کچھ تمہیدی جملے اور پھر پوری بات!!! پہرہ لگانے کو طنزیہ پیرایہ میں بیان کرنے کوشش کی گئی، لیکن یہ بات ہم واضح کردیتے ہیں کہ تم انفرادی یا شخصی زندگی میں کون ہو، کیا ہو، کیا کرتے ہو، کیسے رہتے ہو اور کیا شوق رکھتے ہو، اس پر اگر کبھی پہرہ لگا دیکھا تو ضرور ہم کو ٹوکئیے، ہم پر طنز کیجئے اور کہہ دیجئیے کہ تم ہمارے اوپر پہرہ لگا بیٹھے ہو اور یقیناً پھر ہم اپنی درستگی کا کچھ سامان بھی کرلیں گے، لیکن ہم یہ بات پہلے بھی بغیر کسی لگی لپٹی کے اپنی تحاریر میں اپنائے گئے موقف کے بنیاد پر واضح کرچکے ہیں کہ ہم نہ صرف تمہارے بلکہ بلوچستان کے اندر موجود تمام سیاسی قوتوں کی سیاسی اعمال، حکمت عملیوں، نظریاتی سوچ، اندازِ کار سمیت ان تمام اعمال و عوامل کی بلوچ قومی سوال پر پڑھنے والے اثرات کو سمجھنے اور اپنے قارئین اور سیاسی ساتھیوں کو سمجھانے کے واسطے تم سب پر بلا شک و شبہ پہرہ دے رہے ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے۔
علاوہ ازیں پیسے، معاشرتی رتبے اور معاشی و سیاسی مفادات کی خاطر شیعہ مذہب کو قبولنے یا قومی بیگانیگی کے باوصف قومی مرکزیت سے کٹ جانے، ایک الگ سماج کا حصہ بن جانے اور انکی روایات کو قبولنے کی بات کو ہم نے ان بلوچوں کے حوالے واضح کیا تھا جن کو قابض ایران نے انتظامی حوالے سے بلوچستان کے مرکزیت سے وقتاً فوقتاً کاٹ کر ایران کے دیگر اکثریتی شیعہ علاقوں میں شامل کیا، سرحدی علاقوں سے پھر یہ ہوتا ہوا بلوچستان کے کچھ اور علاقوں تک بھی پھیل گیا، اس میں بہت ساری عوامل کارفرما ہیں، معاشی و معاشرتی فوائد کے علاوہ جیسا کہ شیعہ فرقے میں متعہ جیسی ہفتے اور مہینے کی شادیوں کے رواج کی مذہبی سند کا موجود ہونا وغیرہ، لیکن ایک واضح موقف کو پراگندہ و متنازع بنانے کے لیے جان بوجھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ معزز و محترم بلوچوں کی توہین کی گئی، ہمارا مسئلہ کسی کا مذہب یا فرقہ ہرگز نہیں بلکہ ہم نے ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندربلوچ قوم پر قابض ایرانی سیاسی و سماجی قدغن اور قومی بیگانیگی کے حوالے سے بات کی تھی جو کہ بہت سے حوالوں میں ثابت بھی ہے۔
ایک اور بات یہ کہ پہلوانوں کی زبانی گائی جانے والی کچھ اشعار کا حوالہ دیکر بلوچوں کو بنیادی طور پر شیعان علی ثابت کرنے کی بے ڈھنگی کوشش کی گئی، ایک تو بیشتر معاملات میں شعری نفسیات کی بنیاد ہی مبالغہ آرائی پر مبنی ہے، اور اس پر طرہ یہ کہ یہ بلوچ لوک شاعری کی تحریری سند کچھ دہائیوں پہلے ملتی بھی نہیں بلکہ نسل در نسل پہلوان ان اشعار کو گاتے اور لوگ انکو ازبر کرکے اس سلسلے کو آگے لے جاتے، اب اس میںحقائق کس حد محفوظ یا ان میں کس حد تک کمی بیشی کیا گیا کوئی نہیں جانتا، اور کون جانے کس پہلوان نے اپنے وقت کے حاکم کو خوش رکھنے کے واسطے ایسے کتنے مبنی بر مبالغہ شعر کہے ہونگے، البتہ ایک سیاسی و سائنسی جد و جہد کے دوران اور قومی سوال کی تشریح کرنے کے لئے کم از کم شعری حوالہ جات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی، بلوچ کے معاملے میں یہ مسئلہ اور بھی گھمبیر ہے کہ بلوچی لوک ادب اب جاکے کہیں تحریری شکل میں آچکی ہے۔
