زندگی کی حسین نعمت خدا کی دی ہوئی وہ سرزمین ہے جس پر قومیں اکھڑ کر چلتے ہیں اور اپنی تاریخ میں مٹی کے ڈھیروں کو اس سرزمین کا والی و وارث کہتے ہیں جو کہ اپنی حسین زندگی کو معاشرتی دائرے میں رکھ کر اپنی اس سرزمین کی دفاع کا بیڑا اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں سرزمین کی دفاع کو لیکر دیکھا جائے تو انسان کی فطرت زمین کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور اس زمین کے ساتھ اسکی وابستگی جذبات کے تحت ہے وہ جذبات و احساسات ہیں جو اسے دنیا کے دیگر اقوام سے جدا کرتے ہیں اور کسی قوم کی پہچان ہی اسکی سرزمین ہے سرزمین پر رہنے والے لوگ اسکی دفاع کو فطری طور پر اپنا فریضہ سمجھتے ہیں کوئی پرندہ ہو چاہے جتنی بھی کمزور ہو وہ اپنے گھونسلے کی دفاع کی ہر ممکن حد تک کوشش کرے گا چاہے اس میں اسے ناکامی کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے ،لیکن وہ اپنے فرض کے تحت اسے نبھانے کی ہر ممکن حد تک کوشش کرے گا دنیا کی تاریخ سرزمین سے شروع ہو کر سرزمین پر ہی ختم ہوتی ہے ،کیونکہ زندگی ہی زمین پر ہے اور یہی زمین کی فطرت ہے کہ وہ اپنے اوپر چلنے والے لوگوں کو اپنی حفاظت کا درس دیتا ہے میں تمہاری ملکیت ہوں تمہارے بزرگوں نے اپنے خون پسینے سے حاصل کیا ہے جو آج میرے سینے میں دفن ہیں اور تم بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چل کر اس تاریخ کو اپنے خون سے لکھ دو جو ماضی میں خوف کے زیر سایہ اپنی زندگی کی محبت میں مگن رہے وہ بھی مر گئے لیکن جو مر کر زندہ رہے اور اپنے آنے والے نسل کو بھی زندگی دے کر امر ہو گئے وہی قوم کی پہچان بن جاتے ہیں انھی خیالوں میں گم ہزاروں نوجوان وطن کی محبت میں سمو و مست کی داستان رقم کر رہے ہیں مست سمو کے عشق میں اس قدر گرفتار ہوا کہ واپس زندہ رہنے کے اصول ہی بھول گیا اس عشق نے اسے امر کر دیااور وہ بلوچ تاریخ کے ہر چارراہ پر آپ سے ہمکلام ہوتا رہا ہے اور ہڑب و جنگ گنبد کی داستانیں اسی فضا میں ہر سو پھیلے ہوئے ہیں اسی علاقے میں بسنے والے ہزاروں بلوچوں نے اپنی تاریخی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے وقت کے مختلف ادوار میں اپنی وطن کی دفاع میں اپنی جان قربان کرتے گئے ہڑب و گنبد کی جنگ ہو جنگ آزادی ہو یا آئے روز کے فوجی آپریشنز ہو. وطن کے یہ سورما اپنی وطن کی دفاع میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں شہید رطا مری عرف رضا بھی ایک ایسے ہی کردار تھے جو وطن کی محبت و اپنے فرض تلے بلوچ وطن کی آزادی کے لیے جب میدان میں آئے تو پھر واپسی کا خیال دل و دماغ سے نکال دیا اور تمام راستے اپنے لیے بند کر دیے کہ راستہ ایک ہی ہے جو آزادی کے منزل پر ہی ختم ہو گی یا پھر شہادت کے منزل پر پہنچ کر ہی دم لے گی شہید رطا مری جلمب مری کے گھر پیدا ہوئیں، دیہاتی زندگی اور اسکی ولادت کئی پر لکھی ہوئی نہیں ملتی باپ دادا یا دیگر بزرگ تاریخ پیدائش وقت کے ساتھ گزرتے ہوئے لمحوں کو وہ کسی مخصوص دن سے نسبت رکھ کر اس دن کو یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں اکثر غلطی کا گمان ہوتا ہے وہ قریبا 28 سال کی عمر میں شہید ہوئے شہید رطا مری بلوچ جہد آزادی میں 2004 و 2005 کے دورانیہ میں تحریک سے جڑ کر بلوچ لبریشن آرمی سے وابستہ ہو گئے اس وقت وہ نوجوان تھے جب پرویز مشرف کی کوہلو آمد پر بلوچ سرمچاروں کی ان پر حملے کے بعد کوہلو میں مکمل فوجی آپریشن گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا جس سے رطا مری عرف رضا سمیت بہت سے دیگر لوگ علاقے سے نقل مکانی کر لی رطا مری ان حالات میں بال بچوں کی ذمہ داری کو سنبھالنے انھیں محفوظ ٹھکانے پر پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور اس دوران وہ تنظیم کے ساتھیوں سے رابطہ میں رہے اور اپنے بزرگ والد سمیت اپنے بچوں کو سنبھالتے رہے جوں ہی گھریلو مسائل کچھ کم ہوئے تو وہ واپس آکر کیمپ میں ساتھیوں کے ساتھ اپنے قومی فرائض انجام دیتے رہے وہ ایک بہادر سپاہی تھے اس پر ہر وقت دشمن پر حملہ کرنے کا بھوت سوار تھا وہ ہر وقت اس تاڑ میں تھے کہ کئی دشمن پر حملہ کر کے اسے شکست سے دوچار کرے اسکے قریبی ساتھی کہتے ہیں کہ وہ ہر کام کے لیے