بی این ایم کے سیشن کا بیان اورحالیہ نواب مری کی شائع کردہ ریکارڈنگ میں ایک چیز مکمل واضح ہے کہ ڈاکٹر نظر اینڈ کمپنی بی ایل ایف،بی این ایم،بی ایس او نام نہاد آزاد نے مکمل طور پر اپنا پروگرام ،نیشنلزم سے ہٹاکر کمیونزم کا پر چار کرنے لگے ہیں اور بلوچ قومی مفادات کے بجائے کمیونزم اورشوشلزم پر تکیہ کیا جارہا ہے اس سلسلے کہ تحت شروع میں خلیل بلوچ اور بی این ایم کے بیانات بھی آئے اور بی ایس او کے پالیسی ساز بیانات آ ئے کہ بلو چستان کو وہ سامراجی طاقتوں کی گروی رکھنے نہیں د یں گے اور انکا ڈٹ کر مقابلہ کرہے گے ۔ پھر سوشل میڈیا میں تواتر کے ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیو ں اور سرمایہ دار طاقتوں کے خلاف لکھنے کا مہم اور خلیل کا بیان کہ ہم سوسال تک اپنی طاقت وقوت سے لڑ یں گے اور بلوچ جنگ میں کسی بھی سرمایہ دار طاقت ،ملک سے مدد نہیں لینگے دوسری لفظوں میں اگر کوئی او ر بلوچ ایسی مدد کی اپیل کرہے گا تو وہ بھی ان کمیونسٹ سوچ رکھنے والوں کی مخالفت کا شکار ہونگے اور یہ انکے بھی خلاف ہونگے ،اور بی این ایم ، مہران مری ،بی ایل ایف اور بی ایس او ،یو بی اے صرف براہمدگ ابھی تک اس معاملے میں خود کو کلیر نہیں کرچکے ہیں باقی سارے نواب مری کے فکر کے ساتھی ہیں اور اسکی فکر کو آگے لے جانے کا ارادہ کرچکے ہیں،نواب مری کی فکر ، طریقہ کار سے حیر بیار مری اور انکے دوستوں کو مکمل اختلافات تھا ان کی زندگی میں انکے سوچ اور طریقہ کار کے خلاف کھل کر بتایااور لکھا گیا ،لیکن بی این ایم،بی ایس او، یو بی اے ،زامران سارے نواب مری کی سوچ کو ماننے والے ہیں انکی سوچ پہلے بھی لوگو ں کو پتہ تھی اب انکے اپنی شائع کردہ نواب مری کی ریکارڈنگ بھی ظاہر اور واضح ہے کہ وہ مکمل ایک سوشلسٹ اور کمیونزم کے بنیاد پر بلوچستان چاہتا تھا اور وہ کمیونزم کا حامی تھا۔ یوبی اے کے حوالے سے بھی اگر دیکھا جائے تو وہ اس مسئلے پر بھی کلیئر ہے کہ وہ ایک سوشلسٹ بلوچستان کا حامی ہے لیکن باقی لوگ تھوڑے کنفیوز ہیں اور کھل کر خیربخش مری کے فکر کو اپنانے سے بھی ڈرتے ہیں لیکن حیر بیار نے اپنے والد کے ساتھ اس مسئلے پہ قومی مفادت کے تحت بھی اصولی اختلافات رکھا او ر انکا اور انکے دوستوں کا موقف بالکل واضح ہے کہ وہ نیشنلزم کی جہد کرتے ہوئے اپنے قومی مفادات کی تحفظ کرنا چاہتے ہیں اور اسکے لیے وہ حقیقت پسندی کی بنیاد پر پالیسی بناتے ہوئے اپنی قوم کو کسی بند گلی میں لے جانے کے بجاے جدوجہد کی کامیابی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں جس میں کمیونزم و سوشلزم اس وقت ایک نظریاتی خودکشی کے مترادف ہے اور حیر بیار اپنے قوم کو اجتمائی خودکشی کی جانب د ھکیلنا نہیں چاہتا ہے۔ جبکہ بی ایل ایف ،بی این ایم ، بی ایس او و غیرہ کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ دریائے گنگہ خلیج بنگال میں گرتا ہے۔ جب بی ایل ایف یو بی اے کی طرح نظریاتی خودکشی کی جانب گامزن ہو ئے تو ٹریکٹراور ٹرالی کی طرح بی این ایم اوربی ایس او بھی ایسی اجتمائی خودکشی کی جانب مائل ہو رہے ہیں ا نکی اس خودکشی سے انکے نقصان سے زیادہ قوم کا نقصان ہو رہاہے ،پوری قوم ۸۴ ،۲۶،۸۵،۴۷،اور۸۸کی طرح قربانی د ے رہی تھی مگر یہ لوگ بلوچستان میں رہتے ہوئے تصوراتی سیاست کررہے تھے اور کمیونزم کے عروج کے دوران نواب مری نے تحریک کے لیے کسی بھی کمیونسٹ ملک سے حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور بی ایس او والے بھی اس وقت صرف قوم اور خود کو لفاظی نعروں سے دھوکہ دیتے رہے ،مفت میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف راے عامہ ہموار کرتے رہے لیکن اس وقت باقی ماندہ اقوام اپنے قومی مفادات کے لیے سوچتے رہے ٹیٹو نے اس سے قومی فائدہ لیا ،جاپان جس پر امریکہ نے ایٹمی حملہ کیا اس نے بھی سرمایہ دار ملک امریکہ سے اتحاد کر کے فائدہ لیا اور جاپان نے امریکہ کے اتحادی بن کر مدد لی اور ایشاء میں معاشی طاقت بن گیا اور ترقی کے معراج تک پہنچ گیا ، آج وہی جاپان پاکستان سمیت بیکاری ممالک کو امداد دینے والے ممالک میں سرفرست ہے ،جنوبی کوریا نے بھی ایشا ء میں سرمایہ دار کیمپ میں شمولیت کی آج ایشا ء میں تعلیم ، ہنر اور معیار زندگی کے حوالے سے باقی ممالک سے بہت آگے ہے ،سنگاپو ر بھی اسی طرح سرمایہ دار ممالک کے کیمپ میں تھا اور اس پالیسی کی وجہ سے اس نے ترقی کی ،یورپ میں جرمنی اورباقی ماندہ یورپ جنگوں کی وجہ سے تباہ تھی مگر اسی سرمایہ دار ملک امریکہ نے ماسٹر پلان کے تحت انکی مدد کی اور پھر یورپ بھی ترقی کے شاہرہ پر گامزن ہو اجن ممالک نے کمیونسٹ سوچ اپنائی انھوں نے روس سے بلوچوں کی نسبت بہتر مدد لی مگر سارے پھر بھی آج پسماندگی غربت بھوک و افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں جن میں شمالی کوریا، کیوبا، انگولا، کمبوڈیا، سومالیہ، موزمبیک وغیرہ شامل ہیں۔جن تحریکوں نے آج تک کمیونزم کا پرچار کیا ہے اس دور میں ان میں ایک بھی کامیاب نہیں ہوا ہے ، کوئی مجھے ایک بھی تحریک کا نام بتا دیں کہ سردجنگ کے بعد کسی ایک ملک نے امریکہ اور سرمایہ دار ممالک کی مخالفت کی ہو اور وہ کامیاب ہوا ایک بھی ملک کی مثال دہیں؟،لیکن جن جن تحریکو ں نے امریکہ اور مغرب کی حمایت لیا سارے کامیاب ہوئے ہیں ان میں مشرقی تیمور ،جنوبی سوڈان ،کوسووو اور ایری ٹیریا کی مثال ہیں ۔