ھمگام آرٹیکل

تحریر: کبیر بلوچ

شہید نور الحق عرف بارگ اور شہید ضیاء الرحمٰن عرف دلجان 19 فروری 2018 کو خضدار کی ایک بستی تراسانی کے پہاڑوں میں ناپاک پاکستانی فوج کے محاصرے میں آکر ایک طویل جنگ لڑنے کے بعد جام شہادت نوش کرگئے۔ یہ شہادتِ عُظمیٰ سفاک دشمن کی تیرماری سے پیش نہیں آئی بلکہ آخری گولی کے فلسفے پر دونوں شہدا عمل پیرا ہوکر خود اپنے ہاتھوں سے اپنے اندر ایک ایک تیر پیوست کرکے شہید ہوگئے اور پاکیزہ بلوچ دھرتی کو اپنا خون امانت دے گئے۔ یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ بلوچ فرزندوں نے ہمیشہ اپنی سرزمین کی آزادی، بیرونی حملہ سے تحفظ اور خوشحالی کے لئے کسی بھی وقت اور کہیں بھی لگُوری یا بزدلی کا ثبوت نہیں دیا ہے۔ وہ ہمیشہ حمل جیئند، بالاچ گورگیج یا بالاچ مری کی طرح بہادری کے ساتھ لڑے ہیں۔ دشمن کو زیر و نابود کرنے کے لئیے میدان ِجنگ کو چھوڑ کر راہ فراریت اختیار نہیں کی ہے۔ بلوچ فرزندوں نے ہمیشہ وطن یا کفن کے فلسفہ سے اپنے فکر و عمل کو اساس دے کر دشمن پر جھپٹ پڑے ہیں۔ جب بہادری اور قربانیاں دینا بلوچ فرزندوں کی سرشت میں ہے تو شہید بارگ جان اور شہید دلجان وطن کی خاطر، اسکی آزادی کی خاطر کیسے اور کیونکر بہادری اور قربانیوں سے دریغ کریں گے؟۔

شہید بارگ جان اور شہید دلجان بھی جنگ لڑتے لڑتے باقی شہداِ بلوچستان کے صفِ خاصہ میں شامل ہوگئے۔ اب ہر زہن میں یہ سوالات ضرور کلبلاتے ہوں گے کہ یہ دونوں مذکورہ شہدا بالاخر کون تھے، کیسے تھے؟ انھوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بالاخر پہاڑوں کا رخ کیوں کیا؟ ان کے پہاڑوں پر جانے، جنگ لڑنے کے پیچھے کیا موضوعی اور معروضی محرکات کارفرما تھے؟ وہ کس طرح کے خواب اپنے قوم کو دکھارہے تھے جو ایک مسلسل جدوجہد اور جنگ سے مشروط ہیں؟

 1947سے لیکر اب تک مقبوضہ بلوچستان پر ریاست پاکستان کا جبری قبضہ ہے۔ ریاست پاکستان نے مقبوضہ بلوچستان کو اپنا کالونی بنایا ہوا ہے۔ اسکی آزادی اور خودمختاری کو بزور طاقت و بندوق سلب کرکے بلوچ عوام پر اپنی مرضی، کامل اختیار مسلط کیے ہیں۔ اس قابض ریاست پاکستان نے نہ صرف اس عظیم دھرتی کو اپنا کالونی بنایا ہوا ہے اور اس کی ساحل و وسائل کا بے دردی سے استحصال کررہی ہے اس کے قدرتی معدنیات کو نکال کر لوٹ کھسوٹ اور ڈکیتی سے کام لے رہا ہے بلکہ اس عظیم دھرتی اور اس کے ساحل و سائل کے واحد وارث بلوچ قوم کو بھی بزور طاقت غلام بنایا ہوا ہے۔ مظلوم بلوچ قوم پر آئے روز طرح طرح کے مظالم ڈھاتا رہتا ہے۔ “مارو اور پھینکو “بلوچ کے خلاف روز اول سے اسکا تشکیل پذیر پالیسی رہی ہے۔ نیز، مقبوضہ بلوچستان میں جو بھی خود کو بلوچ کہے ریاست پاکستان یا اسکی فوج و خفیہ ادارے اس کی ہتک یا تذلیل پر ہچکچاتے نہیں اور جو بلوچ قوم کے لئے ایک فکر و احساس سے وابستہ ہوجائے۔ اس کی جان کا دشمن بن جاتے ہیں۔ اس کے اس رویے کے پیچھے ان کے جو مذموم مقاصد پوشیدہ ہیں وہ دراصل بلوچ قوم کی قومی شناخت، زبان، تاریخ، ثقافت کو ختم کرنا یا کھوکھلی بنائے رکھنا اور اس کے سرزمین پر اپنی قبضہ گیریت اور راج کو دوام بخشنا ہے۔ اس لئیے، وہ روز اول سے بلوچ قوم پر ظلم و جبر کرتا آرہا ہے۔ ان کی تذلیل اور آبرو ریزی پر جھجکتا نہیں۔ ریاست پاکستان کا یہ رویہ یا پالیسی تب سے ہے جب سے اس نے بلوچستان پر فوج کشی کرکے اس کی خودمختاری ختم کرکے اپنا حصہ بنایا ہے۔

