چهارشنبه, اکتوبر 2, 2024
Homeآرٹیکلزذرا ماضی کو کنگھالتے ہیں (تحریر سلام سنجر)

ذرا ماضی کو کنگھالتے ہیں (تحریر سلام سنجر)

*مکران جو کہ بلوچستان کا قدیم نام تھا پورے خطے کو صرف مکران کہا جاتا تھا* لگ بھگ آج سے تقریباً 2500 سال پہلے مکران میں قدیم پرشیا کے بادشاہ کوروش اعظم کو مکران میں ایک عظیم شکست کا سامنا کرنا پڑا جب کوروش نے مکران پر چڑھائی کی تو اس کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ اس بے آب و گیابان ریاست کے لوگ سخت مزاحمت کرینگے کہ اس وقت کے سپر پاور کو بھی شکست دیں گے ـ
والٹر ہنٹز اس عظیم جنگ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ تقریباً کوروش اعظم کی ساری فوج مکران میں ہلاک ہوگئی تھی لیکن دیگر تاریخ دان لکھتے ہیں کہ کوروش اعظم ( Cyrus the Great) اپنے دیگر 3 سپاہیوں کے ساتھ بچ کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا ـ
دوسری جانب سکندر اعظم کے بارے میں مختلف تاریخ دان رقم طراز ہیں کہ جب سکندر اعظم نے ہندوستان سے واپسی کے بعد مکران کا رخ کیا تھا اسے مکران کے ریتیلے میدانوں اور مضبوط چٹانوں میں رہنے والے اور بنجر زمین کے باشندوں سے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اس کی تقریباً آدھی فوج بھوک پیاس اور مختلف بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہو چکی تھی سکندر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ بمشکل مغربی مقبوضہ بلوچستان کے شہر پہرج یا پنوج میں پہنچا تھا جہاں انہوں نے اپنی زندہ بچ جانے کا جشن منایا تھا اور ایک “روشنک “نامی بلوچ لڑکی سے شادی کی تھی کہ میری نسل سے اس جیسے بہادر انسان پیدا ہو سکے ـ

غیروں کے ساتھ مکران میں ایک اور لڑائی کا ذکر لازمی ہے ازبک نسل سے تعلق رکھنے والے شجا الدین تیمور گورکانی جو کہ بعد میں تاریخ کے اندر تیمور لنگ کے نام سے مشہور ہوا نے جب مختلف ریاستوں کے فتوحات کے بعد مکران کا رخ کیا تو اسے بھی مکران میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا مکران کے بلوچوں نے اسے بری طرح سے شکست دے کر مادر وطن سے نکال باہر پھینک دیا اب معلوم نہیں کہ شاہ مراد، دوستین یا دودا کی تیر نے اسے لنگ کیا تھا یا کسی اور بلوچ سورما کی تیر کمان سے نکلی تیر نے اس کے ٹانگ کو زخمی کر دیا تھا ـ دنیا اسے تیمور لنگ کے نام سے جانتی ہے لیکن کس اور نے کہاں اس فاتح بادشاہ کو لنگ کیا یہ بات تاریخی کتابوں میں نہیں ملتا ہے اگر ملتا ہے تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے ـ
ـ
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ابن الوقت عظیم اور طاقتور بادشاہ چنگیز خان کو بھی مکران میں شکست کا سامنے کرنا پڑا تھا اور اسے مکران کے سورماؤں نے قتل کیا تھا ـ لیکن تاریخ میں یہ بات آپ کو کئی نہیں ملتا ہے اس بارے بلوچ تاریخ دانوں کو مزید تحقیقات کی ضرورت ہیں۔
مکران کے غیرتمند اور بہادر بلوچوں نے مادر وطن کی دفاع کے لیئے وقت کے سپر پاور بادشاہوں سے جتنی جنگیں بھی لڑی ہیں یہ آپ کو تاریخی کتابوں میں کم ملتا ہے کیونکہ بلوچ وہ قوم ہے جو آج تک کسی بھی طاقت کے سامنے جھکنے کے بجائے سینہ تھان کر کھڑا رہا ہے ـ
اسی لیئے دیگر اقوام نے بلوچ کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا ہے اور جب انہی حملہ آور اقوام نے بلوچ کے بارے میں نہ چاہتے ہوئے لکھا ہے تو تعصب اور بغض کی عینک پہن کر وہ جھوٹ لکھا ہے جو کہ انھوں نے تاریخ کو مسخ کرکے حقائق سے کوسوں دور ہے ـ
لیکن آج ایک غیر مہذب اور مکار قوم پنجابی اور ترک نسل سے تعلق رکھنے والے ایران میں مہاجر قوم قاجار( گجر) نے بلوچوں کی ایسی درگت بنائی ہے کہ بلوچ بھول گئے ہیں کہ وہ باشاہوں کے بادشاہ میردات کی نسل ہیں وہ بھول گئے ہیں کہ ھمل نے کس طرح ساحل بلوچستان کی دفاع اپنے لہو سے کیا تھا ، وہ بھول گئے ہیں کہ وہ بانڑی بلوچ اور گل بی بی کی اولاد ہیں ـ
آج اگر بلوچ دشمن کے سامنے سر خم تسلیم کرکے ہتھیار پھینک رہا ہے تو اسی پنجابی نے اس کا وہ خمیر جسم سے نکال دیا ہے جسے غیرتمندی کہتے ہیں ـ
لیکن ایسے حقائق کو اگر موجودہ دور کے بلوچ نوجوانوں کے سامنے بیان کیا جائے تو پہلے ہنستے ہیں ان تاریخی حقائق کا مزاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں بلوچ نے کبھی تاریخ میں وقت کے سپر پاورز سے بھی ٹکر لی ہے ؟ یہ تو ناممکن ہے بلکہ جھوٹ ہے وہ اس لیئے اسے جھوٹ قرار دیتا ہے کہ انہیں چی گویرا کے بارے میں پڑھایا گیا ہے لیکن بالاچ کے بارے میں نہیں پڑھایا گیا کہ بالاچ کس طرح کا ایک گوریلا جنگجو تھا، بھلے ہی اس کی لڑائی اپنوں کے ساتھ تھی لیکن وہ جنگ میار جلی اور کوڈ آف کنڈکٹس کی بنیاد پر تھی ـ
وہ کیا جانتا ہے کہ چاکر رند اور گوھرام لاشاری نے کیوں تیس سال تک آپس میں کشت و خون کا میدان برپا کر رکھا تھا اس بیچارے کو یہی پڑھایا گیا تھا کہ چاکر اور گوھرام دو برادرکش کردار تھے ـ
تاریخ اٹھا کر دیکھے بلوچوں کے درمیان جتنی بھی لڑائیاں ہوئی ہیں وہ تمام مال و ملکیت یا کسی اعلی عہدہ پانے کے لیئے نہیں تھیں تمام کا نتیجہ میارجلی تھی ـ
اب آپ نے جتنی بھی چی گویرا، ہوچی منہ،فیڈل کاسترو یا ماؤزے تنگ کے بارے میں پڑھا ہے تو سہی لیکن اپنے بارے میں ذرا ہمت کرکے مطالعہ کیجیئے تاکہ آپ خود کو جان کر اپنے مایوسی پر قابو پا سکیں اور غلامی کی تاریکی میں آزادی کی ایک روشن چراغ جلا سکیں ـ یہ اس لیئے لکھنا پڑا کہ ماضی کے مرہم کو لے کر اپنے حال کے زخموں پر رکھ دیں ـ

یہ بھی پڑھیں

فیچرز