اسلام آباد(ہمگام نیوز ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کےدھرنا گاہ سے 56 واں دن پریس کانفرنس کرتے ہوئے ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہماری یہ تحریک 23 نومبر کو بلوچستان کے ضلع کیچ سے شروع ہوا۔ شہید بالاچ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف یہ دھرنا 5 دسمبر تک تربت شہید فدا چوک تربت میں جاری رہا، جبکہ اس تحریک کے دوسرے مرحلے میں ایک لانگ مارچ کا آغاز کیا گیا ۔ 6 دسمبر کو تربت سے لانگ مارچ روانہ ہوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے 20 دسمبر کو اسلام آباد پہنچا اور دو دن اسلام آباد کے جیلوں میں گزارنے کے بعد 24 دسمبر سے یہ دھرنا اسلام آباد پریس کلب کے سامنے جاری ہے۔
اسلام آباد میں لانگ مارچ کے مطالبات پر سنجیدگی سے عمل کرنے کے لیے ریاست کو ایک ہفتے کی مہلت دی گئی تھی لیکن اس پورے دورانیے میں ریاست نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا جس کے بعد اس تحریک کے تیسرے مرحلے کا اعلان کیا گیا۔ تحریک کے تیسرے مرحلے میں ہم نے بلوچستان سمیت ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کیا تھا جس میں گزشتہ دس دنوں میں 50 سے زاہد گاؤں اور شہروں میں احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور دھر نے کیے گئے جس میں ملیر، لیاری ، حب چوکی ، وندر، گڈانی، اوتھل ، جھاؤ، آوران ، مشکے، گریشہ نال، وڈھ ، اور ناچ، خضدار، کرخ، سوراب، قلات، منگچر ، مستونگ، کوئٹہ ، تربت، پنجگور ، ڈڈے دشت، کڈان دشت، بالیچہ تمپ ، مند، گوادر، کلد ان، جیونی، پسنی، اور ماڑہ، سر بندن، بسیمہ ، ناگ، خاران، دالبندین، یک مچھ، برابچہ، نوکنڈی، چہتر ، واشک، چا ، چاغی، نوشکی، ڈھاڈر، نصیر آباد،سبی، کوہلو، بارکھان اور تونسہ شریف شامل ہیں۔ صرف دس دنوں میں ان پچاس شہروں میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے ۔ جن میں اکثریت خواتین کی تھی۔
انھوں نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ نسل کشی اور ریاستی مظالم کے خلاف لاکھوں لوگوں کا سڑکوں پر نکل آنا اس تحریک کے حق میں ایک عوامی ریفرنڈم ہے۔ اس تحریک کے کال پر صرف ایک علاقے اور ایک ریجن سے نہیں بلکہ ملیر کراچی سے لیکر تونسہ شریف تک لوگ رضا کارانہ بنیادوں پر اپنے گھروں سے نکل رہے ہیں اوراس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔ جو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ نسل کشی کا مسئلہ کتنا حقیقی مسئلہ ہے، اور یہ تحریک کس قدر عوامی تحریک ہے۔اس تحریک کی بنیاد بلوچ نسل کشی اور ریاستی مظالم جیسے انتہائی سنگین مسائل ہیں اور اس تحریک کے مطالبات بھی اپنے آپ میں مدلل اور زمینی حقائق کے عین مطابق ہیں ۔ لیکن اس پر امن عوامی تحریک کے حوالے سے ریاست کے رویے اور اقدامات شروع دن سے کس قدر جارحانہ اور پر تشدد تھے اور ہنوز جاری ہے۔
ماہ رنگ نے کہاکہ ہم نے گزشتہ 4 پر یس کا نفرنس میں ریاست کے جارحانہ رویے اور پُر تشدد اقدامات کے بارے میں تفصیل سے بات کی تھی اور اس پورے دورانیے میں ریاست کے رویے اور پر تشدد اقدامات میں کمی کےبجائے مزید تیزی آئی ہے۔جیسا کہ اس تحریک کے شروع دن سے جہاں جہاں ہمارا لانگ مارچ گزرا اور اس تحریک کے حمایت میں جہاں جہاں احتجاج ہوئے ان میں تقریباً 15 شہروں ملیر، نال ، خضدار، لیاری، تونسہ شریف ، ڈی جی ، گوادر ، گریشہ کو ہلو، بارکھان ، حب، خیر پور، ماڑی پور، ڈی آئی خان ، اسلام آباد میں اس تحریک کے رہنما و جاں سمیت سینکڑوں شرکاء کے خلاف ہیں سے زائد ایف آئی آرز درج کیے گئے ۔
جہاں جہاں سے یہ لانگ مارچ گزرا ہے اور جہاں جہاں اس کے حمایت میں مظاہرے ہوئے وہاں ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا ہے۔ جبکہ ہمارے اس پورے تحریک کے دوران تحریک کے رہنما و ہ ں ، ہمدردوں اور شرکاء کو گرفتاریوں کا سامنا ہے۔ جس میں سب سے پہلے جب لانگ مارچ کے پر امن شرکاء اسلام آباد پہنچے تو ان پر تشدد کے بعد تین سو (300) کے قریب شرکاء کو گرفتار کیا گیا ۔ جس میں خواتین، بچے اور بزرگ اور طلباء بھی شامل تھے۔ جبکہ ڈی جی خان، تونسہ شریف اور لیاری میں اس تحریک کے حق میں ہونے والے احتجاج میں شریک درجنوں شرکاء کو گرفتار کیا گیا تھا۔
