تحریر ۔۔ کامریڈ دلشاد

شہید انقلاب بالاچ مری بلوچ کے 16 وی برسی کے موقع پر اسکے اُپر لکھی گئ کتاب کو شائع کیا گیا ہے جو کہ 2010 میں کتاب شائع ہوا تھا اس کتاب کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے 13 سال کے بعد دوبارہ شائع کیا ہے

کانٹوں بھری راہوں کا مسافر

 اُنکی زندگی چراغ کی مانند ہے ۔ جو اندھیروں کو روشنی میں تبدیل کرتی ہے ۔ جن راہوں پر اندهیروں کی حکمرانی ہے ۔ وہاں یہ چراغ اپنے آنے والے دوستوں کی رہنمائی کرتی ہیں ۔ وہ لوگ جو اپنے آنے والے نسلوں کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگ اپنے آج کو داؤ پر لگانے سے نہیں کتراتے انسانوں کی زندگیاں جو عروج و زوال کے داستانوں سے بری ہوئیں تاحال جاری ہیں ۔ ان میں وہ انسان سب سے زیادہ الجنوں میں جکڑی ہیں ۔ جنکے گلے میں طوق غلامی ہے ۔ ایسی محکوم عوام میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنکی ضمیر جنبش میں آجاتی ہے ۔ وہ اُس طاقتور طبقے کے استحصالی زنجیروں کو توڑنے کیلئے ایک عزم لیکر جدوجہد کے راستے کو اپناتا ہے ۔ وہ ایک مضبوط ارادہ کرکے تو میدان میں کُود پڑتے ہیں ۔ اُنکے دل و دماغ میں صرف جذبہ آزادی سرت کرنے لگتی ہیں ۔ یہی شخص خیالوں کی دنیا میں ڈوب کر بار بار یہی سوچتا ہے کہ ایک آزاد انسان جو کہ اس کے رب نے آزاد رہنے کا حق دیا ہے ۔ پھر کیوں کوئی طاقتور رہے طاقت کے بل بُوتے اسکی قومی آزادی کو سلب کرتے ہیں ؟ کیوں؟ اُسکا استحصال کرکے اسکے مال و مڈی اور ساحل و سائل پر جبراٌ قبضہ کرتے ہیں ۔

 جُوں جُوں ظلم و فرعونیت کے سائہ بڑهتا ہے ۔ مظلوم لوگ ظلم کی بهٹی میں تپ کر کندن کی شکل اختیار کرتے ہیں ۔ آخر اُن کے لئے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے ۔ وہ ہر پل یہی صدا بلند کریگا ۔ آزادی – آزادی اور آزادی اسی نعرے کی صدا بلند کرنے والے دو قسم کے انسان ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جو صرف اپنے شعلہ پن نعروں سے لوگوں میں اپنے لئے ہمدردیاں پیدا کرتے ہیں ۔ وہ صرف گفتار کے شیر و غازی ہوتے ہیں ۔ خالی خولی نعروں کا سہارا لیکر ظلم و جبر کے انبار میں دبی ہوئی اپنی مخلوق کو مزید غلامی کے اندهیروں میں دھکیل دیتے ہیں ۔ دوسرے وہ انسان ہیں ۔ جو محکومی سے نجات کیلئے یہی تصور کرتے ہیں ۔ کہ اسکے پاس پانے کیلئے آزادی اور کُهونے کیلئے غلامی ہے ۔ وہ آزادی پانے کیلئے عملی جدوجہد پر یقین رکهتے ہیں ۔ اُنکے دل و دماغ میں اپنے وطن اور قوم کیلئے محبت ابھرتی ہے یہی طبقہ کے لوگ اپنے آنے والی نسلوں کو آسودہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اُنکے مستقبل کو سنوارنے کیلئے اپنے گھر بار ، بال بچے ، عزیز و اقارب ، اور اپنی آرام کی زندگی کو چھوڑ کر کانٹو بھری راستے پر گامزن ہوتے ہیں ۔ گوکہ اُنکا سفر انتہائی پر کھٹن ہے ۔ لیکن وہ غلامی کی زندگی میں اُس راستے سے راحت محسوس کرتے ہیں ۔

 ایسے لوگ اپنے ہم خیال نظریاتی ، فکری اور انقلابی دوستوں کے کارواں میں شامل ہوکر قومی محکومی اور غلامی کے خلاف مزاحمتی جدوجہد کا راستہ اپناتے ہیں ۔ کیونکہ نظریاتی سوچ اُسکے رگ رگ میں پھیل چکی ہوتی ہیں ۔ اپنے مقصد کی راہ میں ہر رکاوٹ کو ایک سچے انقلابی کیطرح مٹا دیتے ہیں ۔ اور وہ ہر وقت غلامی سے نجات کیلئے ” پنجرے میں بند پرندوں کیطرح چُونچ مارتے “ اپنی راہ قومی آزادی دیکھتے ہیں ۔ وہ جہد مسلسل تھکتے نہیں ہیں ۔ اُنکے سامنے وہ زندگی بے کار ہے جو بغیر مقصد گزر جائے ، ایسے کفن بردوش ہر وقت اسی فکر میں رہتے ہیں کہ میں بستر پر نہ مر جاؤں بلکہ مقصد قومی آجوئی (آزادی ) کیلئے میدان جنگ میں مارا جاؤں ۔ یہ سر زمین پر کٹ مرنے کو اپنے لئے طغمہ امتیاز سمجھتے ہیں ۔

 ایسے لوگ عظیم ہستیاں جب محکومی کے نصف اپنی تشخص کی بحالی اور قومی نجات کیلئے شہید ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی آنے والی نسلوں کیلئے تاریخ میں ایک چمکتا ستارہ بن کر ہر ایک کو اپنی طرف توجہ کا مرکز بناتے ہیں ۔ تاریخ میں ہر فرزند آزادی کا سہرا اُن شہداء اور سرمچاروں کی قربانیوں کو یا دکریں گے ۔کہتے ہیں کہ اصل زندگی قربانی کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ جب تک کہ دنیا قائم رہے گا ، انکا نام و کردار انقلاب کی دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ یاد رہیں گے ۔