” یعنی اب ڈاکٹر مالک بھی معتبر حوالہ بن گئے ” یہ جملہ کسی دوست نے کسی بلوچ لکھاری کے بارے لکھا تھا۔ ڈاکٹر مالک کا میں نے بہرحال خود اضافہ کیا ہے، مجھے واقعی میں یہ جملہ اچھا لگا کیونکہ معتبر بن جانے کی کم از کم کچھ تو معیار کوئی تو کسوٹی ہوگی ناں ایسا نہیں کہ وہ جو بھی منہ اٹھاکر کچھ کہہ دے اور ہم اسے تاریخی اعتبار سے سچ و صحیح تسلیم کرلیں۔ اسی جملے کے نیچے میں نے انڈیا کے مشہور اردو شاعر پروفیسر وسیم بریلوی کے یہ دو مصرعے لکھے ” قد شناسی کا یہاں جب کوئی پیمانہ نہیں جو بھی اٹھے گا وہ میرِ کارواں ہو جائے گا “

بہرحال بلوچ قوم ” میرِ کارواں اور سالارِ کارواں ” کی تخلیق و پیداوار میں نہایت ہی خود کفیل ہے۔ ہر نصف عشرے میں اجتماعی قومی طاقت کی حصے بخرے کئیے جاتے ہیں اور پاپولر عوامل کا ووٹ لے کر کچھ لوگ عوامی رہبر بننے کادعوی کرکے اور خود ہی اپنی ماضی کی گفتار و اظہارئیے کا نفی کرتے ہیں۔

خیر بات جاری رکھتے ہیں۔ بلوچ آجوئی تحریک کے تسلسل نے اپنی سرد و گرم کے مرحلوں سے ہوتے ہوئے جب ایک طویل خاموشی و ناامیدی کے بعد ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کیاتو فکری لوگوں نے سرجوڑنے شروع کیئے ۔ اس صدی کے اوائل میں باقاعدہ بلوچ قومی آجوئی کی تحریکی تسلسل کو ایک نئی ابھار کی جانب لے جاتے ہوئے ماضی کے برعکس بلوچستان کے طول و عرض میں حالیہ تحریکی عمل کے گونج سنائی دینے لگی، کہیں کم تو کہیں زیادہ لیکن تحریکی عمل کی اس پھیلاؤ نے پاکستانی ریاست کی بلاواسطہ اور ایرانی قابض کی بلواسطہ نیندیں حرام کیں۔

اس تحریک کے تسلسل کوپکڑنے کی ابتدائی دنوں میں جب ہم خود اس سفر کے مسافر بننے کی کوششوں میں تھے تو ہم یہی سنتے تھے کہ ریاستی گماشتگی میں تحریکی سفر کے سامنے رکاوٹ پیدا کرنے والی قوتوں میں کون زیادہ نقصان دہ ہے، دو قوتیں بلوچ آزادی پسند قوتوں سے سوا اور مخالف سمت میں موجود تھیں۔

دونوں کا مسکن و منزل تو پاکستانی پارلیمنٹ تھا ہی، لیکن طریقے، انداز اور طریقہ واردات بالکل الگ تھے۔ ایک قوت کھلم کھلا یہی مانتا تھا کہ وہ ریاست پاکستان کے نہ صرف وفادار ہیں بلکہ انکے گفتار و کردار سے بھی یہی واضح تھا کہ انہیں بلوچ قوم پرستی سے کوئی دور تک بھی واسطہ نہیں، ووٹ دو نوٹ لو، یہ ایک رشتہ انہوں نے بنایا تھا کہ تم ہم کو ووٹ دو ہم تم کو فی الفور کچھ مادی و مالی فوائد بہم پہنچائیں گے۔یعنی خالص اور شفاف ٹرانزیکشن، کوئی وعدے وعید نہیں کوئی کل کا آسرا نہیں ،کوئی اجتماعی مفادات کی نگہبانی کا سرابوں جیسے نعرے نہیں، یعنی ایسا کہ یہ رشتہ ایک دوسرے کےمابین محض باہمی مفادات کی خاطر جاری رہا ہے اور بہت سارے لوگ انہی باہمی مفادات کی خاطر ان جیسے بلوچ پارلیمنٹیرین کے وفادار بھی بن گئے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔

دوسری جانب کھڑے تھے بلوچ قوم پرست پارلیمنٹیرین جن کا ماننا تھا کہ ہم پاکستانی پارلیمنٹ میں تو ضرور جائیں گے لیکن ہم وہاں جاکر قومی اجتماعی مفادات کی نگہبانی اور تحفظ کی اعادہ کریں گے، ہم پاکستانی سازشوں کے سامنے ڈھٹ جائیں گے اور وقتی و انفرادی مفادات کو پس پشت رکھ کر ہم قومی اجتماعی مفادات اور آنے والے مستقبل کی بلوچ نسل کی تحفظ کے حوالے سے کام کریں گے یعنی ہم بلوچ قومی اجتماعی حقوق کے ضامن ہیں لہذا ہم سے نوکری، انعام و اکرام، انفرااسٹرکچر اور ترقی خوشحالی اور اسکول و کالج اور بہبود صحت کے حوالے سے کوئی خاص امید نہ رکھی جائے، یہ نعرہ بہت بھکا، کیونکہ اس نعرے کے پیچھے کنفیوژن کی کلیہ کارفرما تھی۔

تو اس صدی کے اوائل کے سالوں اور بلوچ قومی آجوئی تحریک کی تسلسل کی اس نئی ابھار کے شروعاتی دنوں میں یہ بحث کافی گرم رہی کہ بلوچ قوم کو ان دونوں مندرجہ بالا قوتوں میں سے کونسی قوت زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے،تو بہرحال یہ تقریباً ہر طرف سے تسلیم کی گئی کہ قوم پرستی کے نعرے کی آڑھ لے کر قوم کو پارلیمنٹ جیسی سراب کے پیچھے لگانے والی قوتیں بہ نسبت دوسروں کی بلوچ راجی آجوئی کی تحریک کے لئے زیادہ نقصاان دہ ہیں۔ اسکی بنیادی وجوہات میں ایک وجہ یہی تھی کہ آجوئی چاہنے والی پارٹیاں اور بلوچ لوگ بھی قوم پرستی کا نام لیکر میدان میں آچکے تھے اور قومی حقوق اور ساحل و وسائل کی تحفظ کی آڑھ لے کر یہ پارلیمان پرست قوتیں بھی قوم پرستی ہی کی نام پر میدان عمل میں موجود تھے، ایک تذبذب اور الجھن کی گھڑی تھی جو قومی صفوں میں بہرحال تا دیر موجود رہی اور اس تذبذب کی فضا کو ختم کرنے اور ان قوم پرستوں کی چہرے سے قوم پرستی کی نام نہاد نقاب کو اتار پھینکنے میں کئی ہزار نوجوانوں نے اپنے بیش بہا لہو کی دھان دی تب جاکے کہیں افق پر کچھ شفافیت آگئی کہ کون کیا ہے اور کہاں کھڑا اور اسکے بعد سب نے دیکھا کہ “ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز”

یعنی وہ دن اور آج کا دن اب پارلیمنٹ جانے کے لیئے جو بھی بلوچ پر تولے تو اسے ساؤھدرن کمانڈ کے ہیڈکوارٹر کوئٹہ کنٹونمنٹ کے سامنے ہر حوالے سے سجدہ ریز ہونا ہی ہوگا۔

لیکن جن لوگوں نے آزادی کی اس حالیہ سفر کی ابتداء سے لیکر آج تک اپنا سب کچھ داؤ پر لگایا آج پھر وہی کنفیوژن کا کھیل انہی کے خلاف کھیلنے کے لئے کچھ ناعاقبت اندیش اور قومی اصول و راہ و راہبند سے فرار لوگ ڈاکٹر مالک کو بطور ایک معتبر حوالے کے استعمال کررہے ہیں، اردو والے کہتے ہیں کہ

کہاں گنگو تھیلی کہاں راجا بھوج

لیکن کیا کریں اس بلوچ آجوئی کی تحریکی تسلسل کی سرد و گرم میں ایک چیز جو ہمیشہ مستعدی اور ثابت قدمی کےساتھ ہوتی رہی ہے وہ یہی کہ اصولی راہ و راہبند سے مفرور ہوکر ڈیڑھ انچ کی مساجدیں بناکر اپنی پیش امام خود بن جاؤ اور پھر کنفیوژن کی مذموم کھیل کو شروع کرو اور پھر بغضِ معاویہ کے مصداق آہنی گروہی مفادات کی نگہبانی کے واسطے ہر کسی کا سہارا لے کر اپنے مخالفین پر ایسی کذب بیانی کرو کہ جھوٹ بھی سچ لگنے لگ جائے۔

اب ان نام نہاد آزادی پسند کنفیوژن پھیلانے والی فیکٹری کے فورمینوں سے کوئی پوچھے کہ بھلا ڈاکٹر مالک بی ایس او کی فراغت سے لیکر پارلیمنٹ کی راہ اختیار کرنے اور ازاں بعد اس مقبوضہ سرزمین کے انتظامی سربراہ بن جانے اور آج تک کب اور کیسے معتبر ٹہرے کہ اسکی جانب سے کہی گئی کسی بات کو نقطہ بنا کر کسی آزادی پسند رہنما کے کردار و عمل پر سوال اٹھائے جائیں؟

