دنیا کو طاقت کا توازن کھوئے دو دِہائیوں سے زائدکا عرصہ بِیت چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب دنیا کی طاقت سوویت یونین اور امریکہ کی صورت میں دو واضح حصوں میں تقسیم تھی ، جسے بائی پولر دنیا کہا جاتا تھا ، اس تقسیم کی وجہ سے طاقت میں ایک توازن قائم تھا، اس بائی پولر دنیا نے کسی خاص طاقت کو دنیا پر اپنی اجارہ داریت قائم کرنے اور من مانہ نظام مسلط کرنے سے روکے رکھا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ایک عرصہ تک یہی سمجھا جاتا رہا ہے اور اب بھی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا کی طاقت اب امریکہ کے ہاتھ میں مرکوز ہے اور جس طرح کی دنیا، امریکہ وجود میں لانا چاہتا ہے، اسے روکنے والا کوئی نہیں، فری مارکیٹ کے بے لگام گھوڑے نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے توسط سے انسانوں کی طرح اقوام کے بیچ بھی بدترین معاشی ناہمواریوں کو جنم دیا ، آج صرف امریکی دفاعی بجٹ دنیا کے درجنوں غریب ممالک کے مجموعی سالانہ بجٹ سے کئی گنا زیادہ ہوچکا ہے ، صرف ملٹی نیشنل کمپنی کوکا کولا کا بجٹ اس وقت دنیا کے دس غریب ممالک کے بجٹ کے برابر آچکا ہے ، یہ سب اس یونی پولر دنیا اور آزاد مارکیٹ کی دین ہیں ۔
دنیا کو ’’مادرِارضی ‘‘کہنے والے آج بھی اس بات کو لے کر پریشان ہی ہیں کہ یہ ’’اشرف المخلوقات ‘‘جو انسان کی شکل میں موجود ہیں، ’’تہذیب یافتگی‘‘ کے نام پر کُرّہ ء اَرض پر تباہی کے سوا کچھ اور بھی کرپائے گا یا نہیں۔ یہ تمام تباہیاں محض زیادہ سے زیادہ وسائل بٹورنے کے ہی بہانے ہیں۔ دنیا میں جو لوگ جنگوں کے خلاف ہیں، وہ بھی تو جنگ کا ہی حصہ ہیں، کہیں سرگرم حصہ اور کہیں خاموش حصہ، ایک ایسے دنیا میں بھلا امن کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جہاں ظالم و مظلوم ایک ہی کمپنی سے اسلحہ خرید کر لڑ رہے ہوں ، اس دنیا میں جنگ کو آخر کونسی طاقت روکے گی جب دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور ملک کی ذرائع آمدنی کا دوسرا بڑا حصہ جنگی سازوسامان کے بیچنے سے ہو ۔
آج دنیا کے ان معاشی ، معاشرتی ، عسکری اور سماجی ناہمواریوں کو دیکھ کر اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ، دنیا ایک نئی تقسیم کا متقاضی ہے ۔ یہاں سوال اٹھ سکتا ہے کہ اس تقسیم کے خدوخال کیا ہوسکتے ہیں میں یہاں پال ہنٹگٹن کے تہذیبوں کے تصادم کے نظریے سے پہلو تہی کرتے ہوئے یہ کہنے کی آزادی چاہوں گی کہ مستقبل میں اس تقسیم کے خدوخال اور نوعیت ہر جگہ مختلف ہوگی، اس تقسیم کی بنیادیں ہر خطے کے مخصوص تضادات پر منحصر ہونگے۔جہاں یہ تضاد معاشی ناہمواری کی صورت میں ہے وہ مخصوصی طبقاتی جہتوں میں نمو پاتے ہوئے اپنا اظہار طبقاتی بنیادوں پر کریں گے اور جہاں جہاںیہ تضاد ’’مذہبی فرقوں ‘‘کاہے، وہاں تقسیم کی بنیاد ’’مذہبی فرقے ‘‘ہوتے جائیں گے اور جہاں ’’اہم تضاد ‘‘قومی ہیں، وہاں پر تقسیم کی نوعیت کو جلد یا بدیر ’’قومی ‘‘ بنیادوں پر ہی ہونا پڑے گا۔ اسلئے کہ تضاد ایک فطری شے ہے یہ کبھی مرتا نہیں ہے، آپ جتنی بھی طاقت و قوت سے دو متضاد چیزوں کو جوڑنے کی کوشش کریں یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ وہ اپنے باہم کبھی ربط پیدا نہیں کرسکتے اگر جو ربط پیدا کرسکے وہ تضاد ہی نہیں ، دریا کے دو کناروں کے خشکی کو کبھی جوڑا نہیں جاسکتا اور اگر وہ جڑ جائیں تو پھر اسکا مطلب وہاں دریا ہی نہیں ۔ ہاں تضاد کو عارضی طور پر دبایا جاسکتا ہے، کمزور کیا جاسکتا ہے، اس کو طاقت و قوت سے شاید موخر بھی کیا جاسکے لیکن تضاد کے وجود کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا ، لیکن اس تقسیم کیلئے امر محال یہ ہے کہ یہ تضادات بناوٹی نہ ہوں بلکہ یہ اپنی جڑیں ماضی اور زمین میں پیوست پاتا ہو ۔
عراق ، شام یا دنیا کے کسی بھی حصے میں دیکھیں ہر جگہ یہ تضادات ابھر رہے ہیں ، جہاں بھی غیر فطری رشتے استوار ہوئے ہیں وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔ عراق میں شیعہ سُنّی کا تضاد ایک لمبے عرصے سے موجود تھا، اسی تضاد نے آخر ایک نہ ایک دن سر اُٹھانا ہی تھا۔ دوسری طرف عراق کے ہی اندر کُردوں کا قومی تضاد بھی وجود رکھتا تھا اور اس نے بھی کسی نہ کسی دن سر اُٹھانا ہی تھا۔
یہ بات کبھی بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ قبضہ گیریت کی بنیاد ہمیشہ وسائل کے حصول کے تگ و دو میں محو توسیع پسندانہ عزائم ہی رہے ہیں۔ یہی حضرتِ انسان کی تمام جنگوں کی تاریخ ہے، پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے ہولناکیوں پر ذرا غور کریں پھر ان کی وجہ تلاشیں تو پتہ چلتا ہے کہ سترھویں صدی سے شروع ہونے والے کالونیل دور میں جرمنی کے سوا تمام یورپی اقوام نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کرتے ہوئے تیسری دنیا پر قبضہ کرکے وہاں کے وسائل کو لوٹ کر صنعتی ترقی کے معراج کو چھوا لیکن اس بندر بانٹ اور لوٹ کھسوٹ میں پیچھے رہ جانے والے جرمنی بھی اس لوٹ کھسوٹ میں اپنے شراکت کے تگ و دو میں دو ہولناک جنگوں کو جنم دینے کا وجہ بنا یہاں بھی بنیاد یہی وسائل تھے۔ قبضہ کبھی بھی اس خیال سے نہیں کیا جاتا کہ آپ مقبوضہ انسانوں کو ترقی دیں گے اور انکی زندگیاں بہتر بنا دیں گے۔ قبضہ ہوتا ہی اسی لئے ہے کہ مقبوضہ علاقہ کے وسائل کی ملکیت حاصل کی جاسکے۔ یہ وسائل معدنیات کی شکل میں ہوسکتے ہیں، یا پھر ایک گزرگاہ کی حیثیت سے بھی۔ کسی پُر وسائل علاقہ تک رسائی کیلئے راستہ بھی تو لوٹ مار کے لئے ایک وسیلہ ہی ہوا کرتا ہے۔ کسی بھی علاقہ یا سرزمین کے کسی بھی حصے پر قبضہ کرنے کی نیت انہی بنیادوں پر ہوسکتی ہے کہ یا تو وہاں کے وسائل کی ملکیت حاصل کی جائے یا پھر اُس زمین کے دوسری جانب موجود وسائل تک رسائی کے لئے اُس سرزمین کو گزرگاہ کے طور پر استعمال کی جائے۔