مشرقی تیمور میں بی ایل ایف اور بی ین ایم کی طرح گگن اور فضا ء میں تصوراتی محل تعمیر کرکے شیخ چلی کی طرح اپنے دل کو خود تسلی دینے والے جہدکار تھے جنکی سوچ محدود اور کنویں کے مینڈک کے مانند تھے جو صرف اور صرف کمیونزم کے پیروکا ر تھے اور جلدی نتائج حاصل کرنے کے خواہش مند تھے زمینی سچائی حقیقت پسندی دور اندیشی طویل المدتی پالیسی کے بجائے تصوراتی ،تنگ نظر اور جلدباز تھے جو اپنے سارے لوگ بچے بوڑھے عورتیں جنگلوں میں اپنے ساتھ لیے گئے اور قابض کے حملوں میں انھیں بچانا نا ممکن تھا یہ لوگ جہد کے لیے آسانی کے بجا ئے مشکلات پیداکرتے تھے Francisco Xavier do Amaral جوFRETILINپارٹی میں تھا اس نے پارٹی کی اس غلط حکمت عملی کے خلاف آواز بلند کی اور کہا کہ سارے بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو جنگل میں جنگجووں کے ساتھ رکھنا صحیح عمل نہیں ہے انھیں واپس علاقوں میں بھیجنا چاہیے تو اس سے تصوراتی اور شوشہ والے گوریلوں نے ان پر تنقید کانہ رکنے والا سلسلہ شروع کردیا جبکہ لوباٹو جو خود سازشی تھا خود کو بس تحریک کا سب کچھ کہنے والا ظاہر کیا اپنے دوستوں کے خلاف بداعتمادی پھیلاتا اور سازش کرتا تھا خود کو جہدوجہد کا چیمپئین ظاہر کرنے کی کوشش کرتا تھا لیکن بعد میں معلوم ہو ا کہ یہ سازشی تھا نیاامرل کو سرمایہ داروں کا طفیلی اور پیادہ قرار دیا گیا لیکن امرل نے ثابت کیا کہ وہ قومی جہد کو بھڑکانے کے لیے ایک چنگاری اور انگار سے کم نہیں ہے مگر وہ چاپلوس درباری اور ہاں میں ہاں ملانے والے اور fretilinمین دراڈ ڈالنے اور بداعتمادی پیدا کرنے والوں کے خلاف ڈٹا رہا اور جو چیز قومی جہد کے خلاف تھا اسکے خلاف بولنا اسکا فرض تھا اس نے جو محسوس کیا وہی کہا لیکن اسکے خلاف سازش کی گئی اسے سائڈ لائن کیا گیا لیکن frelitinکی غلط پالیسی سے لوگ ٹارگٹ کیے گئے بعد میں انکے لوگ انکی غلط حکمت عملی سے مارے گئے تو مانا گیا کہ اس وقت امرل کی بات مان لی جاتی تو اتنابڑا نقصان نہ ہوتا ،frelitinکی پالیسی مکمل طور پر جذبات کی بنیاد پر تصوراتی تھے وہ اپنے سماج کو تبدیل کرنے اور نیا سماج ڈالنے اور تمام روایات کے خلاف بھی تھے اور نیشنلزم کی کم اور کمیونزم کی زیادہ پرچار کرنے والے تھے اتنی جنگ اور قربانی کے باوجود بھی غلط راستے پر تھے ۔جب Soibadaکانفرنس ہوئی تو تمام جذباتی لوگوں کی بالادستی تھی ۔ ان کے نظریات اور پروگرام کے کچھ نکات یہ تھے : ۱۔ جنگ لوگوں کی ہے لوگ اسے خود لڑیں گے۔ ۲۔جنگ دیر تک ہوگی لیکن اپنی مدد آپ کے تحت ہوگی ۳ تعیموری کسی اور طاقت ،قوت کی مدد نہیں لینگے
