جب 80 کے دہائی میں قابض ریاست نے بلوچستان میں محدود پیمانے پر جاری بلوچ مسلح قومی تحریک کے خلاف ضرب کاری کی، تو اس دوران ، بزرگ بلوچ سیاسی شخصیت ملک احمد خان شیرانی نواب خیربخش مری کے سیاسی اور عسکری سنگت تھے۔

اپنے نظریہ، قومی بقاء کی تحفظ اور ازسر نو اپنی قومی طاقت بنانے اور مجتمع کرنے کی غرض کے پیش نظر ملک احمد خان شیرانی نواب مری کے ہمراہ 1985 میں افغانستان ہجرت کرگئے۔ کچھ برسوں بعد جب ان کی حالت قدرے بہتر ہوگئی، جنگ کیلئے حوصلہ، اعتماد کیساتھ راہیں ہموار ہوئیں، تو ملک صاحب 1992 کو واپس بلوچستان آگئے۔ تب ملک صاحب لسبیلہ میں بلوچ مسلح تحریک کے لیئے راہ کھولنا و ہموار کرنا، اس کو متحرک کرنا اور ہرسُو پھیلانے کے مشن پر کاربند ہونے لگے۔

ملک شیرانی صاحب لسبیلہ بلوچستان کی قدیم تاریخ سے اچھی طرح سے آشنا تھے۔ وہ لسبیلہ کی جغرافیہ اور وہاں کے لوگوں کی نفسیات سے بھی مانوس اور باعلم تھے۔ ملک شیرانی صاحب نے اپنا ہدف تب لسبیلہ رکھا جب قابض نے 19 جون 1965 کو قلات ڈویژن سے علیحدہ ضلع قرار دیا تھا۔

جب 1993 میں ملک صاحب اپنے فرزندان اور بھتیجوں سمیت لسبیلہ روانہ ہوئے، تب وہاں سیاسی سماجی اور دوسرے مکتبِ فکر سے منسلک لوگوں سے ملے جُلے اور خیربخش مری کے فکر و فلسفہ کی تبلیغ کی۔ بابا کے فکر و فلسفہ اور ملک شیرانی صاحب کی فکری اور سیاسی تعلیم و محنت سے غیر مانوس اور سوئے ہوئے لسبیلہ کے لوگوں کے دلوں میں آزادی کا جزبہ اور زہنوں میں شعور کا اُجالا پیدا کیا۔ ملک صاحب کی مخلصانہ اور انتھک کوششوں سے آزادی کا لہر کچھ ہی سالوں میں طوفان بن کر اُبھر آیا۔

اس وقت اوتھل لسبیلہ کا مرکزی شہر سمجھا جاتا تھا۔ جام غلام قادر سے لے کر یوسف کے دور تک سرزمین لسبیلہ پر کسی نے غلامی کے خلاف مزاحمت یا بغاوت کرنے کی ہمت نہیں کی۔ 22 نومبر 1993 میں ملک شیرانی صاحب نے اپنے کیڈروں کے توسط سے اوتھل کے عوام کو متحرک کی اور مین آر سی ڈی روڑ بند کروا کر شٹر ڈائون اور احتجاجی مظاہرے کیئے۔ یہ جام خاندان اور قابض ریاست کے خلاف پہلی عوامی بغاوت اور پہلی عوامی اجتماع تھی جس میں برفت، موندرہ، رونجہ، شیخ، خاصخیلی، جاموٹ، انگاریہ اور دودا قبیلے کے لوگ جوق در جوق شریک رہے۔

ملک صاحب کی مسلسل مزاحمتی جدوجہد نے لسبیلہ میں فکری اور سیاسی جمود کو تھوڑکر انقلابی حرکت اور تبدیلی برپا کی جس کے اثرات بالاخر اورماڑہ تک جا پہنچی۔ 26 اگست 2007 کو اورماڑہ کے شہر میں بلوچ قومی تحریک کا پرچم پہلی بار نمودار ہوا۔

ملک احمد خان شیرانی ایک نڈر مرکزی کمان تھے، جس کے نام اور سائے سے بھی دشمن لرزہ براندام رہتا تھا۔ ملک صاحب کی بہادری پر تاریخ کا ہر ورق گواہی دیتا ہے۔ اپنے ہم سروں کا ہمسر اپنے ہمسروں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ دیدہ دلیری سے کرتے تھے۔

ملک احمد خان شیرانی جب دوبارہ گراؤنڈ میں اُترے تھے تو دشمن کے لیے سم قاتل بن چکے تھے۔اس نے اپنے بیٹوں شہید صحبت خان، شہید شربت خان، شہید رسول بخش اور اپنے بھائی کے بیٹے شہید زمان خان، شہید وزیر خان، شہید زبیر خان، شہید ارضی خان، شہید رزاق جان اور شہید صورت خان کے ساتھ مل کر دشمن کے عزم کو خاک لسبیلہ میں ملا دیا۔ لسبیلہ کی زمین، اسکی مٹی اور مٹی کی مہک گواہ ہے کہ ان بہادر سرفروشوں نے اپنے مادر وطن بلوچستان کی آزادی کی خاطر اپنے جانوں کا نزرانہ پیش کیے اور رہتی دنیا تک امر ہوگئے۔

ملک احمد خان قابض ریاستی فورسز کے ہاتھوں طویل عرصہ لاپتہ ہونے کے بعد ان کو 20 جون 2011 کو شہید کیا گیا۔ جس کی جسد خاکی اوتھل زیروپوائنٹ کے قریب سے ملا۔ جس سے بلوچستان کی پوری فضا سوگوار ہوا، آسمان رو رہا تھا اور گلزمین ان شیروں کو اپنے آغوش میں لیے خیر مقدم کررہاتھی جنہوں نے اپنی قومی ننگ و ناموس کی خاطر اپنی زندگیاں قربان کیں۔