آج اگر بلوچ سرزمین کو ہم عالمی حالات ، طاقتوں کے اجارہ داریت قائم کرنے کا خواب ، امریکہ و چین کے مفادات کے ٹکراو ، دنیا کے بڑھتے ہوئے توانائی کی ضروریات اور سینٹرل ایشیاء کے توانائی کے خزانوں تک رسائی کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں تو یہ امر روزِ روش کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ بلوچ سرزمین دنیا کیلئے دونوں صورتوں یعنی وسائل خیز سرزمین اور ایک اہم ترین گذرگاہ کی صورت میں انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے ، جہاں بلوچ سرزمین سونے ، چاندی ، تانبے ، میتھین گیس ، وغیرہ جیسے وسائل سے مالا مال ہے وہیں جغرافیائی حوالے سے اس کی اہمیت اس لئے بہت زیادہ اہم ہے کہ یہ ایک طرف سے تو وسطی ایشیاء ، جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کو بیک وقت جوڑنے والی واحد سر زمین ہے اور دوسری طرف سے یہ لینڈ لاکڈ سینٹرل ایشاء افغانستان سے لیکر کیسپین تک کو گرم پانی سے جوڑنے والا آسان ترین اور نزدیک ترین راستہ ہے اور ساتھ ساتھ دنیا کے ’’ آئل کوریڈور ‘‘ آبنائے ہرمز سے چین کو جوڑنے کا سب سے سستا ترین اور قریب ترین راستہ بھی ہے ، چین کے بڑھتے ہوئے توانائی کے ضروریات کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو بلوچستان اس کے معیشت اور توانائی ضروریات کیلئے زندگی اور موت کی سی حیثیت رکھتا ہے ۔
بلوچستان کے یہ بیش بہا وسائل اور مخصوص اور اہم جغرافیہ جہاں بلوچوں کیلئے ایک نعمت کی سی حیثیت رکھتا ہے لیکن وہیں خستہ قومی تشکیل ، مضبوط ریاستی اداروں کی عدم موجودگی اور ضروری مہارت کی کمی کی وجہ سے یہ تاریخی طور پر قابضوں کو اپنی طرف کھینچتا آیا ہے جس کے وجہ سے ہی بلوچ ایک طویل غلامی سے نبر د آزما ہیں ۔کالونیل دور میں پرتگیزیوں اور انگریزوں کے حملے پھر پاکستان کا قبضہ بلوچ سرزمین اسی اہمیت کے شاخسانے ہیں اور 80 کے دہائی میں موجودہ روس اور سابقہ سوویت یونین بلوچستان کے اسی مخصوص جغرافیائی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک آزاد بلوچ سوشلسٹ ریاست کا حامی نظر آتا تھا کیونکہ وہ ہر گز یہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان کے زیر قبضہ رہ کر یہ مخصوص جغرافیائی سرمایہ دار ممالک کے سربراہ امریکہ کے زیر اثر رہے ۔ انہی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے بلوچستان اور افغانستان کو ایک بفر زون بنانے کیلئے پہلے افغان ثور انقلاب کیلئے ہر ممکن مدد کی یہاں تک افغانستان میں اپنی فوج اتار دی اور ساتھ ساتھ بلوچ مزاحمت کاروں کو ایک آزاد بلوچستان کیلئے ہر ممکن مدد کرتا رہا تاکہ یہاں ایک سوویت نواز ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جو ایک طرف سے تو سامراجی ریاستوں کیلئے سینٹرل ایشیاء کا دروازہ بند کردیتا دوسرا بلوچستان کے گرم پانی اسکے رسائی میں آجاتے ۔ بلوچوں کے اس کمک و معاونت کیلئے سوویت یونین کو بلوچوں کی پُر درد زندگی نے مجبور نہیں کیا تھا، بلکہ اس لئے کہ وہ اس سرزمین کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا تھا۔
