ــــ ہمگام آرٹیکل ـــــ گزشتہ ۵۰ سال سے میڈل ایسٹ کی مجموعی جیوپالٹکس ایران اور عرب ممالک کے درمیان تصادم کی تاریخ رہی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اسکی بنیادی وجہ جارحیت پر مبنی ایران کی خارجی پالیساں ہیں۔ گزشتہ کئی دہاہیوں سے ایران عرب ممالک میں بے جا مداخلت کر رہی ہے، جن کا کسی طرح کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس لیے عرب ممالک، خاصکر خلیجی ممالک کو اپنے قومی سلامتی امن اور استقرار برقرار رکھنے کے لیے نا چاہتے ہوئے بھی پاکستان اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے پڑتے ہیں، صرف نظر اس بات کا کہ پاکستان اور ترکی کس طرح بلوچوں اور کردوں کی انسانی حقوق کی پائمالیاں کر رہے ہیں۔ عراق عرب لیگ کا ایک ممبر ملک ہے مگر سعودی عرب وہ پہلا عرب ملک تھا جس نے براہ راست عراق میں کردوں کی آزادی کی ریفرینڈم کی نتیجہ کو تسلیم کیا، وہ الگ بات ہے کہ کردوں کو نہ صرف مغربی ممالک نے دھوکہ دیا بلکن خود کردوں کی اپنے اندرونی بدبختی نے بھی انہیں کامیابی کی سیڑھی سے نیچھے اتار دیا جس کے نتیجے میں ایران اور ترکی نے کھل کر کردوں پر عسکری وار کیا۔ عراق، سوریا، یمن، لبنان، متحدہ عرب امارات اور بحرین اور بالخصوص سعودی عرب میں ایران کی ریشہ دوانیاں آخری حدوں کو چھو رہی ہیں اور خلیجی ممالک میں رائے عامہ اس بات پر متفق ہوچکی ہے کہ ایرانی رویہ ناقابل برداشت ہوچکی ہے گزشتہ ایک مہینے سے ایسا لگ رہا ہے کہ ایران اور خلیجی ممالک بشمول اسرائیل جنگ کے دھانے پر کھڑے ہیں، بہت سے مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ عسکری لحاظ سے کمزور خلیجی ممالک پاکستان کو ڈالر اس لئے دے رہے ہیں تاکہ کسی ممکنہ جنگ کی صورت میں پاکستان ایران کے کیمپ میں نہ چلا جائے۔ خلیجی ممالک کی نظر میں پاکستان ایک بلیک میلر ہے، خلیجی ممالک جانتے ہیں کہ جنگ کی صورت میں پاکستان ایران کے خلاف نہیں جائے گا اسلئے انکی یہی کوشش ہے کہ پاکستان کم از کم نیوٹرل رہے۔ ویسے بھی چائنا بلاک کی طرف سے پاکستان ایران اور ترکی کو ایک صف میں کھڑا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ دوسری طرف بلوچ قومی آزادی کے کیس کو لیکر روایتی طور ہم ہمیشہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ عرب ممالک کیوں بلوچ تحریک کو سپورٹ نہیں کرتے؟ اس سوال کو الٹا ہمیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے، کیا کبھی کسی نمائندہ بلوچ سیاسی قیادت نے کسی عرب ملک کو سپورٹ کیلئے اپروچ کیا ہے؟ نہیں! جدید دور کی سوشل میڈیا اور وسیع معلومات کی وافر دستیابی کے بدولت دنیا بلوچ تحریک کو قریب سے دیکھ رہا ہے کہ ہم کس طرح کی صف بندیوں میں کھڑے ہیں اور کہاں ہمارے وابستگیاں ہیں۔ دنیا میں قوموں کے درمیان مظلومیت کے بنیاد پر رشتے استوار نہیں ہوتے اگر دیکھا جائے تو فطری طور پر عرب ممالک، خاص کر خلیجی ممالک مظلوم بلوچ کا ساتھ دیتے کیونکہ وہاں بلوچوں کی ایک خاصی تعداد آعلی عہدوں پر فائض ہیں، مگر پھر بھی وہ بلوچ کی موجودہ تحریک کی غیر سیاسی ساخت اور بے ترتیب تشکیل کو دیکھ کر اہمیت نہیں دیتے کیونکہ دنیا کے سامنے ہمارے تحریک کا کوئی ایسا hierarchy یا سیاسی چہرہ نہیں ہے جو مڈل ایسٹ کی جیوپالٹکس میں فکٹر کر سکے۔ ہمیں اپنے خطے کی جیوپالٹکس کو سمجھنا ہوگا کہ بلوچ جغرافیہ کی اہمیت کا ادراک اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا بلوچ بحیثیت ایک قوت خطے کے طاقتور رہداریوں میں فکٹر کر رہا ہے یا محض ایک irritant فورس ہے؟۔ بلوچ جغرافیہ وسیع مشرق وسطی کا ایک حصہ ضرور ہے مگر وہ قوت نہیں جس کے ساتھ خطے کی آزاد ممالک اپنے مفادات اس کے ساتھ نتی کرلیں، خوش فہمیاں اپنی جگہ، مگر دنیا میں بلوچ تحریک ایک non state actor کے طور پر جانا جاتا ہے، اب ایسی حالت میں ایف اے ٹی ایف FATF کی موجودگی میں کوئی بھی ملک بلوچ تحریک کو سپورٹ کرنے کا رسک نہیں لیتا۔ خلیجی ممالک کیا، انڈیا جیسا عالمی طاقت بھی ایف اے ٹی ایف کی موجودگی میں بلوچ تحریک کو سپورٹ کرنے کا رسک نہیں لے گا۔ اب بلوچ کیلئے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ اپنی تحریک کو دنیا کی جمہوری ممالک کی مروجہ ترتیب کے تحت متبادل ریاستی قوت کے طور پر تشکیل دیں۔ اس کیلئے بلوچ کی عسکری قوت کو ایک کمانڈ کے تحت لانا ہوگا اور اس عسکری کمانڈ کو ایک نمائندہ قومی سیاسی قیادت کے تحت ہونا ہوگا تب کہیں جاکے اقوام متحدہ کے ادارے بلوچ تحریک کو قبولیت کا شرف بخشیں گے، پھر بلوچ دوست ممالک کو بلوچوں کو سپورٹ دینے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