بلوچی میں کہاوت ہے “ڈگار ھمودءَ سُچیت کہ آچ روک انت” ترجمہ “زمین اُس جگہ تپش محسوس کرتی ہے جہاں آگ لگی ہو” بلوچ مسلے کو بلوچ سے زیادہ کوئی بھی اُس شدت سے محسوس نہیں کرسکتا جس شدت سے بلوچ اُسے لمحے لمحے وجود میں عالم نزاع کی مانند دم گھٹتا حس کررہا ہے. بحیثیت انسان سوچتے ہوئے یہ خیال آتا ہے کہ بلوچ کے اس حال تک پہنچانے اسلام آباد والوں سے گلہ ہو نہیں سکتا کہ انھیں بلوچوں کو مظلومیت کے اس مقام تک پہناتے رحم کیوں نہیں آتا ؟ پھر خیال آتا ہے اگر رحم کریں گے تو انصاف کرنا پڑے گا اگر انصاف کیا تو حق دینا پڑے گا اگر حق دیا تو پنجاب کھائے گا کہاں سے؟ اگر گلہ ہے یا سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے وہ اپنے اُن بلوچ بھائیوں سے ہے جو اس ظلم و بربریت میں یا براہ راست شامل ہیں یا وہ اپنے مفادات کے اسیر ان مظالم کو انجام دینے والوں کے بالواسطہ یا بلاواسطہ سہولت کار ہیں. غور سے دیکھا جائے تو بلوچ قوم کیلئے اسلام آباد کے حاکم اور انکے مقامی سہولت کار سب کے سب یکساں خطرناک ہیں مگر سب سے زیادہ خطرناک وہ عناصر ہیں جو ظاہری طور پر قوم سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں جبکہ باطن میں اس کے دشمن جاں کے ہمرکاب ہیں. چونکہ پاکستان کیلئے بلوچ مسئلہ سردرد بنا ہوا ہے اور اسے حل کرنے اس کے پاس کوئی فارمولا نہیں بجز طاقت کے استعمال کے ایسے میں بلوچستان سے اختر مینگل، ڈاکٹر مالک، محمود خان اور اُنکے ہمنوا حضرات اکثر ایک جملہ دوہزار چوبیس الیکشن کے بعد کثرت سے دہراتے نظر آتے ہیں کہ بلوچستان میں حقیقی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے مسلے پیدا ہوئے ہیں. جو کہ کئی زاویوں سے بے بنیاد اور غیر منطقی بات ہے بلکہ یہ بیانیہ یہاں کے قومیتوں کے اصل قومی مسلے سے توجہ ہٹانے یا اسے گڈ مڈ کرنے کی ایک ظالمانہ کوشش کیساتھ مرکز کو بے وقوف بنانے کی سعی بھی ہے . ان کا یہ بیانیہ اس لئے بھی درست نہیں کیونکہ بلوچستان میں کشیدگی کا پاکستانی انتخابات سے دور دور کا واسطہ نہیں خان قلات میر محراب خان سے لیکر آغا عبدالکریم خان اور آخر میں شہید اکبر خان بگٹی اور شہید بالاچ مری تک سب نے قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت کی ہے. پہلے انگریزوں کے دؤر میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مسلح جدوجہد ہوتی رہی ہیں جو وقت کیساتھ کبھی تیز اور کبھی سُست ہوئی ہیں مگر ایک بات بالکل واضح ہے کہ اس تمام عرصے میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف نفرت قدر مشترک رہی ہے. آج کی یہ جنگِ آزادی جسے ریاستی حکام کچھ بھی نام دیتے ہیں اُسی کا تسلسل ہے جو بلوچستان کے جبری الحاق سے ایک بار پھر شروع ہوا ہے جسے کسی کے الیکشن میں ہارنے اور جیتنے سے جوڑنا درست نہیں. جیسے کہ عرض کیا جا چکا کہ یہ جنگ اپنی زمین پر قبضے اور غلامی کے خلاف رہی ہے اور آج بھی اسی نعرے کے تحت ہو رہی جس کا اعتراف پاکستان کے سابق کئیر ٹیکر وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ تک کر چکے ہیں کہ پہاڑوں پر لڑنے والوں کا مطالبہ بلوچستان کی مکمل آزادی ہے تو ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل اسے کیسے اپنی اسمبلی میں اکثریت و اقلیت سے جوڑ رہے ہیں؟ اگر غور سے دیکھا جائے تو مذکورہ بیانیہ اُس دن مر کر مکمل طور پر زائد المیعاد ہوگیا تھا جب صوبائی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی رکھنے کے باوجود شہید نواب اکبر خان بگٹی نے پہاڑوں کا رُخ کیا تھا اور شہید بالاچ مری نے ایم پی اے ہوتے ہوئے مراعات لینے آرام کی زندگی گزارنے کے بجائے جنگ کے مشکل ترین راستے کا انتخاب کیا تھا . شہید اکبر خان اور شہید بالاچ سے بہتر عوامی نمائندگی کیا ہو سکتی ہے. جب اُنھوں نے اپنے عوام کی بھرپور حمایت کے باوجود محسوس کیا کہ اُنکے اور ریاست کے درمیان آقا اور غلام کا رشتہ ہے تو انھوں نے پاکستانی اسمبلیوں کو کچھ ایسے لوگوں کی طرح نہیں چھوڑا کہ سر اسمبلی سے باہر اور پاؤں اسمبلیوں میں لٹکتے رہیں وہ گئے تو ایسے گئے کہ بعد میں شہادت تک مُڑ کر پیچھے نہیں دیکھا.اُنکے بعد اس بیانیہ کے تابوت پر آخری کیل بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کس کر ٹھوک دیا جو پاکستانی پارلیمنٹ میں آواز بلند کرنے کے بجائے دست خالی نیک نیتی کے ساتھ میدان میں اُتریں لوگوں نے ان کی قیادت کو دل و جان سے قبول کیا. وہ اجتماع جو یہ پارلیمنٹ کے ممبر حضرات لوگوں کو کھلا پلا کر درجنوں مراعات کے وعدوں کے بدلے اکٹھے نہیں کر سکتے بلوچ یکجہتی کے کال پر لوگ اپنے خرچے پر سینکڑوں کلومیٹر چل کر اکٹھے ہوتے ہیں . بلوچستان کے لوگوں کا ان مظلوموں کے پیچھے چلنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ لوگ اب ان نام نہاد حقیقی نمائندوں کو یکسر مسترد کر چکے ہیں اور انھیں پاکستانی پارلیمان سے بیزاری اور مایوسی ثابت کرنے کسی دلیل کی ضرورت نہیں. بعدازاں اس بیانیہ کو 2024 کے انتخابات میں لوگوں کی عدم شرکت نے سپرد خاک کر کے قصہ ختم کیا. اگر ان حضرات کے دل میں بلوچ و بلوچستان بارے زرا بھی ہمدردی ہوتی تو وہ 2024 کے الیکشن بارے صرف اور صرف سچ بولتے کہ لوگ پولنگ اسٹیشنوں تک نہیں آئے یہ ہماری نہیں ریاست کی نوآبادیاتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس سے بلوچ اس ملک کے پارلیمنٹ پر اعتماد نہیں کرتے. اس سے دو فائدے ہوتے ایک اُنکی دیانتداری اور قوم سے اخلاص عیاں ہوتا اور انھیں خود اپنے عوام کے پاس جانے میں شرمندگی نہیں ہوتی کیونکہ اگر کوئی اور نہیں جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے مگر مقامی لوگ تو جانتے ہیں جہاں پانچ ووٹ پڑے ہیں اور آپ وہاں سے خود کو حقیقی نمائندہ کہکر پانچسو ووٹ لینے کا دعویٰ کرتے ہیں. مانا گنتی میں پانچسو ووٹ ٹپہ لگا کر پورے کئے ہوں گے مگر یہ مت بھولیں کہ ان ابلیس کے اولادوں (جن کو اکثر لوگ فرشتہ کہکر پکارتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں فرشتے معصوم اور بیگناہ مخلوق ہے لہٰذا ان کیلئے ابلیس نام کا مستعمل ہونا زیادہ موزوں رہے گا) نے کبھی آپ کیلئے بھی ایسے پانچ کو پانچسو کیا ہے اس بار انھوں نے ریس نے فقط گھوڑا تبدیل کیا ہے اسمیں اتنی ناراحتی کیوں؟ دوسرا سچ کہنے سے آزادی پسندوں کے اس بیانیہ کو بین الاقوامی طور پر پذیرائی اور تقویت ملتی کہ بلوچ اور پاکستان ایک دوسرے سے لاتعلق ہو چکے ہیں یا یہ کہ آزادی پسندوں نے الیکشن سے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی جسے بلوچوں نے انھیں سُنا اور اس پر عمل کیا اس کا مطلب ہے کہ آزادی پسندوں کا موقف حقیقت پر مبنی ہے. کیا ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل نواب اکبر خان بگٹی سے زیادہ زہین، زیرک و معاملہ فہم ہیں کہ اگر وہ اور اس کے پارٹی والے منتخب کئے جائیں تو مسئلہ حل ہو گا؟ ہرگز نہیں کیونکہ اب بات نمائندگی کی نہیں کہ جس کیلئے یہ حضرات بیانیہ بنا چکے ہیں اور ہر مناسب و نامناسب موقع پر اسے دہراتے ہیں. یہ بیانیہ اس لئے بھی بے سود ہے کہ ریاست جس امن کا خواہاں ہے ان دونوں حضرات کا اس پروسس سے دور دور کا واسطہ نہیں بلکہ اس پر سوا یہ کہ ریاست جن لوگوں سے بات چیت کے دروازے کھولنا چاہتی وہ تو ان دونوں (اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک) سمیت تمام پارلیمنٹرینز کو جنگی منافع خور اور ریاست کے سہولت کار سمجھتے ہیں جو اُنکی بے پناہ قربانیوں کو جو اپنی آزاد ریاست کے قیام کیلئے دے رہے ہیں وہ اسے اپنی الیکشن نہ جیتنے دینے سے جوڑ کر اُنکے قربانیوں کی بے توقیری کر کے دنیا میں یہ غلط فہمی پیدا کرنے کا سبب بنتے آرہے ہیں کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ وہ نہیں جو آزادی پسند تنظیمیں ہر فورم پر دہراتے ہیں اور نوجوان پہاڑوں پر چڑھے بھوک پیاس، تمام موسموں کی شدتیں اور سینوں میں گولیاں برداشت کر رہے ہیں بلکہ اصل مسلہ صرف اتنا ہے کہ بلوچستان کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی اَسی فیصد سیٹیں چار حصوں بی این پی مینگل ، این پی، پختونخوا میپ اور جمعيت علماء اسلام میں تقسیم کئے جائیں باقی بیس فیصد چھوٹے موٹے پارٹیوں اور با اثر شخصیتوں کو دے دئے جائیں تاکہ وہ سیاسی رشوت لے کر چپ رہیں بس! تمام مسلے آناًفانناً حل ہوں گے. ایک لمحے کیلئے اس زاویے سے سوچتے ہیں کہ ریاست نے دھوکہ کھاتے ہوئے ان لوگوں کو حقیقی نمائندہ مان کر صوبائی حکومت انکے حوالے کیا تو کیا یہ مسئلہ حل کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے درجنوں سوالات میں سے فقط چھ چیدہ آسان سوال سامنے رکھتے ہیں 1. کیا وہ آزادی پسندوں کو اس بات پر قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ پاکستان میں اُنکی قومی شناخت اور وجود کو کوئی خطرہ درپیش نہیں؟ 2. جتنے بھی لوگ غائب کئے جاچکے ہیں کیا وہ اُنھیں بازیاب کر سکیں گے ؟ 3.کیا وہ تمام مسخ شدہ لاشوں کی ڈی اے کرنے اور پہچان کی صورت میں اُنکے رشتہ داروں کے حوالے کرنے کا وعدہ کر سکتے ہیں؟ 4. بلوچستان میں لوگوں کو غائب کرنے اور پھر قتل کر کے پھینکنے والوں کو قانون کے سامنے کھڑی کرنے کو یقینی بنا سکیں گے؟
5. اور سب سے اہم یہ کہ کیا وہ آزادی پسندوں سے اُنکے آزادی کے ایجنڈے کے تحت بات چیت شروع کر کے گفت و شنید کے زریعے ایک معقول حل نکالنے کا فارمولا پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ 6.کیا بلوچستان کے طول و عرض میں جو ماورائے عدالت گمشدگیاں ہو رہی ہیں، جعلی مقابلوں میں لوگ مارے جا رہے ہیں وہ یہ سلسلہ بند کر سکیں گے؟ ان سب سوالوں کا جواب مطلق نہیں ہے اگر بات ایسی ہے تو یہ کس خوش فہمی میں یا کس ارادے سے ایسا دعویٰ کرتے ہیں کہ انھیں حقیقی نمائندہ سمجا جائے جو یہ گھمبیر مسلہ حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟.
