ہمگام کالم بلوچ شہداء کے دن شہید محراب خان کی شہادت سے لیکر آج تک کئی بلوچ فرزند اپنی سرزمین دفاع کے لئے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ان میں دو نام ایسے بھی ہیں جو اپنی نوجوانی کے ایام میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ،ساتھ اپنے تعلیمی و قومی حقوق کی خاطر بلوچ طلباء تنظیم سے منسلک ہوئے ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب قابض پاکستانی فورسز نے سلسلہ وار بلوچ فرزندوں کی مسخ شدہ لاشیں پیدارک میں پھنکنا شروع کردیا تھا ،جن کی شروعات شہید غلام محمد ، شہید لالا منیر ، شہید شیر محمد بلوچ سے کی گئی تھی وہ جگہ مرگاپ کے نام سے مشہور ہوگیا تھا یہ دور ہم کھبی بھی نہیں بھول سکتے، جو سرزمین کے لئے جان نچاور کرنے والے کئی ایسے بلوچ فرزندوں کی لاشوں کو مسخ کرکے مرگاپ میں پیھنکا گیا تھا، ان میں دو شہید ایسے بھی تھے جنھیں طالب علمی کے دوران پاکستانی فورسز نے اغواء کرنے کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں مرگاپ میں پھینک دی تھی ۔ سب سے پہلے شہید کریم جان سے شروع کرتے ہیں شہید کریم جان کیچ کے علاقے میں ایک چھوٹے سے قصبہ پھل آباد کا رہائشی تھا جو محمد حسین بلوچ کے گھر میں پیدا ہوئے، جنھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول پھل آباد میں حاصل کرکے تمپ میں میڑک کے لئے ایڈمیشن لیا تھا، زمانہ طالب علمی میں شہید کریم جان ایک زہین اور خاموش و سنجیدہ نوجوان تھا ہر بات سوچ بچار کے ساتھ کرتا تھا ، تمپ میں میڑک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شہید کریم جان نے تمپ انٹر کالج میں داخلہ لیا جو آہستہ آہستہ آزادی کی قومی تحریک سے منسلک ہوتے گئے، یہ وہی دور تھا جب سرفیس تنظیم سمیت مسلح تنظیموں کی کاروائیاں مکران سمیت پورے بلوچستان میں اپنے دائرہ اختیار کو وسیع کر گئے تھے ، اس دور میں عوامی آگاہی کیلئے جلسے جلوس منعقد کرنا اور شہید کے گھر میں اس وقت ان سیاسی دوستوں کی آمد ورفت زیادہ تھا جو انہی تنظیموں سے تعلق رکھتے تھے ۔ شہید کریم جان کے گھر میں ایک سیاسی ماحول قائم تھا اور ان کے دوست زیادہ تر کسی نہ کسی آزادی پسند تنظیم سے منسلک تھے لیکن شہید کریم جان نے کھبی بھی اپنے دوستوں سمیت خاندان والوں سے کھبی یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ کسی مسلح تنظیم کے بھی رکن ہے ۔ بلآخر شہید کریم جان کو پاکستانی فورسز نے اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ کسی علاقے میں تنظیمی کام کے سلسلے میں دورہ کیا، بعد میں ایک دوست کے ہاں ٹھہر گیا تھا، جب رات کے گیارہ بجے کا وقت ہوگیا تو شہید بضد تھا کہ اسے گھر جانا ہے ،اس کے بعد انھیں پاکستانی فورسز نے 8 اگست 2011 کی رات کو تمپ کے علاقے رودبن پل کے قریب زبردستی حراست میں لیکر تربت ایف سی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا ، دوسرے دن یہ خبر پیھل گئی تو ان کی بازیابی کے لئے ان کے فیملی نے تربت میں ایک پریس کانفرنس کی۔ لیکن پاکستانی فورسز کی حراست سے کریم جان کو بازیاب نہیں کیا جاسکا۔ 6 اکتوبر 2011 کو شہید عرفات کے ساتھ شہید کریم جان کی مسخ شدہ لاش کو مرگاپ میں پھینک دیا گیا ، جو کہ ایک مخلص سیاسی کارکن اور ایک محنتی بلوچ نوجوان تھا جو بلوچ سر زمین کی دفاع کے لئے دو مہینوں سے پاکستانی ٹارچر سیلوں میں ازیت سہہ کر اور مادر وطن پر قربان ہوگئے ، پاکستانی فوج نے ان کے سر اور سینے میں کئی گولیاں پیوست کی تھی ۔ شہید کریم جان کے ساتھ برآمد ہونے والی لاش شہید عرفات کی تھی جو ایک 17 سالہ طالب علم تھا شہید عرفات مند کے رہائشی تھے جو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے شال کا رخ کیا تھا ، 23 ستمبر 2011 کو شہید عرفات اپنے دوستوں کے ساتھ مشترکہ بس سروس کے زریعئے جا رہے تھے جنھیں پاکستانی فوج کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے پسنی کراس کے چیک پوسٹ پر اس بس کو زبردستی روک کر لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کرنے شروع کیے ،جس میں شہید عرفات سمیت ان کے 4 اور دوستوں کو فورسز و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے بس سے اتار کر ان کی ہاتھ پاوں کو باندھ کر بس کو جانے کے لئے کہا گیا جب بس روانہ ہوا تو ان میں سے شہید عرفات کو شناخت کرکے ان کو اپنے ساتھ لے گئے باقی جو دوست تھے ان کو وہی پر چھوڑ دیا گیا،جنھیں ایک مہینہ تک ان کو ٹارچر سیلوں میں اذیت دے کر ان کی لاش کو شہید کریم جان کے ساتھ پھینک دیا گیا ۔