آج صبح سے سورج ماتم زدہ ہے چھوٹا کومل کھڑا سورج کی طرف پرنم آنکھوں سے دیکھ رہا تھا پوچھنے پر پتہ چلا کہ سورج مر چکا ہے وہ اب واپس اٹھنے والا نہیں تم کیوں ایسا سوچتے ہو میں نہیں سوچتا یہی سمجھتا ہوں کہ سورج کی موت واقع ہوئی ہے شاہد یہ میرے قریبی ہونے کے احساسات ہیں یا پھر میں ضرورت سے زیادہ اس سے لگاؤ رکھتا تھا یا پھر وہ میرا استاد تھا میں نے اس سے بہت کچھ سیکھ چکا تھا بہر حال تمھارا سورج زندہ ہو سکتا ہے پر میرا مر چکا ہے، ایسی باتیں نہ کرو انسان وجود ہی مٹنے کے لیے رکھتا ہے وقت کی دھار تیزی سے بہتی ہے اور جب یہ آپ پر پڑھتی ہے تو اسے برداشت کرکے ہی اس سورج کو زندہ رکھا جاسکتا ہے جی ہاں جانتا ہوں شاہد یہ وقتی کیفیت ہے طاری ہوتی ہے ویسے بھی ہم جس سے قریب تر ہوتے ہیں اس درد و تکلیف کو دوسروں سے کئی زیادہ محسوس کرتے ہیں بہرحال وقت کی رفتار جس تیزی سے بڑھ رہی ہے ہم اس رفتار کا مقابلہ نہیں کر پا رہے ہیں اور ہم سے ہماری روشنی چھینی جارہی ہے اسے دور سے دیکھ کر ان خیالوں کے پیچھے اس درد کی داستان اس سورج سے جڑے ہیں جو اب زمین میں مدفن ہے ان ہزاروں چراغوں کی طرح جو وطن کی آبرو کی خاطر اپنے خون کے آخری قطرے تک اسکی دفاع کرتے رہے یہ ایسا ہی ایک واقعہ ہے بلکہ اس دھرتی پر کئی سالوں سے ایسے ہی واقعات ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں کیونکہ غلامی کے خلاف کمربستہ جو گبرو جوان دشمن سے مدمقابل ہیں وہ دشمن کی گولیوں کی ضد پر ہیں یہ اس نوجوان کی وطن دوستی کی داستان ہیں جسے حرف عام میں ضیاءالرحمن کہا جاتا تھا جو زہری میں پیدا ہوا وہی پھلا بڑا اور تعلیم حاصل کرتا رہا ایک قبائلی معاشرے سے ہٹ کر باپ نے اسکی تربیت نجی سکولوں میں کرتا رہا وہ بھی باپ کے نقش قدم پر چل کر پڑھا لکھا گبرو جوان ہوا دنیا کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے سماج کی نوعیت پر غور کرتا رہا اپنے سرداری نظام و ان کے فرسودہ قوانین پر آواز بلند کرتا رہا لیکن  جانتا تھا کہ ان سے ٹکر لینا اسکے بس کی بات نہیں بلکہ وہ ان سے مل کر انکے اندر تبدیلی لانے کی پرزور کوشش کرتا رہا لیکن ناکامی ہمیشہ اسکے دروازے کے باہر کھڑی اس کا انتظار کرتی رہی. وہ بی ایس او سے منسلک ہوا زہری و خضدار میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتا رہا لیکن اسے سیاسی سرگرمیاں راس نہ آئی وہ سمجھنے لگے کہ اگر اپنے وطن کی آزادی کی بات ہے تو مسلح ہی صحیح راستہ ہے وہ رفتہ رفتہ 2009 کو اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ بلوچ لبریشن آرمی سے سے منسلک ہوا اور وطن کی آزادی کا بیڑا اپنے کندھوں پر لے کر اپنے فرائض نبھاتا رہا وہ سادہ طبعیت رکھنے کے ساتھ،ساتھ کمال کی ذہانت رکھتا تھا ہر مسئلے و معاملے کو ہٹ کر اس پر غور کرنے کے گر جانتا تھا وہ اپنے سادہ طبعیت و پرجوش حوصلہ و ہمت کے ساتھ ہر مشکل کو حل کرنے کی مہارت رکھتا تھا اور یہ کام جس لگن و محنت و خلوص سے کرتا تھا اس پر آنکھیں خیرہ ہو جاتی تھیں وہ ہر وقت کچھ سوچتا رہتا تھا اسکی سوچ آزادی کے منزل پر ٹکی رہتی تھی لیکن وہ بلوچ سیاست سے کسی بھی طرح مطمئن نہ تھا ہر پہلو و ہر مسئلے کو منطقی نقطے سے دیکھتا تھا اور اس پر اپنے قیمتی دلائل دیکر ہر ایک کو حیران کر دیتا تھا وہ تحریک کی انھی کمزوریوں پر بے پناہ سوال اٹھاتا تھا وہ شہید امتیاز کی طرح پڑھاکو نہیں تھا لیکن جینیئس تھا جو سنتا یا پڑھتا اسے ذہین نشین کر لیتا اسکے انداز طور طریقے ملنگانہ تھے لیکن وہ سنجیدگی کا سمندر لیے خاموشی سے اپنے کام کی تکمیل کرتا دوپہر کو جب سب اپنے جھگیوں میں سو رہے تھے وہ اکیلا بیٹھا پہاڑ کی بلندی سے اوپر پرواز کر رہا تھا وہ ایک ذمہ دار بہادر ایماندار و مخلص ساتھی تھا اسکی بہادری و جرائت پر