آج جہاں دنیا میں قبضہ گیریت کے طریق بدل چکے ہیں ، انیسیوں صدی کے بعد دنیا نے محسوس کیا کہ دنیا کو بلا واسطہ اپنے فوجی طاقت کے ذریعے قابو میں رکھنا ممکن نہیں تو انہوں نے قبضہ گیریت کی ہیئت بدل دی ۔ جس سے کالونیل دور کا خاتمہ اور نیو کالونیل دور کا آغاز ہوگیا ۔ آج قبضہ غیر محسوسانہ انداز میں ہوتا ہے ۔ آج ممالک جغرافیائی نہیں بلکہ معاشی زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں ۔ نیوکالیونیلزم میں طاقتور ممالک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ذریعے اقوام کی معیشت اور اس کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور فری مارکیٹ اکانومی کے ذریعے اپنے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چھوٹ دیکر پرائیوٹائزیشن کے نام پر ان وسائل کو ایک غیر محسوسانہ انداز اور بظاھر منصفانہ طور سے لوٹ کر ٹرکل ڈاون اکانومی Trickle Down economy کو جنم دیتے ہیں ۔ آج بلوچستان پر اگر ایک طرف سے زمینی سطح پر پاکستان قابض ہے تو دوسری طرف سے دیکھا جائے پاکستان کے معیشت کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہوئے اس لوٹ میں ساجھے دار خفیہ انداز میں عالمی طاقتیں ہی رہی ہیں ۔ اسکی ایک مثال پیش کرنا چاہونگی کہ سیندک پروجیکٹ پر قابض تو پاکستان ہے لیکن اس سے جتنے بھی وسائل نکل رہے ہیں ان میں سے 60 فیصد چین جارہے ہیں، اسی طرح مستقبل میں گوادر کا بھی یہی حال ہوگا کہ اس پر قابض پاکستان ہوگا لیکن اس سے تمام تر فائدے چین ہی حاصل کرے گی اور چین کے اس کنٹرول سے خائف دوسرے سرمایہ دارانہ ممالک پاکستان کو اپنی طرف مائل کرکے یا اسے آئی ایم ایف کے ذریعے جکڑ کے بلوچستان پر نیو کالونیل طریقے سے اپنا قبضہ چاہتے ہیں ۔ اسی کھینچا تانی کی وجہ سے پاکستان بیچ میں فائدے بٹور رہا ہے آج پاکستان کے معیشت کا چکی جو انہی سرمایہ دارانہ ممالک کے خیرات نما امداد سے چل رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک بلوچستان ہے ، تبھی پاکستان، بلوچ وطن کی آزادی کو اپنی زندگی و موت سمجھتی ہے۔ حالانکہ انسانی آزادی سے انکار تو ناممکن بات ہونی چاہئے۔ لیکن پاکستان روزانہ کی بنیاد پر اپنے سینکڑوں سپاہیوں کی موت کو برداشت کرکے بلوچ وسائل کی ملکیت چاہتا ہے۔ گو کہ یہ وسائل پاکستان میں موجود عوام کے لئے کوئی بڑی معنی ہی نہیں رکھتے کیونکہ پاکستان کے پاس ابتک وہ مطلوبہ مہارت ہی نہیں کہ وہ ان وسائل کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرسکے لیکن مقتدر حلقہ اپنے سرمایہ دار مالکوں سمیت اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ وسائل کتنے قیمتی ہیں۔ سپاہی چاہے جتنے مرجائیں، انکی جگہ دوسرے بھرتی کرتے جائیں گے، بلوچ جنگ کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے ٹیکس پہ ٹیکس لگاتے جائینگے، لیکن بلوچ سرزمین سے دستبردار نہ ہونگے۔
