وطن سے محبت ایک ایسی فطری جذبہ ہے جو ہر انسان کے دل میں قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے۔ یہ وہ عظیم احساس ہے جو ایک انسان کو اپنی سرزمین، اپنی مٹی، اپنی ثقافت اور اپنی قوم کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔ وطن سے محبت ایک ایسا رشتہ ہے جو خُونی رشتوں کی طرح گہرا اور طاقتور ہوتا ہے۔ اس میں قوم کے لیے قربانیاں دینے کا جذبہ، اس کی آزادی کے لیے جدو جہد اور اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش شامل ہوتی ہے۔ جب ہم سرزمین کی خوبصورتی کا ذکر کرتے ہیں تو یہ محض منظر یا قدرتی جمال کی بات نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک ایسی گہرائی ہے جس میں ہماری تاریخ، ثقافت اور ہماری سرزمین کے ساتھ رشتہ جُڑا ہوا ہے۔ پہاڑوں کی بلندیوں سے لے کر وادیوں کی گہرائیوں تک یہ سرزمین اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہمارے حیات کا ایک اہم حصہ ہے۔
یہ زمین میری زندگی کا محور ہے، ایک ایسی سرزمین جس کی خاک میں میری محبت، جذبے اور وفا کے بیج بوئے گئے ہیں۔ اس کے پہاڑوں کی بلندیوں سے لے کر وادیوں کی گہرائیوں تک، اس کے مناظر میرے دل کی گہرائیوں میں جاگزیں ہیں۔ ہر صبح جب سورج کی پہلی کرن ان پہاڑوں کی چوٹیوں پر بکھرتی ہے تو میری روح میں اُمید اور عزم کا ایک نیا جوش جاگ اُٹھتا ہے۔ میں اس سرزمین کے ہر گوشے، ہر منظر اور ہر رگ و پے میں اپنے خوابوں کی جھلک دیکھتا ہوں۔
یہ سرزمین میرے لیے محض ایک خطہ نہیں بلکہ میری اصل پہچان ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں میری مٹی سے میرے شہداء کی مہک آتی ہے، جہاں کی ہوائیں میرے ساتھ ہر لمحے رہتی ہیں اور جہاں کے موسم میرے وجود کا حصہ ہیں۔ جب میں کسی پہاڑ کی بلندی پر کھڑا ہو کر نیچے پھیلی ہوئی وادیوں کو دیکھتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان وادیوں نے مجھے اپنے دامن میں باندھ رکھا ہے۔ یہ پہاڑ، یہ درخت، یہ بہتے دریا، سب میرے ساتھ اُس دن کا خواب بانٹتے ہیں جب یہ زمین آزاد ہوگی اور اس کی فضاؤں میں صرف امن اور سکون ہوگا۔
پہاڑوں میں چُھپے یہ چشمے جو سکون سے بہتے ہیں، یہ باغات جو ہر موسم میں نیا رنگ بکھیرتے ہیں اور یہ سبزہ زار جو ہر قدم پر تازگی کا احساس دلاتے ہیں، یہ سب میرے دل میں ایک عجیب سکون اور خوشی کا احساس بیدار کرتے ہیں۔ لیکن اس سکون میں آجکل ایک بے قراری بھی چھپی ہے، ایک ایسی بے قراری جو مجھے ہر لمحہ یاد دلاتی ہے کہ میں اس زمین کو آزاد دیکھنا چاہتا ہوں۔ جب تک یہ زمین غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہے گی اس کا حُسن میرے لیے مکمل نہیں ہو سکتا۔
سرزمین کی خوبصورتی صرف اس کے مناظر میں نہیں بلکہ اس کے شہداء سے جُڑے یادوں میں بھی ہے۔ وہ شہداء جو اپنی مٹی سے محبت کرتے تھے، جو اپنی ثقافت اور اپنی روایتوں سے جُڑے ہوئے تھے، وہ ہمارے زندگی کا حصہ ہیں۔ اُن کی سادگی، اُن کی محبت، اُن کی وفا، اُن کی یادیں اور اُن کی قربانیاں سب ہماری جدوجہد کو ایک نئی سمت دیتے ہیں۔ وہ شہداء جو دن رات آزادی کی سفر میں ہمارے ہمراہ تھے، اُنہی کی داستانوں اور یادوں سے ہی اِس سرزمین کا حُسن ہیں۔