انھوں نے کہاکہ اس لانگ مارچ میں شریک ہمارے دوستوں اور ان کی خاندان شروع دن سے پروفائلنگ اور ہراسمنٹ کا سامنا کر رہے ہیں جس میں ان کے ویڈیوز اور تصاویر بنائے جارہے ہیں۔ جبکہ لانگ مارچ میں شریک جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین کے گھروں میں چھاپے مارے جا رہے اور انہیں فون کر کے مختلف طریقوں سے دھمکیاں بھی دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہم بلوچستان سے ڈیتھ اسکواڈز کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن حکم ن حکومت بلوچستان اور وفاقی حکومت نے ڈیتھ اسکواڈز کے لوگوں پر مشتمل گروہ کا ایک احتجاجی کیمپ ہمارے دھرنے کے بلکل سامنے لگایا گیا ہے، جس کے ذریعے آئے روز ہمیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ہمارے کیمپ کا مکمل طور پر میڈیا بلیک آوٹ کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ لکی تاریخ کی سب سے بڑی پر امن تحریک میں سے ایک ہے جس میں لاکھوں جبکہ اس پورے تحریک کے دوران پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا نے لوگ شامل ہے لیکن مین اسٹریم میڈیا نے دانستہ طور پر ہمارے تحریک کی میڈیا بلیک آو جٹ جاری رکھا ہوا ہے۔ جبکہ ہمارے پورے تحریک کا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے ۔
جس میں سب اہم نقطہ نگراں وزیر اعظم نے پر یس کا نفرنس کر کے جبری گمشدگی کے شکار افراد کو دہشتگر دقرار دیا اور ان کے لواحقین کی توہین کی گئی جبکہ بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات نے مجھ سمیت پورے تحریک کے خلاف متعدد پریس کا نفرنس کی ہیں جس میں ہم پر جھوٹے اور سنگین قسم کے الزامات عائد کیے گئے اور ہمیں دھمکیاں بھی دی گئی۔ اس کے علاوہ ایک ٹی وی اینکر پرسن نے باقاعدہ ہمارے تحریک اور مجھ سمیت ہمارے دیگر دوستوں کے خلاف با قاعدہ جھوٹ پر مبنی مہم چلائی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں مسلسل ہراساں بھی کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہاکہ ہمارے تحریک کے بنیادی مطالبات میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ ہے اور جبری گمشدگیوں کے خلاف صرف بلوچ نہیں بلکہ پشتون، سندھی ، مہاجر ، شیعہ، کشمیری بلکتی سرائیکی اور پنجابی کے ساتھ ساتھ دنیا کے انسان دوست لوگ بھی اس غیر انسانی عمل کو روکنے کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں اور اس انسان دشمن پالیسی اور عمل کے خاتمہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بلوچستان میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل بدستور جاری ہیں اور ہمارے اس تحریک کے دوران متعدد لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا اور کل بلوچستان کے علاقے اوتھل میں کوسٹ گارڈ نے ایک گاڑی پر فائرنگ کی اور اس کے ڈرائیور کو قتل کیا ۔ جس کی شنوائی نہ ہو سکی اور انصاف کے دروازے اب بھی بلوچ لوگوں کیلئے بند کر دیئے گئے ہیں۔
ڈاکٹر نے کہاکہ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ریاستی پوری مشینری بلوچ نسل کش پالیسیوں میں برائے راست ملوث ہیں، اور مظلوم قوموں کی تاریخ میں ایسی نسل کش پالیسیوں کا خاتمہ عوامی قوت سے ممکن پایا ہے، اور بلوچ عوام ان پالیسیوں کے خلاف متحد ہے جس کا عملی اظہار اس تحریک کے تیسرے فیز میں لاکھوں کی تعداد میںبلوچ عوام نے سڑکوں پر نکل کر کیا۔
انھوں نے کہاکہ بلوچستان ایک جنگ زدہ خطہ ہے جہاں روز بلوچ بچے ، عورتیں، بوڑھے، جو ان ظلم کی چکی میں پیس رہے ہیں۔ حالی ہی میں ایران نے بلوچستان کے علاقے پنجگور میں میزائل اور ڈرون حملے کیے جہاں دو معصوم بچے شہید ہوئے اور اس کے بعد آج صبح مغربی ( ایران کے زیر انتظام ) بلوچستان میں متعدد مقامات، شمر حق آباد، اونگ و دیگر میں ریاست پاکستان نے بمباری کر کے عام آبادی کو نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں تا حال دس کے قریب افراد جانبحق ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں اکثریت خواتین و بچوں کی ہے۔ یہ بمباری سرحد کے دونوں اطراف بلوچ نسل کشی کی واضح عکاسی کرتی ہے۔