اسکے بعد حقیقت پسندوں اور تصوری لوگوں کے درمیان نظریہ کے حوالے بحث اور سخت جملوں کا تبادلہ خیال ہوا ،وہاں پر قوم پرست ،سوشل ڈیموکریٹک اور مارکسٹ تھے اور نظریاتی اختلافات ابھر کر سامنے آئے کہ آزادی کی جدوجہدکے لیے قوم پرستی کی جنگ سے ہٹ کر باقی کمیونزم وغیرہ کو نظریاتی خودکشی کا نام دیا گیا ۔یہ بھی بحث ہوا کہ سیاست ہی بندوق کی رخ کا تعین کرے گا ،پھر bariqueکانفرنس ہوئی اور وہاں حقیقت پسندوں نے زور دیا کہ باہر کی مدد کے بغیر ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے ہیں اس لیے انکی مدد ضروری ہے لیکن اکثریت نے کہا کہ بیرونی مدد نہ لیا جائے کیونکہ امریکہ سرمایہ دار ہے اور روس سوشلسٹ سرمایہ دار ہے ژانانا گوژماو اور فرانسکو نے اس پالیسی کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اپنے قوم کو غلامی سے نکالنے کے لیے امداد جہاں سے بھی ملے ہمیں لینا چاہیے ،پھر بعد میں ژانانا گوژماو نے پارٹی کی سخت گیری ،تصوراتی پالیسی اور اپنے زمینی حقائق سے ہٹ کر پالیسی اور کمیونزم کی پرچار کو قومی جہد کے برخلاف عمل قرار دیکر پارٹی سے الگ ہوکر حقیقت پسندی کی بنیاد پر قومی مفادات کو مقدم سمجھتے ہو ئے جہدوجہد کی ،اس نے مزاحمتی اور سیاسی تنظیمی ڈھانچے ازسر نو تشکیل دیئے اور انھیں ایسا کیا کہ کوئی فرد قومی اداروں کو اپنے ذاتی ایجنڈے کے تحت آگے نہ لے جاسکیں۔گوژماو نے FALINTIL جومزاحمتی تنظیم تھی اسکے چار ریجن بنائے اور ہر ایک ریجن میں لوگ کمانڈر کے زیر نگران تھے کمانڈر پھر اپنے ہر عمل کا جوابدہ اسکو تھے اس میں الگ الگ تحقیقی کمیٹی بھی بنائے گئے جو کمانڈروں کے اعمال کی جانچ پڑتال کرتے تھے اور وہ بھی گوژماو کوجوابدہ تھے ،اور سیاسی حوالے سے ڈپلومیسی کے حوالے سے پھر CRRNقومی اتحاد بھی بنائی شروع میں ژاناناگوژماو نے کہا کہ ملٹری میں کوئی جمہوریت نہیں ہوتا ہے ،بعد میں حالات کو دیکھتے ہوئے کہا کہ اگر مسئلہ سیاسی ہے تو ہمیں قائل ہو یا قائل کرو کی بنیاد پر بحث مباحثہ کرلینا چاہیے اگر مسئلہ ،ملٹری ہے تو کمانڈر کو حالات دیکر حکم دینا چاہیے ۔انھوں نے اپنی تمام پالیسی حقیقت پسندی کے تحت تشکیل دئیے اور امریکہ کی حمایت کو جنگ جیتنے کے لیے بہت ہم قرار دیا خود کو کمیونزم سے دور کیا او ر اپنی پارٹی میں خود کو پارٹی تک محدود نہیں کیا بلکہ تمام قوم کی نما ئندگی کرتا تھا اسکی کوئی بھی پالیسی مزاحمتی ہو یا سیاسی کسی حوالے سے گروہیت، تنگ نظری، کمیونزم ، محدود سوچ نہیں تھا بلکہ کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ قومی جہد سے منسلک ہوں۔باہر بھی تنظیم بنائی جو دنیا کی رائے عامہ انکے حق میں ہموار کرسکے ،شروع میں کمیونسٹ سوشلسٹ اورتنگ نظر سوچ رکھنے والے انقلابیوں سے اختلاف رکھا اس نے اپنی سوچ واضح کیا تو تنگ نظری کی سیاست سے گٹھن محسوس کرنے والے سارے لوگ ژانانا گوژماو کے شیدائی ہوئے اور انکے جھنڈے تلے جمع ہوئے اور اسے اپنا کرشماتی لیڈر ما نا جو پوری قوم کی ترجمانی کرنے والا تھا بعد میں حقیقی اتحاد کے حوالے سے اندرونی دباؤ کے باوجود قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر غیر ہر دل عزیز فیصلے کیے اور تمام باقی ماندہ گروپس کے ساتھ یکجہتی قومی لائن کے تحت کی اور قومی الائنس بنائی اور ژانانا گوژماو کو اس کا سربراہ چنا گیا۔ طلبا سیاست کو ا ہم سمجھااور کہا کہ طلبا کوقومی فکر اور پروگرام کے لیے مقبوضہ سرزمین میں ریاستی اداروں میں گھس کر اپنے قومی مفادات کے تحت کام کرنا ہوگا ہر ادارے میں قومی سوچ والوں کو ہونا چاہیے اور کسی بھی جگہ کو قابض کے لیے خالی نہیں چھوڑنا ہے اس نے طلبا کو قومی سمت میں صحیح استعمال کرکے پوری تعیموری جہد کو نیا رخ دیا ایک طلبا کے قتل میں اس نے تمام طلباء کو سینٹا کروز میں احتجاج کرنے کے لیے کہا جن پرانڈو نیشیا نے گولی چلائی او ر درجنوں لوگ مارے گئے گوژماو نے پھر باہر اپنے تنظیم اور اپنی سفارتکاری سے اس واقع کو پوری دنیا میں ایشو بنایا اورانڈو نیشیا پر دباؤ بڑھا یا انکا مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ بن گیا پھر ژانانا کو قید کیا گیا اور عالمی دباؤ کے بعد اس کو نظر بند کیا گیا اسی دوران نیلسن منڈیلا نے ان سے ملاقات کی اور منڈیلا نے بھی ان کی جدوجہد کے لیے سفارت کاری کی اور دنیا سے انکے حق میں تعاون کی اپیل کی پھر بل کلنٹن کو مجبورکیا گیا کے انکے جہد کی حمایت کریں،امریکہ نے جب حمایت کی توامریکہ نے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈو نیشیا کو human Rights Watch کے لسٹ میں کیا پھر یو این او نے ظلم زیادتی کا نوٹس لینا شروع کیا اور انکا ملک اس Realistic پالیسی کی وجہ سے آزاد ہوا ،باقی صرف اورصرف اپنی طاقت اورقوت کی جو بات کرتے تھے انکا حال یہ تھا کہ جب انکے ممبرز کی تعداد ۷۷سے پہلے ۵۰ ہزار تھی وہی ۵۰ ہزار ۷۸ میں۷۰۰ ہزار تک پہنچی کیونکہ خیالی اورجذباتی اندازمیں قومی سیاست نہیں چلتی ہے یہ کوئی کمپنی یا خاندان نہیں بلکہ ایک قوم ہے جسے ایک لیڈر کی غلط حکمت عملی تباہ اوربرباد کرتی ہے لیڈر اس ڈرائیور اور جہاز چلانے والے کپتان کی طرح ہے جس طرح ڈرائیور اور کپتان کی لاپرواہی سے جہاز کے مسافروں کی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے اسی طرح قومی لیڈر کی لاپرواہی اورغلط پالیسی سے پوری قوم اورنسل کو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ،۴۸،۶۲،۵۸،۷۳کی جہد میں کمزوری لیڈرشپ کی تھی مگر اسکا خمیازہ بلوچ قوم آج تک پاکستانی غلامی کی شکل میں بھگت رہا ہے ۔