ھمگام آرٹیکل
تحریر ــــ حمیرا رند بلوچ
جن لیڈروں اور سیاسی و مسلح تنظیموں نے چند پیسوں کے عوض بلوچستان اور بلوچ قوم کا ایران کے ساتھ سودا کرکے اطمینان کے ساتھ ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں آرام دہ محلوں میں رہ کر زندگی کے لطف اٹھا رہے ہیں ان کے کارکنان ہر وقت ایک بات کو بار بار دہرا کر انکے کالے کرتوتوں کی چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ـ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ کیوں بلوچ شہدا کے خون کا سودا کرکے دشمن ایران کی گودھ میں بیٹھ گئے ہیں ان کا اور ان کے چمچوں کا کہنا ہے کہ ہم بیک وقت دو ملکوں سے لڑ نہیں سکتے۔ چلو ایک لمحہ کے لیے مان لیتے ہیں کہ آپ اتنے کمزور ہیں کہ ایک وقت میں قابض ایران اور پاکستان سے لڑ نہیں سکتے تو ایران آئے روز بلوچوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں آپ کیوں خاموش ہیں؟ اگر ایران سے جنگ نہیں کر سکتے مادر وطن کو آزاد نہیں کر سکتے کم سے کم ایران کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی پر افسوس کا اظہار تو کریں ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں تو ان کا یہی بہانا سامنے آتا ہے کہ ” فری بلوچستان موومنٹ اور حیربیار مری اپنے ساتھیوں سمیت ایران مظالم کے خلاف کھل کر ہر فورم پر بولتے ہیں تو وہ افغانی بلوچستان کے حق میں کیوں نہیں بولتے ہیں وہ بھی تو ایک مقبوضہ علاقہ ہے ” یہ ان کا راہ فرار ہے یا کہیں کہ وہ زمینی حقائق سے منہ موڑ کر بس یہی دلیل دیتے ہیں ـ
اب آتے ایرانی زیر قبضہ بلوچستان اور افغانی بلوچستان کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں کہ افغانستان میں اور ایران میں بلوچ قوم کی صورتحال کیا ہے؟ پہلی بات یہ کہ افغانستان بھی بلوچوں کی طرح برطانوی سامراج کی کینچھی گئی لکیروں کو نہیں مانتا وہ بھی ڈیورنڈ لائن کے اس پار پشتونوں کو اپنے وطن کی عوام تصور کرتا ہے جس طرح حیربیار مری جعلی سرحد گولڈ اسمتھ لائن کو نہیں مانتا اس کا ذکر چارٹر میں موجود ہے ـ دوسری اور ناقابل تردید بات یہ ہے کہ صرف گزشتہ سال 2020 میں قابض ایران نے مغربی مقبوضہ بلوچستان میں 37 بلوچوں کو پھانسی دے کر دنیا کے تمام قوانین کی دھجیاں اڑا کے رکھ دی جبکہ جاوید دھقان کے پھانسی کو روکنے کے لیئے ایمنسٹی انٹرنیشنل Amnesty International اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں نے بھی اپیل کیا تھا لیکن سفاک ایران نے دنیا کی باتوں کو خاطر نہیں لاتے ہوئے جاوید دھقان کو تختہ دار پر لٹکا دیا ـ گزشتہ سال 2020 میں قابض ایرانی سفاک آرمی سپاہ پاسدران انقلابی گارڈ، پولیس، مرصاد( وہ اداراہ جسے پاکستان میں ایف سی کے نام سے جانا جاتا ہے) اور خفیہ ایجنسی کے براہ راست فائرنگ سے تقریباً 70 بلوچ شہید ہوچکے ہیں اور 129 کے قریب زخمی ہوچکے ہیں ان زخمیوں میں ایسے مظلوم بلوچ بھی شامل ہیں جو کہ اب وہ ہمیشہ کے لیئے مفلوج ہوگئے ہیں ـ اسی طرح گزشتہ سال 2020 میں ایرانی مقبوضہ بلوچستان قابض ایرانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں اب تک 117 بلوچوں کو جبراً اغوا کیا گیا ہے اب ان مغویوں کو ایران مختلف ٹارچر سیلوں میں ڈال کر انہیں زہر دے کر شہید کرتا ہے ـ گزشتہ سال کے طوفانی سیلاب میں درجن بھر بلوچ جانبحق ہوگئے ہیں اور اس سے دو گنا بلوچ زخمی ہوگئے ہیں زراعت کو شدید نقصان پہنچنے کے علاوہ اب تک ہزاروں بلوچ اس وقت گھر بار کی تباہی کے بعد بے یارو مددگار آزمان تلے جھلستی دھوپ اور خون جمانے دینے والی سردی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور انہیں سرکار نے کوئی خاطرخواہ امداد بھی فراہم نہیں کیا ہے ـ گزشتہ سال کا کرونا قہر کی بات اپنی جگہ موجود ہے اس کے لیئے تفصیلاً اگلے تحریر میں لکھیں گے ـ گزشتہ سال 2020 میں قابض ایرانی نیوی کی بلوچ ماہیگیروں پر براہ راست فائرنگ سے کم سے کم 22 بلوچ ماہیگیر شہید ہوچکے ہیں اور 30 کے