ایک مشہور کہاوت ہے کہ “اگرکوئی جوکر کسی شہنشاہ کے محل میں رہائش پذیر ہو جائے تو اس سے وہ بادشاہ نہیں بنتا البتہ شاہی محل سرکس میں ضرور تبدیل ہوگا ” یوکرائن کے صدر مسٹرزیلینسکی کا بھی یہی حال ہے جو حادثاتی طورپر کسی طرح امریکہ کی مدد سے اقتدار حاصل کرنے کامیاب توہوا مگر اپنے ملک کیلئے ایک نجات دہندہ لیڈر ثابت نہ ہوسکا۔زیلینسکی کیلئے اس نعرے اور یقین دہانی کیساتھ ووٹ لیا گیا کہ وہ آتے ہی روس کیساتھ جو تناؤ اور کشمکش کی صورتحال2008 کے بعد پیدا ہوئی تھی جس کے نتیجے میں یوکرائن میں روسی اکثریتی آبادی والے علاقوں میں خون ریز واقعات رونما ہوئے تھے جن کے باعث روس کو مداخلت کرنے کا جواز فراہم ہوا تھا اورمینسک کے دائمی امن کے دو معاہدے غیر موثر ثابت ہو کر نئی جنگ کی سی کیفیت پیدا ہوئی تھی وہ ان مسائل کوروس کیساتھ پُرامن بات چیت کے زریعے حل کرنے کی راہیں تلاش کریں گے۔
مگرنتیجہ عین برعکس نکلا جس طرح مینسک کے دونوں معاہدات کے بارے میں فرانس اور جرمنی کے اُس وقت کے سربراہاں نے کہا تھا کہ وہ معاہدات دراصل روس کیساتھ مستقل امن کیلئے نہیں بلکہ یوکرائن کو روس کیخلاف تیار کرنے وقت اور فرصت فراہم کرنے کیلئے تھے یعنی کہ روس کے ساتھ دھوکہ کرنا تھا۔اُسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس نے آتے ہی نہ صرف اس مسلے کو حل کرنے ڈپلومیسی کو موقع نہیں دیا بلکہ امریکہ،برطانیہ اور اتحادیوں کے ہدایات پر روس کو اشتعال دلانے کو ئی کسر باقی نہیں چھوڑا کہ جسکی یوکرائن کو کوئی ضروت نہیں تھی۔
یقیناً بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اگر یوکرائن نیٹو جوائن کرتا ہے تو روس کو اس سے کیاوہ کیوں اسے اپنی سلامتی سے جوڑتا ہے؟ یہ بات وہ لوگ کہتے ہیں جو یا تو عالمی سیاست کی تاریخ سے ناواقف ہیں یا تو سب کچھ جانتے ہوئے جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ اس موضوع کو آگے بڑھایا جائے دو تاریخی مثالوں کی یاد آوری بہت ضروری ہے پہلا سب جانتے ہیں برطانیہ کی ایسٹ انڈیاکمپنی ہندوستان میں تو چائے،کپاس،ریشم،چینی،نمک،مصالحہ، نمکین، افیون وغیرہ کی تجارت کی غرض سے آیا تھا بعد میں مقامی سطح پر آہستہ آہستہ اپنی بھرتیاں کیں مقامی غداروں کی فوج بنائی جن کی مدد سے ایسی داخلی تقسیم در تقسیم کا بیج بویاکہ ہندوستان کا بادشاہ ایک تجارتی کمپنی کے ہاتھوں 1757 میں پلاسی کے میدان میں شکست کھا گیا اور ہندوستان کے کالونی بننے مجبور ہونے کا دؤر شروع ہوا دوسری مثال سوویت یونین کی ہے سوویت یونین پر ناقدین بڑے تنقید کیا کرتے تھے کہ اس میں بڑی پابندیاں ہیں لوگوں کو آنے جانے میں مشکلات ہیں وغیرہ اصل میں اُنھیں سوویت یونین میں آنے جانے اور دیگر پابندیوں پر نالاں ہونے سے زیادہ اس بات پر تکلیف تھی کہ اس کے خلاف ریشہ دوانی کے سارے دروازے بند تھے۔جونہی امریکہ کی مدد سے یا یقین دہانی سے کہ روس کی معشیت کو بہتر کرنے مغرب کو ہاتھ بٹھانے موقع فراہم کیا جائے میخائیل گرباچوف نے پری استرویکا او ر گلاسنست(تعمیر نو اور آزادیِ اظہار) کے پروگراموں کا آغاز کیا جس کے تحت امریکی جیفری سوکس جیسے ماہرمعاشیات پہلے گرباچوف اور بعد میں بوریس ایلسن کے مشیر بن کر ماسکو آئے۔ لیکن جس طرح ان ماہر معاشیات نے سوچا تھا کہ واقعی مغرب چاہتی ہے کہ روس کی مدد کی جائے وہ مدد نہیں کی گئی۔