جب شہید بارگ جان اور شہید دلجان نے مقبوضہ بلوچستان کی دھرتی پر نمودار ہوکر آنکھیں کھولیں اور وقت کے ساتھ ساتھ مقبوضہ بلوچستان میں ایک عجیب تنگ، تاریک ماحول میں پرورش پاگئے۔ پھر جب دونوں نے آگہی و شعور کی بھی آنکھیں کھولیں اور اپنی پسماندہ، درماندہ حالت، غلام ہونے کی حیثیت اور قابض ریاست کی رویے اور ظلم وجبر کا جائزہ لیے۔ تو وہ ایک عجیب درد اور فکر و احساس سے دو چار ہوگئے۔ انھیں ایک اغیار کا بلوچ سرزمین پر قبضہ و مرضی اور راج بہت تلخ اور کڑوا لگا۔ تو انھوں نے اپنے فکر و شعور کی پختگی اور وسعت کے بناء پر یہ فیصلہ کیا کہ اب اس غلامی سے مکمل گلوخلاصی کے لئے ایک منظم محاز آرائی ناگزیر ہے۔ اب قابض ریاست پاکستان کے ظلم و جبر کے تسلسل کو روکنا اور توڑنا ہے۔ اس کے گندی فوج کو یہاں سے بے دخل کرنا ہے جس کے بل بوتے پر ریاست پاکستان بلوچ دھرتی پر قابض اور بلوچ قوم پر غالب ہے۔ نیز پہلے، انھوں نے قلم کو اپنا تلوار بنایا۔ اپنے قوم کو اپنے ہم خیال و ہم فکر سنگتوں کے ساتھ آگہی و شعور دینا شروع کیا۔ بلوچ قوم کو حق و باطل کے درمیان فطری طور پر کھینچی لکیر کو آشکار کیا۔ انھیں ایک آزاد و خودمختار اور خوشحال ریاست کا خواب دکھایا۔ انھیں بتایا کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے اور آزادی ان کا حق ہے۔ لیکن آپ لوگوں کی(بلوچ قوم) کی آزادی کو پاکستان نے چھین لیا ہے۔ جب لوگ حقیقت سے آگاہ ہوگئے تو آزادی و انقلاب کی دھیمی صدا مقبوضہ بلوچستان کے کونے کونے سے گونجنی لگی۔ لوگ جوق در جوق شہید بارگ جان اور شہید دلجان کے کاروان میں شامل ہوتے گئے۔ اس کے ساتھ ہمگرنچ اور ہمگام ہوگئے۔

جب ریاست پاکستان نے یہ دیکھی تو وہ ایک عجیب خوف و خطر میں مبتلا ہوگیا اس کے لئیے عوام کا شعور و آگہی ڈراؤنا خواب بن گیا۔ اس کو احساس ہوگیا کہ اگر بلوچ قوم قومی سوچ و شعور سے زیادہ آراستہ ہوگیا۔ تو اس کی قبضہ گیریت پر بھونچال آئیگا۔ اسکی قبضہ گیریت اور شہنشاہیت منہدم ہوکر خاکستر بن جائےگا اور بلوچ قوم کو مزید غلام رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ اس کی سرزمین پر ٹِکنا اور اس کے وسائل کو لوٹنا ناممکنات میں سے ہوجائیگا۔ تو اس نے اپنی پالیسی میں بدلی لاکر سب سے پہلے بلوچ قوم کے بنیادی اثاثے یا سرچشمے یعنی باشعور و تعلیم یافتہ طبقے کو یعنی شہید بارگ جان اور شہید دلجان جیسے قومی فکر و شعور اور احساس سے لبریز بلوچ فرزندوں کو ہٹ و ٹارگٹ کرنا یا اغواء و گمشدہ کرنے کا ایک نیا عمل اور باب شروع کیا۔ جس کی وجہ سے شہید بارگ اور شہید دلجان جیسے ہزاروں کی تعداد میں باشعور و تعلیم یافتہ نوجوان درندہ صفت پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی درندگی کے ہتھے چڑھ گئے۔ بہت سے نوجوان جو بلوچستان کے اندر تاریکی کے خلاف مشعل راہ تھے، پاکستانی اداروں کی جبری گمشدگی کے شکار ہوگئے اور انھیں اپنے غیر قانونی عقوبت خانوں میں ازیتیں دے کر انکی مسخ لاشیں جنگل و ریگستان میں پھینک دی گئی۔جب اس طرح کا ماحول بنا تو شہید بارگ جان اور شہید دلجان کے ساتھ ہزاروں کو یکسر احساس ہوگیا کہ ریاست پاکستان ایک ایسا دشمن ہے جو کسی بھی تہذیب، اخلاقیات، قانون یا انسانیت سے پرے بالکل محروم ہے۔ تو انھوں نے قلم کی جنگ کو چھوڑ کر بالاخر بندوق کو تھام لیا۔ کیونکہ جب کوئی دشمن قلم کی زبان کو برداشت نہ کرے اور قلم کی زبان بھی نہ سمجھیں تو بندوق کی گولی ہر چیز کو قابل فہم بناتی ہے۔ اس لیئے، انھوں نے آزادی کے خواب کو محفوظ کرتے ہوئے بندوق تھام کر ایک نئے محاذ میں اتر کر اپنی سرزمین اور قوم کو آزاد کرنے کے لئے پہاڑوں کی جانب چل پڑے اور بلوچ قومی تحریک کا حصہ بن کر کئی محازوں میں بہادری سے لڑے، دشمنوں کو ان کی چٹی کی دودھ یاد دلایا۔ چلتے چلتے ایک دن دشمن کے محاصرے میں پھنس گئے۔ تو ان بہادر سپوتوں نے بہادری کا مظاہرہ کرکے لڑے اور آخر گولی کے ختم ہونے پر آخری گولی کے فلفسے پر عمل پیرا ہوکر ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