تحریر کی طوالت اور تکرار و گردان کی شکایات اسکے علاوہ ہیں، ان پر الگ سے ایک طویل اور بھر پور مضمون لکھنے کا ارادہ ہے اسی لیے تمہیدی بات کو یہیں تک سمیٹتے ہوئے آگے جاتے ہیں۔ پوری بات: میں بحیثیت ایک سیاسی ورکر اپنے پورے سیاسی کیرئیر میں اس چیز کا ہمیشہ قائل رہا ہوں کہ سیاسی معاملات پر بحث و تمحیص خاصی دقت اور وقت طلب کام ہے، اسی لیے میں نے سوشل میڈیا پر دو چار سطری پوسٹوں کی مدد سے نہ کبھی اپنی بات رکھنے کی کوشش کی اور نہ آئندہ ایسا کرنے کا مجھ میں جسارت ہے، اگر مجھ تک دو چار سطری کوئی بات پہنچ جائے اور اس میں یار دوست اپنے مطلب کی بات نکالتے ہوئے مجھے مورد الزام ٹہرانے کی کوشش کریں تو سب سے پہلی بات کہ اس دو چار سطری جملہ بازی پر سوچوں گا اور اسکی مختلف پہلوؤں پر تجزیہ کرکے اس پر اپنے نقطہ نظر کو واضح کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ ہر بات اور ہر لفظ کے ساتھ انصاف کیا جا سکے اور قاری کو سمجھایا جاسکے کہ میں نے جو کہا تھا وہ کیا تھا اور جو اسکے جواب میں چارسطری جملے بیان کی جاری ہیں وہ کیا ہیں۔ مکالمے کے آداب سے واقفیت رکھنے والے لوگ سمجھ جائیں گے کہ دو چار سطری باتوں میں الجھن کے سوا سلجھاؤ کی کوئی سبیل نہیں نکل سکتی، اب یار باش مکالمے کی کہاں تک قائل ہیں وہ از خود ایک دلچسپ نقطہ ہے، مکالمے میں جذباتیت بالکل بھی نہیں ہونی چاہئے، مگر کیا کسی کی پالیسیوں اور اعمال کی رد اور سیاسی نظریات کی تحلیلی تجزیہ اور اس تجزیے کے بنیاد پر سامنے آنے والی امکانی نتائج و خدشات کو زیر بحث لانا جذباتیت ہے یا پھر تاریخ کے غلط جانب کھڑے ہونے اور بلوچ قومی سوال کو پراگندہ کرنے جیسی غلط و گمراہ کن سیاسی نظریات پر تحلیلی تجزیہ کرنا جذباتیت ہے؟ اسی لیے میں اس بات کا قائل ہوں کہ جہاں بلوچ آجوئی تحریک کے لئے ہزاروں کے حساب میں ماؤں کے لال ہنستے ہنستے قربانیاں دیتے ہیں وہیں مکالمے کی اہمیت کو بھی دو چار سطری فیس بک و ایکس پوسٹوں جیسا محدود نہ سمجھا جائے، “ لاتقرب الصلاہ وانتہم سخارہ” والی مثال میں نماز سے گریزاں شخص ہمیشہ لاتقرب الصلاہ پر فل اسٹاپ لگائے گا، کیونکہ جملے کا دوسرا حصہ انکے مقصد کا نہیں ہے، ویسے ہی، مکالمے سے بھاگنے والا ہمیشہ پوری جملے میں سے اپنی مطلب کی بات نکال کر اسی پر سر دھنس کر رہ جائیگی، لیکن اب ہماری بیوروکریٹک و پاکستانی مقتدرہ سے مستعار لی ہوئی سیاسی نفسیات میں ہم ہر تنقیدی بات اور ہر مکالماتی رد کو جذباتیت کہہ کر تعبیر کریں گے، اور اسے نظر انداز کرنے دوھائیاں دیتے پھریں گے۔ ماضی کے ایک مثال کے طور یہاں مولابخش دشتی کی قتل سے جڑے کچھ باتیں یاد آرہی ہیں، جو ہمارے خدشات و علمی و ذہنی اغلاط ہر مشتمل سالوں سے چلی آرہی ہیں، اور یارباشوں کی ایران دوستی اور ایموشنل بلیک میلنگ کے باوصف مجھے وہ باتیں آج دوبارہ دہرانی پڑ رہی ہیں۔
