_فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او)کومئی 1964اردن میں تشکیل دیاگیا پی ایل او کئی مختلف عرب تنظیموں پر مشتمل ایک گروپ تھا انہیں ایک چھتری اورایک ہی بینر تلے جمع کیا گیا پی ایل او کے اس اکٹھ کا اصل مقصد یہ تھا انکا اپنا نقطہ نگا ہ واگزار ) کہ وہ ان تمام زمینوں کو اسرائیل سے واپس حاصل کریں جنہیں اقوام متحدہ نے دیا تھا، مشرق وسطہ کی موجودہ تاریخ پی ایل او کی اثرات سے مبرا نہیں ابتدا ء میں پی ایل او تشدد سے دور تھا مگر 1967سے آگے اس میں شامل الفتح تنظیم جسکی معنی آزادی ہے ، اس پہ غالب آ گئی اوراس کا تعلق سورین بازو تھا اور اس کا سربراہی یاسرعرفات کررہے تھے،کہتے ہیں کہ 1967 اور 1973 میں جب اسرائیل فوجی فتحات کی زعم میں مبتلا ہونے کی وجہ سے فلسطینیوں کے زمینوں ( سنائی اور جولان کے پہاڑی چھوٹیوں) کو واپس کرنے سے انکاری رہا تو اس تنظیم نے اپنی جہد میں انتہا پسندی کو ترجیح دی،بلکہ پی ایل او میں مزید اس سے بھی زیادہ انتہا پسند یونٹس ابھر کر سامنے آنے لگے۔ غالباً جن دو تنظیموں کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا جاتا تھا وہ Black September سیاہ ستمبر اور Palestinian Front for the Liberation of Palestine تھے۔ ان دونوں گروپوں کا یہی خیال تھا کہ صرف تشدد کا راستہ ہی اسرائیل کو مجبور کرسکتا ہے کہ وہ عربوں کے زمینوں کو واپس کردے،ان کے اس متشددانہ کاروائیوں میں بم دھماکے، قتل اور ہائی جیکنگ جیسے انتہا پسندانہ طریقہ کار شامل تھیں۔ ان متشددانہ کاروائیوں میں سب سے بدنام ز مانہ دہشتگردی کا وہ واقعہ تھا جو ان تنظیموں نے انجام دی وہ 1972 میں مونیخ میں منعقدہ المپک کھیلوں میں شمولیت کرنے والے اسرائیلی اسکواڈ میں شامل کھلاڑیوں پر حملہ تھا جسے سیاہ ستمبر کے ممبروں نے انجام دی۔ اس حملے میں اسرائیل کے دو پہلوانوں کو فسلطینیوں نے عین موقع پر ہی قتل کردیا اور باقی نو کھلاڑیوں کو یرغمال بنا ڈالا،جرمن پولیس نے ان کھلاڑیوں کو اغواء کاروں کے چنگل سے بچھانے کی کوشش کی مگر ناکام ہو ئے ا ور اسرائیل کے یہ نو کھلاڑی بھی مارے گئے۔ اس کاروائی میں پانچ فلسطینی تشدد پسندوں کے علاوہ دو جرمن پولیس والے بھی اپنی جان کھو بیٹھے۔ باقی بچے آزادی پسند فلسطینی پکڑے گئے اور جیل میں ڈالے گئے۔ مگر بمشکل چھ ہفتے ہی گزرے تھے کہ پکڑے گئے یہ تما م فلسطینی تشدد پسند واپس لیبیا پہنچ گئے۔ ہوا یوں کہ اسی سیاہ ستمبر کے ممبروں نے جرمنی کے ایک ہوائی جہازکوہائی جیک کیا اور یہ مطالبہ کیاکہ اگر ان کے ساتھیوں کو جرمن حکومت نے آزاد نہ کیا تو وہ طیارے میں سوار تمام مسافروں کر قتل کرڈالیں گے۔ فلسطینی اور عرب اقوام کے نظروں یہ لوگ ہیرو بن کر گھر لوٹے کیونکہ وہ فلسطین کی آزادی کیلئے اپنی زندگیاں نچاور کرنے کیلئے تیار تھے مگر دنیا میں بہت سے لوگوں کے نظروں میں یہ لوگ سنگ دل انسان تھے جنھیں انسانوں کو قتل کرنے میں کوئی رحم نہیں آئی،یہی وہ اپروچ تھا جس نے اسرائیل میں خود کش حملوں کی بنیاد ڈالی یعنی بیسویں صدی کی آخری سالوں میں اور اکیسویں صدی کی شروعاتی عرصوں میں! عرب دنیا میں اردن کی بادشاہ شاہ حسین نے اپنی اثرو رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے کوشش کی کہ پی ایل میں موجود تشدد پسند ممبروں میں اعتدال پسندی کو رواج دے ، مگر اس کے الٹے نتائج نکلے اور اس کی وجہ سے خود مملکت اردن 1970میں خانہ جنگی کا شکار ہوا،اور اس کی وجہ سے پی ایل او کے گوریلایونٹس سوریا اور لبنان میں منتقل ہوئیں،یہاں انہیں ایسا لگا کہ یہاں کی آبادی انہیں زیاد ہ امداد دیگی،اورلبنان میں بہت سے لوگ یہی سمجھے کہ وہ آزادی پسند ہیں جولان کی پہاڑی چھوٹیوں کو بہت جلد اسرائیل کی قبضہ سے آزاد کرادیں گے،اور سوریا میں ان کو کھلی چھوٹ تھی۔ 1974میں تمام عرب ممالک کے نمائندوں نے رباط میں یہ اعلان کیا کہ پی ایل او ساری فلسطینی قوم کی نمائندگی کا تمام ذمہ واری قومی اور بین الاقوامی سطح پر لے گا ۔22مارچ 1976 کو پی ایل او کے نمائندوں کو اقوام متحدہ میں داخلہ دیا گیا تاکہ وہ اسرائیل کے زیر تسلط اردن کی مغربی پٹی کے بارے تمام شرائط پر بحث کرسکے۔ ایسی مٹینگوں کی بدولت پی ایل او کو وہ مقام ملا جو وہ ہمیشہ چاہتے تھے کہ ان کو ملے۔ مگر پی ایل او میں ایسے لوگ بھی تھے جنہیں یہ اعتراض تھا کہ یاسرعرفات اس کردار سے دور چلا جارہا ہے جس کردار سے اسرائیل کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے زمینوں کو واپس کردے۔ یعنی منوانے کیلئے طاقت کو استعمال کرنے کی حربہ!درحقیقت ، یاسر عرفات چاہتا تھا کہ بیک وقت دونوں حربوں یعنی تشدد اورسیاسی محاذ کو بروکارلائے مگر پی ایل او میں موجود سخت گیر عناصر کو یہ خیال قبول نہ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1978 میں پی ایل او اندرونی خلفشار کا شکار ہوا ۔ اس سے گوکہ یاسرعرفات کو پی ایل او کی نمائندہ رہنما کی قبولیت ملی مگر ایک چھوٹا گروہ جو بہت موثر کردار کا مالک تھا ، اورکنٹرول سے باہر نکلی۔