بلوچستان، ایک مغموم و محزون خطہ، جو کئی برسوں، سالوں اور صدیوں سے سامراج، قبضہ گیر، نوآبادکار اور فاشسٹ ریاستی جبر و استبداد کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ جس کے باشندے جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل اور “مارو پھنکو” کی تلخ پالیسی کے شکنجے میں قید ہیں۔ جہاں روزانہ کئی ماؤں کی گود اجاڑ دی جاتی ہے، ان کے لعل چھین لیے جاتے ہیں۔ وہ مائیں جو کبھی انہیں اپنی پر نم نگاہوں اور چمکتی چشمان سے دیکھا کرتی تھیں، آج انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر گھسیٹتے ہوئے سیاہ زندانوں اور کالی کوٹھریوں میں دھکیلا گیا ہے۔
وہ بہنیں جو اسی امید پر دن رات اپنے بھائی کا سہرا سنبھالے اس کے راستے پر کھڑی ہوتی ہیں کہ اب ہماری امیدیں پوری ہوں گی، اب ہمارا بھائی دلہا بنے گا؛ مگر انہی بہنوں کے نازک ہاتھوں سے سہرا بے دردی سے چھین کر انہیں کفن تھما دیا جاتا ہے۔ ان کی تمام مرادوں کا جنازہ نکال کر انہیں قیامت کے نہ ہوتے ہوئے بھی دوزخ کی آگ میں جلایا جاتا ہے۔
وہ بوڑھے اور عمر رسیدہ والد، جو مبہم راتوں میں بھی راستے پر ایک امید کے سائے میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ ان کا پشتیبان، ان کی بڑھاپے اور سالخوردگی کی لاٹھی شاید اب روشن چراغ بن کر چمکے گا۔ شاید وہ بیٹا، جس نے اپنے والدین اور پسماندہ علاقے کو تعلیم اور شعور کے حصول کی خاطر خیرباد کہا تھا، اب لوٹ آئے گا۔ مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ ریاستی ظلم و بربریت نے ان کے گھر پر بھی دستک دے دی ہے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ کالے بادل نے ان کے آنگن میں بسیرا کر لیا ہے۔ انہیں کیا پتا تھا کہ ان کے انتظار نے خزاں کو ان کا مقدر بنا دیا ہے۔ انہیں کیا علم تھا کہ ان کا بیٹا صرف بلوچ ہونے کی پاداش میں زندانوں میں قید ہے۔ انہیں کیا خبر تھی!
وہ لازار بھائی، جو اپنے بھائی کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستے تھے، جو اپنے بھائی، اپنے دوست سے ہمیشہ کہا کرتے تھے: “کب تو لوٹ آئے گا؟ کب وہ دن آئے گا کہ صبح آنکھ کھولتے ہی تیرا پرنور چہرہ نظر آئے گا؟ تیری ہنسیوں سے یہ ویران اور خاموش گاؤں گونج اٹھے گا۔ کب تو آئے گا کہ تیری خوشی کے خاطر ماں چند الفاظ کی بوچھاڑ ہم پر کرے گی؟ کب تو آئے گا؟ کب تیری وہ مسکراہٹ ہم دیکھیں گے، جب تُو ڈگری تھامے اس پسماندہ گاؤں میں قدم رکھے گا؟ جب ہم بھی فخر سے کہیں گے: “ہمارا بھائی علم و شعور کے میدان کا مجاہد ہے۔” پر آج وہ بھائی اپنی اشک بار آنکھوں سے تیری راہ تکتے ہیں۔ تیری تصویر پر گمنامی اور جبری گمشدگی کا دھبہ دیکھتے ہیں۔ اسی رنج و غم میں مبتلا ہیں کہ ہم کیسے اس پُرامید ماں کو یہ بتائیں کہ تیرا لعل زندان میں ہے۔ تیرے لعل کے سیاہی سے نم ہاتھوں سے قلم چھین کر ہتھکڑیاں پہنا دی گئی ہیں۔ کیسے سنبھالیں اس ماں کو جو دن رات تیری سلامتی کی دعا کرتی تھی، کہ تو ہمیشہ چراغوں کی روشنی میں رہے، مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ کتابوں کی رونق ریاستی بربریت کی نذر ہو گیا ہے۔
