تحریر : حمل بلوچ
“وہ سماج اور قومیں خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی مائیں شہید نورالحق جیسے دور اندیش انقلابی پیدا کرتی ہیں۔”
وہ دور مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب دشمن ریاست اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کے اس نے اپنے چند پالے ہوئے زرخرید ایجنٹوں کے ہاتھوں خاران کو یرغمال بنا لیا ہے، اپنے ساتھ ضمیر فروشوں کا ایک ٹولہ ملا کر دشمن فوج یہی پروپیگینڈا کرنے میں دن رات لگا رہا کہ پاکستان ایک مضبوط اور اسلامی ملک ہے جسے شکست نہیں دیا جا سکتا، اور اس شیطانی پروپیگنڈے کے لیے ریاست نے پہلے سے ہی کریم نوشیروانی جیسے ایک وطن فروش کے خدمات چند ٹکوں کے حوض خرید لیے تھے۔
اس وقت بدبختی یہ تھا کہ خاران کے عوام کے پاس کوئی ایسا سیاسی اور انقلابی رہنما نہیں تھا جو ان کو بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ جبری الحاق کے خلاف قومی مزاحمت میں سیاسی طور پر تربیت دے کے انہیں قومی جدوجہد میں شامل کر سکتا۔ اور یہ کمزوریاں دشمن ریاست کے لئے ایک طرح سے کامرانی سے کم نہیں تھے۔
دوسری جانب خاران کے سیاسی تاریخ پر اس دور کا المیہ یہ تھا کہ جس وقت شہید نورالحق بلوچ نے بابو ظاہر احمد حسین زی کے گھر میں آنکھیں کھولے، تو اس وقت خاران کے سیاسی ماحول میں ہر طرف لالچ، دوغلہ پن، منافقت اور سودا بازی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ مگر وہ سماج اور قومیں خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی مائیں شہید نورالحق جیسے دور اندیش انقلابی پیدا کرتی ہیں۔
شہید نے اسکول کے زمانے سے ہی اخبارات اور رسالے پڑھنے کو اپنا مشغلہ بنا کر ہمیشہ کیلئے زندگی کا حصہ بنا لیا، بلوچ کی غلامی، بزگی اور لاچاری پر اداسی اور اپنے حساسات کا اظہار اپنے سکول اور محلے کے دوستوں کے ساتھ کھل کر کرتے تھے۔ جب وہ فقط کلاس پنجم کے طالب علم تھے تو اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے لوگوں کی سیاسی اور شعوری تربیت کے لیے عملی سیاست میں حصہ لوں اور اسی غرض سے اس نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب نواب مری کا کاروان پورے بلوچستان میں پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف برسرپیکار تھا، اور دوسرے جانب شہید غلام محمد اور اس کے دوسرے کامریڈ دوستوں نے پارلیمانی سیاست کو خیرباد کرکے بلوچ مزاحمتی تحریک کی کھلے عام تبلیغ شروع کرچکے تھے۔ یہ مشرف کی آمریت کے دور تھا جب بلوچستان سے روزنہ کی بنیاد پر سیاسی ورکروں اور آزادی پسندوں کو اغوا کرکے عقوبت خانوں میں اذیتیں دی جاتی تھی۔
” اس پرآشوب دور نے شہید کے آعصاب پر وہ گہرے اثرات چھوڑے کہ وہ چند ہی وقتوں میں خاران کا بھگت سنگھ ثابت ہوا۔ ”
اس نے باقاعدگی سے بلوچ نوجوانوں کو معروضی حالات سے واقفیت اور آگاہی دینے کی کوشش میں دن رات ایک کیا۔ جب اس نے نواب مری کے فلسفہ آزادی پر تبلیغ شروع کی تو وہ تن تنہا تھا اور اس کے بی ایس او کے سیاسی دوست چند مراعات کے لیے 2005 کے ضمنی الیکشن میں سردار فتح محمد حسنی کے ہاتھوں چند پیسوں کے لیے بہک کر مسلم لیگ ق میں شامل ہوچکے تھے اور ان موقعوں کو اپنے لئے غنیمت سمجھتے تھے، بلاشبہ اس وقت جن نوجوانوں تحریک سے دغا کیا انہیں بھی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
شہید کو اس تنہائی کے عالم میں کئی مشکلات اور تکلیف دہ حالات سے گزرنا پڑا لیکن انہوں نے کبھی کمزوری اور مایوسی کا اظہار نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بچپن اور کھیل و کھود کے حسین دنوں کو انقلابی مطالعہ اور نوجوانوں کی سیاسی، علمی اور فکری تربیت کرنے میں گزار دیے۔ اس نے تعلیمی اداروں کو رابطہ سازی کے اہم ذریعہ کے طور پر استعمال کیا اور جس درسگاہ اور اسٹوڈنٹ ہاسٹل میں جاتا تو وہاں پر انقلاب کے لیے نوجوانوں کو تیار کرتا۔