سوویت یونین کے ٹوٹنے اور واپس اُس کے تشکیل کے تمام امکانات کے ختم ہوتے ہی روس کو اند ر سے توڑنے اور کھائی میں دھکیلنے کے عمل کیساتھ سابق سوویت ریاستوں کو اپنے طابع کرنے کی کوششیں شروع کیں بالٹک ریپبلکس پہلی فرصت میں یورپی یونین اور نیٹو میں شامل کئے گئے بیلا روس، ملدووا،یوکرائن اورجارجیا میں روس مخالف احساسات کوجگا کر نفرت کی بنیادیں رکھیں۔رنگیں انقلابیں لائیں،بیلاروس میں وہ کچھ کرنے کامیاب نہیں ہوئے البتہ جارجیا،یوکرائن اور ملدووا میں وہاں کی اشرافیہ کو اپنا ہمنوا بنانے ضرور کامیاب ہوئے۔ قزاقستان، ازبکستان، تاجکستان اور کرغز ستان جیسے مسلم آبادی والے نوآزاد ملکوں اور خود روس کے مسلم اکثریت والے ریاستوں میں وہابی ازم کے بیج بونے اور خانہ جنگی کی راہیں ہموار کی گئیں،اربوں ڈالر روس کیخلاف مسلح جنگوں میں جھونک دئے گویا ایک لحاظ سے برطانیہ جو دو سو سالوں سے روس کو ریزہ ریزہ کر کے اُسے ختم کرنے کا خواب دیکھ کر اس کیلئے کوششیں کرتا آرہا تھا اب وہ امریکہ کی مدد سے ہونے کے قریب تھاکیونکہ اُنکی سازشوں کے سبب کہ روس کو مارکیٹ اکنامی اختیارکرنے پر مدد کی جائے گی وہ باتیں جھوٹی ثابت ہوئیں انھوں نے سوویت یونین کو توڑتے ہی اُسے حالات کے بھنور میں اکیلا چھوڑ دیا۔ پُرانا نظام ختم کیا جاچکا تھا جبکہ نئے کے خدوخال کا انھیں پتہ نہیں تھا جس کی وجہ سے روس بدتریں داخلی اقتصادی اور سیاسی دباؤ کا شکار رہا ایسے میں جب اُسکی اپنی بقا زیرسوال آگئی تھی وہ اپنے ہمسایوں کی کیا مدد کرتا جن کو امریکہ اندر سے توڑنے اور روس کے خلاف صف بندی پر آمادہ کرنے اربوں ڈالر پانی کی طرح بہا رہا تھا۔
مگر اُنکی بدقستمی سے سن 2000 ء کوولادیمیرپوتن نے بوریس ایلسن کی جگہ اقتدار سنبھالتے ہی روس کی تنزلی اور اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا عمل روکتے ہوئے ایک حقیقی تعمیر نو کا عمل شروع کیا مسلم ریاستوں میں یکے بعد دیگرے بغاوتوں کو روس کی مدد سے ناکام کیا گیااور خود روس مشکلوں سے نکل کر ترقی کی راہ پر ایسے گامزن ہوا کہ امریکہ اور اس اتحادیوں سے یہ ترقی کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں رہی۔ایک طرف امریکہ کی اصلی حریف چین بڑی تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے دوسری طرف روس بھی 2014کے بعد بیشمار پابندیوں کے باوجود ٹریک پر آگیا تھا۔
