بی ایل اے مجید برگیڈ کا دوسرا جان ندریگ اور دشمن تو پریشان ہے ہی لیکن افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ آزادی کے لبادے میں کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں میں بھی کافی بے چینی پائی جارہی ہے ۔ دشمن اس لئے پریشان ہے کہ انہں اپنے ریاستی مشنری کو استعمال کرتے ہوئے اس حملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے سرکاری وسائل اور انٹیلی جنس اس میں متحرک کرنا پڑرہی ہے پہلے کے فدائی حملوں میں دشمن کو کسی بھی کسی کی معاشی خرچہ اور فوجی و انٹیلی جنس کو حرکت میں لائے بغیر سب معلومات ایک بیان کے ذریعے دستیاب ہوتا تھا لیکن بی ایل اے آزاد نے اپنی جنگی داوپیچ سے دشمن کی دوڑیں لگادی ہیں۔ دشمن کی سرگرانی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اپنوں کی بھیس میں دشمن کا کام آسان کرنے والے کیوں پریشان اور بے چینی میں مبتلا ہیں ، ان کے صفحوں میں کھلبی کیوں مچی ہوئی ہے۔
ہونا تو یہ چاہے کہ وہ بلوچیت کا راگ الاپنے والوں کو اپنی بلوچ قومی تنظیم کی جنگی حکمت عملی کو سراہنا چاہے تھے اور ان سے کچھ سیکھنے کی گنجائش ہوتی لیکن عقل سے پیدل ان لوگوں کو بی ایل اے کی جنگی حکمت عملی، صبر تحمل اور گوریلا ڈاکٹرائن دشمن سے زیادہ چڑ ہے اس لئے وہ حسب روایت اپنی خصلت کی جھلک دکھانے کے لئے میدان میں اترتے ہیں۔
تین مارچ کو قلات میں پاکستانی قابض فوج کے ایک کافلے پر حملہ ہوا ، حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان آزاد بلوچ نےقبول کرلی ہے ۔ بی ایل اے ترجمان کے مطابق اس حملے کو ان کی تنطیم مجید برگیڈ کے ایک جانباز نے سرانجام دیا ہے ، حملے کا ٹارگٹ ایف سی کا ونگ کمانڈر، حملہ آور نے ہدف کو نشانہ بنایا گیا۔
بی ایل اے سے برخاست کئے گئے کچھ لوگوں نے فلمی انداز سے فوٹو سیشن اور غیر ضروری ویڈیوز ریکارڈنگ سے بلوچ نوجوانوں میں سنسنی خیز مواد دیکھنے اور پڑھنے کا عادی بنا دیا ہے، لیکن بی ایل اے آزاد نے اس تحریک کی شروعات ہی گمنامی، اور زیر زمین راہ کر کی ہے بی ایل اے آزاد کے ترجمان کا نہ تو چہرہ ہے، نہ بی ایل اے کی جنگی ڈھانچے کو ابھی تک تنظیم نے کھل کر بلوچ عوام کے سامنے رکھا ہے کیونکہ بی ایل اے اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ ان کی بلوچ قومی فوج کا پاکستان جیسے مکار، تمام تر عالمی و جنگی قوانین سے نابلند ایک ناپاک دشمن جسے اب چین جیسی سامراجی طاقت کا بھی مکمل حمایت حاصل ہے کے خلاف بلوچ قومی آزادی کی جنگ لڑرہی ہے اور یہ جنگ کسی شوبدہ بازی، ہلڑبازی اور بے وجہ نمائشی رویوں کے متحمل نہیں ہوسکتا اسی لئے بی ایل اے سخت جنگی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے ، کسی قسم کی شوبازی سے زیادہ زیر زمین راہ کر کام کرنے کو اولین ترجیح دیتی ہے۔
قلات حملے کو منتازعہ بنانے کی ناکام کوشش
بی ایل اے قلات حملے کے فوری بعد کچھ نامعلوم سوشل میڈیا اکاونٹ سے ایک بلوچ بہن کی تصویر شائع کی گئی ہے اسے بی ایل اے کی تنظیمی بیان کے آنے سے قبل شائع کرنا بلوچ زندگیوں کو جان بوجھ کر نقصانات سے دوچار کرانے کی دانستہ کوشش ہے۔ بی ایل اے نے ایک بعد آفیشل بیان کے ذریعے گجاتون کے تصاویر شائع کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کا اعلان کیا ہے تاکہ تنظیم کے خلاف سازش کرنے والوں کو بلوچ قوم کے سامنے بے نقاب کیا جاسکے۔ یاد رہے گنجاتون کے نام سے ایک فیک آئی ڈی بھی بنائی گئی تھی تاکہ ان کی کردار کو متنازعیہ بنایا جاسکے ۔ اس فیک آئی ڈی کے بارے میں تحقیق سے پتہ چلا ہے وہ پہلے کسی اور نام سے سرگرم تھی لیکن قلات جان ندریگ کے بعد اسے گنجاتون میں تبدیل کیا گیا۔ اس پوسٹ میں پہلے سے کچھ پوسٹ فدائی حملوں کے حق میں لکھے گئے تھے۔ اس شیطانی سازش کی کڑیاں برخاست کئے گئے ایک ٹولے سے ملتے ہیں جو یہ بھی کہتے ہیں اس بہن کو ورغلایا گیا تھا۔ قلات جان ندریگ حملے کو بلوچ بہن گنجاتون سے جوڑنا، تنظیم کے بیان سے قبل ان تصاویر کو شائع کرنا، اور پھر ان کو بی ایل سے برخاست کئے گئے ٹولے سے منسلک کرنے جیسی سازشوں کے بے نقاب ہونے سے پتہ چلتا ہے یہ کسی دشمن کا کام نہیں بلکہ بلوچ کے لبادے میں چھپے کچھ عقل سے عاری اوباش لوگوں کا کام ہے جنہیں بی ایل اے آزاد کی سنجدہ جہد اور پے درپے جنگی کامیابیوں اور پیشدقدمیوں سے اوصان خطا ہوگئے ہیں۔ انہوں نے چھ سال تک بی ایل اے آزاد کے بیان جس بھونڈے انداز میں ہرزہ سرائی کی تھی کہ وہ جنگ سے اکتا چکے ہیں، وہ ریاست پاکستان سے کمپرومائز کرچکے ہیں، انہوں نے گھر گھر جاکر بلوچ نوجوانوں کے زہنوں میں بلوچ لیڈر سنگت حیربیار کے خلاف بھی پروپگنڈہ کرنے کی کوشش کی کہ سنگت اب جنگ سے دستبردا رہوگئے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن اب چونکہ بی ایل اے آزاد کے کارواں میں بلوچ سنجیدہ نوجوان اور ہر عمر کے لوگ بلوچستان بھر سے جڑ گئے ہیں اور وہ حقیقت کو جان گئے ہیں یہی کامیابی ریاست پاکستان اور بی ایل اے کو کمزور کرنے والے گروہی مفادات کے پجاریون کو کھائے جارہی ہے۔
قلات حملے میں بی ایل اے نے جان ندریگ کے نام، کوائف اور تفاصیل کیوں شائع نہیں کئے ہیں یہ ایک تنظیمی معاملہ ہے اور ان کو تنظیم کے اوپر چھوڑ دینا چاہیے وہ جب مناسب سمجھیں میڈیا کو آگاہ کردیں گے اور بلوچ جان ندریگ کو مکمل قومی اعزاز اور رتبے کے ساتھ یاد کیا جائے گا لیکن کیا کریں کچھ لوگوں کو صبر نہیں آتا اور وہ ہر چیز کو سطحی انداز میں دیکھنا اور جاننا چاہتے ہیں ان کے لئے عرض ہے کہ ذرہ تحمل سے کام لیں ، بی ایل اے جو کررہی ہے وہ بلوچ قومی تحریک کی بھلائی، کامیابی، رازداری ، اور کسی ٹھوس وجہ اور مقصد کے حصول کی خاطر کررہی ہے لہذا جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتی ہے پوری بلوچ قوم کو اپنے ذمہ دار تنظیم پر اعتماد ہے اور بی ایل اے ہر کھڑا امحتان میں ہر وقت پورا اتری ہے۔ آنے والے وقتوں میں اس جنگ کی تپش دشمن کو اور بھی پریشان کرنے والی ہے۔
آج بروز اتوار گنجاتون بلوچ کے رشتے داروں نے ذرائع ابلاغ کو ارسال کئے گئے اپنے بیان میں کہاہے کہ انسانی و مذہبی ہمدردی کی بنیاد پر متوفی کی باقیات کو لواحقین کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ مذہبی متعین شدہ طریقے سے انکی آخری رسومات کو ادا کرپائیں۔ رشتے داروں نے سیاسی و انسانی حقوق کے تحفظ کے لئیے آواز بلند کرنے تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ گنجاتوں کی باقیات کو حاصل کرنے اور انکی باقاعدہ آخری رسومات کی جلد سے جلد ادائیگی کے لئیے انکی کوششوں کا ساتھ دیں۔
آخری اطلاعات تک گنجاتون کی جسد خاکی پاکستانی اداروں کے تحویل میں ہیں۔ لواحقین نے مزید کہا ہے کہ اور ہم مکران سے سفر کرکے سول ہسپتال کوئٹہ پہنچے ہیں مگر سرکاری منصب دارانہیں گنجاتون کی لاش حوالے نہ کرکے اجتماعی سزا دے رہے ہیں۔
اسی اثنا میں کچھ نامعلوم اکاونٹس سے وہی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا جہاں کچھ ریاستی اداروں کے کام کو آسان کرنے والے مہروں نے گنجاتون کے فیملی سے منسوب فایک خبر چلائی یہ وہی لوگ ہیں جو تین مارچ کو قلات میں جان ندریگ کو متازعہ بنانے کی بھونڈی حرکات کا مرتکب ہوئے تھے۔ ایسے لوگوں کو بے نقاب کرنا اور حقائق بلوچ قوم کے سامنا رکھنا ہر بلوچ سنجیدہ و زمیدار فرزند کا قومی فریضہ ہے تاکہ بلوچ تحریک کے اندر غیر بد اعتمادی، انتشاراور فسادی سوش رکھنے والوں کا قلع قمع کیا جاسکے اور ریاستی بیانیہ کی ترویج کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جاسکے۔