Homeآرٹیکلزسیندک پراجیکٹ پر کام کرنے والے غریب مزدوروں میں کرونا وائرس کی...

سیندک پراجیکٹ پر کام کرنے والے غریب مزدوروں میں کرونا وائرس کی تشخیص نہ ہونے کے باوجود اُن کو قرنطینہ سینٹر میں قید کر کے افسران ڈالر بٹور رہے ہیں۔

تحریر: گرشان بلوچ

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ریاست ہر طرح سے بلوچ عوام کو پس پشت ڈالنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے کئی پر أن کو مالی و جانی نقصان پہنچانے کی پاداش میں کام کر رہی ہے تو کئی پر أن کو ذہنی و جسمانی اذیتیں دینے میں مصروف ہے۔ بلوچستان کی یہ مقدس سرزمین جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے أس پر قبضہ کر کہ بلوچ عوام کو بزور شمشیر غلام بنایا گیا ہے اور أن کی وسائل لوٹ رہی ہے، أن کو اس نام نہاد ریاست نے فقط مزدور بنا کر رکھا ہوا ہے۔ سیندک پروجیکٹ جہاں سے پاکستان و چین سالانہ اربوں ڈالر کی معدنیات لوٹ کر لے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف پروجیکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو ایک طرف مسلسل ذہنی اذیت دی جارہی ہے اور دوسری طرف أن کی تنخواہوں میں بھی اضافہ نہیں کیا جا رہا ہے۔

سیندک پروجیکٹ جہاں سے سالانہ صرف سنگ مرمر 46554 ٹن نکالا جاتا ہے جن کی مالیت عربوں ڈالر میں ہوتی ہے مگر اس کے باوجود وہاں کے مقیم لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے ترستے ہیں۔ پورے بلوچستان کے معدنیات ساحل و سائل پر چین اور پاکستان نے قبضہ کیا ہوا ہے اور دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں یہاں تک کہ عالمی قوانین کی بھی پاس داری نہیں کیا جا رہی ہے مگر اس کے باوجود عالمی دنیا کا یوں خاموشی اختیار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

مزید بات کرتے ہیں وہاں پر کام کرنے والے بے بس اور لاچار بلوچ مزدوروں کے حوالے سے۔ سیندک پراجیکٹ کے ملازمین کو حالیہ عالمی وبا “کرونا” کی وجہ سے طویل المیعاد چھٹیاں دی گئی تھی۔ اب چونکہ ایم ۔آر ۔ڈی ۔ایل کمپنی کو سیندک میں کانکنی کرنے کے لیے مزید 5 سال کا کنٹریکٹ دیا گیا ہے جو مغربی اور شمالی کانوں میں کام کرنے کے بعد اب مشرقی کان میں بھی کانکنی شروع کر کے تمام ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں، انھیں دوبارہ بلا کر 25 دنوں تک بلاوجہ قرنطینہ سینٹر میں رکھا جاتا ہے حالانکہ ملازمین کے ” کووِڈ” ٹیسٹ منفی ہونے کے باوجود انہیں قرنطینہ میں رکھ کر مزید پریشان کیا جا رہا ہے۔

ایم۔آر۔ڈی۔ایل نے کرونا کے ٹیسٹ لینے کے لیئے کراچی اور کوئٹہ کے ہسپتال پہلے سے منتخب کیے ہوئے ہیں ان ہسپتالوں میں ٹیسٹ منفی آنے کے باوجود ملازمین کو دوبارہ 25 دنوں کے لیے قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے اگر دوران قرنطینہ موسمی حالات کی وجہ سے کسی ملازم میں کھانسی، چھینک، اور سر درد کی معمولی شکایت ہو تو اسے مزید 45 دن تک بھی قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے۔ جب کہ افسران کو بغیر قرنطینہ کے اپنے اپنے کمروں میں تمام آسائشوں کے ساتھ رہائش کی اجازت دی گئی ہے۔

چاہنیزوں کی اِن مکاریوں سے قرنطینہ سینٹر ملازمین کے لیئے طوطے کی بلا بندر کے سر ثابت ہو رہی ہے کیوں کہ اپنی مصیبت کو ملازمین کے سر تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کرونا پھیلانے میں ان بیچارے ملازمین کا ہاتھ ہو۔ ملازمین کے کہنے کے مطابق انھیں ایسے کمروں میں قرنطینہ کرتے ہیں جو کئی سالوں سے چائنیزوں کے زیر استعمال رہ چکے ہیں ۔ان سڑاندہ اور بدبودار کمروں سے خود جراثیم پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جبکہ سہولیات نا ہونے کی وجہ سے ان کمروں میں سخت سردی کے باوجود نہ گرم پانی اور نہ ہی کمبل کا بندوبست ہے وہاں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے یہ قرنطینہ سینٹر بدنام زمانہ “مچ جیل” سے کم نہیں ۔ سہولیات کی فقدان کی وجہ سے ملازمین ڈپریشن اور زہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔

دوران قرنطینہ ہر 40 افراد میں سے دو یا تین ملازمین کا میڈیکل ٹیسٹ اَن فٹ کرکے پاکستانی اور چاہنیز افسران کمپنی کے پیر پوج کر کرونا کے بہانے ایم۔آر۔ڈی۔ایل سے اپنے لیئے ڈالر بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پروجیکٹ کے ملازمین کو ایک طرف مسلسل ذہنی اذیت دی جارہی ہے وہی دوسری طرف انھیں انتہائی غیرمعیاری خوراک دی جاتی ہے جس کے سبب کئی لوگ مختلف قسم کے امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں جبکہ اسی پروجیکٹ میں خود چینی انجینئرز اپنی من پسند خوراک بڑے شوق سے کھاتے ہیں مگر بلوچوں کے ساتھ وہاں بھی جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

انسانیت کا نعرہ بلند کر کے یہ لوگ اس سلوگن کے پیچھے اپنا غیر انسانی سلوک کو دنیا کے نظروں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں درحقیقت ان میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے یہ لوگ فقط قبضہ گیر اور خونخوار درندے ہیں جو مجبور ملازمین اور بلوچ قوم کا خون پی کر زندہ ہیں۔ مگر وہ دن دور نہیں جب عالمی دنیا کے مفادات ان سے تضاد کر جائیں گے اور بلوچ قوم کی جہد و جہد رنگ لے آئیں گیں، وہ کہتے ہیں نہ کہ بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی ۔…..

Exit mobile version