تحریر ۔ شاکر منظور

ھمگام آرٹیکلز

شخصیت پرستی کا مطلب کسی کی محبت میں حد سے زیادہ جنون میں مبتلا ہو جانا، اس حد تک کے اس کے عیب آپ کو دلکش نظر آتے ہیں۔ شخصیت پرستی ذہنی غلامی کا ایک قسم ہے۔

شخصیت پرست ایک نفسیاتی عارضہ ہے جہاں متاثرہ فرد کی ذہنی توجہ ایک مخصوص شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ وہ شخص کوئی سیاسی، سماجی، مذہبی، یا تعلیمی اداروں کے رہنما ہوسکتے ہیں۔ شخصیت پرستی کے پرستار ہمیشہ اپنی شخصیت کے ذریعے اثر پیدا کرنے یا توجہ مبذول کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی سوچ کا مرکز عقل سے زیادہ جذبات پر ہوتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، ان کی دوستی اور دشمنیاں انتہائی خطرناک ہوسکتی ہیں۔

شخصیت پرست ہر چیز کو اپنی آئیڈیلائزڈ شخصیت کی عینک سے دیکھتے ہیں، ہر چیز کو اپنے آئیڈیل کے نقطہ نظر کے مطابق سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر نہ صرف فردِ واحد کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس کے پورے ادارے، معاشرے اور قوم کے لیے بھی نقصان دہ نتائج ہوتے ہیں۔

شخصیت پرست زہنی غلامی کا اسٹیج ہے جس پر پروکار اپنی تابعداری فخر پر محسوس کرتے ہیں کیونکہ اس کے ذہن میں صحیح اور غلط کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی دوسرا انکو انکی ذہنی غلانی کا احساس دلانے کی کوشش کرے تو وہ انسان انکا بدترین دشمن ہوگا، کیونکہ وہ اپنے ذہن میں اپنے خیالات، جذبات اور اعمال کا انتخاب و اظہار اس شخصیت کے مطابق کرتے ہیں۔ یہ اعمال پیروکار کو لاشعوری ذہنی سکون کا باعث بنتے ہیں، کیونکہ یہ ان کی تعریف شدہ شخصیت کی خصوصیات کو اندرونی بنا دیتے ہیں۔

شخصیت پرستی انسان کا وجود، شعور، قوت فیصلہ اور آزادی کو ختم کر دیتی ہے۔ یہ انسان کو زندہ لاش میں تبدیل کر کے ان کی انسانیت و احساس کو ختم کر دیتا ہے۔ جب انسان شخصیت پرستی کی زنجیروں میں قید ہوتا ہے تو اس کی ساری نفسیات اپنی محبوب شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ ان کا ہر فیصلہ ان کے بت کی ترجیحات کے مطابق ہوتا ہے۔

شخصیت کے پرستاروں کو اکثر اپنی بت پرستی کی زنجیروں سے آزاد ہونا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ ان کی پوری زندگی کا مقصد ان کی مثالی شخصیت کی تعریف کرنے ہے۔ جیسے جیسے شخصیت پرستی کی بیماری گہری ہوتی جاتی ہے، اس کا علاج مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ بیماری وقت کے ساتھ ساتھ دماغ سے پورے جسم میں پیھل جاتا ہے۔

اگر کوئی شخص کسی کی شخصیت کی اندھی تقلید میں الجھ جائے تو دوسرے لوگ اس کی شخصیت پرستی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پیروی کرنے والا اپنے بت کی تقلید میں اس قدر مشغول ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت کا احساس کھو بیٹھتا ہے۔ ان کے خیالات، جذبات اور اعمال ان کے بت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں خود مختاری ختم ہو جاتی ہے۔

انسان خود کو شخصیت پرستی کی قید میں اس وقت آزاد ہوسکتا ہے اگر وہ اپنی شخصیت میں ہمیشہ اصلاح کی گنجائش پیدا کرے، اگر ایک انسان خود کو مکمل اور دوسروں کو کم تر تصور کرے اس طرح کی ذہنی کیفیت میں دماغ کومزید روگ لگ جاتا ہے۔ جب بھی انسان کو اپنی ذہنی غلامی کا احساس ہوتی ہے اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں حقیقت کو تسلیم کرکے اپنی ذہنی مرکز شخصیت سے نظریہ میں تبدیل کریں۔