نواب مری بی این ایم ،بی ایل ایف اور بی ایس او کی کمیونزم سوشلزم اور idealist پالیسی کو اگر سمجھدار اور عقل ، فہم رکھنے والے مانے اور ان اندھوں کو قومی جہاز کا کپتان بنا ئیں تو یہ پوری قوم کو تباہ کریں گے اسی لیے تو بلوچ قوم کے لیے قومی تاریکی ،دھند اور اندھیرے میں روشنی کی کرن بن کر حیر بیار مری سیاسی افق پر نمودار ہوئے جس نے اس جہد کی بنیاد کمیونزم سوشلزم کے بجا ئے قوم پرستی کی بنیاد پر ڈالا اور اسکی سوچ وقومی فکر اجتماعی اورخیال وسیع ہے ،حیربیارمری ژانانا گوژماو کی طرح مکمل حقیقت پسند ہے اس نے اپنی پارٹی کو کمیونزم اور تصوری سوچ کی وجہ سے چھو ڑا تو دوسری طرف حیر بیارنے اپنے والد اور باقیوں سے اختلافات رکھا اورقومی مفادات پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔آج بی این ایم ،بی ایل ایف سارے حیربیار مری پر تنقید کرتے ہیں اگر حیربیار کی سوچ انکی طرح ہوتی کیا وہ جدوجہد کو شروع کرنیوالا اسکی بنیاد رکھنے والا بی ایل ایف ،بی آر اے بی این ایم کو مدد دینے والا بلوچستان کی سب سے مضبوط ادارے کا سربراہ ہوکر بھی صرف قومی طاقت کو بڑھانے کی نیت سے کیونکر بی ایل ایف ،بی آر اے بی این ایم کو قومی تحریک کے ہمسفر سمجھ کر ان پر اپنے وسائل لگاتا۔اگرچاہتے وہ ان ہی وسائل سے اپنے ہی ادارے کو مزید مضبوط کر سکتا تھا اور اگر وہ چا ہتے یا حیربیار مری کی سوچ کنٹرول کرنے والے ہوتی تو کیا آج اللہ نظر، قمبر،براہمداگ اور دوسرے حیربیار یا اس کے قومی ادارے کے ماتحت نہیں ہوتے؟ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا ا ن کی سوچ گروہیت کا شکار نہیں تھی بلکہ ہمیشہ قوم مفادات کو مدنظر رکھا کیونکہ ایک تشکیل کردہ یا بنانے والے کی سوچ ہمیشہ اپنے ذات تک محدود نہیں ہوتی وہ عظیم سوچ رکھتے ہیں اور ہمیشہ بہترین نتائج اور اجتماعی فائدہ کا سوچتے ہیں جس طرح wright brothers نے جہاز ایجاد کیا بعد میں چلانے والے کپتان ہزاروں کی تعدداد میں نمودار ہوئے الیگزنڈر گراہم بیل نے ٹیلی فون ایجاد کیا لیکن استفادہ کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن ٹیلی فون کا بانی وہی ایک شخص ہے جس کی سوچ نے اس شہ کو وجود بخشی موجودہ جہد کا بانی بھی اسی طرح حیر بیار ہے جس نے موجودہ جدوجہد کی وجود ڈالی اور اسی جدوجہد نے بعد میں اللہ نظر، مہران، براہمداگ سمیت ہزاروں جہدکار پیدا کیے ۔بلوچ جد وجہد کی داغ بیل ڈالنے والے کو مکمل پتہ تھا کہ اس جہد کو ماضی کی جہد کی طرح ناکام نہیں کرنا ہے اور اسے بگٹی ،مری ،مینگل مکرانی سے نکال کر قومی جہد بنانا ہے اسکے لیے پوری قوم کو جہد میں شامل کروانا ہے اسی لیے بی ایل ایف ،بی این ایم ،بی آر پی کی قطعی اور غیرمشروط طور پر حیربیار نے حمایت اور تعاون کی لیکن وہ کپتان ڈاکٹر نظر ،براہمدگ ، مہران کی شکل میں جہاز کو ڈبونے پر اتر آ ئے اور جہاز کو حقیقت کا روپ دینے والے حیربیار کو چیلنج کرنے لگے ،کیونکہ حیر بیار نے قومی سوچ کے تحت انھیں آگے کیا ، قومی ذمہ د اری دی لیکن وہ پاور کے ساتھ ساتھ ذمہ دار نہ بن سکے کیونکہ فطرتی طور پر طاقت کے ساتھ ذمہ داری بھی جڑی ہوئی ہے ۔ یہ تمام لوگ جن کو ذمہ داری دی گئی تھی وہ غیرذمہ دار بن کر غیرذمہ دار حرکت کرنے لگے بے گناہ لوگوں کو مارنے لگے اپنی طاقت و قوت اپنے لوگوں کے خلاف استعمال کرنے لگے اورقومی سوچ کی جگہ گروہی سوچ کو پروان چڑھانے لگے قوم اورتحریک کو آگے کے بجائے پیچھے کی جانب دھکیلا گیا ، کمیونزم سوشلزم اورتصوراتی دنیا کا خواب دیکھنے لگے یہاں بھی حیربیار نے کمیونزم کے بجائے بلوچ قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر امریکہ اور مغرب کی مدد و کمک کو اہم سمجھا اس لیے آج بلوچ تحریک میں ژانانا گو ژماوکی طرح حیربیار کو ردانقلابیوں، خیالی دنیا میں رہنے والوں، او ر گروہ پرستوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے لیکن جس طرح مشرقی تیمور میں حقیقت پسند ،قومی سوچ کی ترجمانی کرنے والے ،زمینی سچائی کو دیکر پالیسی بنانے والے ،تمام قوم کو یکجا کرنے والے ژاناناگوژماو کے سامنے کمیونسٹ، تصور اتی ،محدود سوچ رکھنے والے ،خلا امبر میں گھوڑا دوڑا نے والے ناکام ہوئے اور پھر جاکر ژانانا گوژماو کی پالیسی مان کر اسکے ماتحت اور رہنمائی میں کام کرنے لگے تو بلوچستان مین بھی کل کو سارے مخالفیں اپنی غلط پالیسی اورحکمت عملی پر ضرور پشیمان ہونگے ،اس نظر سے قومی کاز کی کامیابی کا فارمولا یہی ہے جس پر حیربیار چل رہا ہے ۔کیونکہ قومی کاز اور ملک کے اندر انقلاب لانے میں فرق ہوتا ہے قومی جہد کی کامیابی کے لیے ایک گروہ تک محدود ہونا قوم اور جہد سے دستبردار ہونے کے برابر عمل ہے ،کوئی بھی قومی کرشماتی لیڈر خود کو پوری قوم سے جدا کرکے چند لوگوں تک خود کو محدود نہیں کرتا ہے ۔اگر اس نے یہ غلطی کی اور ایک بار گروہیت کے دلدل میں پھنس گئے تو گروہیت ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ہے پھر چند لوگ اپنے ذاتی اور گر وہی مفادات کے لیے لیڈر اورپروگرام کو استعمال کرتے رہیں گے ،کیونکہ قومی جہد کسی خاندان کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے اور جہد اور لیڈر بھی کسی ایک گروہ کی ملکیت نہیں بلکہ پوری قوم کی ملکیت ہوتی ہے اسے محدود کرنا اسکی سوچ اور دائرے کو کم کرنا لوگو ں کو خود سے الگ کرنے کے مترادف عمل سمجھا جاتا ہے ،اگر ایک بار گروہیت کی مرض میں کوئی انقلابی پارٹی یا لیڈر پڑ گیا پھر یہ گینگ کی طرح تقسیم درتقسیم کا شکار ہونگے پھر تنظیم میں لابینگ کا سلسلہ شروع ہوگا اور اسی طرح تقسیم درتقسیم کا نہ رکھنے والا عمل شروع ہوگا ،جب بی ایل