مولابخش دشتی جب گیارہ جولائی دوہزار دس کو تربت میں مارا گیا، ایک گمنام تنظیم نے ذمہ داری قبول کی، اس پر بہت واویلہ بھی ہوا لیکن ڈاکٹر مالک اور برادری بدزبانی اور ہزیان بکنے پر اتر آئی، وہ مولابخش دشتی کے قتل کے لیے براہ راست ڈاکٹر اللہ نذر کو مورد الزام ٹہراتے ہوئے ڈاکٹر کو “ مشکے کا لوڑی” کہہ کر مخاطب کرتے رہے، ڈاکٹراللہ نذر نے اس وقت بڑے پن کا مظاہرہ کرکے مقتول مولابخش دشتی کو اپنا سیاسی استاد کہہ کر اس قتل میں کسی بھی طرح شامل ہونے کی تردید کی لیکن مالک و برادری “ مشکے کی لوڑی” کا گردان ترک کرنے پر آمادہ نہ تھے اور مزید کہا کہ ایسے اقدامات سے مکران کے اندر ایک خانہ جنگی کی خدشات کو ابھارا جارہا ہے، تو ایسے میں بی ایل اے کے ترجمان نے اس وقت مالک اور برادری کے بدزبانی اور پے در پے بیانات کے بعد ایک بیان دے کر لگ بھگ یہی کہا کہ “ اگر خانہ جنگی ہوگی تو ہم اس کو خوش آمدید کہیں گے” ہم نے اس وقت بھی اسکی وضاحت کی تھی کہ مالک، حاصل اوردیگر پرو پاکستانی اپنی جملہ برادری سمیت اس وقت بلوچ جہدِ آجوئی کے سفر میں بلوچ قومی سوال کے خلاف اور تاریخ کے غلط دھارے پر کھڑے ہیں اور بوقت ضرورت ان سے نمٹنے کا کوئی بھی عمل کم از کم خانہ جنگی کے زمرے میں ہرگز نہیں آتا بلکہ یہ “ پرو اور اینٹی “ پاکستانی طاقتوں کی جنگ ہوگی جس میں ایک طرف آزادی پسند قوتیں ہونگی اور دوسری طرف وہ قوتیں ہونگی جو پاکستانیت کے اندر اپنے مستقبل تلاشتے بلوچ آجوئی جہد کے سامنے نہ صرف کھڑے ہونگے بلکہ بلوچ قومی سوال کو اپنی ذاتی و گروہی مقاصد کے لیئے الجھائیں گے، گو کہ مالک و حاصل نے اس وقت اور دیگر کئی پاکستانی گماشتے و کاسہ لیس محض بلوچ ہونے کی بنیاد پر آج بھی اپنی پرو پاکستانی پالیسیوں کے باوصف اپنے خلاف ہونے والی عسکری سرگرمیوں کو خانہ جنگی سے تعبیر کرتے نظرآتے ہیں، کیونکہ وہ مانتے ہیں کہ ہم دونوں طرف بلوچ ہیں لہذا ہمارے درمیان کو بھی مدبھیڑ خانہ جنگی ہی ہوگی، لیکن ہم اس نقطے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ ہم انہیں پاکستانی مفادات کی نگہبان و سنگھی ساتھی سمجھتے ہیں۔ جب یہ سب کچھ اس وقت دو ہزار دس میں ہورہا تھا تو ہمیں گمان تک نہ تھا کہ کل کلاں کوئی ” پرو ایرانی و اینٹی ایرانی” بیانیہ بھی جنم لے گا، تو لہذا آج یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ یار باش ایرانی قبضہ گیر کی حمایت میں کس حد تک جا چکے ہیں اور ہم نے ایک امکانی خدشے پر بات کی تھی جو کہ اب بلوچ قومی سوال کے افق پر ابھر کر سامنے آچکی ہے، جس طرح یار باش کہتے ہیں کہ ہم تکرار و گردان کرتے ہیں تو ویسے ہی تکرار سے میں دوبارہ کہتا ہوں کہ میرا مسئلہ مذہبی فرقہ بازیت ہرگز نہیں اور ناں ہی مجھے اس سے کوئی مسئلہ ہے، میرا مسئلہ بلوچ قومی سوال کے سامنے ایک الجھن کی کیفیت پیدا کرنے کا ہے۔