رات کے وقت بندوق کندھوں پہ لیے جب میں پہاڑ کی کسی بُلندی پر کھڑا ہوتا ہوں اور چاندنی میری سرزمین پر اپنی روشنی بکھیرتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قدرت بھی میرے خوابوں کا حصّہ بن رہی ہے۔ یہ خاموشی، یہ سناٹا اور یہ رات کا سکون میرے دل کی آوازوں کو مزید واضح کر دیتے ہیں۔ میری زمین کی خوبصورتی اُس وقت پوری آب و تاب سے چمکتی ہے جب میں اس کے خاموش لمحوں میں اپنے عزم کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ جس دن یہ زمین آزاد ہوگی اُس دن اس کی خوبصورتی اپنی حقیقی شکل میں سامنے آئے گی۔
جب کبھی صبح کی روشنی پہاڑوں کے پیچھے سے نکلتی ہے اور وادیوں کو اپنی چمک سے منور کرتی ہے تو میرا دل سرشار ہو جاتا ہے۔ میرے دل میں وہ جذبہ جاگ اُٹھتا ہے جو مجھے اپنی منزل کی طرف کھینچتا ہے۔ یہ پہاڑ اور دریا، یہ وادیاں اور باغات، یہ سب میرے دل میں اُمید اور یقین کی شمعیں روشن کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب یہ سرزمین آزاد ہوگی اور اس کی فضاؤں میں صرف امن اور محبت کا پیغام گونجے گا۔
اس زمین کے درخت، اس کے پھول، اس کی ہوائیں، یہ سب میرے دل کی زبان بولتے ہیں۔ یہ مجھے اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ میری محبت اور شہداء کی قربانیاں اس زمین کے لیے بے معنی نہیں ہے۔ یہ زمین جو میرے دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہے، جو میرے خوابوں کی ساتھی ہے، اسے آزاد کرانا ہمارے زندگی کا مقصد ہے۔
آج میں اِن سنگلاخ پہاڑوں میں ہوں لیکن میرا دل اس زمین کے ہر اُس ذرے کے ساتھ دھڑکتا ہے جو میری جڑیں ہیں، میری بنیاد ہیں۔ میں شہداء کے نقشِ قدم پر چل کر اس زمین کے لیے، اس کی آزادی کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری یہ جدوجہد اور شہداء کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔ وہ دن ضرور آئے گا جب یہ زمین آزاد ہوگی اور اُس دن اس کا حُسن ایک نئی شان سے چمکے گا۔
یہ سرزمین میری اُمیدوں کا مرکز ہے، میرے خوابوں کا محور ہے۔ اس کے ہر گوشے میں میری محبت چُھپی ہے اور جب یہ زمین آزاد ہوگی تب اس کا حُسن اپنی حقیقی صورت میں ظاہر ہوگا۔ یہ حُسن جو آج بھی میرے دل کو سکون بخشتا ہے، اُس دن پوری دنیا کے لیے ایک مثال بن جائے گا اور اُس وقت میں فخر سے کہہ سکوں گا کہ شہداء کی قربانیوں نے اس سرزمین کو آزاد کرکے اس کے حُسن کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔
جب میں ان وادیوں میں چلتا ہوں جہاں شہداء نے جنگیں لڑی، جہاں انہوں نے اپنے خوابوں کا سودا کیا تو مجھے اُن کی قربانیوں کی مہک محسوس ہوتی ہے۔ یہ وہ زمین ہے جہاں ہر ایک پتھر، ہر ایک درخت اور ہر ایک دریا اُن کی یادوں کی داستانیں سناتا ہے۔ اُن کی قربانیوں کی خوشبو آج بھی اس سرزمین کی فضا میں بسی ہوئی ہے جو ہر ایک کو یاد دلاتی ہے کہ یہ آزادی جس کے حصول کی تحریک چل رہی ہے، کوئی عام چیز نہیں بلکہ اس کے پیچھے لاکھوں خواب، لاکھوں اُمیدیں اور اُن شہداء کا عظیم عزم ہے جنہوں نے اپنی قربانیوں سے اس تحریک میں ایک نئی روح پُھونک دی ہے۔