بلوچستان میں ہمارے لئے ایک الگ ہی غیر انسانی قانون لاگو کی گئی ہے، جو بولے گا وہ مارا جائے گا یا غائب کیا جائے گا لیکن اب ایسا ہم ہونے نہیں دیں گے، اس تحریک کا ایک مقصد یہی بھی ہے کہ ہم اس ریاست اور اس کے تمام اداروں کو یہ بتا سکیں کہ یہ ریاست بھلے ہی ہمیں انسان نہ سمجھے لیکن ہمارا سرمایہ ہمارے لوگ ہیں اور وہ زمین ہے جس پر ہم صدیوں سے رہ رہے ہیں۔ ہم اپنے عوام اور اپنے سرزمین کو ریاستی درندگی اور لوٹ مار کا نشانہ بنے نہیں دیں گے، ہم پوری منظم عوامی قوت کے ساتھ اپنے قوم کی نسل کشی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے تھے، کھڑے ہیں اور آخری دم تک کھڑے رہیں گے تم تشدد کرو گے ہم اس سے بھی زیادہ ابھریں گے۔
اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد انتظامیہ کو واضح طور پر ہمارے پر امن احتجاج کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا تھا اور اسلام آباد انتظامیہ سے ہم نے ہمارے دھرنے کے مد مقابل لگایا گیا سرکاری کیمپ میں خطر ناک پروفیشنل کلرز کی موجودگی کے سبب سیکیورٹی خدشات کا اظہار کیا لیکن اسلام آباد انتظامیہ اس پر خطر نوعیت کو نظر انداز کر رہا ہے اور اس کے علاوہ ہمیں وہاں سے مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کے حوالے سے بھی اسلام آباد انتظامیہ کو آگاہ کیا لیکن انتظامیہ نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کے سبب دھرنے میں شریک خواتین، بچے اور بزرگ ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔
انھوں نے کہاکہ ہمارے پر امن تحریک کے خلاف یہ صرف ریاستی پر تشد د اقدامات اور غیر سنجیدہ رویے کے چیدہ چیدہ نکات تھے اگر ہم تمام پہلوں پر بات کریں تو شائد یہ پورا دن بھی اس کے لیے کم پڑ جائے گا۔ بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری اس تحریک اپنے تیسرے مرحلے میں ہے جہاں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہے اور اس کے ساتھ یہاں اس دھرنے میں روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان بھر سے جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کے لواحقین آرہے ہیں اور اس کا حصہ ہو رہے ہیں اور یہاں ان کے پیاروں کے جبری گمشدگی کے کیس کو بین الاقوامی قانون کے تحت رجسٹر کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ آج ہم اس پر یس کا نفرنس کے توسط سے بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری اس تحریک کو جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہیں۔ جس میں اس تحریک کے تیسرے فیز جہاں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہونے کے ساتھ ساتھ اب اس تحریک کے چوتھے فیز کا اعلان کرتے ہیں۔ جس میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بلوچ نسل کشی اور بلوچستان میں ریاستی ظلم و جبر کے خلاف آگاہی مہم چلائیں گے۔ اس آگاہی مہم میں ہم اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں وزٹ کر کے گھر گھر آگاہی مہم چلائے گے اور اسلام آباد کے عوام کو ہمارے ساتھ ہونے والے ریاستی مظالم، جبر اور بربریت کی حقیقت سے آگاہ کریں گے۔ اور اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے 21 دسمبر کو تمام مظلوم اقوام کا ایک بین القوامی کانفرنس کا بھی انعقاد کریں گے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہاکہ پریس کانفرنس زریعے ریاست کو پیغام دینا چاہتے کہ یہ پر امن احتجاجی تحریک اپنے مطالبات کے تسلیم ہونے تک ہر صورت جاری رہے گا۔ جس کے لیے ہم ہر طرح کے سخت حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب یہ امر ریاست کے سنجیدگی پر منحصر ہے کہ وہ اس تحریک کو کتنا طول دینا چاہتا ہے اور مذاکرات کی طرف سب سے پہلا قدم بالاچ بلوچ سمیت عطا اللہ کے قاتلوں کو فوری سزا اور اس تحریک سے جڑے ہر فیملی کے بچوں کی بازیابی شامل ہیں۔ اس تحریک سے جڑے کسی بھی شخص یا اس تحریک کے دوران اگر کوئی بھی ناخوشگوار واقع پیش آئے تو ان کی تمام تر ذمہ داری ریاست اور اس کے ادارے پر عائد ہو گی۔