قریب زخمی ہوچکے ہیں جبکہ بحر بلوچستان میں غریب بلوچوں کی ماہیگیری پر غیر اعلانیہ طور پر پابندی عائد ہے ـ اب ہم آتے ہیں افغانستان کے زیر قبضہ بلوچستان کے بلوچوں کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اس بات کو ساری دنیا جانتی ہے کہ افغانستان ایک جنگ زدہ ملک ہے افغانستان میں ہر روز موت رقصاں ہے پاکستانی آئی ایس آئی اور فوج طالبان کے ذریعے ہر ہفتے یا ہر ماہ خود کش حملے کرواتا ہے ہزاروں افغانی عوام ان حملوں کی زد میں آ کر مارے جا چکے ہیں لاکھوں افائج ہوچکے ہیں ایک طرف امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان میں لاکھوں ٹن بارود برسا رہے ہیں دوسری طرف طالبان جیسے مذہبی دہشتگروں کا قہر برقرار ہے لیکن آج تک کسی بھی افغانی حکومت نے روزی روٹی کی تلاش میں نکلا ہوا کسی بھی بلوچ کو براہ راست فائرنگ کا نشانہ بنا کر قتل نہیں کیا کسی بھی بلوچ کو افغانستان نے تختہ دار پر لٹکایا نہیں کسی بھی بلوچ کو بلاوجہ افغانستان کے خفیہ ایجنسی نے جبراً اغوا نہیں کیا اور آج تک افغانی آرمی نے کسی بلوچ کے گھر میں گھس کر بلوچ چادر و چار دیواری کی پامالی نہیں کی لیکن ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ نسل کشی زر و شور سے ایرانی آرمی کے ہاتھوں جاری ہے اسی لیئے حیربیار مری اور ان کے ساتھی ایران کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں جبکہ افغانستان میں ایسا کوئی بلوچ نسل کشی نہیں ہو رہی ہے جبکہ افغانستان بھی جانتا ہے کہ جب بلوچستان آزاد ہوگا تو بلوچ قوم اپنے تقسیم کیئے گئے علاقوں کا مطالبہ کرے گا اور بلوچستان میں شامل کیئے گئے افغانستان کے علاقوں کو بھی واپس کیا جائے گا اس کا باقائدہ بلوچوں اور افغانستان کے درمیان میں کوئی دستاویزی معائدہ تو نہیں ہوا لیکن بلوچ اور افغان دو تاریخی برادر قوم ہیں ان کے لیڈران آنے والے دنوں میں ضرور اپنے مسائل حل کریں گے ـ لیکن آپ کا یہ افغانستان کے بلوچوں والا بہانا فرسودہ ہو چکا ہے کیونکہ آپ بھی جانتے ہیں کہ افغانستان کے بلوچ اگر ایک خوشحال زندگی نہیں گزار رہے ہیں مگر انہیں افغانی حکومت ہر وقت تختہ دار پر نہیں لٹکا رہا ہے اور نہ ہی افغانی فوج اور پولیس چلتی راہ میں بلوچوں کو براہ راست فائرنگ کرکے قتل کر رہا ہے ـ
اب آپ کا یہ بہانا پھیکا پڑ چکا ہے کیونکہ گزشتہ ماہ 22 فروری کو ایرانی قابض آرمی نے سراوان میں بلوچ مزدوروں پر براہ راست فائرنگ کرکے 30 کے قریب بلوچوں کو شہید کر دیا اور 120 کے قریب زخمی ہوگئے اس درندگی کے خلاف پوری دنیا نے آواز اٹھائی حتی ایران کے کئی برادریوں نے بھی ایرانی فوج کے خلاف آواز اٹھائی مگر بی این ایم، بی ایس او آزاد سمیت ان کے ذیلی تنظمیں خاموش تھے ان کا ایک بیان بحالت مجبوری میں آیا کہ ایران کے بارڈر فورس کے فائرنگ سے مارے گئے بلوچ بے گناہ تھے۔ بھتاور یہ بارڈر فورس نہیں بلکہ قابض ایران کی آرمی سپاہ پاسداران انقلابی کے گارڈ تھے جسے امریکا نے گزشتہ سال دہشتگرد آرمی قرار دیا تھا اور یہ دنیا کے کسی ملک کا واحد آرمی ہے جسے دہشتگرد قرار دیا گیا ہوـ اور تو اور ڈاکٹر اللہ نظر کی تو ہر مسئلے پر ایک یا دو ٹویٹ ضرور آتا ہے لیکن سراوان میں ہونے والے سفاکیت پر اللہ نظر کا ٹویٹر خاموش تھا آیا وہ ایرانی سپاہ پاسداران انقلابی گارڈ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا یا انہیں بلوچوں کے خون سے کوئی سروکار نہیں؟ اس طرح کے مجرمانہ خاموشی سے واضح ہوگیا کہ انہوں نے بلوچستان کا سودا ایران سے کر لیا ہے۔ آخر کب تک؟ آج اگر حیربیار مری اور فری بلوچستان موومنٹ ایران کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں تو انکی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟ آخر کب تک آپ افغانستان کے بلوچوں کا نام لے لے کر اپنے ناکام کردار کو چھپاتے رہیں گے؟ آخر کب تک ایران کے ساتھ بلوچستان کا سودا کرتے رہیں گے؟ آج نہیں تو کل آپ کو بلوچ عوام کو حساب دینا پڑے گا ۔۔