پھر پاکستان جیسی ریاست میں سویلین بالادستی خود پنجاب کے لیئے ایک خواب بن کر رہ گئی اب ایسے اسی پاکستان کے اندر ڈاکٹر مالک کو کون اتنی اہمیت و آزادی دے کہ وہ جاکر سنگت حیربیار یا کسی اور آزادی پسند شخصیت سے بات کرسکے کیونکہ بلوچستان عملاً آج سے نہیں بلکہ پاکستانی قبضے کے اولین دن سے پاکستانی عسکری اداروں کے ہاتھوں میں ہے، اور اگر بقول ڈاکٹر مالک کے اسے آزادی پسند قوتوں سے مذاکرات کے لئے ذمہ داریاں دی گئیں اور انہوں نے اسے آگے بڑھایا اور پھر اسکا رپورٹ بھی انکو پیش کردیا لیکن پھر سرد مہری اور ہماری بات نہیں مانی گئی جیسی چوں چرا والی جھوٹی باتوں پر کیونکر کوئی یقین کرے کہ تم ڈاکٹر مالک انہی مقتدرہ قوتوں کے کہنے پر مذاکرات کے لئے گئے اور مثبت رپورٹ بھی لے کر آئے اور پھر مقتدرہ قوتوں برا مان لیا اور مذاکرات عمل کو پس پشت ڈال دیا، اب اس بات کو بلوچ سیاسی ورکر تو خیر قبولنے سے رہا البتہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے ڈاکٹر مالک و گروہ اور لینگاٹ زادے سنگت حیربیار کے خلاف ہر طرح کے جھوٹ بول سکتے ہیں مگر ہم نے ڈاکٹر مالک اور انکے گروہ کے جھوٹ، بد زبانی، دشنام طرازی اور بد دہنی کا کبھی بھی برا نہیں مانا کیونکہ ہمیں یہ اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اس صدی کے اوائل میں شروع کی گئی اس تحریک کے بانی رہنماؤں کی مدبرانہ صلاحیتوں اور بالاچ، اکبر اور غلام محمد سمیت ہزاروں کی تعداد میں لہو بہانے والے اس سرزمین کے شہداء نے اپنی لہو کی دھان دے کر اس نام نہاد قوم پرستی کے آڑھ میں پھیلائی ہوئی کنفیوژن کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے تو ظاہر سی بات ہے اس نقصان کاسب سے بڑا کھاتہ دار ڈاکٹر مالک صاحب تھے۔

لیکن ڈاکٹر مالک جیسے بدنام زمانہ آئی ایس آئی کے چوکھٹ پر سجدہ ریز بندے کی مدد لے کر سنگت حیربیار پر الزام تراشیوں کو اپنی تشہیری مہمات کا حصہ بنانا اور کچھ کرے نہ کرے مگر تمھاری ” لینگاٹ زادگی ” کو ضرور قوم کے سامنے طشت از بام کرنے کو کافی ہے۔

اگر تم محض اس لیئے یہ سب کرتے ہو کہ اپنی خنس اور ضد نکال سکو تو اصولوں پر جوابدہی، قومی طاقت کو گروی رکھنے، دشمن قوتوں سے ساز باز کرنے سمیت کسی اور کی پراکسی بن کر انکی بندوق کے لیئے اپنے نوجوانوں کاکندھا پیش کرنے، چیک اینڈ بیلنس، قومی تحریکی عمل کی شعوری سفر کو جذباتیت کے بھینٹ چڑھانے اور طبلوں کی تاپ پر بنائی اور گائی جانے والی گانوں کو مزید سحر انگیز اور پر اثر کرنے کے واسطے درجن بھر نوجوانوں کی بھلی چڑھانے اور تحریکی عمل کو میراتھن ریس بنانے کے خلاف سوالات تو آج بھی موجود ہیں اور آنے والے کل بھی یہی سوالات موجود رہیں گے۔

تو میرا بہرحال آخری مشورہ ” ان لینگاٹ زادوں” سے یہی ہوگا کہ ڈاکٹر مالک کی کذب بیانی سے بھی اگر کچھ افاقہ نہ ہوا ہے تو اگلی بارنصیب اللہ مری اور محبت مری کے انٹریو اور بیانات کے لیئے اپنی قلم کو مزید آلودہ کرکے ضرور دیکھ لیں، شاید دلِ بے قرار کے کچھ بہل جانے کی سامان ہوسکے۔