تمن مری کے احوال کے مد میں لالہ ھتورام اپنی کتاب “گل بہار ” میں یوں رقم طراز ہے کہ “اؤل دستار سر اُوپر اس تمن کے بجارانی مری خاندان میں تھی۔ چنانچہ جس وقت میر چاکر سردار کُل بلوچی سلطنت یعنی قلات پر قابض ہوا اور ہندوستان کی طرف ہجرت کی تو اُس وقت بجار خان بجارانی قبیلہ کا منتخب سردار تھا”۔
اُس وقت مری کا لفظ بلکل مقبول عام نہ تھا۔ یہ لوگ فقط بجارانی کہلاتے تھے۔ مری اُس وقت مشہور ہوئے جب میر چاکر ہندوستان ( دہلی ) جارہا تھا۔ تو بجار خان سردار اُس کے ہمراہ نہ گیا اور بمقام کاہان ٹھہر گیا تو میر چاکر نے کہا بجار مری ہے جبکہ بلوچی میں مری کے معنی “جن کے جیسا ” ہیں۔ یعنی میر چاکر نے بجار کی جرات اور بہادری کے طور پر اُس کو مری کا لقب دیا  اور  یہی لقب ایک قبیلہ کی صُورت اختیار کرکے طشت ازبام ہوا ۔
“جن ” یعنی تو انسان  نہیں بلکہ “جن” ہے۔ اسی وجہ سے اِس جرار بلوچی قوم پر مری نام پڑا کہ جو کوئی کسی کا کہنا نہیں مانتا اور برخلاف عمل کرتا ہے تو اُس کو “جن” کہتے ہیں یعنی آدمی نہیں ہے “جن” ہے۔ اِسی باعث رفتہ رفتہ یہ نام قبیلے پر حاوی ہوگیا اور قبیلہ ” بجارانی ” سے “مری” مشہور ہوگیا۔
“کوچ بلوچ” میں مری کا مطلب کچھ یوں درج ہے۔
“مری سندھی بہ معنی لٹیرا طاعون یا وبا”۔
کتاب ” بلوچ قوم اور اُس کی تاریخ ” میں نور احمد خاں آفریدی رقم طراز ہیں کہ “سائک الذھب ” کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ “ال مری دراصل شام کے رہنے والے تھے اور اب تک حجاز میں بکثرت آباد ہیں۔ یہ لوگ عربی النسل ہیں اور حجاز سے ہی بلوچستان اور سندھ کو منتقل ہوئے ہیں۔ لیکن انہوں نے ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں طویل عرصے تک قیام کیا۔
جبکہ میر خدا بخش مری نے بھی مری کے پس منظر پر مزید روشنی نہیں ڈالی۔ اُن کا کہنا ہے کہ بلوچوں کا سب سے بڑا اور اہم ترین قبائل میں سے ایک ہے اور رندوں میں سے ہیں۔
مری قبائل  ایک  قبیلہ نہیں بلکہ ایک  عظیم تاریخ  ہے۔ ماضی میں ہمارے بزرگوں نے ایک ایسی تاریخ  رقم  کی ہے جو ہمیشہ قائم و دائم رہے  گی۔ایک ایسی تاریخ  جس کو لکھنے میں ہر مصنف فخر محسوس کریگا۔ مری قبیلے نے کئی جنگیں لڑی ہیں۔ انگریزوں اور  افغانستان کے پھٹانوں کے خلاف جنگیں لڑی ہیں۔ ان جنگوں کچھ بیرونی حملہ آوروں اور دشمنوں کے خلاف ہیں مگر بدقسمتی سے کچھ اپنی ہی قوم کے دیگر قبائل کے ساتھ جنگیں ہیں۔ چونکہ تاریخ میری یا کسی اور کی خواہشات کا پابند نہیں لہٰذا یہاں پر میں کوشش کروں گا کہ تاریخ کے پنوں کو ٹٹول کر حقائق سامنے لاؤں جن میں یقیناً کچھ باعث فخر ہیں اور کچھ بدقسمتی اور لاشعوری جو قومی نقصان کا باعث بنی ہیں۔
جن میں درہ نفسک 1840 کی عظیم جنگ، 1858 کی چمبھڑی کی جنگ، 1976 کی مری سمالاڑی جنگ، بی بی نانی کی لڑائی، 1883 کی مری بگٹی جنگ، مری کی اتمان خیل کاکڑوں سے جنگ، مریوں کا موسٰی خیل کے ساتھ جنگ، مریوں کا لونی سے جنگ، مری ڈومبکی جنگ، مہکانی مری جھڑپ، 1896 کی سنیری جنگ، جنگ گمبذ،1918 کی ہڑب کی لڑائی  شامل ہیں۔
