تحریر:بیورغ بلوچ
ہمگام کالم:
دنیا میں ہر تحریک، ملک، بحران اور مصیبت زدہ لوگوں میں ایک نا رُکنے والے بحث نے سر اٹھایا ہے کہ لیڈرشپ کیسی ہونی چاہئے؟ کس طرح کے کردار کے حامل شخصیت کو قیادت کرکے قوم، ملک اور اپنے لوگوں کو بحران سے نکالنا چاہئے۔لیکن تحریکوں، بحرانوں اور مصیبتوں کے وقت کچھ ایسے نام نہاد اور ناجائز فائدہ اٹھانے والے کچھ خود ساختہ لیڈر بھی ابھرتے ہیں جن میں وہ اوصاف وجود نہیں رکھتیں جو اپنی ملت کو آپس میں جوڑے رکھے۔ ایسے لوگوں کو موقع پرست کہا جاتا ہے جو تحریک، بحران اور مصیبت کے اوقات حالات کا چالاکی سے فائدہ اٹھا کر اپنے ذاتی و گروہی فائدے کے لیےکیش کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کی عداوت، بغض، عنادکے ساتھ کھیلتے ہوئے انہیں خطرناک راستے پر لے جاتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو جانتے ہوئے بھی لوگ ایسے لوگوں کو لیڈر بنالیں تووہ کمزور، ذاتی طور پر ملائم ہیں اور چاہتے ہیں کہ لیڈر انہیں دھوکا دیں۔
ایک لیڈر میں جو کوالٹی یا خصوصیات ہم دیکھتے ہیں وہ ہیں وژن، سالمیت، درست حالات میں درست فیصلے، جرات،سمجھ بوجھ طرز و گفتار کی طاقت، کردار کی گہرائی شامل ہیں۔ قومی جنگ میں امیر غریب سردار نواب اور غریب کا تصور نہیں ہوتا بلکہ اس میں ہر مکاتب فکر کے لوگ شامل ہوکر اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ چونکہ قومی تحریک کی نمائندہ قوم ہوتی ہے اور قوم ملت کے افراد سے مل کر وجود پاتا ہے تو اس میں طبقات کی تقسیم، مذہبی تقسیم، علاقائی تقسیم وغیرہ قوم کی تقسیم کی بنیاد ہوتی ہیں۔ لیڈر کی خصوصیات و اوصاف میں بنیادی اوصاف قوم کو ایک بندھن میں باندھنا بھی ہوتا ہے۔ جنگی کیفیت اپنے آپ ایک ہیجانی کیفیت ہوتی ہے جس میں معاشرتی افرا تفری کوئی حیرانگی کا امر نہیں ایسے حالات میں قوم کی مثالی نمائیندگی ہی ایک قومی لیڈر  کی کامیابی ہے۔ سب سے ضروری اور بنیادی چیز قومی یگانگت اور یکسوئی ہے۔ قوم تسبیح کے مجموعے کی طرح ہے اور لیڈر کا کردار اس دھاگے کا ہوتا ہے جو ان دانوں کو اپنی پالیسی کے تحت باندھے رکھتا ہے۔ اگر دھاگہ کمزور ہوکر ٹوٹ جائے تو ملت کے افراد تسبیح کے دانوں کی مصداق بکھر جاتے ہیں جس سے پورا قومی معاشرہ بکھر جاتا ہے۔
سنگت حیربیار میں ایک چیز ہم نے دیکھی ہے، وہ یہ ہے کہ ان کا وژن کلئیر اور صاف ہے۔ بیس سالہ طویل جدوجہد میں ان کے موقف پر ذرہ برابر بھی لغرزش نہیں آئی۔ یہی وہ وصف ہے جو انہیں باقی دوسرے لیڈروں سے مختلف رکھتا ہے، گو کہ آجکل چند وقتی دانشوروں، چمچوں، نرگسیت کے شکار لیڈروں کا آئے روز تکیہ کلام ہے کہ کسی بھی طرح حیربیار کو متنازعہ ہی کرنا ہے لیکن انہیں معلوم نہیں کہ مضبوط وژن رکھنے والے شخص تنہا ہی صحیح لیکن پائیدار قیادت تا ابد رہنے والا ہے۔ جو لوگ چھوٹے سے خطرے اور مسئلے پر قومی معاملات میں قلابازی کھاتے ہیں وہ کبھی بھی قوم اور قومی معاملات اور مقصد کو آگے نہیں بڑھا پاتے۔