تیار رہتا اور ہمیشہ تنظیم کے ذمہ داروں پر زور دیتا کہ کئی دشمن پر حملہ کرنے کے لیے بھیج دیا جائے دشمن کو آرام سے بیٹھنے نہ دیا جائے تو تسلسل کے ساتھ اسی کوشش میں لگے رہتے اور ہر حملے میں وہ فرنٹ لائن پر اپنا مخلصانہ و بہادرانہ کردار ادا کرتے رہے کئی محاذوں پر دلیری کے ساتھ لڑنے کے بعد زخمی دوستوں کو دشمن کے گھیراؤ سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے وہ ایک ایسے ساتھی تھے جو تمام علاقے میں سب کے لاڈلے تھے وہ ہر محفل میں بیٹھ کر اپنی تاک بٹھا دیتے تھے وہ بولنے میں ماہر تھے زبان کی چاشنی و اسکے استعمال کا ہنر بخوبی جانتے تھے کیمپ کے علاوہ کیمپ سے باہر کے کام بھی اسکے کندھوں پر تھے اور وہ کیمپ سے باہر کسی کام کے حوالے سے جاتے ہوئے راستے میں علاقے کے لوگوں سے ملتے انکی حال پرسی کرتے اور لوگوں کو اپنے نظریے سوچ و جدوجہد کے حوالے سے کہتے اور وہ لوگوں میں اپنی ایک علیحدہ شناخت کے ساتھ جانے جاتے تھے محفل میں بیٹھتے تو ہر ایک کو اس جنگ زدہ حالت میں ہنسانے کا ہنر جانتے تھے وہ اپنے اندر کتنے ہی دکھوں میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن دوسروں کو خوش کرنے کے لیے وہ ہر وقت محفل کی زینت بنتے،لیکن اسکے اپنے ہی گھر کی حالات قابل رحم تھی اسکے والد کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی تھی اور بیوی بچوں کے ساتھ آنکھوں کی بینائی سے محروم بزرگ والد کی خدمت گزاری اسکے کندھوں پر تھا لیکن وہ بینائی سے محروم بزرگ والد و بال بچوں کی پرواہ کیے بغیر وہ قومی فرض کو اولیت دے کر پہاڑوں میں اپنا کردار ادا کرتے رہے اسے گھر کی مجبوریاں جہد آزادی میں اپنا کردار ادا کرنے سے نہ روک سکے، وہ اتنے ذہین تھے کہ ایک چیز کو ایک بار دیکھتے تو پھر کبھی نہیں بھولتے رات کی تاریکی میں ایک راستے سے ایک بار گزرنے کے بعد وہ راستہ اسکے دماغ میں ایسے نقش ہوتا کہ جیسے سالوں سال اس کا راہ گزر رہا ہوگا وہ رات کی تاریکی میں راستوں پر چلتا رہتا اور دوستوں کی رہنمائی کرتا رہتا ہنس مکھ چہرہ چمکتی آنکھیں جو ہر وقت آزادی کے لیے تڑپ رہے تھے اور جنگ کے میدان میں زندہ دلی و بہادری کے ساتھ لڑنا اور ہر تکلیف کو ہنستے مسکراتے خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرنا اور کٹھن حالات سے نکلنے کے تدابیر بنانا اسکی شخصیت کے خوبصورت ترین پہلو تھے وہ صبر کے ساتھ ہر حالت کا مقابلہ کرتے رہے وہ ماضی کے کرداروں کے جدوجہد کو دیکھ کر ان سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے رہتے کہ وہ اپنی تاریخی وطن کو آزادی کے حسین نعمت سے روشناس کرائے وہ خود تو آزادی کو اپنی حسین آنکھوں سے دیکھ نہ سکا لیکن اپنا مخلصانہ کردار ادا کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے گزشتہ دس سالوں سے بلوچستان میں آئے روز فوجی آپریشن ہو رہے ہیں ہر روز کوئی نہ کوئی گبرو جوان مادر وطن کے لیے جام شہادت نوش کر رہا ہے گزشتہ مہینے اپریل کی 10 تاریخ کو ریاستی فورسزز نے کوہلو و کاہان کے مختلف علاقوں میں آپریشن شروع کی جس میں بی ایل اے کے ساتھی دلیرانہ انداز میں لڑتے ہوئے دشمن کو جانی نقصان دیتے ہوئے دشمن کے گھیراؤ کو توڑنے میں کامیاب ہوئے اس آپریشن میں رطا مری اپنی ذہانت و راستہ شناسی کی وجہ سے دوستوں کو محفوظ مقامات کی طرف نکالنے میں کامیاب ہوئے اور دو دن کے بعد شہید رطا مری ایک دوست کے ساتھ زخمی دوست کے لیے دوائیاں و مرہم پٹی لانے کے لیے شہر کی طرف گئے اور واپسی پر دشمن انکے تاک میں تھا وہ راستے سے جارہے تھے رطا مری موٹر سائیکل چلا رہا تھا روکنے کا اشارہ کیاگیا لیکن وہ رکے نہیں دشمن کی فائرنگ کے نتیجے میں شہید رطا کو گولی لگی اور موٹر سائیکل سے گر گئے اور زخمی حالت میں جنگ شروع کی اور دوسرا دوست بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور شہید رطا مری بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے 12 اپریل 2017 کو ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گئے وطن کا ایک اور بہادر و جانثار ساتھی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا اور تاریخ کے اوراق میں خون سے اپنا کردار لکھ کر آنے والے نسل کے لیے مشعل راہ بنا۔