 1840 کی درہ نفسک کی جنگ۔
درہ نفسک کی جنگ کا دن مری قبیلے کی تاریخ میں ایک ایسا دن تھا جسے ایک سفید پتھر سے نشان زدہ کرنا چاہئیے، خواہ اُن کا کچھ بھی نقصان ہوا ہو۔ اِس لڑائی میں قبیلے کے جنگجو کمانڈر لال خان کا اکلوتا بیٹا شہید ہوا مگر مریوں نے برطانوی آفیسر مارڈالا، دو دیسی آفیسر قتل کردئیے اور 194سپاہی موت کے گھاٹ اُتار دیئے تھے۔ ہارس کے منظّم دستے کی بیخ کنی کر دی تھی اور راشن گولہ بارود اور خیموں سمیت بہت سارے اُونٹوں پر قبضہ کرلیاتھا۔ مریوں نے محض دو حملوں میں اُس برطانوی فوج کا آدھا حصہ تباہ کر ڈالا جس نے دوسری بار اُن کے علاقے میں داخل ہونے کی جرات کی تھی۔ یہ اوّلین شدید نقصان تھا اور شکست کی شرمندگی اِس کے علاوہ تھی۔ اور اِس جنگ کے دوران مری قبیلے کا سردار دودہ خان مری تھا۔
مریوں کی انگریزوں سے دوسری لڑائی۔
بولان کے اوپر والے علاقوں میں انگریزوں کے خلاف جہاں بلوچوں کی کامیاب سرگرمیاں جاری تھیں، وہاں نچلے علاقوں میں بھی بلوچ قبائل خاموش نہ تھے، اور اِس کشمکش میں مریوں کو انگریزی افواج کے خلاف ایک اور نمایاں فتح حاصل ہوئی۔ میر شاہنواز خان کے عہد حکومت میں تسخیر کاہان کی مہم میں میجر براوّن ایک عارضی کامیابی کے بعد کاہان کے قلعے میں بے یارو مددگار محصور ہوکر رہ گیا۔
لفٹینٹ کلارک کی سرکردگی میں انگریزی فوج کا ایک دستہ جو فلیچی کی طرف واپس ہورہا تھا،نفسک کی چڑھائی پر بہادر مریوں کے بے پناہ حملوں سے سراسر تباہ ہوکر ختم ہوگیا تھا اور اُن کے سینکڑوں اونٹ اور اسلحہ مریوں کے ہاتھ آئے۔ لیکن یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ انگریز فوجیوں کے لئے اِس سے زیادہ ذلت آمیز شکست اور شدید نقصان سے دو چار ہونا باقی تھا۔ نفسک کا درہ جانباز مریوں کی ایک اور دلیرانہ فتح کا منتظر تھا۔
میجر براوؤن ایک سو چالیس آدمیوں کے ہمراہ کاہان کے قلعہ میں محصور تھا اور اُس کا راشن تیزی سے ختم ہورہا تھا۔ اِس لئے انگریز کمانڈروں نے اُسے جلد امداد بہم پہنچانے کا تہیہ کرکے 1200 اُونٹوں اور 600 بیلوں کا ایک قافلہ 464 سنگینوں اور تین توپوں کی حفاظت میں کلبورن کی زیر کمان میجر براوّن کی امداد کو کاہان روانہ کردیا۔ 12 اگست 1840ء کو میجر کلبورن کا یہ قافلہ سکھر سے روانہ ہوکر فلجیی پہنچا۔ فلجیی سے 200 تلواریں (رسالہ)  اُن کے ساتھ بڑھادی گئيں۔ 31 اگست 1840ء کو میجر کلبورن کا یہ قافلہ نفسک کی چڑھائی کے نیچے پہنچا۔ سردار دودا خان مری کے بیٹے میر دین محمد خان مری کی سرکردگی میں مریوں نے ایک کثیر لشکر کے ساتھ درہ کو روکا ہوا تھا۔ شدت کی گرمی پڑ رہی تھی۔  کلبورن کی عقبی دستے نے چڑھائی پر قبضہ کرکے ڈیڑ بجے دوپہر کے وقت مریوں کے خلاف اپنا حملہ شروع کیا۔ چڑھائی کے عین اوپر پہنچ کر شدت کی گرمی، پیاس اور چڑھائی پر چڑھنے کی وجہ سے فوج کا دستہ تقریباً بے دم ہوچکا تھا اگرچہ مریوں کی طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ جاری تھی لیکن اب سپاہی ہلنے جلنے کے قابل نہ تھے۔اُن کی نیم مردہ حالت دیکھ کر مریوں نے تلواریں سونت لیں اور اللہ اکبر کےنعرے لگاتے ہوئے اُن پر ٹوٹ پڑے اور سب کو تہ تیغ کردیا۔
