تحریر: گرشان بلوچ

دنیا کے تمام تر قبضہ گیر اور استعماری قوتیں محکوم قوموں پر اپنا ظلم، جبر اور لوٹ مار کو برقرار رکھنے کے لیے پاجی پرست ، خوشامدی اور کرپٹ طبقے کے لوگوں کو بڑے منصبوں پر فائز کرتے ہیں تاکہ أن کی ہر حکم کی تکمیل ہو سکے اور محکوم اقوام کو خوف وہراس میں مبتلا کرنے کے لیے وہ ظلم کی سرحدیں مزید وسیع کرتے جاتے ہیں۔ یہ بڑے منصبوں پر فائز لوگ پھر اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ خوشامد اور ہاں میں ہاں ملا کر حکم بادشاہی پر لبیک کیا کرتے ہیں جس کے عوض بادشاہ وقت انھیں مختلف انعام و اکرام سے نوازتے رہتے ہیں۔ یہی سب قبضہ گیر ریاست پاکستان بلوچستان میں کر رہی ہے اور یہاں کے کچھ ضمیر فروشوں کو بڑے عہدوں پر فائز کر کے اپنی ناجائز منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

1839 کو جب برطانیوی سامراج نے بلوچستان پر قبضہ کیا تو انہوں نے بھی یہی چال چلا کر نام نہاد خان اور نوابوں کی بنیاد ڈالی تھی اور جو حقیقی خان اور نواب تھے انھوں نے انگریز قبضہ گیریت کے خلاف لڑ کر وطن عزیز کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اس کے برعکس جو مصنوئی خان تھے انہیں آقا بنا کر ہمیشہ کے لیے سادہ لوح بلوچوں پر مسلط کرکے زبردستی انہیں غلام بنانے کی کوشش کی گئی اور آج وہی سب کچھ یہ نام نہاد اسلامی ریاست پاکستان اپنی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے کر رہی ہے۔

کچھ مردہ ضمیر لوگوں کو سردار و نواب بنا کر بلوچ قوم پر ظلم کرنے کے لیے اسلام آباد سے خدائی حکم نامہ جاری کرتی رہتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ چین بھی اس خطے میں اپنی مفادات کی تکمیل کے لیے یہی حربہ بلوچ قوم پر استعمال کر رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج کے اس جدید دور میں کسی قوم کی مجموعی نفسیات کو سمجھنا اتنا مشکل نہیں ہے کیونکہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں کہ جہاں ٹیکنالوجی اور آرٹیفشل انٹیلیجنس کی وجہ سے تمام تر قومیں ایک دوسرے کے سائیکی کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اس خطے میں چونکہ اردو زبان کو زیادہ فروغ دیا گیا ہے تو أن کے لیے یہاں کی زبان سمجھنا بھی کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ اردو اور انگلش “ویکپیڈیا” نے اس خطے میں مقیم تمام قوموں کی مذہب، رہن سہن، فرقہ، تہذیب اور ثقافت پہچاننے میں بڑی آسانی پیدا کر دی ہے اور اسی طرح چین پاکستان کو تسلیم کرنے کے بعد بلوچستان میں گھس کر “ایسٹ انڈیا کمپنی ” جیسے طرز کی بنیاد ڈال کر أس نے بھی بلوچستان کے وسائل کو بے دردی سے لوٹنا شروع کر دی ہے اس لوٹ مار میں بلوچستان کے دلال اور خوشامدی افسران کو بھی شامل کر کے چین اور پاکستان نے اپنے راستے عبور کر لیے ہیں۔ ان پروجیکٹس پر کام کرنے والے بلوچ مزدوروں پر طرح طرح کے ظلم کر رہے ہیں اپنی ہی سر زمین پر بلوچ قوم محض ایک مزدور کی حیثیت سے رہ رہی ہے۔

چین اور پاکستان سیندک پراجیکٹ کے معدنیات کو دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر کھوکھلا کر رہے ہیں جبکہ ہمارے چاپلوس مقامی افسران کمپنی میں ” فلم ایکٹرز ” کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی ، پاکستانی کمپنی ( سیندک میٹلز لمیٹڈ) کے منیجنگ ڈائریکٹر رازق سنجرانی کے داماد خالد گل نے سیندک پراجیکٹ میں چاپلوسی کرکے چینی ڈائریکٹر کو اتنا خوش کر دیا ہے کہ چائنا کمپنی کی طرف سے اسے (چائنا ممبر شپ ) کارڈ سے نواز کر سیکیورٹی انچارج ، لیب ڈائریکٹر ، وائس پریذیڈنٹ اور ڈائریکٹر (ایچ۔آر) بنا دیا گیا ہے۔ یہ دلال پچھلے بیس سالوں سے ان عہدوں کا مزہ لے رہا ہے أن کو یہ زمہ داری سونپ دی گئی ہے کہ وہ جھوٹ بول کر میڈیا کو گمراہ کر دے اور أس کی اسی جھوٹی مہارت سے ریٹائرمنٹ کے 50 سال مکمل ہونے کے باوجود انہیں ریٹائر نہیں کر رہے ہیں۔ منیجنگ ڈائریکٹر رازق سنجرانی سیندک میٹلز لمیٹڈ کو ذاتی جاگیر سمجھ کر کروڑوں کے فنڈز غبن کر چکا ہے اور ایم۔آر۔ڈی۔ایل، میں اپنے داماد کو تعینات کرکے نسلی کمپنی اور ذاتی جاگیر سمجھ رہا ہے۔

