تحریر : کبیر بلوچ

ھمگام آرٹیکل

ہمارے سماج میں یہ روایت دورِ عتیق سے چلی آرہی ہے کہ تعارف نام، ولادت، ولدیت، قبیلہ، کاروبار، تعلیم یا کوالیفیکشن کی بنیاد پر ہوتی ہے اور اس معیار یا روایت کو درست تعارف سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، میں اس قدیم روایت یا معیار سے اختلاف رکھتا ہوں، میرا زاتی طور پر ماننا ہے کہ انسان کی تعارف میں پیرا ڈائم شِفٹ لانا چائیے۔ تعارف کا معیار افکار و نظریات اور کردار کی بنیاد پر ہونا چائیے جو کہ ہر فرد شعوری یا ارادی طور پر انتخاب کرکے اپنی زندگی گزارتا ہے۔ چونکہ اس میں انتخابِ آزادی، شعوری فیصلہ اور شعوری تشکیلِ نو اور کردار نبھانے کی سعی شامل ہوتی ہے اس لیئے، یہ تعارف کا مناسب معیار ہوسکتا ہے۔

 اس معیار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آج شہید بارگ جان کو متعارف کراؤں گا کہ وہ کس فکر و نظریہ کے حامل شخصیت تھا؟ اس کی زندگی کا مقصد اور نصب العین کیا تھا؟ اس نے مادی عیش و عشرت کو ترک کرکے پہاڑوں کا رخ کیوں کیا؟ اور اس نے ہمارے لیئے کیا ترکہ (legacy) چھوڑا اور ہمیں اب ازراہِ بلوچ کیا کرنا چائیے؟

شہید بارگ جان سیاسی علم و شعور اور تجربات سے لیس ایک تربیت یافتہ سیاسی ورکر تھا۔ سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دلیر “سرمچار” بھی تھا یعنی کہ ایک گوریلا جنگجو جو بلوچستان کے پہاڑوں کے شہزادے سمجھے جاتے ہیں۔ شہید بارگ جان نے طلباء سیاست کا آغاز بی ایس او (آزاد) کی پلیٹ فارم سے کیا اور اسی درسگاہ سے سیاسی نشوونما پاکر بلوچ سرزمین میں چھائی ہوئی تاریکی کے خلاف مشعل بن کر اُبھرا اور خوب منور رہا۔ جب پنجاپی ریاست کی جانب سے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن یا نسل کشی پالیسی لانچ نہیں ہوا تھا، تب وہ سرفیس پر بلوچ ازم کی سیاست کرتا رہا، بلوچ کی آزادی کے لیئے سیاسی مزاحمت میں محو مصروف تھا۔ جب حالات کروٹ بدل گئے، پنجاپی ریاست کی جانب سے “جبری گمشدگی” اور “مارو، پھینکو پالیسی” میں تیزی برتی گئی اور سرفیس پر مزید رہنا محال ہوگیا تو شہید بارگ نے آزادی کا فکر و نظریہ لیکر پہاڑوں کا رخ کیا اور قلم کی جگہ بندوق تھام کر دشمن کے خلاف برسرِ پیکار رہا، لڑتا رہا اور بالاخر وطن پر قربان ہوا۔

شہید بارگ جان کا نظریہ، یقین اور کمٹمنٹ بلوچ نیشنل ازم کیساتھ تھا۔ وہ پنجاپی ریاست، اس کی غلاظت، تسلط اور ظلم و بربریت سے مکمل چھٹکارا چاہتا تھا جو جھوٹ، بندوق اور طاقت کے زور پر قائم تھا۔ اس غلیظ پنجاپی سامراجی نظام کی جگہ وہ بلوچ کی آزادی، بلوچ کی سرزمین پر بلوچ کی مرضی، خود مختاری اور حاکمیت کا شدید خواہاں تھا اور شہید بالاچ مری کا قول” تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اپنی آزادی کی جنگ جاری رکھتی ہیں آخر ایک دن فتح ان ہی کی ہوتی ہے۔” اس کا ایمان بن گیا تھا۔ اس لیئے، اس اہم اور بنیادی فکر و مطالبہ کی خاطر وہ سیاسی اور مسلح محازوں میں دشمن کے خلاف دلیری سے برسرِ پیکار رہا تاکہ آزادی کا علم سرشار رہے، آزادی کا عالم قائم رہے۔

