ہمگام کالم : کرہ ارض پر بسنے والے انسان اپنی زبان، تاریخ ، شناخت اور سرزمین کی توسط سے جانے جاتے ہیں۔ وطن سے قوم اور قوم سے وطن کی پہچان ہوتی ہے۔ اپنی پہچان اور وجود برقرار رکھنے کے لیے انسان ہمیشہ جدوجہد میں رہتا ہے۔
ہم روز مرہ اپنے ارد گرد چرند پرند، حشرات الارض جانوروں کی رہن سہن اور ان کے آپسی تعلقات کا بھی اگر مشاہدہ کریں تو ان میں اور انسانوں میں احساس ملکیت مشترکہ خصوصیات کے طور پر نظر آتے ہیں اور اپنی وجود کو لاحق بیرونی خطرات سے نپٹنے کے لیے نبرد آزما رہتے ہیں۔
جانور بھی اپنے بود باش ، چرنے کی جگہ، افزائش نسل کے لئے علاقے میں خلل ڈالنے والوں کے خلاف مزاحمت کرتے نظر آتے ہیں ان کی اپنے حدود اربع میں داخل ہونے والے دوسرے جانوروں کے ساتھ مد بھیڑ ، خونی پنجا آزمائی اور جان لیوا حملے اس بات کی غمازی کرتے ہے کہ شناخت کو لاحق خطرات اور اپنے آبا و اجداد کی تاریخی سرزمین بابت نہ صرف انسان حساس مخلوق ہے بلکہ جانور بھی انسانوں کی طرح اپنی شناخت اور جغرافیہ کو لیکر حساس ترین مخلوق ہے۔
ہم جب ایک غیراشرف المخلوق کو اپنی پہچان ، اپنی برادری اور اپنے علاقے پر بیرونی یلغار کے خلاف برسرپیکار ہوتے دیکھتے ہیں تو ہمیں ان دو مخلتف علاقوں سے تعلق رکھنے والے جانوروں کی پنجا آزمائی پر حیرت نہیں ہوتی کیونکہ مختلف علاقوں سے آکر وہاں زبردستی بسنے والے کسی بھی فریق کو جب جانور قبول نہیں کرسکتا تو پھر بلوچ اشرف المخلوق ہونے کے ناطے، اپنی ہزاروں سالہ تابناک تاریخ پر منگول، برطانوی سامراج، اور قابض پنجابی و گجر حکمرانوں کو کیسے برداشت و قبول کرسکتے ہیں ؟
بلوچ اس عالمی گاوں کا ایک حصہ ہے جس طرح دنیا میں آزادی کی تحاریک نے سراٹھا کر کامیاب ہوئے اور بہت سے آزادی کے متلاشی اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ بلوچ بھی اس بین الاقوامی محلے میں پاکستان و ایرانی قابض قوتوں سے اپنی آزادی کی جنگ میں مصروف ہے۔ ہماری جنگ آزادی صدیوں تک محیط ہے اس اثنا میں ہم نے ہزاروں قیمتی جانیں اپنی مادر وطن کے لیے قربان کیں ، لاکھوں بے گھر ہوئے، اتنے بے یار و مدد گار بھوک، پیاس، وبائی امراض کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن گئے ہزاروں زندانوں میں دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے اور دسیویں ہزار بلوچ فرزند اس وقت گجر اور پنجابی غاصب فوج کے قلی کیمپ میں زیست و موت کی کشمکش میں قومی آزادی کی مقصد کیلئے غیر انسانی تشدد و تکالیف صبر کے ساتھ برداشت کر رہے ہیں۔
بچے، بوڑھے، عورتیں اور بزرگ کی فرق کئے بغیر سبہی کو بحیثیت بلوچ نشانہ بنایا جارہا ہے، جیٹ لڑاکا طیاروں سے گرائی جانے والی میزائل چاہے ایران کا پائلٹ گرارہا ہے یا پاکستانی پائلٹ دونوں کا نشانہ بلوچ ہی ہے۔ بندوق کی جس میگزین کو بھرا جارہا ہے اس پر ہماری پارٹی ، تنظیم کا نہیں بس بلوچ کا نام درج ہے۔ توپ خانوں کے بڑے ، بڑے منہ والے گولے ہماری جن بستیوں کی طرف گرا ہے اس کا گولہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے پھٹنے سے نوے سالہ بلوچ بوڑھا نشانہ بننے جارہا ہے یا ایک ماہ کا نومولود بچہ یا پھر حاملہ بلوچ عورت !