ایف نے خود کو قومی سوچ سے گروہی سوچ میں منتقل کیا ،جہد کا محور ڈاکٹر نظر قرار پایا ،بی ایل اے ،بی آر اے ،سے خود کو موازنہ کرنے لگے ا یسے جسے وہ الگ یہ الگ ہیں اب یہی سوچ بی ایل ایف کے اندر چھوٹے چھوٹے بی ایل ایف کے ڈول مختلف شخصیت کی شکل میں سامنے آرہے ہیں ،ڈاکٹر نظر ،اختر ندیم منان اپنے ایک چھوٹے سے حلقے تک محدود ہوکر اسی حوالے سے لابینگ کر رہے ہیں ۔خلیل اپنی الگ لابی کے ساتھ کام کررہا ہے ،شکاری دلیپ الگ ایک حقیقی نظریاتی جہدکاروں کی نما ئندگی کر رہا ہے ، لابینگ کی بی ایس او والی جراثیم بی ایل ایف میں داخل ہوگیا ہے اب وقت کا انتظار ہے کہ کب عزیر اور بابالاڈلا کی طرح انکی بندوق ایک دوسرے کے خلاف ہونگی،بی آر اے مکران میں تین جگہ پر لابینگ کی وجہ سے بٹا ہوا ہے کیونکہ جس غلط گروہیت کی بیج انھوں نے بویا تھا اب اسے کاٹ رہے ہونگے لیکن نقصان قوم کا ہورہا ہے اس کے برعکس حیر بیار نے خود کو اس پھلتی ہوئی بیماری سے دور کیا اور آج سارے لوگ اسکی سوچ اور فکر کی پیرو ی کر رہے ہیں کیونکہ لیڈر کی نظر دور تک دیکھتی ہے ۔قومی لیڈر کی سوچ قطعاََ محدود نہیں ہوتا ہے حیر بیار کی وسیع سوچ اور دور اندیشی اور تدبیر ی نے اسے ژاناناگوژماو کی طرح باقی ماندہ بلوچ لیڈروں سے مختلف کیا ہو ا ہے قومی نجات میں ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو قوم کی نما ئندگی کرتے ہوئے قوم کی جہاز کو منزل تک دوراندیشی ،تدبیری سے لے جا ئیں، بقول اڈلیا اسٹیونسن: وطن دوستی ،دردمندی اور حب الوطنی مختصر ، پاگل پن اور جذبات کے کوہ آتش فشاں کے پھٹنے کا نام نہیں بلکہ مستحکم اور مستقل مزاجی سے اپنی زندگی کو وقف کرنے کا نام ہے۔ ڈاکٹر نظر اینڈ کمپنی بالکل اسکی الٹ ہے انکی پالیسی پاگل پن ،مختصر اور جذبات کے کوہ آتش فشان کی طرح پھٹ رہے ہیں کبھی غنی گیری پر اتر آتے ہیں تو کبھی جذباتی بلیک میلنگ پر اترتے ہیں کیونکہ انکی سوچ قومی نہیں بلکہ گروہی ہے اس گروہی سوچ کی دیوارکو گرتے دیکھ کر بی ایس او کے ذریعے غنی گیری شروع کی ہے تاکہ اس سے وہ اپنے اوپر سوالات سے چھٹکارا حاصل کرسکیں اس عمل سے حیر بیار جسے وطن دوست قومی دردمند کی سچائی، حقیقت ، مستحکم اور قائم مزاجی سے جدوجہد کے ساتھ وابستگی قوم کے سامنے آرہی ہے اب ظاہر ہے کہ بی ایل ایف بی این ایم ،بی ایس او ،بی آرپی مہران ڈاکٹر نظر براہمدگ سارے حب الوطنی کے اصل پیمانے پر پور ا نہیں اتر پا رہے ہیں جبکہ حیر بیار کا کردار اور ان کی حقیقت پسندانہ پالیسی یہ ثابت کرتی ہے کہ و ہ کافی حد تک حب الوطنی کے پیمانے پر اترتا ہے او ر ژانانا گوژماو کی طرح پاگل پن ،جذبات اور تنگ نظری کے بجائے مستحکم ومستقل مزاجی سے قومی جہد کی نما ئندگی کر رہا ہے ۔