شہید بارگ جان کو غلامی سے بے انتہا نفرت تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ غلامی اور اس کے نتائج(Aftermaths) ہمارے لیئے ہتک آمیز ثابت ہوں گے۔ اس احساس سے ہمہ وقت کانپتا تھا کہ ہمارے گلے میں غلامی کا پھندا جو پنجاپی ریاست نے ڈالا ہے وہ ہمارے لیئے مزید ناقابل برداشت حالات اور رسواکن موت کا سامان پیدا کرے گا۔نیز، اس نے حتمی طور پر فیصلہ کیا تھا کہ جب تک اس غلامی سے مکمل نجات حاصل نہیں کیا جائے گا، اپنی ہی سرزمین پر ہمیں اغیار ہر چوک اور چوکی پر روک کر طاقت کی نشے میں پوچھتے رہیں گے کہ ” کون ہو، کہاں سے آئے ہو، کہاں جارہے ہو، کیوں جارہے ہو، کیا کرتے ہو، شناختی کارڈ دیکھاؤ” اور یہی قابض بلوچستان کے ہی وارث کو ہر چوک و سڑک کے بیچوں بیچ مرغا بناتا رہے گا، اس کی عزت پامال کرتا رہے گا اور آئے روز ان کے گھروں میں گھس کر چادر و چاردیواری کی پامالی کرتا رہے گا، ماؤں کو رلاتے رہیں گے، بہنوں کے سر سے ان کی عزت و حرمت اتارے رہیں گے، بوڑھے باپ کے کمر و بازو توڑتے رہیں گے، خوبصورت نوجوانوں کو اٹھاکر کالی کوٹھڑیوں میں بند کرکے ان پر غیر انسانی تشدد کرتے رہیں گے اور یہ سلسلہ یوں چلتا رہے گا۔ تب اس نے غلامی کی ذلت، ظلمت اور بدصورتی سے متنفر ہوگیا اور آزادی اس کیلئے اہم اور عظیم ضرورت اور خواب رہا، سو وہ آزادی کی خاطر لڑتا رہا، کٹتا رہا اور بالاخر آخری گولی کے فلسفے پر عمل پیرا ہوکر امر ہوگیا۔

شہید بارگ نے آنے والی نسل یعنی بلوچ فرزندوں کیلئے آزادی کی فکر و راہ ازراہِ میراث چھوڑا۔ اب بلوچ فرزندوں کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس فکر و راہ کو اپنا کر شہید بارگ جان کے نقش قدم پر چلیں، اس راہ میں سربلند ہوکر بہادری سے لڑیں، یہی وہ حقیقی راہ ہے جس سے ہم اپنی خداداد سرزمین اور اس کے نعمتوں اور وسائل کا تحفظ کرسکتے ہیں، اپنی قومی اقدار کو دشمن کی غلاظتوں سے پاک پوِتر کرسکتے ہیں، اس کے ظلم و تشدد اور نا انصافیوں سے چھٹکارا پاسکتے ہیں اور قومی معدومیت سے خود کو محفوظ کرسکتے ہیں۔ اس لیئے، باشعور بلوچ نوجوان قومی تحریک کیساتھ جڑیں، دشمن کے خلاف اپنے بھائیوں کے ہمراہ اور ہمگام رہیں، ان کی طاقت بنیں اور دشمن کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر لڑیں اور شہید بارگ جان کا مشن پایہ تکمیل تک پہنچاکر اس کی خوبصورت خواب کو شرمندہ تعبیر کریں، وہ خواب جس میں ہم سب کی عزت، بقا، شناخت اور روشن مستقبل محفوظ ہے۔