یہاں ہم ڈاکٹر مالک کا شکریہ ادا کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے جو اس نے اپنے دؤر حکومت میں ایک دو بلوچ آزادی پسندوں سے ملاقات و مذاکرات کے نتائج بارے انکشاف کیا تھا کہ جن لوگوں نے پہلے مجھے کہا تھا کہ آپ با اختیار ہیں جائیں بقول انکے ناراض بلوچوں سے بات چیت کریں مگر جب میں نے بات چیت شروع کیا تو جن لوگوں نے مجھے بااختیار ہونے کا یقین دلا کر بھیجا تھا وہ مجھے واپسی پر سُننے کو بھی تیار نہیں تھے. یہ بات قابل ستائش ہے کہ ڈاکٹر مالک کو یہ سچ کہنے کی توفیق کیونکہ آپ کے اس بیان کے نتیجے میں اس ریاست کے ساتھ آئندہ کوئی بھی بات چیت کرنے تیار نہیں ہو گا کہ جسکی وعدہ خلافیوں کی تاریخ ویسے بھی پہلے سے طویل، عبرتناک و شرمناک ہے یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر مالک بلوچ کے اس انکشاف کے بعد اسلام آباد کے ہو شمند لوگ آئندہ کسی بھی اہم معاملے بارے اُس پر اعتماد نہیں کریں گے جو ریاستی رازوں بارے اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے ایسی لاپروائی کے مرتکب ہوئے ہیں. حرف آخر : گو کہ نئی صوبائی حکومت کے تشکیل سے یہ لگتا ہے کہ ریاست کے ہاں انکا یہ چورن نہیں بکا ہے جو انھوں نے اپنے خاص آدمی کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا ہے جو اندر باہر سے ایک رنگ رکھتا ہے اس کے دؤر حکومت میں بلوچستان کے طول و عرض میں قتل و غارتگری حسب معمول جاری و ساری ہے لیکن اس بربریت پر لوگ حیرت زدہ نہیں کیونکہ سب اسے جی ایچ کیو کا آدمی کہتے ہیں اور وہ خود بھی اس نسبت پر فخر کرتا ہے لیکن معاملہ یہاں آ کر الجھتا ہے کہ چند سال ڈاکٹر مالک وزیر اعلیٰ تھے اُس وقت بھی ٹھیک ایسے ہی ہر طرف آپریشن ہو رہے تھے لوگ غائب کئے جارہے تھے، مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بالکل بھی نہیں رُکا تھا حبس بے جا میں رکھنا اسی طرح عام تھا اُس دؤران کئی خواتین بھی ماورائے عدالت اُٹھا لئے گئے تھے. نیشنل پارٹی کے سربراہوں کے وہ بیانات بھی تاریخ کا حصہ ہیں جن میں وہ بار بار آپریشن تیز کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو سوال اُٹھتا ہے کہ بلوچ قوم کیلئے حاکم کے نام پر جی ایچ کیو کا نامزد حاکم ڈاکٹر مالک ہو کہ اخترمینگل، ثناء اللہ زہری ہو کہ سرفراز بگٹی یا کوئی اور جو پالیسی، جو رویہ جو رشتہ(آقا اور غلام کا) برقرار ہے کسی کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑے گا خاص کر ایسے شخص کے آنے سے بالکل بھی فرق نہیں پڑے گا جو بلوچ کے درد کو اُس شدت سے محسوس نہیں کرتا جس طرح اُس درد کو محسوس کرنے کا حق ہے اور اس پر سوا یہ کہ جس کا تعلق بہت بہت پہلے اُن لوگوں سے کٹ گیا ہے اور وہ اِن کو قومی تحریک بارے دنیا کو گمراہ کرنے کا زمہ دار سمجھتے ہیں جن سے ریاست بات کرنا چاہتی ہے. اگر بلوچستان میں اس وقت حقیقی نمائندگی ہے وہ آزادی پسند قوتیں ہیں جنکے ایک اپیل پر کہ پاکستانی الیکشن کا بائیکاٹ کیا جائے تو کچھ محدود علاقوں میں بیس پچیس فیصد ووٹ پڑے مگر اکثر علاقوں میں نوے فیصد سے زائد لوگوں نے عملاً بائیکاٹ کیا بلوچستان کی دوسری حقیقی نمائندگی پُرامن امن جدوجہد کرنے والی بی وائی سی والوں کے پاس ہے کہ جنکے ایک آواز پر پوری بلوچستان لبیک کہتی ہے باقی سب وہ مخلوق ہے جنکی پالیسی “جو دے اُس کا بھی بھلا جو نہ دے اُس کا بھی بھلا” ہے. (ختم شُد)