واشنگٹن ( ہمگام نیوز) امریکہ نے کہا ہے کہ اسرائیل نے ابھی تک ویزے اسے استثنیٰ (Visa Waiver Program) میں شامل ہونے کے لیے درکار تقاضوں کو پورا نہیں کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیدار نے یہ بات فلسطینی نژاد امریکیوں کو اسرائیل یا اسرائیل سے گزر کر آزادانہ سفر کرنے کی اجازت دینے کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے کی۔
ویزا ویویئر پروگرام اپنے رکن ملکوں کے شہریوں کو ویزے کے لیے درخواست دیے بغیر 90 دنوں کے لیے کاروبار یا سیاحت کے لیے امریکہ جانے کی اجازت دیتا ہے۔ غیر تارکین وطن کے لیے ویزا سے انکار کی شرح تین فیصد سے کم ہونا ان اقدامات میں سے ایک ہے جو اسرائیل کو پروگرام میں شامل ہونے کے لیے کرنا پڑا۔
سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نے العربیہ کو بتایا کہ اسرائیل کے پاس اب مالی سال 2022 کے لیے وزیٹر ویزا سے انکار کی شرح تین فیصد سے کم ہے۔ انہوں نے کہا ابھی مزید کام کی ضرورت ہے اور اسرائیل وی ڈبلیو پی کی اہلیت کے تمام تقاضوں کو پورا نہیں کر رہا۔
امریکی حکومت ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے تمام امریکی شہریوں جن میں فلسطینی ۔ امریکی بھی شامل ہوں کو اسرائیل یا اس کے ذریعے سفر کرنے کے لیے اجازت دینا بھی ضروریات میں شامل ہے۔ محکمہ خارجہ کے عہدیدار نے کہا ہے کہ اس پروگرام میں فلسطینی نژاد امریکی بھی شامل ہیں۔
اس سال کے اوائل میں اسرائیل میں امریکی سفارت خانے نے کہا تھا کہ وی ڈبلیو پی میں داخلہ ایک پیچیدہ اور محنت طلب عمل ہے۔ مخصوص ڈیٹا شیئرنگ اور ٹریولر سکریننگ کو بھی تیار کرنا اور لاگو اور ٹیسٹ کیا جانا چاہیے۔
امریکی سفارت خانے نے کہا کہ اسرائیل کے لیے ضروری کارروائیاں مکمل کرنے اور قانون سازی کا راستہ ستمبر میں بند ہو جائے گا۔ امریکی حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل کی VWP میں شمولیت سے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو فائدہ پہنچے گا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نے العربیہ کو بتایا کہ یہ پروگرام جائز باہمی سفر کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے، تجارت میں اضافہ کرتا ہے اور ہمارے عوام سے عوام کے تعلقات کو مضبوط کرتا ہے۔
16 سینیٹرز کے ایک گروپ نے اس ہفتے سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن اور سیکریٹری ہوم لینڈ سکیورٹی الیجینڈرو میئرکاس کو ایک خط لکھا جس میں بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ Visa Waiver پروگرام کے اندر امریکی شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک کو برقرار رکھا جائے گا۔
سینیٹرز نے اپنے خط میں جن خدشات کا اظہار کیا ان میں سے کچھ اسرائیلی پالیسی سے متعلق تھے۔ اسرائیلی پالیسی میں فلسطینی شناخت کے ساتھ امریکیوں کی نقل و حرکت پر پابندی تھی۔ انہیں اسرائیل میں داخل ہونے یا چھوڑنے کے اجازت نامے کے لیے درخواست دینے کا کہا گیا تھا۔ بن گوریان ایئرپورٹ پر جانے کے لیے بھی اجازت نامہ کا کہا جا رہا تھا۔