بلوچ لبریشن آرمی نے اسے ‘ٹک’ تیر کا خطاب دیا تھا وہ راکٹ کندھے پر لیے مسکراتے چہرے کے ساتھ دشمن پر عقاب کی مانند حملہ کرتا تھا کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو ہر پہلو سے مکمل ہوتے ہیں جن میں ہر کام کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہیں لیکن انھیں موقع نہیں ملتا کہ وہ خود کو ثابت کر سکیں وہ اکثر کہتا تھا کہ دوستوں کو موقع دیکر انکی صلاحیتوں کو ابھارا جائے انھیں انکی سوچ کے مطابق کام کرنے کی اجازت دی جائے تو لائق و فائق ساتھی خود بخود سامنے آتے جائیں گے جب انھیں موقع ملے گا وہ خود کو ثابت کر سکیں گے وہ ہر وقت تبدیلی کا خواہاں رہتا لیکن وقت نے اسے مزید مہلت نہ دی وہ زہری سے اٹھ کر بولان نوشکے و قلات کے پہاڑوں میں دشمن پر آس و آنگر بنتا رہا کئی محاذوں میں بہادری کے ساتھ لڑا شور پارود میں جب فوج نے کیمپ کو گھیرے میں لے لیا تھا تو شہید ضیاءالرحمن نے بہادری کے ساتھ لڑ کر دشمن کے ہیلی کاپڑ کو تباہ کیا تھا اور دیگر ساتھی گھیراؤ سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے وہ ہر محاذ پر فرنٹ لائن پر رہا جہاں کمان کی ذمہ داری سنبھالی اپنے ذمہ داری کو بخوبی نبھایا کوئٹہ خضدار حب چوکی قلات سبھی علاقوں میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دیتا رہا کوئٹہ میں شیخ زاہد اسپتال میں ملازم تھا جب سورج غروب ہوتا تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن پر حملہ آور ہوتا اور سادگی کے ساتھ زندگی کے ہر لمحے کو محسوس کر کے اس سے محظوظ ہوتا رہا جب دشمن کی نظر بد اس پر پڑی تو پہاڑوں میں بھی وہی ضیاءالرحمن شعبان شبو دلجان و دلو بنتا گیا اور ہر محاذ پر خود کو ثابت کر کے فتح مند واپس لوٹا، گزشتہ چھ مہینوں سے وہ زہری تراسانی میں ڈیرہ ڈالا تھا ان چھ مہینوں میں دن رات لوگوں سے مل کر انھیں قومی تحریک کی افادیت و اہمیت سے آشنا کر رہا تھا انھیں وطن کی آزادی کا درس دے رہا تھا کسی دوست نے اسے کہا تھا کہ دلو احتیاط کرو “” ہنستے ہوئے ہم بھی اپنے ضد پر ڈٹے ہیں ہم نے انھیں للکارا ہے دیکھتے ہیں وہ مارے جائیں گے یا ہم پر کچھ تو ضرور ہوگا ،، شہید دلجان کے یہ الفاظ اس وقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو ہمارے ہاتھ سے جارہا ہے وہ وقت کی قیمت کو بھانپتے ہوئے تیزی سے کام کرنے پر زور دیتا ہے وہ ایک پختہ گوریلا تھا اسے احتیاطی تدابیر کا بخوبی علم تھا لیکن اسے کام کرنا تھا اور وہ ایک مضبوط دشمن سے نبردآما تھا وہ شعوری طور فیصلہ کر چکا تھا کہ دشمن کے لیے زمین تنگ کر دی جائے اسے آرام سے بیٹھنے نہ دیا جائے وہ دشمن کو چھ مہینوں سے چکما دے رہا تھا اور دشمن پر حملہ کرنے کے مختلف منصوبوں پر عمل پیرا تھا 20 فروری 2018کے دن وہ زہری کے علاقے تراسانی میں دوستوں کے ساتھ اپنے ٹھکانے پر پہنچتے ہیں کچھ ہی گھنٹوں کے اندر دشمن چاروں اطراف سے حملہ آور ہوتا ہے تو شہید ضیاءالرحمن اور شہید نورالحق دیدہ دلیری کے ساتھ ہنستے مسکراتے لڑتے رہے موت سے بے خوف ہو کر اس جنگ کو افسانوی قصہ سمجھ کر اس سے نبردآزما تھے کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ مر کر جیئے گے کئی گھنٹے کی لڑائی کے بعد وہ دونوں ساتھی اپنے بندوق کی نالی میں آخری گولی کو اپنی طرف موڑ کر اپنے آپکو مار کر دشمن کے سامنے یہ ثابت کر گئے کہ ہم بہادروں کی اس پیڑی سے ہیں جو زندہ ہوتے ہوئے ہار نہیں مانتے جب تمام راستے مسدود ہوتے ہیں تو وطن کے ایسے جیالے گولی اپنے سینے میں داغ کر ہمیشہ کے لیے امر ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب کبھی ہم نے شکست کھائی تو اپنوں کو دشمن کی صفوں میں پایا ” لیکن زندہ رہ کر دشمن ہمیں چھو نہ سکا اور مرے لیکن جی کر مرے تاریخ رقم کر مرے.