اسلام آباد(ہمگام نیوز)مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس پورے عرصے میں ان دونوں ملکوں کے تعلقات تقریبا ہمیشہ ہی اتارچڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ اور بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں بھی اس صورت حال میں انہیں کسی نوعیت کی تبدیلی کے امکانات نظر نہیں آتے۔
سفیر ولیم بی میلان واشنگٹن میں قائم ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار سکالرز میں سینئیر پالیسی اسکالر ہیں۔ اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اس وقت بہت زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ کیونکہ امریکہ میں بقول انکے یہ احساس پایا جاتا ہے کہ افغان جنگ کے دوران پاکستان زیادہ مددگار نہیں رہا۔ اور دونوں متضاد سمتوں میں کام کرتے رہے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان نے طالبان کو جنم دیا۔ جنکا اب افغانستان پرکنٹرول ہے۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک فعال تعلق قائم ہے جو آئیندہ بھی شاید اسی طرح چلتا رہے۔ اور جو بات دونوں کے مفاد میں ہوگی وہ اسے کرنے پر متفق ہونگے۔ انکا کہنا تھا کہ اسوقت دونوں جانب ایک دوسرے کے بارے میں عدم اعتماد پایا جاتا ہے اورمستقبل قریب میں ایسی کوئی صورت حال نظر نہیں آرہی جہاں یہ بد اعتمادی ختم ہو سکے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا چین سے پاکستان کی گہری دوستی۔ امریکہ کے ساتھ اسکے بہتر تعلقات کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ پاکستان کی گہری دوستی امریکہ کے ساتھ اسکے تعلقات میں ایک رکاوٹ تو ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ چین کی وہاں موجودگی یا امریکہ اور پاکستان کے درمیان بد اعتمادی حالات کو وہاں لے جائے جہاں وہ ایک دوسرے کی برملا مخالفت کرنے لگیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں ووڈ رو ولسن انٹرنیشنل سینٹر کے سینئر اسکالر نے کہا کہ یقیناً پاکستان اور امریکہ کو ایک دوسرے کی کسی حد تک ضرورت ہے۔ امریکہ کو افغانستان میں پھنسے ہوئے لوگوں کو وہاں سے نکالنے کے لئے خاص طور پر پاکستان کی ضرورت ہے۔ کیونکہ وہاں اب بھی ایسے بہت سے لوگ پھنسے ہوئے ہیں جنہیں امریکہ وہاں سے نکالنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان صرف چین کی دوستی پر انحصار نہیں کر سکتا۔ اسے اپنے معاشی استحکام کے لئے امریکہ اور مغرب سے تعلقات کی ضرورت ہے۔ چنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں تعلقات اسی طرح چلتے رہیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بات مفادات کی ہے۔ پاکستان کو شکایت رہتی ہے کہ امریکہ کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے۔ اور امریکہ کے اس جھکاؤ کی وجہ بھی نظر آتی ہے کہ چین کے خلاف اور جنوب مشرقی ایشیاء اور ایشیاء بحرالکاحل میں امریکہ کی جو پالیسی ہے۔ اس میں بھارت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان چین کے ساتھ اپنا ایک قریبی تعلق قائم رکھنا چاہتا ہے اور رکھے ہوئے ہے۔ اور پاکستان کےبہت سے مسائل کے حل میں چین پاکستان کی مدد بھی کرتا ہے۔ جو کہ مغرب نہیں کرتا۔ لیکن پاکستان کے لئے یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ سب سے ناطہ توڑ کر محض چین کا ہو رہے کیونکہ اسے اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی کی بھی ضرورت ہے جو امریکہ یا مغرب سے ہی مل سکتی ہے۔ اسکے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات طےکرنے کے لئے امریکہ اور مغرب کے تعاون کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں کے ساتھ معاشروں کی سطح پر بھی پاکستان کے مضبوط رشتے ہیں یعنی غیر سرکاری سطح پر یہ رشتے بہت گہرے ہیں جبکہ چین کے ساتھ پاکستان کے سرکاری سطح پر تو رشتے مضبوط ہیں۔ لیکن معاشرتی سطح پر یہ رشتے بہت کمزور ہیں۔ کیونکہ دونوں معاشروں کی نوعیت ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔
جب سوال کیا گیا کہ بعض مبصرین کےبقول چین اور امریکہ کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کی صورت پیدا ہو رہی۔ اگر ایسا ہے تو پاکستان تعلقات میں توازن کسطرح رکھ سکے گا۔ پروفیسر عسکری نے کہا کہ اگر یہ صورت حال بنی بھی تو یہ اس نوعیت کی سرد جنگ نہیں ہو گی جو امریکہ اور سابقہ سوویت یونین کے درمیان تھی۔ کیونک جہاں ایک جانب چین اور امریکہ میں رقابت ہے اور وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں وہیں دونوں کے درمیان اقتصادی تعلقات موجود ہیں۔ اسلئے سرد جنگ کبھی بھی اس نوعیت کی نہیں ہوگی جیسی سابقہ سوویت یونین کے ساتھ تھی۔ اسلئے پاکستان کو گنجائش مل جاتی ہے کہ وہ دونوں سے تعلقات قائم رکھے۔ لیکن یہ پاکستان کے لئے مشکل کام ہو گا اور اس میں اونچ نیچ چلتی رہے گی۔