متحدہ بلوچ سرزمین کی واگزاری اور فیصلہ سازی کی قومی اختیار کے سوال کو اب یارباشوں کی طرف سے ایرانی پالیسی کو لے کر ویسے ہی الجھایا جارہا ہے جیسے مالک و برادری پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں کرتے چلے آرہے ہیں، آج ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر بہت ساری بلوچ قوتیں سرگرم عمل ہیں، سیاسی و سماجی بنیادوں سمیت عسکری بنیادوں پر وہاں ہمیں سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں، پاکستانی کرایے دار ملا و مذہبی بلوچ اس طرف پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر ہماری جد و جہد کو اسرائیل، امریکہ اور انڈیا سے نتھی کرتے ہوئے سنے جاسکتے ہیں، لیکن اس تمام کے باوجود یہ حقیقت تو اپنی جگہ برقرار رہیگی کہ بلوچ اپنی بقا اور قومی آزادی کے لیے ہی برسرپیکار ہے، دوسری طرف تم اگر ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے مزاحمی و عسکری تنظیموں کو ملا کہو، یا ان کو سعودی سے نتھی کرو اس سے یہ حقیقت نہیں بدلتی کہ وہ بلوچ قومی مفادات کے لیے ہی ایرانی قابض کے خلاف برسرِپیکار ہیں، اب یہ منتقی بات نہیں کہ ہم اس طرف بیٹھے پاکستان کی حمایت کرنے والے شفیق مینگل و مالک و سرفراز سمیت جملہ دیگر بلوچوں کو تو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انکے خلاف بلوچ دشمنی کی بیانیے کو مرتب کرتے اور ابھارتے ہیں تو یہی کام اگر امکانی طور پر وہاں ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر شروع ہوجائے تو پھر ہم کس کے ساتھ ہولیں؟؟؟
اس پر سوچنے، غور کرنے، اپنی غلط پالیسیوں اور قومی سوال و بلوچ جہدِ آزادی اور تاریخ کے غلط دھارے پر کھڑے ہونے کی اپنی فیصلوں پر نظرثانی کرنے کے بجائے یارباش ایموشنل بلیک میلینگ پر اتر آئے ہیں کہ ہم ان کو ” بلوچ جہادیوں ” کے ہاتھوں خطرے میں ڈال رہے ہیں، اب ” بلوچ جہادی” مجھے نہیں لگتا کسی وضاحت کی محتاج ہو، ایسی بے تُکی اور غیر منطقی باتوں کا جواب جب دیا جائے تو وہ کہتے پھرتے ہیں یہ تو تکرار ہے، ہم ایک امکانی نقطے پر مستقبل میں پیش آنے والی اپنی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے بلوچ سیاسی کارکنوں کے سامنے اپنی بات رکھنے کی کوشش کررہے ہیں، کیونکہ ہمیں یقین کامل ہے کہ بلوچ قومی سوال کا دھارا ایک ہے، ایرانی و پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے مصنوعی کھینچی ہوئی لکیروں سے قومی سوال کی اشتمالی و اجتماعی حیثیت نہیں بدلتی سو اگر قومی سوال کو پراگندہ کرنے کوششیں ہوں اور اپنی مفادات کو بلوچ متحدہ قومی مفادات پر ترجیح دیکر ان کو بلند تر حیثیت دی جائے تو نقصان یقینا ًہوگی وہ نقصان محض ہمارا یا تمہارا نہیں بلکہ اجتماعی بلوچ مفادات کو کلی حیثیت میں نقصان مل جائیگی، چونکہ ایران دوستی کی پالیسی اور اس پر لیا گیا یہ فیصلہ تمہارا یک طرفہ فیصلہ ہے لہذا اسکے نفع و نقصان کا ذمہ دار بھی یقیناً تم ہی ہوگے۔ حقیقتاً میں اپنی اس بات پر قائم ہوں کہ بلوچ بنیادی اعتبار سے شیعہ نہیں رہا ہے بلکہ یہ قابض ایران نے ایک سیاسی حربے کے طور پر اسے استعمال کیا ہے، حالیہ بلوچ تحریک اپنی تمام تر کمی و کوتاہیوں اور یار دوستوں کی ناعاقبت اندیشیوں کے باوجود بلوچ سرزمین کو پاکستان کے اندر دیگر قومیتوں کی آبادکاری سے بچایا ہے وگرنہ دوہزار کے اوئل میں شروع کی ہوئی گوادر میگاپروجیکٹس اور پاکستان چائنا دوستی کی یہ ایجنڈے اتنے بھیانک اور خطرناک تھے کہ بلوچ اپنے ہی سرزمین پر لسانی، ثافتی و معاشرتی اعتبار سے بیگانہ ہوجاتا۔