خالد گل نے اپنا ذاتی اجارہ داری قائم کرنے کے لیئے سیندک پراجیکٹ پر تمام ڈیپارٹمنٹز میں اپنے ہی بھائی بندوں کو تعینات کیا ہے جو أس کے حکم کے تابع ہیں جیسے کہ ایچ ۔آر، مائننگ، سیکیورٹی، کنسٹریکٹر، سمیلٹر ، فورجنگ، آر۔او پلانٹ، میس، لیبارٹری، ایڈمن حتی کہ میڈیا ترجمان بھی أس کے اپنے فائز کیے ہوئیں لوگ ہیں کہ جو وقتا فوقتاً سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس پر بھی نظر رکھ کر لوگوں کے نمبروں کو ٹریس کر کے کمپنی کو یہ باور کراتے ہیں کہ فلاں شخص ایم۔آر۔ڈی۔ایل کمپنی کے پالیسیوں کے خلاف ہے اس طرح موصوف اپنے چال میں اور بھی کامیاب ہوتا جا رہا ہے۔ سیندک پروجیکٹ کے کئی ایسے ملازمین کو صرف اس جرم کی بنا پر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے کہ وہ افسران کے خلاف لب کشائی کی جرم کا مرتکب ہو چکے تھے۔ پولیس، لیویز اور دیگر فورسز کی موجودگی کے باوجود اپنے علاقے کے من پسند اور سادہ لوح بلوچوں کو بیوقوف بنا کر سیکیورٹی کے نام پر بھرتی کرکے معقول تنخواہ دے کر یہی پیغام دیتا ہے کہ سیندک پراجیکٹ میں ہزاروں افراد برسر روزگار ہے جن کو بعد ازاں ریاستی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ایم ۔آر ۔ڈی ۔ایل کمپنی کو اپنی دروغ گوئی سے اس قدر باور کرائی ہے کہ علاقے میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے یہاں لوگ بیس ہزار کے لیئے بھی ڈیوٹی کرتے ہیں مگر اسے کیا خبر کہ “دروغ کو فروغ نہیں “۔

دوسری طرف بجٹ اور صحت کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو وہاں بھی ان مزدوروں کو محروم کر دیا گیا ہے تمام ملازمین کے فنڈز افسروں کے رشتہ داروں میں خرچ ہوتے ہیں۔ موصوف کا بھائی حامد گل جب خطرناک اور موزی مرض بلڈ کینسر میں مبتلا تھا تو یہاں سیندک پراجیکٹ کے ملازمین کے فنڈز سے کروڑوں روپے خرچ کر کہ آغا خان میں علاج کرائی گئی تھی جبکہ کینسر زدہ ملازمین کو بغیر علاج کے نکال دیا جاتا ہے ملازمین کے لیئے ملازمت ریٹائرمنٹ کی شرط پچاس سال رکھا گیا ہے لیکن چاپلوس افسران ساٹھ سال کے ہوتے ہوئے بھی ملازمت کے مزے لے رہے ہیں اور وہاں پر کام کرنے والے مزدوروں کے بچوں کی پڑھائی کے لیئے وظیفہ تعلیم کے لیئے مختص کوٹہ پر امیروں اور من پسند افراد کو پڑھایا جاتا ہے۔

ظلم کی یہ داستانیں انوکھی تو نہیں ہے اس سر زمین پر 1948 سے لیکر اب تک یہ قبضہ گیر ریاست اپنی تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے اور یہاں کہ حقیقی مالک یعنی بلوچوں کو غربت سے دو چار کرنے اور پسماندہ رکھنے اور نوجوانوں کو پڑھائی سے دور رکھنے کی سر توڑ کوشش کرتی آرہی ہیں۔ تاکہ أس کے خلاف ان میں بغاوت کا مادہ پیدا نہ ہو سکے مگر تاریخ گواہ ہے کہ جہاں بھی ظلم اپنی حد سے تجاوز کر گئی ہے وہاں بغاوت اور انقلاب بھی اتنی ہی زور وشور سے آئی ہے۔ وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتا کیونکہ اس وقت عالمی دنیا کے مفادات چین اور پاکستان سے وابستہ ہیں اور یقینا بہت جلد یہ مفادات تبدیل ہو جائیں گے کیونکہ اس سر زمین کی اہمیت عالمی دنیا کو مجبور کرے گی کہ وہ بلوچ قوم کو سپورٹ کریں تاکہ وہ اپنی مقدس آزادی کو ایک بار پھر ان ناپاک قوتوں سے حاصل کر سکے۔