کوئٹہ ( ہمگام نیوز ) چیف آف ساراوان اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہاہے کہ اگر عدالت لاپتہ افراد کے بارے کچھ نہیں کرتی توعدالت نہیں عداوت ہے ،سپریم کورٹ کے ججز سے لاپتہ افراد کی رہائی کامطالبہ نہیں کرتا، وہ اپنے متعلقہ دفاتر کا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ہمارے تمام لاپتہ افراد کو “عدالتِ قانون” کے سامنے پیش کریں قرض کی بھیک مانگنا، قرض کے پیسوں سے بلوچوں پہ فوج کشی کرنا ، قرض خواہ کے سامنے شرمندہ ہونا ، ہر دن قرض خواہ کو ہاتھ جوڑ کر قرض واپسی کے لیے مہلت مانگنا خوشی کی بات نہیں، ہم اسے اول درجے کی شرمندگی کہتے ہیں۔
ان خیالات کااظہار انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میںکیا۔سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہاکہ عام لوگوں کا خیال تھا یہ لوگ انصاف دلاتے اور کرتے ہیں لیکن یہاں ہاتھ کی صفائی جان و مال کی تباہی پیداوار کا نقصان ہوتا ہے۔
لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کی بدعائیں رنگ لائی ہیں اور دنیا میں رسوائی میں اپنے “لاپتہ افراد” کی رہائی کا مطالبہ نہیں کرتا میں ان (ججز)سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے متعلقہ دفاتر کا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ہمارے تمام لاپتہ افراد کو “عدالتِ قانون” کے سامنے پیش کریں انہوں نے فواد چوہدری کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ کس آئین کی بات کرتے ہو؟ اِس آئین کی جس کے زیرِنظر ہمارے سیاسی کارکنوں کواغواکرکے لاپتہ کیاجارہا ہے؟اِس آئین کی بات کرتے ہو جس سے تم ہمارے لاپتہ افرادکی رہائی ممکن نہیں بناسکتے ؟اِس آئین کی بات کرتے ہوجسے فوجی آمر نے کاغذکاٹکڑاکہا!آئین پرعملدرآمدکر کے دکھا ! ربڑ مت کھینچو!انہوں نے کہاکہ قرض کی بھیک مانگنا، قرض کے پیسوں سے بلوچوں پہ فوج کشی کرنا ، قرض خواہ کے سامنے شرمندہ ہونا ، ہر دن قرض خواہ کو ہاتھ جوڑ کر قرض واپسی کے لیے مہلت مانگنا خوشی کی بات نہیں۔
ہم اسے اول درجے کی شرمندگی کہتے ہیں۔ہم بلوچوں کے لیے ہمارے لیے سب سے بڑا اور اہم مسلہ لاپتہ افراد کی رہائی اور ان کے بارے میں مکمل معلومات، اگر بڑی عدالت ہمارے لاپتہ افراد کے بارے میں کچھ نہیں کر رہی ہے تو ہمارے لیے وہ عدالت نہیں عداوت ہے۔