پنٹاگون کے” اعلیٰ دماغوں ” کے مطابق ان دونوں میں سے کسی ایک کو روکنا لازمی ٹھہرا تھا تو چین کی نسبت روس کو اندر سے توڑنا آسان لگا کیونکہ یہاں کم ہی سہی مگراُنکے پاکٹس موجود تھے جو اب جنگ کے شروع ہوتے ہی یورپ اور امریکہ شفٹ ہوگئے یا ادھر دھر لئے گئے اور وہ مغرب کے کسی مدد کے قابل نہیں رہے۔سو اُنھوں نے روس کے اعصاب کے ساتھ کھیلنا شروع کیااس دؤراں مشکل تریں حالات کے باوجود روس نے افریقہ سے لیکر مشرق وسطیٰ تک لاطین امریکہ سے لیکر جارجیا تک امریکہ کے من مانیوں پر مبنی منصوبوں کے خلاف وہاں مزاحمت کرنے والوں کی مدد کی اور کہیں بھی میدان کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے خالی نہیں چھوڑا۔
یوکرائن میں جنگ امریکہ کے اشتعال انگیزیوں کے بعد شروع ہوا جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس کی اس بات کو درخوراعتنا ہی نہیں سمجھا کہ میری سرحدوں سے دور رہو اور یہ ہماری سرخ لکیر ہے۔ایسا کرکے شاہد وہ اس خوش فہمی میں تھے کہ روس پہلا وار نہیں کرے گا اور وہ اُس وقت تک اُس کے اعصاب سے کھیلتے ہوئے اُسے نفسیاتی طور پر تھکا دیں گے جب یوکرائن اُس پر شدید حملہ کرنے اور اُسے شکست دینے کی پوزیشن میں ہوگامگر ایسا نہیں ہوا اور روس نے تنگ آمد بہ جنگ آمدکا طبل بجا کراُنکے تمام اندازوں کے برعکس راتوں رات یوکرائن کو ایسے اپائج کردیا کہ اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس اپنی ہار قبول کرنے کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں۔ گوکہ وہ اب بھی یوکرائن کو مہلک سے مہلک تر ہتھیار دے رہے ہیں اربوں ڈالراس جنگ کیلئے مختص کر رہے ہیں مگر تاحال ان کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ میدان میں دکھائی نہیں دے رہااور نہ ہی اس بات کی اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس جنگ سے امریکہ کے مطلوبہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
تاہم اگراس جنگ سے امریکہ کا مقصد اپنے بلیک منی کو وائٹ کرنا تھا یا یورپ اور اپنے اتحادیوں کو لوٹ کر اپنے اسلحہ فیکٹریوں اور توانائی کے سیکٹرز کوبھاری منافع کمانے کاموقع دینا تھا تو وہ مقصد بلا شبہ پورا ہوگیا کیونکہ بقول امریکی سیکریٹری خارجہ مسٹر بلنکن کے کہ یوکرائن کوملنے والی امداد کا نوے فیصد پیسہ واپس امریکہ آتا ہے جو اُنکے اسلحہ فیکٹریوں کا جاتا ہے جو اُنھیں اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔ جنگ سے یورپی یونین کے ڈپٹی فارن منسٹر الکساندر گرُشکو کے مطابق اب تک یورپی یونین کو ایک اعشاریہ پانچ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔مزید اُنھوں نے کہا کہ اگر حالات پہلے کی طرح معمول کے مطابق ہوتے تو روس کیساتھ 2023 کو ہمارا تجارتی ہدف سات سو بلین ڈالر تھا مگر اب ہم اس سال کے آخر تک بمشکل سو بلین ڈالر کے تجارتی ہدف کے قریب پہنچ سکیں گے۔ جنگ کے فقط دو سال بعدیورپی ممالک کو توانائی کے بحران نے نڈھال کردیا ہے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ بجلی کی قیمتیں دس گنا (دس فیصد نہیں)بڑھی ہیں اس سے آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کے کارخانوں،زمینداروں اور عام صارف پر کتنا بوجھ پڑ چکا ہے بظاہرروس پر پابندیوں کی وجہ سے یورپی یونین والوں کی اکثریت اُس سے تیل، گیس،فرٹ لائیزر نہیں خرید رہی مگر” عقلمندی ” کا مظاہرہ کرکے اُسی کاتیل، گیس،فرٹ لایزر وغیرہ کئی دوسرے ممالک کے زریعے خرید رہے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ اپنے اَنا کی تسکین کیلئے روس کو اپنے ہاتھوں سے پیسہ نہیں دیا جارہا بلکہ کسی اور کو ڈلیوری کی ادائیگی کرکے پیسے دے کر روس کو پیسے پہنچائے جارہے ہیں امریکہ کے اس بے معنی نخرے کی سزا بھی یورپی یونین کے شہری ادا کر رہے ہیں۔