انگریزی فوج کےعقبی دستہ (ری گارڈ ) کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوسکی بلکہ وہ منتشر ہوکر چڑھائی سے واپس اُترنے لگے مریوں نے اُنکا بہادرانہ تعاقب جاری رکھا۔ پانی کیلئے زخمیوں کی چیخ و پکار نے کلبورن کے بچے کُچھے آدمیوں کی نااُمیدی میں اضافہ کرتے ہوئے  اُنہیں مخبوط الحواس بنادیا۔ کلبورن نے اب پانی کی تلاش شروع کردی ایک پارٹی کو اُن سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر پانی مل گیا۔ اِس کی اطلاع  ملتے ہی  کلبورن اونٹوں پر لدواکر اور توپ خانے کے گھوڑوں کو ساتھ کرکے پانی لانےکو روانہ کردیا اور رسالہ کر سواروں کا ایک دستہ بھی حفاظت کیلئے اُن کے ساتھ بھیج دیا لیکن کچھ دور جاکر مریوں نے اِس پارٹی پر حملہ کرکے اُسے باآسانی منتشر کردیا اور اُن کے تمام اونٹوں اور توپ خانے کے گھوڑوں کو چھین کر لے گئے۔
غروب آفتاب کے وقت کلبورن کو اِس واقعہ کی اطلاع ملی۔ سپاہیوں کی طاقت جواب دے چکی تھی۔ پانی کی طرف فوراً جارحانہ حملہ کرکے آگے بڑھنے کیلئے وہ کسی طرح تیار نہ ہوسکے۔ بہ مشکل آدھی رات کےوقت غیر مساعد حالات میں کلبورن نےراشن، گولہ بارود اور توپوں کو وہيں چھوڑ کر فوج کو پانی کی طرف آگے بڑھنے کا حکم دیا اور زخمیوں کو اُن چند اونٹوں پر جو باقی بچے تھے، لاد کر ساتھ اُٹھا لیا۔ مریوں کو کلبورن کی اِس نقل و حرکت کا علم نہ تھا۔ اِس لئے کلبورن کے سپاہیوں نےساڑت آف کی چڑھائی جو فلیجی کی طرف واپسی کے راستے میں پڑتا تھا، بلامزاحمت پار کر لیا۔ تھوڑی دیر بعد مریوں کو اُن کی خبر مل گئی اور اب مری تیزی سے اُن کا تعاقب کررہے تھے۔ آخر کار ساڑت آف کے اُس پار مریوں نے اُن کے کیمپ کے نوکروں کو گھیر لیا اور سب کے سب کو تہ تیغ کیا۔ ان جنگوں میں مریوں کے بھی کئی بہادر جوان شہید ہوئے مگر آخر کار مریوں نے انگریزوں  کے خلاف فتح  حاصل کی اور انگریزوں کی لاشیں جنگلی جانوروں کی خوراک بن گئیں۔میجر براوّن جو کاہان کے قلعہ پے بے یارو مددگار تھا آخر کار مریوں کے سامنے جھکنے پے مجبور ہوگیا اور ہمیشہ کے لئے کاہان کا قلعہ چھوڑ کر جانے کافیصلہ کر لیا اور اس طرح مریوں نے بھی اُنہیں قیدی سمجھ کر اُن کے چندفوجیوں کو واپس جانے دیا اور آئندہ کاہان کی طرف نہ آنے کی ہدایت کی۔ اسطرح مری قبیلے نے فتح حاصل کی اور کاہان کا قلعہ بھی فتح کرلیا اور انگریزوں کو ہمیشہ کے لئے بھاگنے پے مجبور کردیا۔ مریوں نے بہادری اورجرات کے ساتھ انگریزوں کو بھاگنے پے مجبورکرکے تاریخ رقم کی تو آج انگریزوں کے غلاموں کے سامنے کیوں جھگ گئے؟
مری موسیٰ خیل کی لڑائی۔