دوسری طرف ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر اگر دیکھا جائے تو مغربی بلوچستان کی ڈیموگرافک حیثیت کو پچھلے پچاس سالوں کے اندر انتہائی تیزی سے تبدیل کردیا گیا ہے اور بلوچستان کے طول و عرض میں ہم کو گجر اور فارسیوں کی کثیر اور منظم انداز میں پھیلائی گئی آبادیاں ملیں گی، اس سے لسانی، ثقافتی، مفاشرتی اور مذہبی اثرات بڑے گہرے انداز میں ابھر کر سامنے آئے ہیں، اور جبر و ستم کی تاریخی تسلسل یہ کہ یہ جبر و استبداد محض جسمانی سطح پر محدود نہیں رہے ہیں بلکہ معاشرتی، ثقافتی، سیاسی و مذہبی زندگی کے ہر سطح پر بلوچ قوم کو ایرانی استعمار کی قدغنوں کا سامنا رہا ہے، لہذا اس بات کی تاریخ کے پنوں سے کوئی مستند حوالہ موجود نہیں ہے کہ بلوچ سنی ہونے سے پہلے شعیہ تھے یا امام حسین کے ساتھ یزید کے لشکر سے لڑنے کی پاداش میں حلب سے کوچ کرکے اس طرف آگئے۔
بی بی سی کی جانب سے ستمبر دوہزار نو کو شائع کی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، جب ایران پر سولہویں صدی میں صفوی دور کے پہلے بادشاہ شاہ اسماعیل نے حکومت شروع کی تو اس وقت ایران کی اپنی ہی آبادی کے بیشتر لوگ سنی مکتبہ فکر کے ماننے والے تھے، اور شاہ اسماعیل نے، تشدد، مالی و مادی لالچ اور سرکاری مراعات کے ذریعے شیعہ ازم کو بحیثیت سرکاری مذہب کے پھیلانا شروع کیا اور اسکے لیے ایران سے باہر شیعہ علاقوں ( غالباً شام و عراق) سے کثیر تعداد میں علماء بلاکر ایرانی لوگوں کی شیعیت کی بنیاد پر ری ایجوکیشن کے لیے کام کیا اور کئی ہزار سنی علماء کو تہہ تیغ بھی کیا، خود صفوی یا صوفی سلسلے سے ہوتے ہوئے بھی ایران کے اندر ” صوفی ازم ” پر قدغنیں لگائی گئیں تاکہ شیعہ مذہبی تبلیغ اورپھیلاؤ کو کسی خطرے اور چیلنج کا سامنا نہ ہو۔
مندرجہ بالا رپورٹ میں موجود حقائق جاننے کے بعد محض لوک شاعری کی بنیاد پر بلوچوں کو شیعہ کہنا علمی مبالغے کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوگی، اور یہ محض پہلوانوں کی زبانی شعری روایات پر مبنی خیالات ہیں جنہیں کم از کم تاریخی اعتبار سے کوئی بھی مستند نہیں مان سکتا۔ڈاکٹر فاروق بلوچ اپنے کتاب ” بلوچ اور ان کا وطن ” میں رقمطراز ہیں ” بنو امیہ دور میں جہاں تک بلوچوں کا کسی شورش یا حلب اور اس سے متصل کسی علاقے میں انکے کسی جنگ یا موجودگی کا تذکرہ کتب تاریخ میں نہیں ملتا، کم از کم اتنے بڑے واقعے کو تاریخ اسلام کے کسی کتاب میں ضرور تحریر ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے”۔ میر گل خان نصیر کے ہاں ان باتوں کا ذکر ضرور ملتا ہےلیکن وہ زیادہ تر شاہنامہ فردوسی سےمستعار لی ہوئی تعارف کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں، علاوہ ازیں مجھے اب بھی یاد ہے غالباً دوہزار نو اور دس کی بات ہوگی، کراچی لیاری کے علاقے ” میران ناکہ ” میں ایک عوامی جلسے میں اسٹیج پر تقریر کرتے ہوئے ایران دوستی کی پالیسی کے لیے بھانت بھانت کی منطق نکال لانے والے یارباش نے خود ایران کے متعلق ہی کہا تھا کہ ” کہ ہمارے آباؤ اجداد نے تم پر حکمرانی کی ہے ” یعنی آج اگر ہم ایرانی مقبوضہ ہیں بھی تو یہ بھی یاد رہے کہ ہم نے تم پر حکمرانی کی ہے اور ہم تم سے الگ قوم اور وطن رکھتے ہیں، اب بلوچ نے کبھی ایران پر حکمرانی کی ہے یا نہیں یہ کسی تاریخ حوالے سے ثابت نہیں، البتہ ساتھ مل کر جنگیں لڑنے اور معرکوں میں حصہ لینے کی تاریخ موجود ہے، لیکن عوامی جلسے اور عوامی جوش کو گرمانے کے واسطے یہاں تک جایا جاسکتا ہے اور اس پر جلسہ گاہ میں موجود لوگوں نے خوب تالیاں بھی پھیٹیں، شاید کسی دوست کے پاس وہ آڈیو یا ویڈیو موجود ہو، چونکہ وہ دوہزار نو یا دس تھا لہذا تب کے اور اب کے ایران پالیسی میں زمین آسمان کا فرق آیا ہے، لیکن بلوچ تو اس وقت بھی وہی تھا، اب بھی ہے اور زمانہ قبل مسیح میں بھی وہی تھا۔ اب پینترا بدل کر لوک شاعری کو بنیاد بنا کر کہنا کہ بلوچ حلب سے آئے تھے اور شیعہ اس لیے ہوئے کہ کیونکہ امام حسین یعنی حضرت علی کے بیٹے کے ساتھ لڑے اور شیعان علی بن گئے، لیکن بلوچ کا قومی اعتبار سے اس پورے خطے میں موجودگی کا ذکر زمانہ قبل مسیح سے موجود ہے، اور اسکے بعد شاہنامہ فردوسی کے اشعار گوکہ بلوچ کو معاشرتی اعتبار سے جنگلی، ڈاکو اور بد تہذیب کہتے ہوں لیکن وہ اس بات کی سند دیتا ہے کہ بلوچ کوہ البرزکے دامن سکونت پزیر رہتے ہوئے شہری زندگی کے آداب و عسکری حکمت عملیوں سے آشنا تھے، گو بہتیرے بلوچ آج اس بات پر کبیدہ خاطر ہوتے ہیں کہ البرز بلوچوں کا تاریخی مسکن کبھی نہیں رہا ہے، لیکن ایرانی شیعہ خامنائی رجیم ماضی کی طرح آج بھی مختلف طریقوں سے بلوچ آبادیوں میں پیسہ، مراعات، عہدہ، نام و نمود اور سرکاری سرپرستی وغیرہ کے ذریعے بلوچوں کو شیعہ بنانے کی فعال و سرگرم کوششوں میں لگی ہوئی ہے، مذہب قومی زندگی کا ایک حصہ ہوتے ہوئے اپنی اثرات ضرور دکھائی گی اور ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر مذہبی بنیادوں پر پنپنے والی ایران مخالف مزاحمت ایک منطقی صورتحال ہے، لیکن ہم بحیثیت سیاسی کارکن اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مذہب قومیت سے بالاتر نہیں ہے اور اسی ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں سیاسی بیداری کی کوششوں کے ذریعے ان تمام قوتوں کو قومی سوچ و حکمت عملیوں کی بنیاد پر قومی سوچ کے ساتھ ایران کے خلاف صف آراء کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ ایرانی خامنائی و خمینی کو خوش کرنے کے لیئے انہیں ” بلوچ جہادی ” جیسے ٹیگ لگا کر بلوچ راجی اجتماعیت سے مزید دور نہ کیا جائے۔
اپنی ہی ذاتی و گروہی مفادات کی بچاؤ کے خاطر متحدہ بلوچ سرزمین، بلوچ قومی سوال اور بلوچ متحدہ قومی مفادات پر مبنی فیصلہ سازی کی کلی اختیارکی حصول کے واسطے ہونے والی جد و جہد کی تاریخی پس منظر کو الجھانے اور اس الجھاؤ میں سے اپنے کرتوتوں کی دفاع کی خاطر روز ایک نئے حربے کی استعمال کچھ اور کرے نہ کرے ہماری پوری قومی مقصد کو بہت بھاری نقصان پہچائے گا، یعنی ایسے نقصان کی ازالے کے لیئے بلوچ قوم کی کئی آنے والی نسلوں کو صدیوں تک جد و جہد کرنی پڑی گی۔