وہ ہمہ وقت اس فکر میں مبتلا رہتا کہ خاران کے نوجوانوں کو کس طرح خوف اور لاچ سے نکال کر مزاحمتی سیاست کا حصہ بنالوں، وہ اس عظیم سوچ کے پھیلاؤ کیلئے لوگوں کو سیاسی بحث و مباحثہ کا ماحول فراہم کرنے کیلئے ہر کوشش میں رہتا۔
شہید کے ہاتھوں میں ہر وقت سگار میگزین اور انقلابی کتابیں ملتے جنہیں وہ خود پڑھتا اور اپنے دوستوں کو پڑھنے کے لئے مہیا کرتا تھا، اس طرح آہستہ آہستہ اس کے نظریاتی دوستوں کا سرکل بڑھتا گیا جسے قابض ریاست نے علاقے میں اپنے لیے خطرے کی گنٹھی سمجھ لیا۔ لیکن شہید بھی دوشمن کے سفاکانہ منصوبوں سے بخوبی واقفیت رکھتا تھا لہذا اس وقت اس کے پاس دو راستے تھے، اول یہ کہ وہ کسی بزدل کی طرح “حکمتِ عملی اور کیموفلاج “، جیسے اصلاحات کا نام لے کر خاموشی اختیار کرکے اپنے لیے کوئی روزگار لیتا اور خاموشی سے بیٹھ جاتا اور کبھی کبھی لوگوں کو دکھانے کے لیے چند انقلابی باتیں کرتا۔ یا دوسرا وہی راستہ جو چی گویرا، بھگت سنگھ، ڈاکٹر خالد، امیر بخش اور دوسرے انقلابیوں نے اختیار کیا تھا۔ اور بارگ جان تو تھا ہی ایک حقیقی انقلابی، بھلا وہ کیسے جھک سکھتا تھا۔
دشمن فوج نے جب خاران میں اپنا سفاک چہرہ دکھانا شروع کیا تو کئی نوجوان زیر زمین روپوش ہوگئے، شہید نورالحق نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑوں کا رخ کیا اور گلزمین کے سرمئی پہاڑوں کو اپنا مسکن بنالیا۔ اب خاران کے گلی کوچوں، محلوں، بازار اور دیگر علاقوں میں مزاحمتی سوچ پروان چڑھنے لگا جس نے دشمن اور اس کے کاسہ لیسوں کی نیندیں تیزی سے حرام کیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے خاران کی زمین شہید نورالحق، نثارجان، رازق جان اور دوسرے شہدا اور غازیوں کی قربانیوں کی بدولت ایک انقلابی ماں بن گئی جس نے کئی اور مزاحمتکاروں کو جنم دیا۔
شہید بارگ جان ہر وقت یہی کہتا تھا کہ خاران کے نوجوانوں کو قربانی کے جذبے سے سرشار کرنے اور پرخطر راستے پر گامزن کرنے کیلئے مجھے قربانی دے کر کے انہیں یہ باور کرانا ہے کہ اس عظیم مقصد کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنا فرض ہے۔ اس طرح ہم آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ وہ ہر وقت یہ کہتا تھا کہ جنگ کی شروعات ہم چند دوستوں نے کی ہے تو فرنٹ کا رول بھی ہمیں ادا کرنا ہے اور اس میں ہمارے ذاتی مفادات، گھر اور حتی کہ جان بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں لہزا ہمیں پیچھے ہٹنے کی آپشن کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے کیونکہ ہمارے کردار تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں جو ہمارے آنے والی نسلوں کو ورثے کے طور پر ملے گا۔
جب حالات مزید کٹھن ہوئے تو کچھ ضمیر فروشوں نے سرنڈر کرنے میں عافیت سمجھ کر دوشمن کے سامنے سرنگوں ہونے کو ترجیح دی۔ اس پر شہید کے وہ تاریخی الفاظ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ہوں جو اس نے اپنے کامریڈ دوستوں کو کہا،
“سرنڈر ہونے کے بعد وہ خاندان ہمارے اوپر روزانہ لعنت بھیجتے ہیں جن کے بچے ہمارے سیاسی تبلیغ کی وجہ سے اس آزادی کے راستے کا انتخاب کرکے شہید ہو چکے ہیں یا ٹارچر سیلوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں”۔
بلآخر شہید نورالحق عرف بارگ جان نے اپنے تمام الفاظ اور کمٹمنٹ کو اپنے کردار اور شہادت کی شکل میں ثابت کرکے 19 فروری 2018 کو زہری کے علاقے تراسانی میں شہید دلجان کے ساتھ دوشمن کا دلیری سے مقابلہ کیا اور اپنے میگزین کی آخری گولیاں اپنے سروں میں داغ کر ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔
بارگ جان اس وقت خاران کے اس قبرستان میں سپرد خاک ہے جس کے پاس سے وہ کبھی آساپ اور سگار کی میگزین ہاتھ میں اٹھائے کلان سے بازار جایا کرتا تھا۔