آج ہر بلوچ ماں ٹوٹے دروازے کو تَکتی ہے کہ شاید اب دروازے پر مقدس دستک ہو، کہ اب اس کے بیٹے کی خوشبو چاروں سمتوں میں پھیل جائے۔ اب مُرجھائے ہوئے پھولوں کو زندگی نصیب ہوگی۔ اب خشک اور ویران آنگن خوشیوں سے جھوم اٹھے گی۔ اب بلوچ بہنیں اپنے بھائیوں کے لیے سرنائیاں بجائیں گی۔ اب بلوچ باپ کا کندھا غم کے بوجھ تلے نہ جھکنے پائے گی۔ اب بلوچ بھائی کی رونق اور روشنی لوٹ آئے گی۔ اندھیری راتیں بلوچستان کو خیرآباد کہہ دیں گی اور بلوچوں کے چہروں پر وہ مسکراہٹ لوٹ آئے جو جبر و ظلم نے اکھاڑ پھینکی تھی۔
ہر بلوچ ماں ایک انتظار اور ایک امید کا استعارہ بن چکی ہے۔ ہر بہن، ایک رجاء کے سہارے چاروں اطراف اپنی اشکبار نگائیں پھیرتی ہے۔
اور آج اُن ہی غمگین بلوچ ماؤں کی صف میں ایک اور دُکھی اور نڈھال ماں شامل ہو گئی ہے۔ آج غموں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ آج ایک اور گھر کا شیرازہ بکھر گیا۔ آج ایک اور بیٹا لاپتہ ہوگیا۔
بلوچستان کے پسماندہ ضلع آواران کے ایک چھوٹے سے گاؤں، مالار کولواہ کے رہائشی جاوید مسافر بلوچ — جو کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں زیرِ تعلیم، ایک پرعزم طلبہ رہنما، سیاسی کارکن اور بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی چیئرمین ہے — کو 23 اپریل 2025 کی شب، تقریباً 3 بجے، آئی ایم آئی، آئی ایس آئی اور سادہ لباس میں ملبوس سیاسی کارندوں نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔
ریاست اپنی بربریت کی تمام حدیں پار کر چکی ہے۔ اس کے قائم کردہ تھانے اور نام نہاد پولیس افسران اپنے چہروں پر خامشی کی مہر لگائے بیٹھے ہیں۔ حق و انصاف کے نام پر ان کے منہ میں چھالے پڑ چکے ہیں اور ہاتھوں میں ایسی سوجن آ گئی ہے کہ انصاف لکھنے کو ان کی قلمیں تھم جاتی ہیں۔
چیئرمین جاوید بلوچ کی جبری گمشدگی پر ریاست کے چند کٹھ پتلی پولیس افسران نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح اپنے ظلم اور بربریت پر قائم رہے۔
مگر حقیقت بے نقاب ہو کر رہے گی۔ ایک ماں کی صدائیں ظلمت کی سیاہی کو چیر ڈالیں گی۔ اور وہ بےبس ماں، اپنے بیٹے جاوید بلوچ کی واپسی دیکھے گی۔ وہ بیٹا ضرور لوٹے گا۔
چیئرمین جاوید بلوچ کی ماں، جو ہمیشہ کہتی تھی کہ میرا بیٹا ایک دن علم و شعور سے سیراب ہوگا۔ حق و انصاف کے نالے بلند کرے گا۔ ہر سیاہ و تاریک رات کا خاتمہ کرے گا۔ آج اسی بیٹے کی جبری گمشدگی میں فلک شگاف صدائیں بلند کر رہی ہے۔ وہ فریاد کرتی ہے کہ، “کیا میری دعاؤں میں، میری عبادتوں میں کوئی کمی رہ گئی تھی کہ میرا لعل مجھ سے چھین لیا گیا؟ میری گود سونی کر دی گئی، میری آنکھوں کی رونق چھین لی گئی؟”