انقلابی جدوجہد کے دوران یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ انقلاب کے نظریہ پر ایک صالح اجتماعیت، انقلابی پارٹی قائم کرنا اور پھر تربیت کا ایک ایسا نظام اور ماحول بنانا ضروری ہے کہ جس سے گزر کر ایک انقلابی کی سیرت نظریہ کے مطابق ڈھل جائے اور وہ تمام اخلاقِ رذیلہ (بغض، حسد، کینہ، ریاکاری، نرگسیت، تکبر، زرپرستی،  خوشامدی، انسان دشمنی وغیرہ) سے بلند ہو کر کمٹمنٹ، انسان دوستی، خیر خواہی، بھلائی، عاجزی و انکساری، عدل، ایثار و قربانی، فیاضی اور خدمتِ انسانیت ایسی اعلیٰ ترین اخلاقی قدروں کا پیکر بن جائے۔
ایک انقلابی کے اندر یہ خصوصیات تربیت کے سخت ترین مراحل سے گزر کر ہی پیدا ہو سکتی ہیں۔ ورنہ چند کتابوں سے انقلابی لفّاظی کو طوطے کی طرح رٹ لینا اور فیس بک اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اُس کی مالا جھپتے رہنا ذہنی تعیّش کا باعث تو ہو سکتا ہے لیکن ایسا طرزِ عمل سماج میں کسی صحت مند تبدیلی کا باعث ہرگز نہیں بن سکتا۔
یہ تربیتی عمل ہی ہوتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں ایک انقلابی فرد نظریہ پر گہرے رُسوخ، کمٹمنٹ، دسترس، نظریہ کی روشنی میں حالات کو سمجھنے، نظریہ کا معروضی حالات کے مطابق تخلیقی اطلاق کرنے، نظریہ کے مطابق حکمتِ عملی تشکیل دینے  ایسی خصوصیات سے متَّصف ہو جاتا ہے۔ بلوچ راجی جنز کے رواں فیز پر وہ واحد لیڈر سنگت حیربیار ہی ہیں جو انسان دوستی، عاجزی و انکساری، سادہ پن، عدل و ایثار، بالخصوص قومی اختیارات کی تقسیم والی پالیسی خود قومی تحریک پر براجمان رہ کر احکام دینے والی رویوں کا خاتمہ کرنے والے لیڈر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ چارٹر آف لبریشن سے لیکر حالیہ اپنے آخری لائیو کے ذریعے آ کر سوالات کا جواب دینے والے اعمال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ قومی جنز کو منظم انداز میں آگے لیجانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ بلوچ راجی جُنز میں اجتماعیت موجود ہو وہ کوشش بھی اس حوالے کررہے ہیں۔ اس کی مثال آپ مغربی بلوچستان کے حوالے سے ان کے سخت ترین موقف کی لے سکتے ہیں حالانکہ اس معاملے کو لیکر دوست و دشمن دونوں اپنی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں کہ ان کو اس سے موقف سے دستبردار کروا سکیں مگر وہ چٹان کی مانند کھڑے ہیں اور تمام تر سختیوں سازشوں اور مسائل کے باوجود وہ ثابت قدم ہیں اور یہی وصف ہی ثابت کرتی ہے کہ وہ ہی قومی لیڈر کہلانے کا وصف رکھتے ہیں۔
آئیے !  اس اجتماعیت کی قیادت میں ایک سیلِ رواں بن جائیں تاکہ دنیا بلوچ انقلاب کی اہمیت کو سمجھ پائے اور بلوچ قومی تحریک کے اندر اپنے مفادات کے تحفظ کرنے والی وہ قوتیں جو بلوچ جدوجہد کو پراکسی بنانے پر بہ ضد ہیں انہیں یہ احساس دلائیں کہ یہ تحریک کسی گروہ کی میراث نہیں بلکہ ایک قومی مقصد حاصل کرنے کا عظیم ذریعہ۔