یہاں ہم یورپی یونین کے عام شہریوں کے زخموں کو کُریدنے سے اجتناب کرتے ہوئے اس بحث کی طرف بھی نہیں جاتے کہ یورپ کی مجموعی انرجی ضرورتوں کو پورا کرنے امریکہ کس مہنگی نرخ پر اُنھیں روس کے سستے انرجی کے بدلے اپنی کمرتوڑ مہنگی انرجی فراہم کر کے” احسان “کررہا ہے۔
جنگ کی شدت کو دیکھ کر بہت سے لوگ نیٹو کا براہ راست روس سے جنگ کے امکانات بڑھنے کی باتیں کرتے ہیں اور نیٹو اعلیٰ حکام بھی یوکرائن کی شکست کو اپنی شکست سے تعبیر کرکے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ سقوط کیف ہونے نہیں دیں گے اسکا مطلب صاف یہی ہے کہ وہ روس کو شکست دینے کچھ بھی کرنے تیار ہیں مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کیا وہ ایسا کریں گے؟ جہاں تک میری ناقص رائے ہے وہ ایسی غلطی کبھی نہیں کریں گے کیونکہ انھیں اچھی طرح پتہ ہے کہ روسی جدید ہتھیاروں جیسے Poseidon،Kh-47M2 Kinzhal، Strategic missile system “Yars”،Avangard (hypersonic glide vehicle)،Russian aerial bombsکا اُنکے پاس کوئی جواب نہیں اور روس اُن سے بہت آگے ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہنے کی جرات کرتا ہوں کہ جو برتری فی الحال روس کے پاس ہے نیٹو کے پاس ہوتا تو وہ کب کا ماسکو پر حملہ کرچکے ہوتے جیسے وہ بیلگراد،کابل اور بغدادوغیرہ میں پہلے کرچکے ہیں۔ اُنھیں اس جنگ میں براہ راست شامل ہونے سے ابھی تک انسانیت کے جذبے یا بین القوامی قوانین کے دائروں نے نہیں روکا ہے بلکہ اُنھیں اس حقیقی خوف نے روکا ہے کہ روس واقعی ایسا کرسکتا ہے کہ وہ دنیاکے کسی بھی ملک،جزیرے یا پورے کے پورے براعظم کو دنیا کے نقشے سے مکمل طور پرمٹانے کی صلاحت رکھتا ہے اور اُسکی آج کی پوزیشن میں ایسا کرنے کوئی امر مانع نہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادی اس بات کا شکر منائیں کہ روس میں پوتن جیسا آدمی بیٹھا ہے وہ برتری رکھنے کے باوجود یورپ اور امریکہ کو ہوش کے ناخن لینے کا کہتا ہے اگر اُسکی جگہ کوئی کلنٹن،بُش،اوباما یا بائیڈن جیسا خودغرض اور سنگدل لیڈر ہوتا تو کب کا امریکہ اور اُس کے اتحادیوں خاص کربرطانیہ، پولینڈ، بالٹک ریپبلکس،رومانیہ وغیرہ جیسے ممالک کیلئے قیامت کاصور بجاتاجوایک عرصے سے کچھ زیادہ ہی اوچھل کھود کررہے ہیں اور وہ ایسا صرف اس لئے کرتا کہ جو عسکری برتری آج اُسے حاصل ہے شاید کل نہ ہو۔ایسا کرکے وہ عملی طور پر یہ یقین دلاتا کہ روس کے خلاف سازشوں کا در ہمیشہ کیلئے بند ہوچکا ہے فقط دوستی، باہمی احترام،جاندار مسابقت اور جیواور جینے دو کی راہیں کھلی ہیں۔