انیسویں صدی کے آخری برسوں میں موسیٰ خیل کے سربراہ ازل خان نے 300 آدمیوں کے ساتھ کوہلو پر حملہ کردیا۔ یہ واقع مری کے ایک بزرگ میرمحمد اکبر خان مرحوم نے سنایا۔ پار علی نامی پوادی تھا۔ جس کا خیمہ باغ ء پشت نامی جگہ پر تھا۔ موسیٰ خیل نے ساٹھ آدمیوں کےساتھ حملہ کرکے اُس کا گھر لوٹ لیا۔ آس پاس کی آبادی گئی ہوئی تھی۔ ایک مرکہ(میڑھ) کے سلسلے میں شاھجود کچڑ نامی مقام پر اور دوسری جگہوں سے مری فوراً روانہ ہوئے اور ناران کے راستے چل پڑے۔ موسیٰ خیل نے آواز دی کہ ” مری بابا آگے مت آؤ، آج ایک پاگل ہمارے ساتھ ہے۔ اپنے ساتھ کاہان کے مری بھی لاؤ۔ بہار خان سالارانی نے اِس طرف سے جواب دیا ہک تمہارے ساتھ ایک پاگل ہے، ہم سب کے سب پاگل ہیں۔ تمہارے لئے ہم کافی ہیں۔ کاہان کے مریوں کو آرام کرنے دو۔ مریوں نے لڑائی میں فتح پائی۔ 53 موسیٰ خیل مارے گئے۔ ازل کے بشمول( ازل خان، جمال خان کا چچا زاد تھا) مال غنیمت بھی حاصل کیا۔ زندہ بچنے والوں کو کچھ ایذا نہ پہنچائی۔ اُنہیں کہا ہم تمہیں زندہ چھوڑ رہے ہیں تاکہ اپنی شکست کی خبر جاکر سناؤ۔
اس کے علاوہ  کئی جنگیں لڑی گئی ہیں جو کامران اعظم سوہدروی کی کتاب (مری قبیلہ) میں تفصيلات  سے لکھی ہوئی  ہیں۔ اس کے علاوہ چارلس رینالڈولیم کی کتاب (Defence of Kahan ) میں نفسک کی جنگ تفصيل سے لکھی ہوئی ہے جس کا ترجمہ  ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کی ہے جس کا نام (مری بلوچ جنگِ مزاحمت) ہے۔  اس کے علاوہ سبی گزیڑ، بلوچ قوم،  بلوچستان فورڈ پالیسی اور نتائج  گل خان نصیر کی کتاب (تاریخِ بلوچستان ) اور بلوچستان سیاسی کشمکش کتاب میں لکھے ہوئے ہیں۔
اس طرح مختلف جنگیں لڑی گئیں سردار دودا خان کے دور سے لے کر پہلے بلوچی صوفی شاعر مستِ توکلی کے دور میں جنگیں ہوئیں اورسردار نواب خیر بخش مری اوّل سے لے کر بلوچ قوم کے پہلے گوریلا کمانڈر شیر محمد مری کے دور تک جنگیں ہوئیں۔اُن مریوں نے ایک ایسی تاریخ رقم کی کہ آج ہر مری سر فخر سے اُٹھا کر کہتا ہے کہ میں مری بلوچ ہوں اس فخر کو بابائے بلوچ قوم نواب خیر بخش مری نےمزید اُونچا کیا۔  آپ کی جدوجہد نے پورے بلوچ قوم کی حوصلہ افزائی کی اور مری قبیلے کی تاریخ کو چار چاند لگا دیئے۔
 میں آپ کی جدوجہد کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اور یہ جنگیں یہ جدوجہد مریوں نے اپنی عزت و ناموس، غیرت ، حقوق اور سرزمین کے لئے لڑی ہیں۔
وہ لوگ ظُلم اور ناانصافی کے خلاف لڑتے رہے اس لئے ضیاالحق نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ
One Marri is one proplem.
اُنہوں نے اس لئے کہا کیونکہ مری ظُلم اور ناانصافی برداشت نہیں کرتے مگر اب مری وہ مری نہیں رہے مریوں کے آباؤاجداد کے علاقے کوہلو میں بھی غیر لوکل لوگوں کی حکمرانی ہے اپنی مرضی سے کسی دوسرے صوبے سے تعلق رکھنے والے کا لوکل بنا کر اُنہیں نوکریاں دیتے ہیں کوئی پوچھنے والا جو نہیں کیونکہ ہمارے نام نہاد حکمران غلام ہیں اور خود کو بیچ چکے ہیں۔
مجھے نہیں لگتا کہ اب سردار دودا خان، نواب خیر بخش مری اوّل یا بابائے بلوچ قوم نواب خیر بخش مری یا پھر گوریلا کمانڈر جنرل شیر محمد مری جیسا سردار یا لیڈر مری قبیلے کو نصیب ہوگا۔