اور وہ باپ — جو اس دکھ کو جھیلنے سے پہلے ہی خالقِ حقیقی سے جا ملا — شاید جانتا تھا کہ یہ رنج، یہ اندوہ، اس کے بس سے باہر ہے۔ وہ یہ قرب نہیں جھیل پائے گا۔ شاید اسے خبر تھی کہ وہ اپنے جوان بیٹے کی گمشدہ، مبہم تصویر نہ دیکھ پائے گا۔ شاید اس لیے وہ ان تاریک راتوں کے انتظار سے پہلے ہی نجات پا گیا۔ شاید وہ جانتا تھا۔
چیئرمین جاوید بلوچ ایک سفید سویرا تھے، ایک روشن کرن، جو ہر ظلم اور جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے: “جہاں ظلم ہوگا، وہاں آواز بلند ہوگی۔” ہر مشکل، ہر مصیبت میں وہ پرامن رہتے، ان کے چہرے پر کبھی غم یا پریشانی کے آثار نظر نہ آتے۔
قانون کے طالب علم ہونے کے ناتے وہ ہر قدم قانون کے دائرے میں رکھتے۔ وہ ہمیشہ ضابطے کے پابند اور قانون کی پاسداری کرنے والے رہے۔ نہ صرف خود ہر مشکل وقت کے لیے تیار رہتے بلکہ اپنے تمام ساتھیوں کو بھی تلقین کرتے کہ وہ بلوچستان کے مضبوط پہاڑ، کوہِ سلیمان کی مانند ثابت قدم رہیں، اور ان کے سر کوہِ البرز کی طرح بلند ہوں۔
چیئرمین جاوید بلوچ ایک شیدائیِ علم تھے۔ ان کا کمرہ کتابوں سے سجا رہتا — ان کی زینت، ان کی دنیا، ان کی دوستی کتابوں سے تھی۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے: “اپنی دوستی کتابوں سے قائم رکھو، کیونکہ وہ ہر مشکل وقت میں تمہارا ساتھ دیتی ہیں، تمہیں راہ دکھاتی ہیں، تمہیں نصیحت کرتی ہیں۔ کتاب زمانے کا آئینہ ہے۔ جب تک تمہیں کتابوں سے عشق نہ ہوگا، تمہارے ہاتھوں میں قلم قرطاس سے کیسے عشق کرے گا؟ کیسے وہ اپنے نوک سے نکلے الفاظ کو صفحے کی سرخی بنائے گا؟ کیسے وہ حقیقت کو آشکار کرے گا؟”
آج چیئرمین جاوید نے ہمیں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا سکھایا۔ ہمیں خاموشی نہیں، بلکہ سوال اٹھانا سکھایا۔ ہمیں کتابوں سے عشق سکھا کر قلم پکڑنا سکھایا۔ اور آج ہم ہی اُس کے سکھائے گئے ہنر سے حق و انصاف کے نالے بلند کر رہے ہیں۔
ہم چیئرمین جاوید بلوچ کی بازیابی کا پُرزور اور غیر مشروط مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں جلد از جلد رہا کیا جائے۔ ہم تمام حلقے کے افراد، قومی و بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں، علمبرداروں، سیاسی و سماجی کارکنان، وکلاء برادران اور طلبہ تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حق کے لیے آواز بلند رکھیں، خاموشی کے گہرے کنویں سے باہر نکلیں، اور بےبس ماں کی آواز، بےبس بہن کا سہارا، اور راہ تکتے بھائیوں کا حوصلہ بنیں۔ چیئرمین جاوید بلوچ کی بازیابی میں مؤثر کردار ادا کریں اور جہاں تک ممکن ہو، اس ہیش ٹیگ #ReleaseChairmanJavidBaloch کو فعال کریں۔