں کا تو اللہ حافظ! آخر اسے سوچنا چاہیئے کہ ایک ملازم اپنے علاقہ گھر بار چھوڑ کر سیندک میں اس لیے ملازمت کرتا ہے کہ اس کا مستقبل روشن ہو أس کے بچوں کو دو وقت کی روٹی میسر ہو لیکن ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر منیجنگ ڈائریکٹر اور فوجی افسران سمیت پنجابی افسران کے ساتھ مل کر بلوچ مزدور کاروں کی زندگیوں کو تلخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

سیندک پروجیکٹ میں بعض اوقات کام کرتے ہوئے ملازمین اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ڈرلنگ اور کانکنی سے لے کر پیداواری عمل تک ان سب میں ملازموں کے خون اور پسینے شامل ہیں ملازموں کو ترقی کے بجائے صرف افسروں کو ترقی اور پیسے منیجنگ ڈائریکٹر سمیت فوجی افسران جو خدا بن کر بلوچستان کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں کے جیب میں جاتے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ سیندک ہے بلوچوں کا اس پہ پورا حق بلوچ عوام کا ہے مگر یہاں پر بلوچ صرف ایک مزدور کی حثیت سے کام کرتا پنجاب افسر لگ جاتے ہیں جو صرف حکم کرتے ہیں اور پھر سیندک کا پورا سمر پنجاب اور چین کو مل جاتا ہے چند ضمیر فروش پارلیمنٹیرینز کی وجہ سے۔

دوسرے کمپنیوں کے منیجنگ ڈائریکٹر اور منیجمنٹ یہی کوشش کرتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی حالات استعمال کرکے ملازمین ترقی دے لیکن یہاں الٹا قانون نافذ ہے یہاں ملازموں کے محنت کے پیسے ،کھانے کے اخراجات، اورمیڈیکل کے پیسے بھی افسروں میں تقسیم کی جاتی ہیں تاکہ باہر کے ملٹی نیشنل اور لمیٹیڈ کمپنیاں یہ دیکھ لے کہ، ایم۔آر۔ڈی۔ایل، کمپنی اپنے منیجمنٹ کے افسروں کا کتنا خیال رکھتی ہے اور ان کو کتنا رائلٹی دیتی ہیں۔ انہی رائلٹی اور ڈالروں کو دیکھ کر ہر ڈیپارٹمنٹ کے افسران ملازموں کی آواز اور حقوق کو دبا کر چاہنیز کے سامنے اپنے لیے اعزاز سمجھ کر حتی کہ ملازمین کو ناجائز تنگ کرکے ڈیوٹی چھوڑنے پر مجبور تک بھی کرتے ہیں۔ منیجنگ ڈائریکٹر کے دست راست افسران جن میں اس کا بہنوی خالد گل اور نور محمد کشانی جو ضلع چاغی کے ہیں دیگر علاقوں کے ملازموں کو بالکل برداشت نہیں کرتے ہیں۔

جب بھی منیجنگ ڈائریکٹر کو سیندک ملازمین کے بہتری کے لئے بتاتے ہیں تو وہ سیندک کے ملازمین کو بجائے بہتر بنانے کے غلامی کے ہزار تدبیریں سوچتا ہے جو ان کا روز اول سے شیوہ رہا ہے، مگر اسے سوچنا چاہیئے کہ ملازمین کو غلام رکھنے کے لیے اسے کوئی حق حاصل نہیں۔اگر وہ واقعی ملازمین کے ساتھ ہمدردی اور بھلائی رکھنا چاہتے ہیں تو اسے جھوٹ اور دوغلی پالیسی کو ترک کرنا چاہیئے جو پہلے بھی ملازمین کے ساتھ ہزار بار جھوٹ اور دروغ گوئی کر چکے ہیں۔ کوئی مانیں یا نہ مانیں یہ بات حقیقت ہے کہ سیندک پراجیکٹ میں منیجنگ ڈائریکٹر سے لے کر ڈائریکٹر ،ڈپٹی ڈائریکٹر اور کلرک تک سب اپنے بساط کے مطابق ملازمین کی حق چھیننے اور برادر کُشی پر تلے ہوئے ہیں اور سب کے سب اسٹبلشمنٹ کی ایما پر کام کر رہے ہیں ان کو حکم خلائی مخلوق کی جانب سے ملتا ہے اور جن کا خمیازہ بچارے بلوچ مزدوروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

غلامی ازخود ایک لعنت ہے ہم بلوچ پنجابی کی غلام ہے اور ہم میں سے کچھ مردہ ضمیر بلوچ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار ہے جو چند پیسوں کی خاطر نہ صرف وہاں پر کام کرنے والے مزدوروں کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے بلکہ بلوچستان کی وسائل کا بے دردی سے لوٹ مار کیا جا رہا ہے، اگر صادق سنجرانی اور اس کے بھائی میں تھوڑی سے بھی غیرت ہوتی تو شاید وہ یہ ضرور سوچتے کہ تاریخ أن کو کبھی معاف نہیں کرے گی جو اپنے ہی بلوچوں کا خون چوس چوس کر پنجاب کو ثمر سے نواز رہے ہیں یقیناً تاریخ ان جیسے بےضمیر لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔

بلوچستان کی ساحل و سائل پر محض بلوچ قوم کا حق ہے اور اس حق کو کوئی بھی قبضہ گیر اپنی دلالوں کے ساتھ مل کر بھی نہیں لوٹ سکتا میں پھر بھی بلوچ عوام سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ سیندک پروجیکٹ میں جس طرح بلوچ مزدوروں کو غلام بنا کر أن سے دن رات کام کروایا جاتا ہے اسی طرح اب ریکوڈیک کا بھی سودا لگایا گیا جب سیندک بلوچوں کی تقدیر نہیں بدل سکی اسی طرح ریکوڈیک بھی نہیں بدلے گا جیسے پہلے سے ہی یہ نام نہاد ریاست جرمانے سے بچنے کے لیے کوڑیوں کے بھاؤ میں سودا کر چکا ہے، اپنے حق ساحل و سائل پر اختیار حاصل کرنے کے لیے بلوچ عوام کو مزید ان پارلمینٹ میں بیٹھے ہوئے نام نہاد قوم پرستوں اور بے ضمیر لوگوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ صرف سودا بازی جانتے ہیں اور ان کو محض اپنی مفاد پیاری ہے بلوچ عوام نہیں۔