اسی طرح عالمی سرمایہ دار کمپنیوں کی نظریں بھی بلوچ وسائل پر ہیں۔ وہ بھی اپنی صف بندیوں میں مصروف ہیں۔ ’’پیسہ پھینک‘‘ والی پالیسیاں بلوچ سرزمیں پر واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ ایک طرف سے بلوچ قومی تحریک کو سبوتاژ کرنے اور سعودیہ سمیت دوسرے عرب ممالک کے سنی توسیع پسندانہ عزائم کی بلوچستان میں تکمیل کیلئے مذہبی تنظیموں کا رُخ کشمیر سے بلوچستان کی طرف موڑا جارہا ہے جس پر کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں، ڈیتھ اسکواڈ ز پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں، ریاستی سربراہی میں منشیات فروشوں، مذہبی تنظیموں اور street criminalsکو باہم مربوط کرکے بلوچ سرزمین کو بدستور غلام رکھنے اور مخصوص مفادات کی تکمیل کی سعی کی جارہی ہے تو دوسری طرف سے بلوچ وسائل پر کنٹرول اور اس اہمیت کے حامل جغرافیہ پر دسترس حاصل کرنے کیلئے ان سب کے چین سمیت دو سرے عالمی مالیاتی اداروں سے بھی ملتی ہیں، عالمی جنگوں سے بھی مربوط نظر آتی ہیں، لیکن ان سب ریشہ دوانیوں کے باوجود بلوچ قومی تحریک کمزور افرادی اور معاشی قوت کے حامل ہونے کے باوجود نا صرف جاری ہے بلکہ اب خود کو منواتی ہوئی نظر آتی ہے اگر تحریک خود کو مزید فعال کرنے میں کامیاب ہوجائے تو بعید نہیں مشرقِ وسطی میں کردوں کی طرح بلوچ بھی خود کو اس خطے میں ایک اسٹیک ہولڈر اور فیصلہ کن کردار کے طور پر منوانے میں کامیاب ہوجائے ۔ ان تمام مصائب اور چیلنجز کے باوجود بلوچ قومی تحریک کا خود کو قائم رکھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچ قومی جہدء آزادی ایک بالکل واضح قومی تضادپر کھڑی ہے جسے معاشی استحصال و قومی جبر نے مزید استقامت اور واضح پن بخشی ہے ۔ یہ تضاد نا کسی مالیاتی ادارے کا بنایا ہوا بناوٹی تضاد ہے اور نا ہی یہ جدوجہد کسی طاقت کا پروکسی جنگ ہے ، اس کی بنیادیں بلوچ تاریخی تسلسل اور بلوچ قومی شناخت سے جڑی ہے اسلئے اسے یہ تمام نو آبادیاتی استحصالی اور جبری ہتھکنڈے روک نہیں پارہے۔
بلوچ قومی تحریک کی بنیاد ی اساس اس کا سچا اور معروضی حالات سے ہم آہنگ نظریہ ہے ۔ ہمارے نا توسیع پسندانہ عزائم ہیں اور نا ہم کسی اور قوم کے ذمین و وسائل میں سے کچھ چاہتے ہیں ہم وہ چاہتے ہیں جو ہمارا ہے۔ بلوچ قومی تحریک ایک ترقی پسند قومی تحریک ہے نا کہ یہ ایک رجعتی نسلی منافرت پر مبنی تحریک ہے ۔ مظلوم کہیں بھی ہو، مظلوم ہے۔ ہمیں خوشی ہوگی اگر پنجاب کے عوام اپنے حقوق کی جدوجہد کریں، پشتون اپنی مسخ شدہ قومی شناخت کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کریں، سندھی اپنے مادرِ وطن کے مالک خود بن جائیں۔ ہم دنیا کے ہر مظلوم و محکوم انسان و قوم کیلئے نیک خواہشات رکھتے ہیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک بلوچ عوام کی آزادی کی تحریک ہے، بلوچ قوم کی آزادی کی جدوجہد،بلوچ وسائل و سرزمین پر عام بلوچ کے ملکیت و اختیار کی جدوجہدہے ،اگر کوئی بھی عالمی، علاقائی سرمایہ دار اس سرزمین یا اسکے وسائل کی ملکیت کے خواب دیکھ رہی ہے تو یہ محض خواب ہی رہے گا۔اس جدوجہد کی آبیاری نو جوانوں کی خون سے ہورہی ہے۔ یہ جدوجہد ناقابلِ شکست ہے، کیونکہ قبضہ ایک لالچ ہے، ایک ہوس ہے لیکن مزاحمت ایک محبت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اپنے سرزمین سے محبت، اپنی بقاء سے محبت، اپنی شناخت سے محبت اور محبت اپنے کمزور ترین حالت میں بھی لالچ سے لاکھوں گُنا طاقتور اور عظیم تر ہے۔