ان شہداء کی قربانیوں کی یاد دلانے والا ہر منظر، ہر لمحہ ہمیں اس بات کی یقین دلاتا ہے کہ یہ سرزمین ایک دن ضرور آزاد ہوگی اور اس کی خوبصورتی کا ہر گوشہ ہماری جدوجہد کی گواہی دے گا۔ جب ہم ان کے ناموں کو اپنی زبان پر لاتے ہیں تو یہ صرف یادیں نہیں بلکہ ایک عزم، ایک اُمید اور ایک وعدہ بھی ہیں کہ ہم اُن کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرینگے اور نہ ہی اُن کے دئیے ہوئے مقصد سے منہ موڑ لینگے۔
بلوچ قوم کی تاریخ قربانی، جرأت، اور جنگِ آزادی کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ ایک ایسی قوم ہے جس کے بیٹے اور بیٹیاں ہمیشہ اپنی سرزمین اور اپنی ثقافت کے تحفظ کے لئے سینہ سپر رہے ہیں۔ بلوچ شہداء کے دلوں میں اپنے وطن کی محبت اور آزادی کی تڑپ اس قدر تھی کہ انہوں نے اپنی خواہشات، خواب اور جوانی قوم کے نام قربان کر دی۔ ان کے دلوں میں ایک ہی مقصد رہا کہ کسی بھی قیمت وہ اپنی سرزمین کو ناپاک ریاست کی غلامی سے آزاد کرائیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایک آزاد فضا میں جینے کا حق فراہم کریں۔
یہ بات عیاں ہے کہ آزادی کی جدوجہد ہمیشہ قربانی اور عزم کا تقاضا کرتی ہے۔ بلوچ قوم کے شہداء نے اس راستے پر چلتے ہوئے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگایا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے خواب، اپنے خاندانوں کی محبتیں اور اپنے مستقبل کے ارمانوں کو قوم کی آزادی کے لئے قربان کردی۔ اُن عظیم ہستیوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اُن کی زندگی کا مقصد محض اپنی ذات کی تسکین نہیں بلکہ اُن کا اصل مقصد قوم کی آزادی اور خودمختاری تھی۔
بلوچ شہداء کی کہانیوں میں ہمیں ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں انہوں نے اپنی خواہشات، اپنے خواب اور اپنی جوانی کو نظر انداز کر کے وطن کے دفاع کو ترجیح دی۔ ان کے نزدیک قیمتی لباس، خوبصورت زندگی اور عیش و آرام کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ان عظیم شہداء نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ ایک قوم کی آزادی اس کے نوجوانوں کی قربانی اور ان کی ثابت قدمی سے مشروط ہے، اپنی قوم کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی دینا ایک عظیم فریضہ ہے اور یہی قربانی قوم کی ترقی کا زینہ بن سکتی ہے۔ بلوچ قوم کے ان سپوتوں نے اپنی زندگیاں ہمارے لئے ایک مثال بنا دی۔
بحیثیتِ قوم، آج یومِ شہداء مناکر ہم اس بات کی تجدید ضرور کرلیں کہ شہداء کے نقشِ قدم پر چل کر اپنی سرزمین کے لیے ہر لمحہ قربانی دینے کے لیے تیار رہیں گے۔ اُن کی یادگاریں، ان کی قربانیاں اور ان کی داستانیں زندگی کے ہر قدم پر ہماری رہنمائی کریں گے جن کی بدولت ہم جہدِ آزادی میں مخلصی سے اپنا کلیدی کردار ادا کرکے اس سرزمین کو آزاد کرانے، اپنی شناخت و ثقافت کو بچانے کے لیے آخری سانس تک لڑیں گے اور سرزمین بلوچستان کو ناپاک ریاست کے لیے جہنم بنادیں گے۔