دشمن ہم سب کو بلاتفریق متواتر نشانہ بنا رہی ہے، اس قومی اور اجتماعی سزا کے خلاف کس طرح موثر پالیسیاں بنانی پڑیگی اس پر بلوچ قیادت کو پارٹی، گروہی، ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قوم کے عظیم تر مفاد آزادی کو مقدم رکھ کر آگے بڑھنا ہے ۔
کیا ہم نے اکیلے بیٹھ کر کبھی سوچا ہے کہ اسلام آباد و پنڈی کے جرنیلوں کو ایک بلوچ چرواہے سے کیا خطرہ ہے جسے کوہلو ، ڈیرہ بگٹی، کاہان و مکران کے پہاڑوں میں بمباری کرکے شہید کررہا ہے؟ اس بلوچ خانہ بدوش نے پنجاب کے جرنیلوں کا کیا بگاڑا ہے ؟ جسے نوشکی، سبی کے ریگستانوں میں بے دردی سے نشانہ بنارہا ہے، اس بلوچ دھقان اور چارلیٹر تیل کی کاروبار کرنے والے بلوچ مزدور نے تہران اور اسلام آباد کو کیا نقصان دی ہے کہ ان کی ذاتی گاڑیوں کو ضبط کرکے ان کی معمولی سی کاروبار کو سمگنلگ قرار دے کر ان کا معاشی قتل عام کیا جارہا ہے؟
بلوچستان یونیورسٹی کے ان معصوم بلوچ طلبہ و طالبات نے پنڈی والوں کے خلاف کونسی جنگ چھیڑ رکھی تھی کہ انہیں فتح کرنے کی غرض سے جامعہ بلوچستان کو ایک چھاونی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ہاسٹل میں رات کی تاریکی میں گھسنا اور طالبات کو جنسی ھراسگی کا شکار بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی واش رومز میں مخفی کیمرے لگاکر ان کو کس بنا پر بلیک میل کیا جارہا ہے؟
جس طرح انسان کی صحت بگڑتی ہے تو ڈاکٹر اس میں مرض کی تشخیص کرتے ہیں اسی طرح غلامی بھی ایک مرض ہے غلامی ہماری شناخت کو اپاہج کرتا ہے، ہماری تاریخ کو مسخ کرتا ہے، ہماری قومی، انفرادی آزادی کو چھین لیتا ہے، ایک دوسرے سے دست و گریباں کرانے کے لیے قابض ریاستیں اپنی ہم خیال قبضہ گیروں سے مل کر محکوم اقوام کے خلاف سازشیں رچاتے ہیں۔
یہ سبہی سوالات جب انسان کے ذہن میں خنجر کی طرح چھبنے لگتی ہیں تو ایک باضمیر انسان کے لیے چھپ رہنا ممکن نہیں رہتا۔ اسی طرح کی نا انصافیوں کو دیکھ کر، بچیوں، عورتوں، بوڑھوں کو بے دردی سے ریاستی اداروں اور قابض افواج کے ہاتھوں شہید ہوتے دیکھ کر برداشت نہ کرنے والے ان بہادر شہدا کو آج یاد کرنے کا دن ہے جنہوں نے ہماری باوقار کل کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ لوگ سربلند اور انسانیت کیلئے عزت و عظمت کے پیکر ہیں۔ دنیا کی زندہ قوموں نے ہروقت اپنی ان عظیم فرزندوں کی انمٹ قربانیوں کو اپنے مشعل راہ بنایا تب جاکر وہ ایک تابندہ مستقبل کے حصول میں کامیاب و کامران ہوئے۔
کسی بھی لڑائی کو جیتنے کے لئے اس سے لڑنا پڑتا ہے، دنیا میں ایسی کوئی دستور نہیں کہ دشمن آپ پر کوئی لڑائی مسلط کرے، ایسی لڑائی جسے لڑے بغیر آپ کا وجود ہی ختم ہوجانے کا اندیشہ ہو اس سے دور رہ کر یا اس سے کنارہ کشی اختیار کرکے آپ خود کو اس سے محفوظ رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ کسی بھی مسلط اور دفاعی لڑائی کو جیتنے کے لیے اس لڑائی کو لڑ کر ہی جیتا جاسکتا ہے جس طرح آپ کسی بھی چھوٹے بڑے بیماری سے شفا پانے کے لئے اس کا علاج کرتے ہیں اسی طرح غلامی کی مرض کو پالنے کی بجائے اس سے لڑ کر ہی اس سے گلوخلاصی کی جاسکتی ہے۔ غلامی جیسی وبائی امراض سے سرزمین وقوم کو شفا یاب کرانے کے لیے قابض قوتوں کے ہر چال اور ہر ناپاک عزائم کے خلاف ایک قوم بن کر سیسہ پلائی دیوار بننا پڑتا ہے ورنہ ہم سب اس غلامی کی ایٹمی دھماکے کی زد میں آکر ہمیشہ کے لئے فنا ہوجائیں گے اور قومی وجود اور شناخت کی دفاع میں کھڑے ہوکر ہم زندہ اقوام کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ جو راستہ بلوچ عظیم شہدا نے چنا ہے اس پر چل کرہی ہم غلامی کی تاریک راتوں کو آزادی کے اجالوں میں بدل سکتے ہیں۔